فرشی شلور بھی ملتانی کڑھائی والے سوٹ کو مات نہ دے سکی
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
آج کل سوشل میڈیا پہ فرشی شلور کے چرچے زبان زدِ عام ہیں، لیکن ملتانی کڑھائی والے سوٹ کی ڈیمانڈ اب بھی برقرار ہے۔
ملتانی کڑھائی کی خاصیت کیا ہے، دیکھیئے مہ جبین کی یہ رپورٹ
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
پاکستان، افغانستان اور دوسرے مسلمان ممالک کے ہاتھوں روس کی شکست کا سہرا یونیورسٹی آف نبراسکا کے شعبہ ’’سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘ کے سر باندھنا ناانصافی اور حقائق کے خلاف ہے۔ کہا گیا کہ یونیورسٹی آف نبراسکا نے افغانوں کو بتایا کہ وہ بہادر، نڈر اور ناقابل تسخیر ہیں اور یہ ٹاسک ان کو سی آئی اے نے دیا تھا۔
بھائی کسی قوم کی بہادری، ناقابل تسخیری یا بزدلی کے لیے ان کا ماضی کافی ہوتا، اس کا یقین دلانے کے لیے کسی یونیورسٹی یا ایجنسی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہادر اور ناقابل تسخیر کہلوانے کے لیے اپنے سر کٹوانے اور دوسروں کے سر کاٹنے پڑتے ہیں، یہ سرویز کرنے اور سبق پڑھانے سے نہیں بنتے۔ نہ بہادری، ناقابل تسخیری اور غیرت کے انجکشن اور ویکسین ملتے ہیں یہ خصلتیں نسل در نسل ڈی این اے میں منتقل ہوتی ہیں۔
کہا گیا کہ سی آئی اے نے یونیورسٹی آف نبراسکا کو پاکستان کے تعلیمی اداروں کے لیے مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کا سلیبس بنانے کا ٹاسک دیا تو انھوں نے اس میں جہاد سے متعلق آیات‘ احادیث اور واقعات اکٹھے کر دیے ۔
میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ نبی رحمت العالمین، خاتم النبین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر حملہ آور کفار کے خلاف جہاد کا حکم متعدد بار دیا گیا ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارے لیے قرآن پاک کے بسم اللہ کے "ب" سے لے کر الناس کے "س" تک ایمان لانا لازم ہے، ایک بھی حرف کے انکار کرنے سے بندہ ایمان سے فارغ اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے پھر کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے اسکولوں میں اسلامیات کے نصاب میں جہاد سے متعلق آیات کو مسلمان طلبا کے نصاب میں شامل کرنے کو سی آئی اے کی فرمائش پر یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش کیسے قرار دیاجاسکتا ہے؟
یہ بھی بتایا گیا کہ ’’امریکا نے پاک افغان سرحد پرسیکڑوں مدارس بنوائے‘ ان کے لیے نئے علماء کرام اور اساتذہ کا بندوبست کیا گیا۔ پاک افغان سرحد پر جو مدارس پہلے سے موجودتھے وہی رہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افغان سرحد پر مجاہدین کے لیے پاک فوج کی سرپرستی میں ٹریننگ سینٹر قائم کیے گئے۔
یہ بھی کہا گیا مدارس کے سلیبس سے انسانیت، رواداری اور برداشت نکال کر جہاد‘ کفر سے مقابلہ اور توہین مذہب ڈال دیا گیا‘‘۔ میرا یقین ہے جو بندہ مدارس کے نصاب سے واقف نہ ہو وہ تو یہ بات بغیر تحقیق کے مان سکتا ہے مگر یہ بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔ بغیر تحقیق اور زمینی حقایق کے خلاف قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کے اداروں کو اتنے منفی انداز میں پیش نہیں کرنا چاہیے، اگر کسی کو شک ہو تو ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ وقت نکال کر مدارس میں کچھ وقت گزاریں، وہاں زیر تعلیم روکھی سوکھی کھانے والے غریب و مفلس گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی انسانیت‘ رواداری اور برداشت کا موازنہ عصری علوم کے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے طلبا سے کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان پر واضح ہو جائے گا کہ کردار، احترام انسانیت اور ادب و تعظیم کے علمبردار مدارس کے بوری نشین طلباء اپنی مثال آپ ہیں۔
جہاد سی آئی اے کی ہدایت پر یونیورسٹی آف نبراسکا نے مدارس کے نصاب میں شامل نہیں کیا، یہ اللہ رب العزت نے رسول مقبول حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر فرض کیا اور مدارس میں علوم شریعہ (قرآن و سنت) پڑھائے جاتے ہیں۔
میں 1994ء سے 1997ء تک جہاد افغانستان کی برکت سے آزادی حاصل کرنے والے وسطی ایشیا کے ممالک میں رہا ہوں، اپنے مشاہدے کے علاوہ وہاں کے ہزاروں مسلمانوں سے سن چکا ہوں کہ سویت دور میں مساجد و مدارس کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا تھا اور مسلمانوں کی مذہبی اقدار و روایات کو مسخ کرنے میں کس حد تک گئے تھے۔ مگر افسوس کہ سویت یونین کی اسلام دشمنی، دھریت کو بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش بنا کر پیش کردیا۔
سویت یونین9 ہزار 5 سو مربع کلو میٹر رقبہ ہڑپ کرنے کے بعد افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا تو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر عالم اسلام کے مقبول ترین آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق شہید اور مجاہد اعظم جنرل اختر عبدالرحمان شہید رحمہ اللہ جیسے ان کے رفقاء کی سرپرستی میں اگر ایک طرف روس کو سبق آموز شکست دی گئی تو دوسری طرف روس سے 9500 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل وسطی ایشیا کے 9 اسلامی ممالک کو آزاد کرایا اور یہ وہ کارنامے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ کو پاکستان اور افغانستان دونوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ اگر ہم سوویت یونین کو پھینٹا لگانے میں افغانستان کے مجاہدین کا ساتھ نہ دیتے اور خدانخواستہ سوویت یونین افعانستان پر قبضہ کرلیتا تو یہ ہمارے لیے افغانستان پر سوویت یونین کے حلیف مشرک ریاست ہندوستان کے قبضے کے مترادف ہوتا اور ہماری 1640 کلومیٹر کی یہ سرحد سوویت یونین اور ہندوستان کے ساتھ ہوتی، ذرا سوچیں کہ مشرق و مغرب میں ہندوستان ہوتا تو کیا ہوتا؟
ریاست پاکستان کو دئے گئے تین مشوروں میں سے ہر محب وطن پاکستانی کی طرح ’’پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ‘‘ بنانے والے مشورے سے سو فیصد متفق ہوں، ہارڈ اسٹیٹ بن کر ہر پاکستان دشمن کو نشان عبرت بنانا ہوگا مگر باقی مشورے مکمل طور پر سمجھ نہیں سکا۔ مثلًا ’’عبادت کی اجازت صرف مسجد اور گھر میں ہونی چاہیے‘ سڑک‘ سرراہ یا کسی عوامی مقام پر عبادت پر پابندی ہونی چاہیے، اگر وہ عبادات کی جگہ مذہبی رسومات (جلسے، جلوسوں) کی بات کرتے تو معقول بات ہوتی۔
اصولًا مساجد اور مدارس کا انتظام ریاست کے پاس ہونا چاہیے مگر اس کے لیے متعلقہ افراد کی اہلیت اور قرآن و حدیث پر عبور ضروری ہے، جب ریاست کے ذمے داران میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کا سردست فقدان ہے۔
اگر حکومتی سرپرستی میں چلنے والے عصری علوم کے اداروں اور خاص کر بہاولپور کی عظیم دینی درسگاہ کا حشر حکومتی تحویل میں جانے کے بعد دیکھا جائے تو انشاء اللہ کوئی بھی مدارس کو قومی تحویل میں دینے کا مشورہ نہیں دے گا۔ جاوید چوہدری صاحب نے ایک طرف تو عوام کو لڑائی سے ہٹانے اور کتابیں پڑھنے اسپورٹس اور ڈیبیٹس پر لگانے، شہروں میں جم اور جاگنگ ٹریکس بنانے کے معقول مشورے دیے اور دوسری طرف وہ نسل نو کو فلموں اور موسیقی اور بسنت جیسے خونی ہندو تہواروں سے پابندی اٹھانے کو قومی مسائل کا حل بتا رہے ہیں۔ مارنے اور دوسرے کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے معقول مشورے کے ساتھ انھوں نے "کڑاہی گوشت" کھانے کو بھی اچھا نہیں قرار دیا مگر پتہ نہیں مقبول زمانہ روایتی پکوان ’’افغانی پلاؤ‘‘ کیسے بھول گئے۔