WE News:
2025-07-26@01:13:03 GMT

عیدالفطر: عیدی دینے کا رواج کب اور کیسے پڑا؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

عیدالفطر: عیدی دینے کا رواج کب اور کیسے پڑا؟

عید کے موقع پر جہاں خاص طور پر بچوں میں نئے کپڑے اور جوتے خریدنے اور پھر پہننے کا جوش و جزبہ عروج پر ہوتا ہے۔ وہیں عیدی لینا بھی ان کی عید کی خوشی کو دوبالا کر دیتا ہے۔ اور شاید اس میٹھی عید کا انتظار بچوں کو سب سے زیادہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اس عید پر انہیں رشتہ داروں کی جانب سے عیدی ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں طلبا و طالبات کے لیے عیدالفطر کی 17 چھٹیاں، سرکاری ملازمین کو کتنی ہوں گی؟

عید الفطر کے موقع پر عیدی دینے کی روایت ایک خوبصورت اور قدیم رواج ہے، جو دنیا بھر کے مسلمانوں میں رائج ہے۔ یہ نہ صرف بچوں کے لیے خوشی کا باعث بنتی ہے بلکہ بڑوں کے درمیان محبت اور اپنائیت کے جذبات کو بھی فروغ دیتی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہےکہ عیدی دینے کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور یہ رواج کیوں اور کیسے پڑا۔

عیدی دینے اور لینے کی تاریخ کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ اس کا آغاز مصر سے ہوا، جہاں عید کے موقع پر خلیفہ وقت اپنی فوج کے جرنیلوں اور سپاہیوں کو تحائف دیا کرتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی حکومت کے دیگر امرا نے بھی اپنے ملازمین کو تحائف دینا شروع کر دیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت عام لوگوں میں بھی پھیل گئی اور عید کے موقع پر بچوں اور بڑوں کو تحائف اور پیسے دینے کا رواج بن گیا۔

ایک اور روایت کے مطابق عیدی کا آغاز عثمانی سلطنت میں ہوا، جہاں رمضان کے مہینے میں بچوں کو مٹھائی اور تحائف دیے جاتے تھے۔ عید کے موقع پر یہ تحائف خاص طور پر بچوں کو دیے جاتے تھے، جو وقت کے ساتھ عیدی کی صورت اختیار کر گئے۔ اس دور میں عیدی کی نوعیت دینے والے اور لینے والے کی حیثیت کے مطابق مختلف ہوتی تھی۔اعلیٰ عہدیداروں کو سونے کے سکّے اور کم رتبے والوں کو چاندی کے سکّے دیے جاتے تھے۔

عیدی کی روایت تو بہت پرانی ہے۔ لیکن عیدی دینے کے طریقہ کار میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ سکّوں سے شروع ہونے والی عیدی کی یہ روایت اب نئے کڑک کرنسی نوٹ تک آ پہنچی ہے۔ بچوں کو صرف پیسوں ہی کی خوشی نہیں بلکہ کڑک نوٹ لینے کی خوشی اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بہنوں اور بیٹیوں کو عیدی بھجواتے ہوئے اس عیدی کو دلہن کی طرح سجانا بھی عید کی روایات میں شامل ہوتا جا رہا ہے، اس کے علاوہ بھی بے شمار طریقے رواج پا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ عیدی صرف ایک تحفہ یا پیسہ نہیں ہے، بلکہ یہ محبت، اپنائیت اور خوشی کا اظہار ہے۔ یہ بچوں کے لیے عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہے اور انہیں یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ بڑوں کے لیے کتنے اہم ہیں۔ بڑوں کے لیے، عیدی دینے کا مقصد بچوں کو خوش کرنا اور ان کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہونا ہے۔

عیدی کے ایک دوسرے پہلو پر بات کی جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ روایت ایسی ہے جو محبت اور اپنائیت کے جذبے کو اجاگر کرتی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ اس روایت میں اتنی چیزیں شامل ہو چکی ہیں، جو بہت سے افراد کے لیے عزت، ذمہ داری اور بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بیٹیوں کو سسرال عیدی بھجوانے کی بھی ایک پرانی روایت رہی ہے، مگر پرانے وقتوں میں لوگ اپنی زمینوں پر اگائی گئی اناج اور دیگر چیزیں جو گھر ہی کی ہوا کرتی تھی، بیٹیوں کو بطور عید دے دیا کرتے تھے۔ لیکن اس رواج کے ساتھ معاشرے کے لوگوں نے بہت سی چیزیں مزید شامل کر دیں ہیں۔ آج کے مہنگائی کے دور میں جہاں اشیا خور و نوش کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں، بیٹیوں کو عیدی بھجوانا مشکل ہو چکا ہے۔ کیونکہ پہلے تو چاول، چینی اور دیگر اناج گھر کا ہوا کرتا تھا، لیکناب بات صرف اناج تک محدود نہیں رہی بلکہ بیٹی اور داماد اور بچوں کے کپڑے، پیسے اور بھی عید کے بناؤ سنگھار کی چیزیں اس ’عیدی‘ میں شامل ہو چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:عیدالفطر کے بعد برطانیہ کے لیے پی آئی اے پروازیں بحال ہونے کی خوشخبری

تحفے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے راجوں کو بے سبب بڑھانا معاشرے میں بہت سے والدین کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ عیدی کا لین دین ضرور کریں، لیکن اس چیز کا خیال رکھا جائے کہ آپ کا لین دین کسی پر بوجھ نہ بنے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رسم رواج عید عیدی مصر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: رواج عید کے موقع پر بیٹیوں کو کے ساتھ بچوں کو کی خوشی عیدی کی عید کی

پڑھیں:

چلاس: تھک نالہ میں درجنوں سیاحوں کی گاڑیاں اچانک ریلے میں کیسے پھنسیں؟

چلاس کے علاقے تھک نالہ میں درجنوں سیاحوں کی گاڑیاں اچانک سیلابی ریلے میں کیسے پھنسی اور اتنا بڑا جانی نقصان کیسے ہوا؟ علاقے کے عینی شاہدین نے بتا دیا۔

تھک نالے کے قریب عینی شاہدین نے جیو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اچانک سیلاب آنے کے وقت بھی وہاں 14/15 گاڑیاں کھڑی تھیں، لوگوں نے آوازیں دیں لیکن پھر بھی کچھ سیاح گاڑیوں میں بیٹھے رہے۔

عینی شاہد نے کہا کہ گاڑی پر پتھر گرے پھر لوگ وہاں سے بھاگے، اس دوران کچھ لوگ لینڈ سلائیڈنگ کی ویڈیو بھی بناتے رہے۔

بابوسر سیلاب میں بہہ جانے والی ڈاکٹر مشعال کے 3 سالہ بیٹے کی لاش بھی مل گئی

ریسکیو حکام کے مطابق گزشتہ شام 7 بجے تھک بابوسر کے قریب ڈاسر پر مقامی افراد نے لاش دیکھ کر حکام کو بتایا۔

بجلی کے پول اور متعدد گاڑیاں اب بھی تھک نالے کے قریب دھنسی ہوئی ہیں، مقامی لوگ اور ریسکیو اہلکاردھنسی ہوئی گاڑیوں کو نکال رہے ہیں۔

تباہ ہونے والی کوسٹر میں کھانے پینے کا سامان، پانی کی بوتلیں اور بچوں کے واکر موجود ہے، سیاحتی مقام پر موجود ہوٹل کی پارکنگ میں محفوظ رہ جانے والی کئی گاڑیاں کھڑی ہیں۔

سڑک بہہ جانے سے آمدروفت معطل ہو گئی اور سیاح گاڑیوں کے لیے پریشان ہیں، جگہ جگہ گرنے والے پہاڑی تودوں میں کچھ سرکاری گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل 9: امپائر علیم ڈار کو اضافی فیس کیسے ملی؟ آڈٹ رپورٹ میں ہوشربا انکشاف
  • جنگ بندی کیسے ہوئی؟ کس نے پہل کی؟مودی سرکار کی پارلیمنٹ میں آئیں بائیں شائیں
  • "اکلوتا بیٹا، دو بچوں کا باپ ہوں، والد کی وفات کے بعد گھر والوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، جعلی پرچوں کا نشانہ ہوں" حماد اظہر کا جذباتی پیغام
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • راوی کی موجوں کے ساتھ ڈوبتی ایک روایت، لکڑی کی کشتیوں کا آخری کاریگر
  • چلاس: تھک نالہ میں درجنوں سیاحوں کی گاڑیاں اچانک ریلے میں کیسے پھنسیں؟
  • سردار شیر باز کا مزید 10 روزہ ریمانڈ: بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، والدہ مقتولہ
  • جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
  • پانی میں بہہ جانے والے کرنل اور بیٹی کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن کیسے کیا جا رہا ہے؟
  • جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟