انسان اخلاقی وجود ہے۔ اس اخلاقی وجود کو سماج کی صورت رہنا تھا سو بہتر سماج کی تشکیل ہی اس کی سب سے بڑی سرگرمی رہی۔ یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ سماج جتنا بہتر ہوگا باہمی بود و باش اتنی ہی راحت بھری ہوگی۔ اس کی پہلی اجتماعی اکائی اس کی فیملی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے اس کے اخلاقی سفر کا آغاز ہوتا ہے، جہاں سے اس کے کلچر کی تشکیل ہوتی ہے، جہاں سے اس کے ڈسپلن کی بنیاد پڑتی ہے۔ یہی اکائی پھیلی تو قبیلہ وجود میں آگیا۔ قبیلے نے بھی پھیلاؤ اختیار کیا تو قوم وجود میں آگئی۔
قوم اور اس کے ذیلی قبیلے۔ مثلا عرب قوم اور اس کے ذیلی قبیلے۔اور یہ قوم قبیلے ہی انسان کی اجتماعی شناخت ہیں۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی فرماچکے اور ہم نے تمہیں قوم قبیلوں میں بنایا تاکہ تم شناخت پا سکو۔ ہر قوم اور قبیلے کی زبان اور کلچر اس کی شناخت ہوتا ہے۔ کلچر کیسے تشکیل پاتا ہے ؟ جب ہم وسیع اور پورے معنی میں ’انسان‘ لفظ کہتے ہیں تو اس کے 2 اجزا سامنے آتے ہیں۔ ایک مرد دوسری عورت۔ انسان لفظ اپنی پوری معنویت تب اختیار کرتا ہے جب یہ دونوں شامل ہوں۔ ان دونوں کی جسمانی ہی نہیں نفسیاتی ساخت بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے، حتی کہ صلاحتیں بھی۔
عورت اپنی فطرت میں ایک جینیئن خلاق ہے۔ یہ وہ ہے جو کلچر کی بنیاد رکھتی ہے اور اسے مرد کی مدد سے تحفظ فراہم کرکے تہذیب کی عظمت تک پہنچا دیتی ہے۔ اسی لئے عورت کو تہذیب کا خالق اور مرد کو نگہبان کہا جاتا ہے۔ بات سمجھ نہ آئے تو اپنے گھر کا جائز لے لیجیے۔ آپ کے گھر کی ہر چیز یا تو گھر کی خواتین کی تخلیق ہوگی یا ان کی پسند کی خرید۔ پاپوش سے لے کر پردوں تک، فرنیچر سے لے کر بیڈ شیٹس اور کشن تک ایک ایک چیز نہ صرف خاتون خانہ کی سلیکشن ہے بلکہ حسن ترتیب بھی اسی کا کرشمہ۔ صرف یہی نہیں بلکہ کلچر کا جو حصہ عملی ہے یعنی اہلخانہ کا رویہ وہ بھی حسنِ سلوک تب بن پاتا ہے جب اس کی بنیاد بالکل ابتدا سے گھر کی خاتون یعنی ماں ڈال دے۔ اس گھر کے وسائل یعنی مال و اسباب اور اخلاقی حسن جب بھی خطرے سے دوچار ہوں گے، خاتون خانہ گھر کے مرد کو رپورٹ کرے گی۔ کیوں ؟ نگہبان وہ ہے۔ سیکیورٹی اس کی ذمہ داری ہے۔ عین یہی گھریلو مثال اپنی وسیع شکل میں قومی کلچر اور قومی وسائل کی شکل اختیار کرکے خطرے سے دوچار ہوجائیں تو ایک کونے سے آواز آتی ہے
یہ بھی پڑھیں: ’انقلابی فیلنگز‘
’سندھ کے حصے کا پانی چوری کیا جا رہا ہے‘
دوسرے حصے سے آواز آتی ہے
’خیبر پختون خوا کی بجلی کی رائیلٹی ادا نہیں کی جا رہی‘
تیسرے گوشے سے آواز آتی ہے
’پورے ملک کے چولہے بلوچوں کی گیس سے روشن ہیں مگر بلوچ ہر چیز سے محروم ہے‘
اس کا کیا مطلب ہوا ؟ یہ کہ جب شناخت اور وسائل کا سوال پیدا ہوگا تو مذہب بیک گراؤنڈ میں رہ جائے گا اور قومیت فوقیت اختیار کرجائے گی۔ کیا ایسا ہونا غلط ہے ؟ قطعا نہیں۔ اسلام نے گورے کی کی کالے پر کالے کی گورے پر فوقیت کا خاتمہ کیا لیکن قومیت کا خاتمہ نہیں کیا۔ ہم پیچھے بتا چکے کہ یہ تو باقاعدہ خدائی اسکیم ہے کہ قوم بھی رہے گی اور اس سے ملنے والی شناخت بھی۔
اب یہ بھی یاد کر لیجیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خلافت قریش میں چلے گی۔ کیوں؟ کیونکہ وہ عرب دنیا کا سب سے طاقتور قبیلہ تھا۔ اس قبائلی معاشرے میں اس کی اتھارٹی چیلنج نہیں ہوسکتی تھی۔ کیا آپ نے یہ نکتہ نوٹ کیا کہ خلافت کا حقدار ایک قبیلے کو قرار دیا گیا نہ کہ زہد و تقوی کو ؟ زہد و تقوی بھی مطلوب تھا مگر اولین شرط قبیلہ قریش رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک نکتہ اور دیکھیے۔ کیا اسلام نے کوئی کلچر دیا ؟ نہیں، اس باب میں اسلام نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ کیونکہ کلچر قوم قبیلے تشکیل دیتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھیے۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو جسم ڈھکنے کا حکم دیا اور اس ضمن میں مرد و زن کے لیے وہ جسمانی حدود بھی طے کردیں جن کا ڈھکنا بہر صورت مطلوب تھا۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ کس چیز سے ڈھکیے۔ جبے سے ڈھکنا ہے ؟ شلوار قمیض سے؟ شرٹ پتلون سے؟ یہ کلچر سے متعلق سوال ہے سو اسلام نے اس میں دخل نہیں دیا۔ قوم قبیلے پر چھوڑ دیا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا لباس کیا پورا کلچر مختلف رنگوں میں نظر آتا ہے۔ کیونکہ کلچر کی تشکیل مذہب نہیں قوم قبیلہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کے جتنے قبیلے اتنے ہی کلچر۔
مزید پڑھیے: رمضان حاضر تبسم غائب
پاکستان میں کئی قومیں پائی جاتی ہیں، مگر ان میں سے بڑی 4 ہیں۔ پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچ۔ یہ تمام قومیں اپنا کلچر یعنی شناخت بھی رکھتی ہیں اور وسائل کی ملکیت بھی۔ مقام شکر ہے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک کے بھی کلچر کو کبھی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ چنانچہ اس حوالے کوئی شکایت بھی موجود نہیں۔ لیکن وسائل کا جھگڑا لگ بھگ ہر دور میں موجود رہا ہے۔ ہم پیچھے پانی، گیس اور بجلی کی مثال دے آئے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے معاملے میں ہم پہاڑ جیسی غلطی کرتے آئے ہیں۔ وہاں سے گیس نکلی تو بلوچ سردار نے کہا، قوم گئی بھاڑ میں۔ میں سردار ہوں معاملہ میرے ساتھ طے کرو۔ ہم نے سوچا یہ تو لاٹری نکل آئی۔ قوم کو دیتے تو پوری رائیلٹی دینی پڑتی۔ سردار کو دینی ہے تو سودا سستا مک جائے گا۔ یوں ریاست اور سردار دونوں نے بلوچ قوم کا حق مارنا شروع کردیا وہ بھی دہائیوں تک۔ جب تک سردار کو مال ملتا رہا وہ بلوچ چرواہے کو بیوقوف بناتا رہا۔ ادھر جنرل مشرف نے کہا، آج سے سردار کو کوئی رائیلٹی نہیں ملے گی۔ یہ تو قوم کا حق ہے۔ سردار نے چرواہے کو نیا سبق پڑھانا شروع کردیا۔ عسکریت کا سبق۔ اب ہم اسے قانون اور رٹ آف دی گورنمنٹ کا حوالہ دے رہے ہیں۔ بظاہر بڑی معقول بات لگتی ہے۔ مگر جب قومی شناخت اور قومی وسائل کا سوال پیدا ہوجائے تو کلمہ بھی پیچھے رہ جاتا ہے، قانون کیا بیچتا ہے؟
یوکرین میں دیکھا نہیں کہ جب اس ملک کی جغرافیائی حدود میں بسی رشین قوم سے اس کی شناخت چھینی جانے لگی، اس کا کلچر، زبان، تاریخ، آرتھوڈک چرچ سمیت ہر چیز بین کردی گئی، حتی کہ الیگزینڈر پشکن جیسے بڑے رشین آئی کان کا مجسمہ بھی مسمار کردیا گیا تو روس پوری نیٹو سے جا بھڑا۔ اور نتیجہ یہ کہ یوکرین اب اپنے اس پورے جغرافیے سے بھی محروم ہونے جا رہا ہے جہاں یوکرینی روسی آباد تھے۔کیا معاملہ بس شناخت کا تھا ؟ نہیں، وسائل کا بھی تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے منرل ڈیل کے پہاڑے تو سنے ہوں گے۔
مزید پڑھیں: مہذب اقوام کا مستقبل
سو چوہدری ریاست علی سے جان کی امان پاتے ہوئے دردمندانہ گزارش ہے کہ آپ کو اچھا لگے یا برا، مگر سچ یہی ہے کہ آپ کی بندوق فیل ہوچکی۔ اب بھی موقع ہے اپنی حکمت عملی بدلیے اور جلد بدلیے۔ اپنی غلطی کی سزا بلوچ قوم کو کیوں دے رہے ہیں ؟ کس نے کہا تھا کہ سرداروں کے ساتھ مک مکا کیجیے؟ اس غلط فہمی سے نکل آیئے کہ پاکستان کا ستائیس رمضان کو بننا یا اس کا 2 قومی نظریہ اس کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب مذہب ہی تحفظ کی ضمانت نہیں تو دو قومی نظریہ کیسے ضمانت بن سکتا ہے ؟ قوم اور قبیلے خدائی تقسیم ہیں۔ مذہب تحفظ کی ضمانت بن سکتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کا فیصلہ قبیلے کی بنیاد پر نہیں محض زہد و تقوی کی بنیاد پر فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا خدا ایک، کتاب ایک، نبی ایک اور دین ایک ہے مگر ہماری وحدت کو سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ اپنی اپروچ بدلیے صاحب ! مذہب اور قانون والا چورن نہیں چلنے کا۔ حق دیجیے اگلوں کو اور وہ بھی استحقاق سے تھوڑا زیادہ۔ چین کی مثالیں تو آپ خوب دیتے ہیں۔ کیا یہ نہیں دیکھا کہ وہاں تمام اقلیتی اقوام کے حقوق اکثریت سے زیادہ ہیں؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چوہدری ریاست علی قبیلہ وسائل کا اسلام نے کی بنیاد قوم اور کلچر کی اور اس
پڑھیں:
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس کیوں ختم کی گئی؟
بلوچستان میں 142 سال پرانی لیویز فورس ختم کردی گئی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت جمعرات کے روز سینٹرل پولیس آفس کوئٹہ میں اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے اور پولیس نظام کو مزید فعال اور انسدادِ دہشتگردی کے لیے مؤثر بنانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس محمد طاہر خان، سیکریٹری خزانہ عمران زرکون، پرنسپل سیکریٹری بابر خان اور اعلیٰ پولیس حکام شریک تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بولان میں لیویز کا آپریشن، فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید، ڈاکو زخمی
آئی جی پولیس نے اجلاس کو بلوچستان پولیس کو درپیش چیلنجز، امن و امان کی صورتحال، جرائم کے رجحانات اور آپریشنل ضروریات پر بریفنگ دی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لیویز فورس کے پولیس میں انضمام کے عمل کو منظم اور تیز کیا جائے گا، جبکہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے درمیان رابطہ اور انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیوں کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی کرائم برانچ اور لیگل برانچ کے کردار کو بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات اور عدالتی کارروائیوں میں بہتری لائی جا سکے۔
وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ صوبے کے تمام ’بی ایریا‘ کو مرحلہ وار ’اے ایریا‘ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پولیس کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں 10 ارب روپے کی مالی معاونت کی منظوری دی ہے جو پولیس کی استعداد کار، تربیت، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس نیٹ ورک اور خصوصی فورسز کی مضبوطی پر خرچ کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا لیویز فورس میں انسداد دہشتگردی ونگ بننے جارہا ہے؟
وزیرِ اعلیٰ کے مطابق پولیس کی فضائی نگرانی، ڈرون سسٹمز اور نائٹ آپریشن صلاحیت بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ حکومتی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لیویز اہلکاروں کو پولیس میں منتقلی کے ساتھ گولڈن ہینڈ شیک اور نئی بھرتیوں کے مواقع بھی فراہم کیے جائیں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق صوبے میں دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے تک علاقائی امن بحال رہ سکے۔
بلوچستان کے سینئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے لیویز کے پولیس میں انضمام کو صوبے کے لیے ایک تاریخی اور حساس تبدیلی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے تناظر میں تفصیلی خدشات، سوالات اور راہِ حل پیش کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
ان کے مطابق لیویز کے جوان ابتدائی طور پر بے یقینی کا شکار ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ ان کی سروس اسٹرکچر، تنخواہیں، پروموشن پالیسی، اور ریٹائرمنٹ فوائد کیا رہیں گے۔ یہ عدم وضوح فورس کی کارکردگی اور مورال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو فوراً مفصل پالیسی دستاویز جاری کرنی چاہیے جس میں سروس ریکارڈ، پروموشن پاتھ، اور پے اسکیل میں واضح فرق نہیں آنے دیا جائے۔
ایک بار جب لیویز اہلکار شہری انتظامی ڈھانچے میں آئیں گے تو قبائلی یا دیہی اندازِ پولیسنگ سے شہری پولیسنگ پر منتقل ہونا ہوگا۔ اس کے لیے جامع تربیتی پروگرام، ڈیجیٹل ایف آئی آر اور عدالتی تعامل کی ٹریننگ، اور جدید تفتیشی مہارتوں کی فراہمی ضروری ہے۔
سید علی شاہ زور دیتے ہیں کہ محض کاغذ پر انضمام کافی نہیں، عملی تربیت اور مسلسل ایکسپوزر دینا ہوگا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ لیویز کے پاس پہلے ایف آئی آر درج کرنے، ثبوت محفوظ کرنے اور عدالتی کارروائی کے طریقہ کار کی تربیت محدود تھی۔ پولیس میں شمولیت کے بعد کرائم برانچ اور لیگل برانچ کو فوراً فعال کر کے تفتیشی معیار بلند کرنا ہوگا تاکہ مقدمات عدالت میں مضبوط ہوں اور مجرمان کو سزا دلانے کا نظام فعّال ہو۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کا منصوبہ ناکام، لیویز فورس نے اسلحہ و گولہ بارود کی کھیپ پکڑی لی
بلوچستان کی جغرافیائی اور سماجی ساخت خیبرپختونخوا یا دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ سید علی شاہ نے باور کرایا کہ آئی جی اور مرکزی قیادت کو مقامی مہارت، قبائلی رواج، زبان اور ثقافتی معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دینی چاہئیں، بصورتِ دیگر آپریشنل ناکامی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
لیویز فورس 2010 کے ایک قانون کے تحت کام کر رہی ہے۔ اسے پولیس میں ضم کرنے کے لیے صوبائی کابینہ کی منظوری اور اسمبلی سے قانون سازی ضروری ہوگی۔ اس عمل میں حکومت کو اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین کی مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 2003 میں پرویز مشرف کے دور میں بھی لیویز فورس کو پولیس میں شامل کیا گیا تھا لیکن 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اسے دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔
صوبے میں امن و امان کا نظام دو حصوں میں تقسیم ہے، ’اے ایریا‘ (شہری علاقوں) میں پولیس ذمہ دار جبکہ ’بی ایریا‘ (دیہی و قبائلی علاقوں) میں لیویز فورس تعینات تھی۔
لیویز فورس کے پاس صوبے کا تقریباً 82 فیصد علاقہ تھا، جبکہ پولیس صرف 18 فیصد حصے میں کام کر رہی تھی۔ لیویز کے اہلکاروں کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اصلاحات بلوچستان پولیس سی ٹی ڈی لیویز فورس وزیراعلی سرفراز بگٹی