غزہ میں اسرائیلی فورسز نے جنگی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی نوجوان ، بوڑھے، خواتین اور بچے شہید کیے جا چکے ہیں، اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے انتباہ جاری کیا ہے کہ غزہ کے محاصرے کی وجہ سے وہاں موجود شہری قحط اور شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ مصر اور قطر کی ثالثی میں غزہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں اہم پیش رفت کی خبریں آرہی ہیں لیکن کوئی عملی شکل تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔ حماس نے غزہ میں جنگ بندی کی نئی تجویز پر رضا مندی ظاہر کردی ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ یہ حملے اس دوران ہو رہے ہیں جب اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ بندی ہے۔ اسرائیل نے امن معاہدے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غزہ میں زندگی اذیت ناک ہے، غزہ کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، لاکھوں فلسطینی خیموں یا بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل نہتے فلسطینیوں نسل کشی کررہا ہے، ان سنگین ترین انسانیت سوز مظالم کی مثال نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ کے مطابق 80 فیصد امدادی سرگرمیاں معطل ہیں، خوراک اور ادویات کا چند دن کا اسٹاک رہ گیا، اس سے انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر گیا ہے۔ لیکن عالمی طاقتیں مصلحت آمیز پالیسی پر عمل پیرا ہیں، برطانیہ اور فرانس کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ضرور طلب کرلیا گیا ہے لیکن پہلے بھی ایسے اجلاس ہو چکے ہیں جن میں قراردادیں منظور ہوتی رہی ہیں لیکن ان کی بھی اسرائیل نے کبھی پروا نہیں کی۔
سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان ہیں، ہر رکن کو ویٹو کا اختیار ہے۔ان قرارداوں کو اکثر امریکا ویٹو کردیتا ہے، یوں ساری مشق رائیگاں چلی جاتی ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ضرور موجود ہے، وہ اسرائیل کے حوالے سے اجلاس تو کرتی ہے جو نشستند، گفتند اور برخاستند سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ اس دوران جب فلسطینی اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں، امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ نے ایک اور اقدام کیا ہے۔ فلسطین کی حمایت کرنے والے 300 غیر ملکی طلباء کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کس کی پشت پناہی کے باعث فلسطینیوں کو بے دردی سے شہید کر رہا ہے جسے روکنے والا کوئی نہیں ہے، دراصل اسرائیل سے امریکا ایک بڑی قوت ہے جس کے پاس وسائل بھی اور اثر و رسوخ بھی جسے وہ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بچا لیتا ہے، اگر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے۔ جب بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت کچھ ملکوں کو بلاجواز تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے جنھیں درست کرنا آسان نہیں ہوتا، امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہر لمحے اسرائیل کا دفاع کرتا ہے، اس کی وجوہات جو بھی ہیں وہ اپنی جگہ لیکن امریکا کو انصاف سے کام لینا چاہیے۔
بہرحال حالیہ اسرائیلی دہشت گردی ہو یا پھر ماضی کی اس کے سنگین نتائج اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو بھگتنے پڑیں گے جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دنیا کا ایک ایسا نقشہ پیش کیا تھا جس میں فلسطین کا کوئی وجود نہیں دکھایا گیا، اس میں ان کے ارادے کو ظاہر کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے عزائم کچھ اچھے نظر نہیں آرہے، صدر ٹرمپ نے آتے ہی جہاں اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کردی ہے وہیں یہ اعلان بھی کردیا کہ غزہ ایک جدید ترین بین الاقوامی سطح کا شہر ہوگا جہاں آنے والے اسرائیل کے خوابوں کی تکمیل کریں گے، اس کے علاوہ امریکی صدر نے اسرائیلی قیادت کو ہر قسم کی تفتیش سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک عالمی ادارے کی مُشکیں بھی کس دی ہیں تاکہ کوئی عالمی ادارہ اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کے دیگر حامیوں کو گرفتار کرسکے نہ ہی بھیانک جنگی جرائم میں ملوث قرار دے کر قانون کے مطابق سزا سے ہم کنار کرسکے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ کی سرزمین کو ریئل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سوسائٹی سمجھ رکھا ہے۔ عالمی قوانین امریکا کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ غزہ کے باسیوں کو بے گھر کر دیا جائے۔ جس طرح برطانیہ نے 1948میں اسرائیل کے یہودیوں کو فلسطینیوں کی سرزمین پر بسایا تھا۔ امریکا کے صدر ٹرمپ بھی اسی طرح غزہ کو ایک کالونی کی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کو بھی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ صدرِ ٹرمپ نے وہ امریکی امداد بھی بند کر دی ہے جو دنیا کے پسماندہ ممالک کے دکھی اور مجبور انسانوں کی فلاح کے لیے استعمال کی جارہی تھی ۔یوں امریکا کی حالیہ پالیسی اسرائیل کے حق میں جارہی ہے۔
غزہ کا ممکنہ مستقبل کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں سیاسی، عسکری، معاشی اور انسانی صورتحال شامل ہے، اگر اسرائیل اپنی حالیہ جارحیت جاری رکھتا ہے تو وہ غزہ پر مکمل قبضہ کر سکتا ہے، جس کے بعد یا تو براہ راست اسرائیلی انتظام نافذ ہوگا یا کوئی کٹھ پتلی حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس صورت میں فلسطینی مزاحمت برقرار رہ سکتی ہے، اور عالمی سطح پر شدید ردعمل آ سکتا ہے، اگر عالمی دباؤ بڑھتا ہے تو ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ غزہ کو کسی بین الاقوامی امن فورس کے تحت دے دیا جائے، جس میں عرب ممالک، اقوام متحدہ یا دیگر فریق شامل ہوں۔
اس سے انسانی بحران میں کمی آ سکتی ہے، مگر فلسطینی عوام کے مکمل حقوق کی بحالی کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ اگر فلسطینی مزاحمت جاری رہتی ہے تو اسرائیل کی کارروائیوں میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے،حماس کے لیے یہ صورتحال مشکل ہوگی جب کہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے بھی مشکلات بڑھ جائیں گی اور ممکن ہے کہ اس کا فلسطینی علاقوں پر کنٹرول ختم ہوجائے۔ فلسطینی قیادت کو عالمی اور علاقائی حمایت حاصل کرنا بھی مشکل ہوجائے گا ، اگر عالمی برادری اور عرب ممالک فلسطینی کاز کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں تو غزہ اور مغربی کنارے کو ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اسرائیل کی پالیسی اور امریکا و یورپ کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ امکان فی الحال کمزور نظر آتا ہے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی شِن بیت کے سربراہ کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم نیتن یاہو کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ اس برطرفی پراسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس کی برطرفی کو اسرائیلی عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کے اندر بھی چپقلش چل رہی ہے جب کہ عوام بھی نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔سچائی یہ ہے کہ غزہ میں جنگ، بمباری اور ناکہ بندی جاری مسلسل جاری ہے، فلسطینی شہری محصور ہیں جب کہ لاکھوں اپنے وطن سے ہجرت کرکے کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کو بھی خالی کراکے یہاں کے فلسطینیوں کو کہیں اور آباد کرنے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں اور وہ اپنے ارادے پر تاحال قائم ہیں۔ یوں یہ علاقہ انسانیالمیوں کی مثال بن چکا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو تو متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ حماس کا غزہ میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔ غزہ پر اسرائیل کی مضبوط گرفت نے مسلم ممالک کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔فلسطنیوں کے لیے مستقبل میں لڑائی جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔ لڑائی میں فلسطنیوں کا جانی و مالی نقصان حد سے زیادہ ہوا ہے، گزشتہ 15 مہینوں میں سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی بھی اس قابل نہیں کہ وہ حماس کو راضی کرسکے یا غزہ کا کنٹرول سنبھال لے۔ بین الاقوامی امن دستوں کی تعیناتی پر بات چیت ہوسکتی ہے، اس مقصد کے لیے بھی فلسطینی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور امریکا دیگر ممالک کو آمادہ کرنا پڑے گا۔
حماس کے بہت سے تربیت یافتہ جنگجو مارے جا چکے ہیں، اگر جنگ جاری رہتی ہے تو اس کا مزید نقصان ہوسکتا ہے۔عالمی انصاف، پرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی ناگزیر ہے، اگر مصر، سعودی عرب، قطر اور دیگر عرب ممالک کوئی مضبوط موقف اختیار کرتے ہیں تو وہ کسی سفارتی حل کے ذریعے غزہ کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ فلسطینی عوام کے لیے بہتر ہو سکتا ہے، مگر اس کا انحصار اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ردعمل پر ہو سکتا ہے۔ غزہ کا مستقبل کئی عالمی اور علاقائی عناصر سے جڑا ہوا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ فلسطینی اسٹیک ہولڈرز سب سے پہلے متحد ہوجائیں، اس کے بعد عرب ممالک کے لیے کسی ایک حل پر متفق ہونا آسان ہوجائے گا ۔ اسرائیل کی حکومت پر بھی دباؤ بڑھے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ میں اسرائیل اسرائیل کے اسرائیل کی نیتن یاہو عرب ممالک ہے کہ غزہ ممالک کو ہے کہ اس چکے ہیں سکتا ہے کے لیے گیا ہے کر دیا ہیں جب غزہ کا
پڑھیں:
ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو گئے ہیں۔ دونوں اطراف کہہ رہے ہیں کہ معاہدہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ایران اپنا نیو کلئیر پروگرام بند کرنے اور امریکا معاشی پابندیاں ختم کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ا چھی ڈیل کی جائے تو وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ اگر ڈیل نہ کی گئی توپھر اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب کیا یہ ڈیل ہو جائے گی۔
ویسے تو یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین کے پاس تو ایٹمی صلاحیت موجود تھی۔ اس وقت یوکرین پر بھی ایسے ہی دباؤ ڈالاگیا۔اس سے اس کی ایٹمی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ ا س وقت یوکرین کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرین کی سیکیورٹی دنیا کے ذمے ہوگی۔ امریکا سمیت سب نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی۔
یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔ لیکن آج یوکرین کی حالت دیکھیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکا اس تنازع سے پیچھے ہٹ چکا ہے، یورپ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے ایک بڑے حصہ پر روس قبضہ کر چکا ہے۔ اور دنیا یوکرین کی مزید مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب یوکرین کو سرنڈر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوکرین کو شکست تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یوکرین تنہا نظر آرہا ہے۔
اگر آج یوکرین کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا۔ ایٹمی طاقت دفاع کی ضامن ہے۔ پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی ایٹمی طاقت ہی جنگ روک رہی ہے۔
ایرن اور امریکا کے درمیان معاہدہ کو ان مثالوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران چھ ماہ میں چار ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ اسی لیے ایران سے فوری ڈیل کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل بھی ایران سے ڈیل کے حق میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ایران سے ڈیل کے لیے امریکا کیوں بے تاب ہے۔ ایٹمی ایران ایک خطرناک ملک ہوگا۔
ایران اس وقت امریکا سے صلح کرے گا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ایران کے سب اتحادی بری طرح مارے گئے ہیں۔ حماس بھی ایران کا اتحادی ہے۔ حماس کی لڑائی بھی ایران کی لڑائی تھی۔ لیکن ایران نے حماس کا کوئی خاص ساتھ نہیں دیا۔ ایران غزہ کی جنگ سے دوررہا۔ اس نے اسرائیل سے جنگ سے اجتناب کیا ہے۔
ایران اور اسرائیل جنگ کے قریب آئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایران کا اتحادی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے اور ایران، اسرائیل حزب اللہ جنگ سے دور رہا۔ اس نے عملی طورپر حزب اللہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا پھر آپ حوثیوں کو دیکھ لیں۔ انھیں بھی ایران کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب جب امریکا حوثیوں پر حملے کر رہا ہے تو بھی ایران خاموش ہے۔
حال ہی میں سعودی وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا۔ ان کی ایرانی سپریم لیڈر آئت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری پر بات ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی حوثیوں پر ہی تنازعہ تھا۔
ایسے میں اس جنگ میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن اب جب امریکا نے حوثیوں پر حملے شروع کیے ہیں تو ایران نے حوثیوں کی ویسی مدد نہیں کی جیسی توقع تھی۔ ایران نے حوثیوں کے ساتھ بھی وہی پالیسی رکھی جو اس نے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رکھی۔ ایران نے ہر دفعہ خود جنگ سے بچنے کے لیے اتحادیوں کی قربانی دی ہے۔ ایران نے خود کو بچانے کی ضرورت کو اہم رکھا ہے۔
آج بھی ایران جنگ سے بچنے کے لیے امریکا سے معاہدہ کا خواہش مند لگ رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ اگر جنگ کے بادل ایران سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لیے ایران امریکا سے صلح کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا سے ڈیل میں اسرائیل سے ڈیل بھی شامل ہوگی۔ ایران امن کی ضمانت چاہے گا۔ ایران یہ تو نہیں چاہے گا کہ وہ ایٹمی پروگرام بھی بند کر دے۔ امریکا سے معاہدہ بھی کر لے اور پھر اسرائیل حملہ بھی کر دے۔ اس لیے میری رائے میں ایران امریکا مذاکرات میں اسرائیل شامل ہے۔ ایران کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل سے امن کی شرط بھی شامل ہو۔
لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج جو معاہدہ ہوگا وہ قائم رہے گا۔ ایران نے تو دیکھا ہے کہ کیسے معاہدے یک طرفہ توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایران ایٹمی پروگرام ختم کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا۔ کیا پھر اسرائیل سے حملہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایران کے پاس ڈرون ہیں۔ روائتی ہتھیار بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ روائتی ہتھیاوں سے ایران کا تحفظ کر سکتا ہے۔ لیکن روائتی ہتھیار اور ایٹم کی طاقت میں فرق ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔