انٹارکٹیکا کے پینگوئنز بھی ٹرمپ ٹیرف متاثرین میں شامل
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
ہیرڈ اور میکڈونلڈ جزائر، جہاں کوئی مستقل رہائشی نہیں ہے، اب امریکا کی ٹیرف لسٹ میں شامل ہو چکے ہیں۔ انٹارکٹیکا کے قریب واقع دور دراز، غیر آباد آتش فشانی جزائر، جو پینگوئنز کا مسکن ہیں، اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وسیع تجارتی ٹیرف کے تحت آ چکے ہیں، جس سے ان علاقوں کے بارے میں الجھن اور مذاق کی سی کیفیت ہے کیونکہ یہاں نہ تو کوئی آبادی ہے اور نہ ہی یہاں کی کوئی ریکارڈ شدہ برآمدات ہیں۔
ہیرڈ جزیرہ اور میکڈونلڈ جزائر، جو ایک گلیشیر سے ڈھکے ہوئے آسٹریلیشین خارجی علاقے ہیں، جو صرف پرتھ سے 2 ہفتے کے بحری سفر کے ذریعے پہنچے جا سکتے ہیں، ان ممالک اور علاقوں میں شامل کیے گئے ہیں جن پر 10 فیصد ٹیرف کی شرح عائد کی گئی ہے، جیسا کہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے شائع کی گئی فہرست میں ذکر کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف وار: عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گر گئیں
یہ جزائر، جن میں کوئی مستقل رہائشی نہیں ہیں اور آخری بار انسانوں نے ان کا دورہ قریباً ایک دہائی پہلے کیا تھا، آسٹریلیا سے الگ فہرست میں شامل کیے گئے ہیں، ساتھ ہی دیگر آسٹریلیشین خارجی علاقے جیسے کہ کوکوس (کیلنگ) جزائر، کرسمس جزیرہ، اور نارفولک جزیرہ بھی شامل ہیں۔
آسٹریلوی وزیر اعظم اینتھونی ایلبانیز نے ٹیرف پر طنزیہ ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
نارفولک جزیرہ، جہاں قریباً 2,200 رہائشی ہیں پر زیادہ سخت 29 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ حالانکہ امریکا کے ساتھ اس کی تجارت محدود ہے۔ اس جزیرے کے منتظم، جارج پلانٹ نے سرکاری اعداد و شمار کو مسترد کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے 2023 میں امریکا کو 650,000 امریکی ڈالر مالیت کے سامان برآمد کیے تھے، جن میں 413,000 امریکی ڈالر مالیت کے چمڑے کے جوتے بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نارفولک جزیرہ سے امریکا کو کوئی معروف برآمدات نہیں ہیں اور نہ ہی وہاں آنے والے سامان پر کوئی ٹیرف یا غیر ٹیرف تجارتی رکاوٹیں ہیں۔
مزید پڑھیں: مشہور برطانوی مصنف جیمی اولیور کو اپنی نئی کتاب واپس کیوں لینا پڑی؟
ہیرڈ اور میکڈونلڈ جزائر کے لیے برآمدات کے اعداد و شمار اور بھی زیادہ الجھاؤ کا باعث بنے۔ ورلڈ بینک نے 2022 میں امریکا کو 1.
تجارتی ماہرین اور مبصرین نے اعداد و شمار کی درستگی اور اتنی دور دراز جگہوں کو ہدف بنانے کے پیچھے کی منطق پر سوالات اٹھائے۔ ایلبانیز نے کہا کہ ان علاقوں کو ٹیرف میں شامل کرنا، ٹیرف لسٹ کی بے ترتیب وسعت کی عکاسی کرتا ہے۔ آسٹریلوی وزارت خارجہ و تجارت، آسٹریلوی انٹارکٹک ڈویژن، اور وائٹ ہاؤس نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انٹارکٹیکا پینگوئنز ٹرمپ ٹیرف میکڈونلڈ جزائر ہیرڈذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پینگوئنز ٹرمپ ٹیرف ہیرڈ
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔