سرینگر(کشمیر ڈیجیٹل) بھارتی انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر کی تاریخی اور مرکزی جامع مسجد میں عید کی نماز پرپابندی عائد کردی ، بھارتی حکومت مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیساتھ انہیں مذہبی رسوم ادا کرنے سے روک رہی ہے

حریت رہنما عبدالحمید لون نے تاریخی جامع مسجد سرینگر میں عید الفطر کی نماز پر عائد پابندی کو افسوس ناک اور مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کشمیری مسلمانوں کو ان کے بنیادی مذہبی حقوق سے محروم کر رہی ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

عبدالحمید لون نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی جامع مسجد میں جمعۃ الوداع کے اجتماع پر پابندی عائد کی گئی تھی جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو مسلسل دبایا جا رہا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک جانب بھارتی حکومت امرناتھ یاترا، ٹیولپ فیسٹیول، فیشن شوز اور وائن فیسٹیول جیسے اجتماعات کی اجازت دیتی ہے، مگر دوسری طرف کشمیری مسلمانوں کی مذہبی رسوم پر قدغن عائد کر کے ان کے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے۔

حریت رہنما نے بھارتی حکومت کی اس پالیسی کو دوہرے معیارات پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ انہیں بالخصوص مذہبی رسوم ادا کرنے سے روک رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آنے کا بھارتی دعویٰ کھوکھلا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتِ حال حکومتی دعوؤں کے برعکس معمول سے کوسوں دور ہے۔
مقبوضہ کشمیر،برطانیہ ، بنگلہ دیش سمیت مختلف ممالک میں عید اجتماعات ، برطانوی شاہی خاندان کی مسلمانوں کو عیدکی مبارکباد

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بھارتی حکومت

پڑھیں:

بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری

بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔

بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔

صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت نے مزید 3 کشمیری مسلمانوں کو املاک سے محروم کر دیا
  • عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا فوری نوٹس لیں
  • سرینگر میں ٹریبونل کی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی معاملے کی سماعت یکم اگست سے ہوگی
  • بار بار کی پابندیاں تاریخی حقائق نہیں بدل سکتیں ہیں، میرواعظ کشمیر
  • کراچی کی تمام شاہراہوں پر پارکنگ فیس لینے پر پابندی عائد، نوٹیفکیشن جاری
  • مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی، بھارتی ریاست کی بوکھلاہٹ آشکار
  • پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کو بے نقاب کرنے کیلئے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں
  • فواد خان کیساتھ فلم عبیر گلال کی ریلیز پر پابندی، وانی کپور نے خاموشی توڑ دی
  • عالمی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرائیں, ڈی ایف پی
  • بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری