UrduPoint:
2025-06-09@14:50:20 GMT

سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازعہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازعہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اپریل 2025ء) سندھ کا شکوہ ہے کہ پانی کے ضائع ہونے کے حوالے سے پنجاب میں بہت غلط فہمی ہے۔ سندھ نہ صرف پنجاب میں بننے والی نہروں پر معترض ہے بلکہ وہ کالا باغ ڈیم سمیت کسی بھی آبی ذخیرہ کی بھرپور مخالفت کرتا ہے، جس سے اس کے حصے کے پانی پر اثر پڑے۔ سندھ کی یہ بھی حجت ہے کہ سسٹم میں پانی اتنا موجود ہی نہیں ہے، جتنا کہ بتایا جاتا ہے اور یہ کہ پنجاب ہیرا پھیری کر کے سندھ کے حصے سے ہی پانی لے گا۔

تاہم پنجاب نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ نئی نہروں کو پنجاب حکومت اپنے حصے کا پانی دے گی۔ تاہم سندھ کی بےاعتمادی ختم نہیں ہوتی۔

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس بے اعتمادی کی وجہ تاریخی ہے۔ سندھ کے ماہرین کا دعوی ہے کہ سمندر کے جنگلات، جو طوفان اور دوسری قدرتی آفات سے سندھ کے ساحلی علاقوں کو بچا سکتے ہیں، کے لیے تازہ پانی کا ڈیلٹا میں آنا بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

اس جنوبی صوبے کا دعوی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں مختلف نہروں اور دوسرے آبی ذخائر کی تعمیر کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان تعمیرات سے پہلے انڈس ڈیلٹا، جس کے لیے تازہ پانی بہت ضروری ہے، میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تھا، جو اب ایک ڈرامائی حد تک کم ہو گیا ہے۔

مثال کے طور پر یہ بہاؤ 1932 میں ایک لاکھ پانچ ہزار ملین کیوبک میٹرز تھا جو 1970 تک صرف 43 ہزار ملین کیوبک میٹرز رہ گیا اور 90 کی دہائی تک اس کا حجم صرف 12300 ملین کیوبک میٹرز تک محدود ہو گیا۔

پنجاب میں کئی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ہر سال سمندر میں بہت سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ سندھ کا دعوی ہے کہ ڈیلٹا میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں مچھلیوں کی پیداوار میں 70 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے جبکہ زرعی زمینوں میں سمندر کے پانی کے داخل ہونے کی وجہ سے پانچ لاکھ ایکڑ سے لے کر 35 لاکھ ایکڑز تک ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور دوسرے سندھ کے علاقوں کی زمین متاثر ہوئی ہے۔

پانی پر تاریخی معاہدے

سندھ کا دعوی ہے کہ تاریخی قانونی معاہدوں کی روشنی میں دریائے سندھ پر کوئی بھی تعمیر سندھ کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ۔ ان کی حجت ہے کہ سندھ کو یہ اختیار بین الاقوامی قوانین کے تحت حاصل ہے اور یہ کہ تاریخی طور پر بھی ایسے معاہدے ہیں جس کئی شقیں پنجاب کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ دریائے سندھ پر کوئی بھی تعمیر یا آبی ذخائر کے منصوبے پر سندھ کی اجازت کے بغیر کام کرے۔

مثال کے طور پر تقسیم ہند سے پہلے جب مشرقی پنجاب میں دریائے ستلج پر بھاکڑا ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی، تو سندھ نے اس پر اعتراض کیا، جس پر ہندوستان میں نو آبادیاتی برطانوی حکومت نے 1901 میں انڈیا ایریگیشن کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن نے پنجاب کو حکم دیا کہ وہ دریائے سندھ پر کسی بھی پروجیکٹ کے لیے سندھ کی رضامندی حاصل کرے۔ 1919 میں حکومت کی طرف سے کاٹن کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا مقصد پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کے تنازعات پر بات چیت کرنا تھی، 1919 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ سندھ پنجابپانی کے تنازعہ کے حوالے سے کوئی کلیدی کردار وائسرآئے آف انڈیا کے علاوہ کسی کا نہیں ہو گا۔

سندھ کے ماہرین 1935 کے انڈیا ایکٹ کی 130 اور ایک سو اکتیس کی ذیلی دفعہ چھ کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ مشترکہ پانی کے استعمال کے حوالے سے کسی ایک صوبے کو فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا۔

برطانوی ہند کی حکومت کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے راؤ کمیشن، جس کی سربراہی سر بی ڈبلیو راؤ نے کی تھی، جو اُس وقت کلکتہ ہائی کورٹ کے جج تھے اور بعد میں عالمی عدالت انصاف کے بھی جج بنے، نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پہ لکھا اگر کسی بڑے دریا کا ہیڈ واٹرز کسی مخصوص صوبے میں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس میں سے جتنا چاہے پانی نکال لے اور دوسرے صوبے یا ریاستوں کو صحرا میں تبدیل کر دے۔

پنجاب اور آج کی آبی ضروریات

تاہم پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ تاریخی معاہدوں پر بحث کرنے کے بجائے سندھ کو پاکستان کے موجودہ آبی ذخائر کی ضروریات کو سمجھنا چاہیے۔ ان کا دعوی ہے کہ انڈس بیسن اریگیشن سسٹم دنیا کی سب سے بڑی انفراسٹرکچرل انٹرپرائز ہے، جس مییں کئی عشروں کے دوران 300 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

اور اس سے پاکستان کو تقریبا 18 بلین ڈالرز کے قریب کا فائدہ ہوا ہے، جو پاکستان کے جی ڈی پی کے تقریبا 21 فیصد کے برابر ہے۔

جولائی 2023 کی واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے آبی ذرائع سے اس برس کے سیزن کے ایک مرحلے پر سات ہزار میگا واٹس سے بھی زیادہ بجلی پیدا کی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کی اس پیداواری صلاحیت کی وجہ سے 60 اور 70 اور بعد کے کچھ عشروں میں صنعت کو زبردست فروغ ہوا اور یہ ڈیم اور دوسرے آبی ذخائر کے بغیر بالکل ممکن نہیں تھا۔

پنجاب کا دعوی ہے کہ پاکستان کو مستقبل کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم سمیت کئی دوسرے آبی ذخائر کے پروجیکٹس پر کام کرنا چاہیے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی توانائی کے مانگ کو پیش نظر رکھتے ہوئے، پاور جنریشن کیسے کی جائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب جرمنی اور اسکاٹ لینڈ سورج کی روشنی سے اچھی خاصی بجلی پیدا کر سکتے ہیں، تو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، جہاں سورج کی اچھی خاصی روشنی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ونڈ انرجی جنریشن کا بھی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

بڑے ڈیموں کی جگہ پاکستان کو فلڈ اریگشن سسٹم کی ختم کر کے اس کی جگہ اسپرنکل یا چھڑکاؤ کے طریقہ آبپاشی کو اپنانا چاہیے، جس سے پانچ ملین ایکڑز فیٹ پانی کی بچت ہو سکتی ہے، جو کسی بڑے ڈیم کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے تقریبا برابر ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا دعوی ہے کہ اور دوسرے ماہرین کا کی وجہ سے پانی کے سندھ کی سندھ کے کے لیے

پڑھیں:

بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو بھر جنگ ہوگی اور وہ آخری ہوگی، پیرپگارا

جی ڈی اے کے سربراہ نے کہا کہ ملک میں قومی سطح کا کوئی لیڈر نہیں جو صوبوں کو سنبھال سکے، پاک فوج نے ہی اب تک ملک کو سنبھالا ہے، آئندہ بھی پاک فوج ہی سنبھالے گی، حُر جماعت کے افراد اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں، یہ لوگ اپنی اولاد کو پڑھارہے ہیں جس پر مجھے خوشی ہورہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جی ڈی اے کے سربراہ پیرپگارا نے کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو بھر جنگ ہوگی، وہ جنگ آخری ہوگی، اس کے بعد بھارت جنگ کے قابل نہیں رہے گا۔ خیرپور میں درگاہ شریف پیر جوگوٹھ میں خطاب کرتے ہوئے پیرپگارا نے کہا کہ افواج پاکستان کو مثالی کامیابیوں پر عیدالاضحیٰ کی مبارکباد دیتا ہوں، افواج پاکستان نے بھارت کو سبق سکھایا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا، پاک فوج کا جواب بھارت کو عمر بھر یاد رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں قومی سطح کا کوئی لیڈر نہیں جو صوبوں کو سنبھال سکے، پاک فوج نے ہی اب تک ملک کو سنبھالا ہے، آئندہ بھی پاک فوج ہی سنبھالے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ حُر جماعت کے افراد اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں، یہ لوگ اپنی اولاد کو پڑھارہے ہیں جس پر  مجھے خوشی ہورہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلان جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلانِ جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • عید پر گندگی: عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کی کارکردگی پر مرتضیٰ وہاب کو کرارا جواب
  • حسد کا علاج نہیں ، وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب کے بیان پر ردعمل آگیا
  • حسد کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، میئر کراچی کے بیان پر عظمیٰ بخاری کا ردعمل
  • آپ صرف کراچی کو بھی صاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، وزیراطلاعات پنجاب کا مرتضیٰ وہاب کو جواب
  • عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کے خلاف بیان
  • سندھ حکومت کے پاس بتانے کو کچھ نہ دکھانے کو، عظمیٰ بخاری
  • بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو بھر جنگ ہوگی اور وہ آخری ہوگی، پیرپگارا
  • وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہو کر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے، عمر ایوب