یورپ کی پیٹھ میں ٹرمپ ازم کا خنجر
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کینیڈا اور گرین لینڈ کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں نے بھی نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 5 کے بارے میں امریکی عزم میں کمی کو منکشف کیا ہے، جس کے مطابق ایک رکن پر حملے کو سب پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، 2023 میں منظور کردہ ایک قانون کے مطابق نیٹو سے امریکہ کی علیحدگی کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہے، لیکن بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ چاہیں تو اس قانون کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
واشنگٹن کی نئی پالیسیوں کی وجہ سے نیٹو کو اپنی 76 سالہ تاریخ کے سب سے سنگین بحرانوں میں سے ایک کا سامنا ہے۔ فارن افئیرز میگزین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے یورپی رہنما اپنے براعظم کی سلامتی کے لئے تشویش کا شکار ہیں۔ تجزیاتی میگزین فارن افیئرز نے اپنی ایک رپورٹ میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے رکن ممالک کو درپیش بحران کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی صدر کے فیصلوں نے نیٹو ممالک کے اجتماعی دفاع کے لیے واشنگٹن کے عزم پر شدید شکوک پیدا کر دیے ہیں۔ اپنی اشاعت میں میگزین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ٹرمپ کے بیانات، اقدامات اور نیٹو رکن ممالک کا دفاع نہ کرنے کی دھمکی کے بعد یورپی رہنماؤں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
یورپ کی تشویش میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب نیٹو کے تمام ارکان کے برعکس امریکہ نے فروری 2025 میں اقوام متحدہ میں یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ کینیڈا اور گرین لینڈ کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں نے بھی نیٹو معاہدے کے آرٹیکل 5 کے بارے میں امریکی عزم میں کمی کو منکشف کیا ہے، جس کے مطابق ایک رکن پر حملے کو سب پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، 2023 میں منظور کردہ ایک قانون کے مطابق نیٹو سے امریکہ کی علیحدگی کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہے، لیکن بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ چاہیں تو اس قانون کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکہ کے بغیر نیٹو کا مستقبل ایک نازک مسئلہ بن گیا ہے۔
دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے یورپ کی کوششیں:
یورپی حکام اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہے ہیں۔ یورپی یونین نے حال ہی میں اسلحے کی پیداوار بڑھانے کے لیے 150 بلین یورو مختص کیے ہیں اور دفاعی بجٹ پر عائد پابندیاں ہٹا دی ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر جرمنی بھی اپنے بجٹ قوانین کو تبدیل کر چکا ہے اور دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے 400 بلین یورو مختص کر چکا ہے۔ تاہم عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ یورپ کو اپنے فوجی بجٹ میں اضافے کے علاوہ نیٹو میں امریکہ کا کردار کم یا ختم ہونے سے پیدا ہونیوالے خلا کو پر کرنے کے لیے ایک عرصے تک محدود امریکی تعاون کی ضرورت ہوگی۔
جدید فضائی دفاعی نظام، سیٹلائٹ مواصلات اور بڑے پیمانے پر جنگی کارروائیاں کرنے کی اہلیت جیسی صلاحیتوں کی فراہمی ایسے چیلنجز ہیں جنہیں یورپ مختصر مدت میں حل نہیں کر سکے گا۔ ماہرین نے پہلے خبردار کیا تھا کہ امریکی ہتھیاروں پر یورپ کے بڑھتے ہوئے انحصار نے براعظم کو کمزور پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ سوئچ آف، ایک ایسا تصور ہے جو طویل عرصے سے تجزیہ کاروں کے درمیان زیر بحث ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ امریکہ نے اپنے طیاروں اور کچھ ہتھیاروں میں ایسی صلاحیت پیدا کر رکھی ہے جسے وہ جب چاہے استعمال کر سکتا ہے کہ ان سسٹمز کو غیر فعال کر دے اور ان ہتھیاروں کو یورپی ممالک کے لیے ناقابل استعمال بنا دے۔
یورپ کو درپیش بڑا چیلنج:
اس وقت امریکی سلامتی کے وعدوں پر یورپ کے اعتماد میں کمی کے ساتھ نیٹو بنیادی اور ساختیاتی تبدیلیوں کے دہانے پر ہے۔ امریکہ پر انحصار کے بغیر ایک آزاد دفاعی ڈھانچے کی تعمیر، وہ بھی ایسے وقت میں جب سلامتی کے خطرات پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہیں، یورپ کے بڑا چیلنج ہے۔ دوسری جانب بعض تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کے یہ اقدامات مزید ممالک کو جوہری ہتھیار بنانے کی طرف دھکیلیں گے اور اس کے نتیجے میں مستقبل میں جوہری جنگوں کو ہوا ملے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے مطابق یورپ کی کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔
یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔
شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔
امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔
جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔
اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔
امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔
عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔
امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔
اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔
دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔
لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔
اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔
بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔
ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔
امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔
لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔
حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔
ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔
پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔
اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن