Daily Ausaf:
2025-09-18@20:08:47 GMT

بھارتی مسلمانوں کا معاشی قتل

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

بھارت میں ہندو انتہا پسند دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف پچھلے کچھ سالوں سے مہم چل رہی ہے جس کی باقاعدہ سرپرستی مبینہ طور پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کررہی ہے بی بی سی نے حالیہ دنوں میں ایک ڈاکومنٹری فلم پیش کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے مسلمان کے خلاف متعصبانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اور مہم چلائی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندو کاروبار نہ کریں دکانیں اور مکان کرائے پر بالکل نہ دیں اور مسلمانوں سے سودا سلف بھی نہ خریدیں جبکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی دکانوں کے باہر ان کے ناموں کے سائن بورڈ آوازیں کرنے کی بھی مہم چل رہی ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ دکان مسلمان کی ہے یا ہندو کی۔ پچھلے کچھ سالوں سے سوشل میڈیا پر مسلسل اس کی تشہیر کی جا رہی ہے
افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں یہ معاشی تفریق کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کا مقصد مسلم کاروباری افراد کو غربت کی جانب دھکیلنا ہے۔ دکانوں پر مالک کا نام ظاہر کرنے کی پالیسی اور مسلمانوں کے خلاف صفائی سے متعلق بے بنیاد الزامات نے ان کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے اس امتیازی رویے کی وجہ سے مسلمانوں کے کاروبار گاہکوں سے محروم ہو رہے ہیں اور کئی افراد اپنی دکانیں ریسٹورنٹس اور ذبح خانے بند کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے لیکن اس میں سرکاری سطح پر نریندرمودی کے کے دور حکومت میں اضافہ ہوا ہے جس کی سرپرستی حکومتی لیول پر کی جارہی ہے۔ نریندر مودی کے ان شرمناک اقدامات کو مسلمانوں ممالک کے سربراہان نے آج تک کسی باقاعدہ پلیٹ فارم پر نہیں اٹھایا جو ایک لمحہ فکریہ ہے بلکہ بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ نریندرمودی جب مسلمان ممالک کا دورہ کرتا ہے تو سرخ کارپٹ بچھایا جاتا ہے آج عرب ممالک سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھارت میں کررہے ہیں او آئی سی، عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے کسی پلیٹ فارم پر 57 مسلمان ممالک میں سے کوئی آواز آٹھانے سے قاصر ہے کہ بھارت میں تقریباً 20 کروڑ مسلمانوں کا جینا محال کردیا گیا ہے جو ملک کی کل آبادی کا 14.

28 فیصد ہے اس وقت یہ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ بچے پیدا کررہے ہیں اور آبادی میں اگر اسی طرح اضافہ جاری رہا تو 2050 ء تک مسلمانوں کی آبادی 35 کروڑ تک ہوسکتی ہے جس سے اکثریتی ہندو بھارت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اسی لئے بھارتی مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی کا دائرہ کار وسیع کیا گیا ہے جو کئی سطحوں پر چل رہی ہے جس میں سیاسی، سماجی، اور معاشی عوامل شامل ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور اس کی حامی تنظیمیں ہندو قوم پرستی کو بڑی تیزی سے فروغ دے رہی ہیں جس میں مسلمانوں کو’’دوسرا‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
بی جے پی نے شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) جیسے اقدامات کرکے مسلمانوں کے حقوق کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔
اسی طرح کئی مواقعوں پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جیسے دہلی فسادات 2020ء گجرات 2002 ء اور دیگر واقعات شامل ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس میں انہیں ملک دشمن، دہشت گرد یا آبادی بڑھانے کی سازش کرنے والے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
لوجہاد کا الزام: مسلمان مردوں پر ہندو خواتین کو زبردستی مسلمان بنانے کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر کئی ریاستوں نے سخت قوانین بنا دیئے ہیں۔
سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں، جس کا مقصد مسلمانوں کو مزید پسماندہ کرنا ہے۔
گائے کے تحفظ کے نام پر کئی مسلمانوں پر تشدد کر کے قتل کر دیا گیا ہے جن میں اخلاق، پہلو خان، اور دیگر کئی افراد شامل ہیں۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر ادارے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز اٹھا چکے ہیں، مگر بھارتی حکومت اکثر انہیں داخلی معاملات میں مداخلت کہہ کر مسترد کر دیتی ہے۔
کئی اسلامی ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی وجہ سے کھل کر مذمت کرنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ پاکستان کی موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں بھی نریندرمودی کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں کسی قسم کی آواز اٹھانے سے گریزاں ہیں ۔
بھارتی مسلمانوں کو ایک منظم مہم کے ذریعے حاشیے پر دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف بھارت کا نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق کا بھی ہے، جس پر عالمی برادری کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور مسلمانوں ملکوں کو اس پر آواز اٹھانی چاہئے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں مسلمانوں کو بھارت میں ا واز ا کیا جا رہا ہے گیا ہے رہی ہے

پڑھیں:

مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ

ویب ڈیسک: پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین سید  نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ کرکٹ نہ کھیلنے  کا مشورہ دیدیا۔

  ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے، بھارت  پاکستان  کے وجود سے خوش نہیں ، وہ  پاکستان سے نفرت کرتا ہے اور  بھارت ہمارے ساتھ کرکٹ  کھیل کر ہماری  ہی بے عزتی کرتا ہے، اس سے بہتر ہے کہ ہم بھارت کیساتھ کرکٹ نہ کھیلیں۔

رکن پنجاب اسمبلی علی امتیاز کا نام پی این آئی لسٹ سے نکالنے کی درخواست، جواب طلب

  مشاہد حسین نے کہا کہ بھارتی ہم سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں، وہ پاکستان آنے سے انکار کردیتے ہیں، بھارت پاکستان کی نفرت میں اس حد تک گرچکا ہے  کہ 2 سال قبل ٹی ٹوئنٹی  ورلڈ کپ میں بھارت نے پاکستان کو آگے نہ آنے دینے کیلئے شکست کھائی لہٰذا ہمیں  بھی ایسی ٹیم کے ساتھ  کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے ۔

 چیئرمین پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ نے مزید کہا کہ   بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے جیت کو  بھارتی فوج اور پہلگام واقعے کے متاثرین کے نام کیا،  بھارت خود دہشتگرد ہے جس نے جارحیت کی اور جواب میں پاکستان نے اس کی پھینٹی لگائی  اب بھارت اسی شکست کو پروپیگنڈا کیلئے استعمال کررہا ہے۔
 
 

ٹریفک قوانین سخت، گاڑیاں وموٹرسائیکلیں نیلام ہوں گی

متعلقہ مضامین

  • محبت کے چند ذرائع
  • صدر زرداری کا چین میں سنکیانگ اسلامک انسٹیٹیوٹ کا دورہ، مسلمانوں کیلئے خدمات کی تعریف
  • اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں،احسن اقبال
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • امریکہ ہر جگہ مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کر رہا ہے، حافظ نعیم
  • مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندوتوا ایجنڈے کے تحت نفرت اور انتشار کی منظم کوششیں 
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  • اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع