سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کا تنازعہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اپریل 2025ء) سندھ کا شکوہ ہے کہ پانی کے ضائع ہونے کے حوالے سے پنجاب میں بہت غلط فہمی ہے۔ سندھ نہ صرف پنجاب میں بننے والی نہروں پر معترض ہے بلکہ وہ کالا باغ ڈیم سمیت کسی بھی آبی ذخیرہ کی بھرپور مخالفت کرتا ہے، جس سے اس کے حصے کے پانی پر اثر پڑے۔ سندھ کی یہ بھی حجت ہے کہ سسٹم میں پانی اتنا موجود ہی نہیں ہے، جتنا کہ بتایا جاتا ہے اور یہ کہ پنجاب ہیرا پھیری کر کے سندھ کے حصے سے ہی پانی لے گا۔
تاہم پنجاب نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ نئی نہروں کو پنجاب حکومت اپنے حصے کا پانی دے گی۔ تاہم سندھ کی بےاعتمادی ختم نہیں ہوتی۔کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اس بے اعتمادی کی وجہ تاریخی ہے۔ سندھ کے ماہرین کا دعوی ہے کہ سمندر کے جنگلات، جو طوفان اور دوسری قدرتی آفات سے سندھ کے ساحلی علاقوں کو بچا سکتے ہیں، کے لیے تازہ پانی کا ڈیلٹا میں آنا بہت ضروری ہے۔
(جاری ہے)
اس جنوبی صوبے کا دعوی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں مختلف نہروں اور دوسرے آبی ذخائر کی تعمیر کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان تعمیرات سے پہلے انڈس ڈیلٹا، جس کے لیے تازہ پانی بہت ضروری ہے، میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تھا، جو اب ایک ڈرامائی حد تک کم ہو گیا ہے۔مثال کے طور پر یہ بہاؤ 1932 میں ایک لاکھ پانچ ہزار ملین کیوبک میٹرز تھا جو 1970 تک صرف 43 ہزار ملین کیوبک میٹرز رہ گیا اور 90 کی دہائی تک اس کا حجم صرف 12300 ملین کیوبک میٹرز تک محدود ہو گیا۔
پنجاب میں کئی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ہر سال سمندر میں بہت سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ سندھ کا دعوی ہے کہ ڈیلٹا میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں مچھلیوں کی پیداوار میں 70 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے جبکہ زرعی زمینوں میں سمندر کے پانی کے داخل ہونے کی وجہ سے پانچ لاکھ ایکڑ سے لے کر 35 لاکھ ایکڑز تک ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور دوسرے سندھ کے علاقوں کی زمین متاثر ہوئی ہے۔
پانی پر تاریخی معاہدےسندھ کا دعوی ہے کہ تاریخی قانونی معاہدوں کی روشنی میں دریائے سندھ پر کوئی بھی تعمیر سندھ کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ۔ ان کی حجت ہے کہ سندھ کو یہ اختیار بین الاقوامی قوانین کے تحت حاصل ہے اور یہ کہ تاریخی طور پر بھی ایسے معاہدے ہیں جس کئی شقیں پنجاب کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ دریائے سندھ پر کوئی بھی تعمیر یا آبی ذخائر کے منصوبے پر سندھ کی اجازت کے بغیر کام کرے۔
مثال کے طور پر تقسیم ہند سے پہلے جب مشرقی پنجاب میں دریائے ستلج پر بھاکڑا ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی، تو سندھ نے اس پر اعتراض کیا، جس پر ہندوستان میں نو آبادیاتی برطانوی حکومت نے 1901 میں انڈیا ایریگیشن کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن نے پنجاب کو حکم دیا کہ وہ دریائے سندھ پر کسی بھی پروجیکٹ کے لیے سندھ کی رضامندی حاصل کرے۔ 1919 میں حکومت کی طرف سے کاٹن کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا مقصد پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کے تنازعات پر بات چیت کرنا تھی، 1919 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ سندھ پنجابپانی کے تنازعہ کے حوالے سے کوئی کلیدی کردار وائسرآئے آف انڈیا کے علاوہ کسی کا نہیں ہو گا۔
سندھ کے ماہرین 1935 کے انڈیا ایکٹ کی 130 اور ایک سو اکتیس کی ذیلی دفعہ چھ کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ مشترکہ پانی کے استعمال کے حوالے سے کسی ایک صوبے کو فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا۔
برطانوی ہند کی حکومت کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے راؤ کمیشن، جس کی سربراہی سر بی ڈبلیو راؤ نے کی تھی، جو اُس وقت کلکتہ ہائی کورٹ کے جج تھے اور بعد میں عالمی عدالت انصاف کے بھی جج بنے، نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پہ لکھا اگر کسی بڑے دریا کا ہیڈ واٹرز کسی مخصوص صوبے میں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس میں سے جتنا چاہے پانی نکال لے اور دوسرے صوبے یا ریاستوں کو صحرا میں تبدیل کر دے۔
پنجاب اور آج کی آبی ضروریاتتاہم پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ تاریخی معاہدوں پر بحث کرنے کے بجائے سندھ کو پاکستان کے موجودہ آبی ذخائر کی ضروریات کو سمجھنا چاہیے۔ ان کا دعوی ہے کہ انڈس بیسن اریگیشن سسٹم دنیا کی سب سے بڑی انفراسٹرکچرل انٹرپرائز ہے، جس مییں کئی عشروں کے دوران 300 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
اور اس سے پاکستان کو تقریبا 18 بلین ڈالرز کے قریب کا فائدہ ہوا ہے، جو پاکستان کے جی ڈی پی کے تقریبا 21 فیصد کے برابر ہے۔جولائی 2023 کی واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے آبی ذرائع سے اس برس کے سیزن کے ایک مرحلے پر سات ہزار میگا واٹس سے بھی زیادہ بجلی پیدا کی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کی اس پیداواری صلاحیت کی وجہ سے 60 اور 70 اور بعد کے کچھ عشروں میں صنعت کو زبردست فروغ ہوا اور یہ ڈیم اور دوسرے آبی ذخائر کے بغیر بالکل ممکن نہیں تھا۔
پنجاب کا دعوی ہے کہ پاکستان کو مستقبل کے چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے کالا باغ ڈیم سمیت کئی دوسرے آبی ذخائر کے پروجیکٹس پر کام کرنا چاہیے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی توانائی کے مانگ کو پیش نظر رکھتے ہوئے، پاور جنریشن کیسے کی جائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب جرمنی اور اسکاٹ لینڈ سورج کی روشنی سے اچھی خاصی بجلی پیدا کر سکتے ہیں، تو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، جہاں سورج کی اچھی خاصی روشنی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ونڈ انرجی جنریشن کا بھی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔بڑے ڈیموں کی جگہ پاکستان کو فلڈ اریگشن سسٹم کی ختم کر کے اس کی جگہ اسپرنکل یا چھڑکاؤ کے طریقہ آبپاشی کو اپنانا چاہیے، جس سے پانچ ملین ایکڑز فیٹ پانی کی بچت ہو سکتی ہے، جو کسی بڑے ڈیم کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کے تقریبا برابر ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا دعوی ہے کہ اور دوسرے ماہرین کا کی وجہ سے پانی کے سندھ کی سندھ کے کے لیے
پڑھیں:
دریائے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بند ٹوٹ گئے، دیہات زیرِ آب
امتیاز رضا,عمران جوئیہ: دریائے سندھ میں درمیانے درجے کے سیلاب نے سندھ کے مختلف علاقوں میں تباہی مچا دی۔ کندیارو اور منجھوٹ میں متعدد زمینداری بند ٹوٹ گئے، جس کے نتیجے میں تیز بہاؤ کے ساتھ پانی قریبی دیہات اور زرعی زمینوں میں داخل ہو گیا۔
گاؤں غلام نبی بروہی میں کئی فٹ پانی جمع ہو گیا، جس کی وجہ سے علاقہ بیرونی دنیا سے کٹ گیا کیونکہ سڑکوں کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ متعدد دیہاتوں کے مکین خود نقل مکانی پر مجبور ہیں جبکہ کئی لوگ تاحال اپنے گھروں میں محصور ہیں۔بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث علاقے کے رہائشیوں کا سامان بھی زیرِ آب آ گیا ہے۔ مقامی انتظامیہ تاحال محصور افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان سے ایران جانیوالے زائرین کو اغوا کروانے والے نیٹ ورک کا کارندہ گرفتار
دوسری جانب، اوباڑو میں شدید بارشوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا جہاں تیار کپاس کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ لاکھوں روپے مالیت کے نقصان سے کسان برادری شدید مشکلات کا شکار ہے۔سیلاب کی اس آفت نے دیہاتیوں کو اپنے خاندانوں اور سامان کی حفاظت کے لیے جدوجہد پر مجبور کر دیا ہے۔ متاثرین نے حکومت سے فوری مداخلت اور امداد کی اپیل کی ہے۔
ادھر دریائے ستلج میں پانی کی سطح کم ہونے کے باوجود عارفوالا اور قبولہ کے متاثرین کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پاکستان کسان اتحاد کے صوبائی صدر کے مطابق، فصلوں کی تباہی کے بعد کسان شدید مالی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ ان کی جمع پونجی سیلاب میں بہہ گئی ہے اور اب ان کے لیے مستقبل میں کھیتی باڑی کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
تقریبا 15 ہزار شہریوں کی جیبیں کٹ گئیں
کسان رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر فوری مالی امداد فراہم کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ گھریلو صارفین کے زرعی ٹیوب ویل کے بجلی کے بل بھی معاف کیے جائیں۔