عیدالفطر: عیدی دینے کا رواج کب اور کیسے پڑا؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
عید کے موقع پر جہاں خاص طور پر بچوں میں نئے کپڑے اور جوتے خریدنے اور پھر پہننے کا جوش و جزبہ عروج پر ہوتا ہے۔ وہیں عیدی لینا بھی ان کی عید کی خوشی کو دوبالا کر دیتا ہے۔ اور شاید اس میٹھی عید کا انتظار بچوں کو سب سے زیادہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اس عید پر انہیں رشتہ داروں کی جانب سے عیدی ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں طلبا و طالبات کے لیے عیدالفطر کی 17 چھٹیاں، سرکاری ملازمین کو کتنی ہوں گی؟
عید الفطر کے موقع پر عیدی دینے کی روایت ایک خوبصورت اور قدیم رواج ہے، جو دنیا بھر کے مسلمانوں میں رائج ہے۔ یہ نہ صرف بچوں کے لیے خوشی کا باعث بنتی ہے بلکہ بڑوں کے درمیان محبت اور اپنائیت کے جذبات کو بھی فروغ دیتی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہےکہ عیدی دینے کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور یہ رواج کیوں اور کیسے پڑا۔
عیدی دینے اور لینے کی تاریخ کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ اس کا آغاز مصر سے ہوا، جہاں عید کے موقع پر خلیفہ وقت اپنی فوج کے جرنیلوں اور سپاہیوں کو تحائف دیا کرتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی حکومت کے دیگر امرا نے بھی اپنے ملازمین کو تحائف دینا شروع کر دیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت عام لوگوں میں بھی پھیل گئی اور عید کے موقع پر بچوں اور بڑوں کو تحائف اور پیسے دینے کا رواج بن گیا۔
ایک اور روایت کے مطابق عیدی کا آغاز عثمانی سلطنت میں ہوا، جہاں رمضان کے مہینے میں بچوں کو مٹھائی اور تحائف دیے جاتے تھے۔ عید کے موقع پر یہ تحائف خاص طور پر بچوں کو دیے جاتے تھے، جو وقت کے ساتھ عیدی کی صورت اختیار کر گئے۔ اس دور میں عیدی کی نوعیت دینے والے اور لینے والے کی حیثیت کے مطابق مختلف ہوتی تھی۔اعلیٰ عہدیداروں کو سونے کے سکّے اور کم رتبے والوں کو چاندی کے سکّے دیے جاتے تھے۔
عیدی کی روایت تو بہت پرانی ہے۔ لیکن عیدی دینے کے طریقہ کار میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ سکّوں سے شروع ہونے والی عیدی کی یہ روایت اب نئے کڑک کرنسی نوٹ تک آ پہنچی ہے۔ بچوں کو صرف پیسوں ہی کی خوشی نہیں بلکہ کڑک نوٹ لینے کی خوشی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بہنوں اور بیٹیوں کو عیدی بھجواتے ہوئے اس عیدی کو دلہن کی طرح سجانا بھی عید کی روایات میں شامل ہوتا جا رہا ہے، اس کے علاوہ بھی بے شمار طریقے رواج پا چکے ہیں۔
واضح رہے کہ عیدی صرف ایک تحفہ یا پیسہ نہیں ہے، بلکہ یہ محبت، اپنائیت اور خوشی کا اظہار ہے۔ یہ بچوں کے لیے عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہے اور انہیں یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ بڑوں کے لیے کتنے اہم ہیں۔ بڑوں کے لیے، عیدی دینے کا مقصد بچوں کو خوش کرنا اور ان کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہونا ہے۔
عیدی کے ایک دوسرے پہلو پر بات کی جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ روایت ایسی ہے جو محبت اور اپنائیت کے جذبے کو اجاگر کرتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ اس روایت میں اتنی چیزیں شامل ہو چکی ہیں، جو بہت سے افراد کے لیے عزت، ذمہ داری اور بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بیٹیوں کو سسرال عیدی بھجوانے کی بھی ایک پرانی روایت رہی ہے، مگر پرانے وقتوں میں لوگ اپنی زمینوں پر اگائی گئی اناج اور دیگر چیزیں جو گھر ہی کی ہوا کرتی تھی، بیٹیوں کو بطور عید دے دیا کرتے تھے۔ لیکن اس رواج کے ساتھ معاشرے کے لوگوں نے بہت سی چیزیں مزید شامل کر دیں ہیں۔ آج کے مہنگائی کے دور میں جہاں اشیا خور و نوش کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں، بیٹیوں کو عیدی بھجوانا مشکل ہو چکا ہے۔ کیونکہ پہلے تو چاول، چینی اور دیگر اناج گھر کا ہوا کرتا تھا، لیکناب بات صرف اناج تک محدود نہیں رہی بلکہ بیٹی اور داماد اور بچوں کے کپڑے، پیسے اور بھی عید کے بناؤ سنگھار کی چیزیں اس ’عیدی‘ میں شامل ہو چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عیدالفطر کے بعد برطانیہ کے لیے پی آئی اے پروازیں بحال ہونے کی خوشخبری
تحفے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے راجوں کو بے سبب بڑھانا معاشرے میں بہت سے والدین کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ عیدی کا لین دین ضرور کریں، لیکن اس چیز کا خیال رکھا جائے کہ آپ کا لین دین کسی پر بوجھ نہ بنے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رسم رواج عید عیدی مصر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: رواج عید کے موقع پر بیٹیوں کو کے ساتھ بچوں کو کی خوشی عیدی کی عید کی
پڑھیں:
ننھی کلیاں اور سرد رُتوں کی آمد
موسم کوئی بھی ہو، چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور حفاظت بہت ضروری ہوتی ہے، تاکہ معصوم بچے موسم کے سخت اثرات سے محفوظ رہیں۔ اب موسم ایک بار پھر بدل رہا ہے۔
بدلتے ہوئے موسم کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ سرد رُتوں کی آمد پر صرف گرم کپڑے پہنے سے اس کی حشر سامانیوں سے نہیں بچا جاسکتا۔ آپ کو بچوں کو موسم کی شدت سے بچانے کے لیے اور بھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ مثلاً رات کو سونے سے پہلے ان کے سرسوں کے تیل سے مالش کریں اور دن کے وقت دھوپ ضرور سینکوائیں، تاکہ وہ سردی کے اثرات سے محفوظ اور صحت مند رہیں۔ یہ درست ہے کہ بہت چھوٹے بچے زیادہ اور خصوصی توجہ اور دیکھ بھال چاہتے ہیں۔
ایک ماں کے لیے یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو سرد موسم کے منفی اثرات سے اور اس موسم کے دوران درپیش بیماریوں سے بچا کر رکھے۔ اکثر مائیں سردیوں میں پریشان ہو جاتی ہیں ، کیوں کہ اس موسم میں بچے کو نسبتاً زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً نوزائیدہ اور چھوٹے بچے آسانی سے سردیوں میں ٹھنڈ کا شکار ہو جاتے ہیں، تاہم یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ بہت زیادہ پریشان ہواجائے۔
بس ذرا درست اقدامات کر لیے جائیں، تو مسئلہ آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔مندرجہ ذیل میں اسی حوالے سے کچھ کار ٹوٹکے دیے جا رہے ہیں، جن پر عمل کر کے مائیں اپنے بچو ںکو صاف ستھرا، خوش اور صحت مند رکھ سکتی ہیں، چوں کہ بچوں میں بیماریوں کے خلاف لڑنے کی طاقت کم ہوتی ہے، اس لیے انھیں ہر موسم میں بہر حال خاص دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
سردیوں میں گرم یا نیم گرم پانی سے غسل تازگی بخشتا ہے اور مزاج پر بھی خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے، خصوصاً بچے سردیوں میں نہانے سے کتراتے ہیں، اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ انھیں روزانہ نہلائیں، تاکہ وہ صاف ستھرے رہیں۔ ایسا صابن استعمال کیجیے، جو بچوں کی جلد کی مناسبت سے تیار کیا گیا ہو۔ بچوں کی جلد کی نمی برقرار رکھنے کے لیے نہلانے کے بعد ان کے جسم کو خشک کرکے بے بی لوشن یا کولڈ کریم ضرور لگائیں، تاکہ جلد کی نمی برقرار رہ سکے اور خشک جلد پریشان نہ کرے۔ غسل کے بعد بچے کو کچھ دیر کے لیے دھوپ لگائیں، تاکہ وہ ٹھنڈ کے اثرات سے محفوظ رہیں۔
بچے کو ٹھنڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے گرم کپڑوں کا مسلسل استعمال نہ کریں۔ اس سے پسینا آتا ہے اور پھر پسینے میں ہوا لگتی ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا امکان رہتا ہے کہ بچہ ٹھنڈ کا شکار ہو جائے گا۔ البتہ سردی میں خصوصاً شام یا رات کے وقت باہر جانے سے پہلے بچے کو گرم کپڑے ضرور پہنائیں، کانوں اور سر کو لپیٹ کر رکھیں اور پیروں میں موزے پہنائیں۔ یاد رکھیں سردی ہمیشہ کان اور پیروں کی وجہ سے جسم کو متاثر کرتی ہے۔
بلا شبہ سرد موسم میں بچے کو مناسب گرم ملبوسات پہنانا اچھی بات ہے، مگر یہ اس قدر گرم نہ ہوں کہ پسینا آنے لگے۔ بچوں کی جلد کی مناسبت سے نرم گرم ملبوسات بالکل ٹھیک رہتے ہیں کیوں کہ سرد موسم میں بچے کی جلد اور بھی حساس ہو جاتی ہے۔ چلنے پھرنے والے بچوں کو ٹائٹس پہنائیں، تاکہ ان کی ٹانگیں خشک ہونے اور پھٹنے سے محفوظ رہیں۔ چھوٹے بچے عموماً سردیوں میں پتلون پہنتے ہیں، اس سے اُن کی ٹانگیں گرم رہتی ہیں اور وہ ٹھنڈ کے اثرات سے محفوظ رہتی ہیں۔ سردیوں میں بچے کو موزے ضرور پہنائیں۔ اگر آپ ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جہاں برف باری ہوتی ہے، تو بچوں کو ’اسنو سوٹ‘ میں اچھی طرح لپیٹ لیں، جو کہ بچوں کے لیے خصوصی طور پر تیار کیے جاتے ہیں اور ان سے بچوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
سرد موسم اگرچہ بڑوں کی جلد کے لیے بہت پریشان کُن ہوتا ہے، مگر چھوٹے بچوں کے لیے تو یہ موسم بہت زیادہ ہی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کی جلد بہت حساس ہوتی ہے اور اگر سردی زیادہ ہو تو بچوں کو زیادہ حفاظت کی ضرورت
ہوتی ہے۔ سرد موسم جلد کو خشک کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے جلد میں خارش ہونے لگتی ہے۔ نمی یا موائسچرائزر کا ان کی نازک جلدسے غائب ہونا حیرت کی بات نہیں، سرد موسم میں جلد کو خشک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قدرتی لچک کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کچھ احتیاطی تدابیر کو اپنا کر مائیں مذکورہ بالا مسائل سے بچ سکتی ہیں۔ مثلاً
بچے کو نہلانے کے بعد فوراًگھر سے باہر نہیں لے کر جانا چاہیے۔ اس سے بچے کی جلد پھٹنے لگتی ہے۔ غسل دینے کے بعد بچے کے پورے جسم پر موئسچرائزر کا استعمال کریں، تاکہ بچے کے جسم میں نمی کی کمی نہ ہو، ’بے بی لوشن‘ اس سلسلے میں بہترین ہے۔ یہ بہترین موئسچرائزر ہے اور یہ بچے میں پانی کی کمی نہیں ہونے دے گا۔ سر سے پاؤں تک لوشن کا استعمال کریں اور اس دوران خیال رہے کہ لوشن بچے کی آنکھوں اورمنہ میں جانے نہ پائے۔ اگر آپ کو موئسچرائز کے انتخاب میں دشواری پیش آئے، تو
آپ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کر سکتی ہیں۔ اس طرح آپ مطمئن بھی رہیں گی کہ آپ بہتر موئسچرائزراستعمال کر رہی ہیں۔
اگر بچے کی جلد موسم سے متاثر ہوکر سرخ اور پھٹی پھٹی نظر آنے لگی ہے، تو ایسی مصنوعات کا استعمال کریں، جو وٹامن سے مالا مال ہو اور خصوصی طور پر بچوں کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ یہ مصنوعات لوشن، کریم یا مرہم کی شکل میں آتی ہیں۔
بچے کے چہرے کی جلد کو پھٹنے سے بچانے کے لیے بچے کو ڈھانپ لیا کریں، جب گھر سے باہر نکلا کریں۔ اس طرح بچہ سرد موسم کے منفی اثرات سے محفوظ رہے گا۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے کو محفوظ رکھنے والی مصنوعات تازہ ہوں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ بچہ بے بی کیئریئر پر آہستگی سے بندھا ہوا ہو۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ بچے کے کمر کی جلد کے لیے بہتر رہے گا، اس کے علاوہ موئسچرائزر کے لیے سردیوں میں آپ کمرے میں فضا میں نمی چھوڑنے والا آلہ بھی لگا سکتی ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ آپ کے بچے کی جلد نم دار ہو جائے گی اور بچہ سرد موسم کے منفی اثرات سے محفوظ بھی رہے گا۔ تھوڑی سی توجہ اور دیکھ بھال کے ذریعے آپ سرد موسم کو اپنے بچے کے لیے خوش گوار موسم میں بدل سکتی ہیں۔
اگر شیر خوار بچوں کو سردی لگ جائے، تو جائفل کو پانی میں گِھس کر شہد میں ملاکر صبح وشام چٹائیں یا دیسی انڈے کی کچی زردی پھینٹ کر پلائیں، تو سردی کے اثرات سے ہونے والی تمام تکلیفیں دور ہو جائیں گی۔ نزلہ، زکام اور کھانسی میں بچوں کو گاجر اور پالک کا رس نکال کر برابر مقدار میں پلائیں یا ادرک کا رس شہد میں ملا کر چٹائیں۔ سردی سے ہونے والے سینے کے درد اور بلغمی کھانسی میں فائدہ ہوگا۔ جن بچوں کی پسلی چلتی ہو تو ایک ایک گرام السی اور میتھی کو پیس کر چھے گرام شہد میں ملا کر چٹائیں، اس کے علاوہ لہسن کے رس کو شہد میں ملا کر چٹانے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ لوبان اور نوشادر ایک ایک گرام پیس کر چھے گرام شہد میں ملاکر چٹائیں، تو بھی مفید ہے۔ بچے کو وقفے وقفے سے نیم گرم پانی دیتی رہیں، تاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو۔ ماؤں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جن بچوں کے پہلے موسم سرما میں سردی اور بیماری سے بچاؤ ہو جاتا ہے، ان میں آئندہ کے لیے سردی اور بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔
موسم سرما میں نوزائیدہ بچے کو لے کر صبح اور شام کے وقت گھر سے باہر نہ جائیں۔ ٹھنڈ سے بچانے کے لیے بچے کو تھوڑی مقدار میں شہد دیں۔ جس کمرے میں بچہ سو رہا ہو، وہاں کی تمام کھڑکیاں اور دروازے بند نہ کریں، بلکہ تازہ ہوا کے گزر کے لیے ایک کھڑکی کو ضرور کھولیں اور سوتے وقت بچے کا منہ کبھی نہ ڈھانپیں۔ اس سے بچے کو سانس لینے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔ زیادہ سردی میں بھی ہر وقت ہیٹر کھلا نہ رکھیے۔ اس سے بچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کمرا گرم ہو جائے تو ہیٹر آف کر دینا چاہیے۔ رات میں بچے کو ہمیشہ خشک ڈائپر پہنائیے۔ بچے کی طبیعت زیادہ خراب ہو نے کی صورت میں ڈاکٹر کو دکھائیں اور ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئی دوا نہ دیجیے۔
مائیں خود بھی اپنا خیال رکھیں، تاکہ وہ اپنے بچوں کی خوب اچھی طرح دیکھ بھال کر سکیں اس ضمن میں انھیں چاہیے کہ وہ خشک میوہ جاتکا استعمال کریں اور گڑ سے بنی ہوئی اشیا کھائیں۔ سوپ پیئیں اور موسم سرما کے تمام پھلوں اور سبزیوں کا استعمال کریں۔