سعود شکیل اگر چیئرمین پی سی بی بنے تو کون سا بڑا فیصلہ کریں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
کراچی:
قومی ٹیم کے ٹیسٹ کرکٹر سعود شکیل نے پی سی بی پر طنز کرتے ہوئے مستقل کوچ کی تقرری کا مطالبہ کر دیا۔
ایک انٹرویو میں پاکستان کرکٹ بورڈ پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے سعود شکیل نے کہا کہ اگر وہ چیئرمین بنے تو سب سے پہلے تین سال کے لیے مستقل کوچ مقرر کریں گے۔
سعود شکیل کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب پاکستانی کوچنگ اسٹاف میں غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مورکل، گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی عہدوں سے الگ ہو چکے ہیں۔ پی سی بی کے انتظامی امور میں عدم استحکام پر مسلسل تنقید کی جا رہی ہے جبکہ میدان میں بھی ٹیم کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی۔
ہیملٹن میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں نیوزی لینڈ نے گرین شرٹس کو 84 رنز سے شکست دے کر سیریز 0-2 سے اپنے نام کر لی۔
اب کیویز ہفتے کے روز ماؤنٹ مانگونئی کے تیسرے ون ڈے میں فتح سے کلین سویپ کی کوشش کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سعود شکیل
پڑھیں:
امریکا بھارت شکر رنجی مستقل یا عارضی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک ائر پورٹ پر غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے ایک بھارتی شہری کی ویڈیو نے بھارتیوں کی عزت اور انا کو زخمی کر دیا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد بھارتی شہری کو یوں ڈیپورٹ کیا جا رہا ہے کہ نیویارک ائرپورٹ پر خطرناک مجرموں کے انداز میں اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں اور اسے زمین پر لٹادیا گیا ہے۔ یہ شخص بے بسی اور دل شکستگی محسوس کر رہا ہے اور حقیقت میں یہ دل شکستگی بھارت کی ریاست اور نظام کے لیے ایک پیغام رکھتی ہے جو خود کو دنیا کی ممتاز اور نمایاں تہذیبوں اور معیشتوں میں شمار کرنے لگا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس تصویر سے بھارت میں ایک بھونچال سا آگیا اور مودی کی پالیسیوں پر اپوزیشن کی تنقید کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کہا گیا کہ نیویارک میں بھارت کا قونصل خانہ امریکی حکام سے رابطہ رکھے ہوئے ہے۔ فرش پر گرے ہوئے بھارتی شہری کے اس انداز میں بھارت کے لیے جو پیغام مستور تھا وہ بھارتیوں تک اچھی طرح پہنچ گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد ایسے مناظر صرف پاکستانیوں کے لیے مختص ہوا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ اس وقت مغرب کے خیال میں پاکستان ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ ابھی اس تصویر کے آفٹر شاکس جاری ہی تھے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ٹیمی بروس کی پریس کانفرنس میں ایک بھارتی صحافی ان سے بار بار ایک ہی سوال پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ٹیمی بروس اس سوال کا جواب دینے سے گریز کر رہی تھیں جب بھارتی صحافی کا اصرار بڑھ گیا تو ٹیمی بروس نے درشت لہجے میں کہا آپ چپ نہ ہوئے تو باہر نکال دیے جاؤ گے۔ یہ اور اس نوعیت کے معمولی قسم کے واقعات گزشتہ دو دہائیوں میں امریکا اور بھارت کے تعلق کے تناظر میں قطعی عجیب اور مختلف ہیں۔ ایسے واقعات میں جھڑکنے اور جھٹکنے کا انداز نمایاں اور بہت واضح ہورہا ہے اور امریکا ان واقعات کی ذریعے اپنے سے دوری اختیار کرنے والوں کی رسی کھینچتا ہے۔
پاکستان اور امریکا کا دوعشروں کا تعلق ایسے لاتعداد واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ یوں بھارت اور امریکا کے درمیان رشتوں کے تالاب میں ایک ارتعاش سا واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ترک تعلقات کی حقیقی کہانی سے زیادہ شکر رنجی ہے۔ دوستوں میں پیدا ہونے والی بدگمانی اور عارضی رنجش ہے جس کا تعلق نریندر مودی کے اس حرف ِانکار سے ہے جو انہوں نے سفید فاموں کی مقدس جنگ قرار پانے والی یوکرین کی لڑائی میں عملی شرکت کے حوالے سے کیا تھا۔ اس لڑائی کو مقدس لڑائی کا نام روسی حملے کے وقت برطانوی وزیر خارجہ نے دیا تھا اور انہوں نے اس کے لیے دنیا بھر سے رضاکار بھرتی کرنے کا اعلان تھا۔ جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ممالک پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں اچانک ایک سو اسی زاویے کی تبدیلی آگئی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے بھارت امریکا کا لاڈلہ اور ان کی آنکھ کا تارہ تھا۔ دنیا میں صرف دو ہی ممالک امریکا کے اسٹرٹیجک پارٹنر کے حقدار قرارپائے ان میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ پہلی بار بھارت بھی شامل ہوگیا۔ پاکستان نے لاکھ کوشش کی کہ امریکا اسے اسٹرٹیجک پارٹنر کا مستحق جانے یا زبان سے اسے محض شراکت دار ہی قرار دے مگر امریکا نے اس خواہش کو جھٹک دیا۔ پاکستان نے یہ کوشش بھی کی امریکا اسے بھارت چین اور افغانستان کی عینک سے دیکھنے کے بجائے پاکستان کی اپنی تزویراتی، جغرافیائی اور معدنی عینک سے دیکھے مگر امریکا نے اس خواہش کو کبھی پزیرائی نہیں بخشی۔ ایک وقت ایسا آیا جب بھارت کا تکبر اس قدر بڑھ گیا کہ اس نے امریکا سے فرمائش کی کہ اب انڈوپاک کی اصطلاح کے ذریعے بھارت کا نام پاکستان کے ساتھ نہ لیا جائے تو امریکا نے پاکستان کا نام بھارت کے ساتھ نہ لیے جانے کا سامان افغانستان کے ساتھ لینے کا سامان کیا اور افپاک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ تب مغرب کو بھارت کے مجروح چہرے میں اپنا چہرہ نظر آرہا تھا۔ انہیں بھارت کا ہر دکھ اپنا محسوس ہو رہا تھا اور بھارت کا ہر دشمن اپنا دشمن دکھائی دے رہا تھا۔ اس یارانے کو عملی طور پر پرکھنے کا موقع آنا ابھی بہت دور تھا۔
امریکا اور مغرب بھارت کے غبارے میں چین کے مقابلے کے لیے ہوا بھر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب چین کو جنوبی چین کے جزائر یا شمالی سمت سے سی پیک وغیرہ کی طرف گھیرنے کی ضرورت پیش آئے گی تو بھارت اس ضرورت کی تکمیل کا قائد اور سفر کا میر ِکارواں ہوگا۔ یہ تو صدر پیوٹن نے یوکرین پر چڑھائی کر دی کہ چین سے پہلے ہی مغرب کی پنجہ آزمائی روس سے ہونے لگی اور یوں چین اور مغرب کا تصادم کچھ دور چلا گیا۔ یہاں امریکا اور مغرب نے ایک بار پھر دنیا کے ممالک کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنا ہم نوا بنانے کے لیے نائن الیون کی طرح کا اوبجیکٹیو ٹائپ سوال پوچھنا شروع کیا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا روس کے ساتھ؟۔ جس نے اس سوال کا مغرب کی سوچ وفکر سے ہٹ کر جواب دیا حالات کی بے رحم موجوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ نریندر مودی بھی اس مرحلے پر یہ جان کر غیر جانبداری کا سا انداز اپنایا کہ روس اور بھارت کے تعلقات تاریخ میں بہت گہرے ہیں۔ بھارت سرد جنگ کے پورے عرصے میں غیر جانبدار تحریک کے نام پر حقیقت میں سوویت یونین ہی کا مددگار رہا تھا۔ مودی یہ بات فراموش کر گئے کہ ان کی ذات، مذہب یا کسی خوبی کی وجہ سے مغرب اس پر مہربان نہیں رہا بلکہ یہ مہربانی مشکل اور ضرورت کے وقت میں کام آنے سے مشروط ہے۔ یوکرین کی جنگ میں ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ نریندر مودی کے فاصلہ اپنانے کی روش نے مغرب پر یہ بات ثابت کر دی کہ وہ جس بھارت پر اور جس امید پر بھروسے، اعتماد، امکانات کی سرمایہ کاری کیے جارہے ہیں وہ تو مشکل وقت میں نظریں پھیر سکتا ہے۔ جو بھارت روس کے خلاف اپنا کندھا پیش نہیں کر سکتا وہ چین کے خلاف حسب ِ ضرورت کیا کام آئے گا؟۔ یہاں سے بھارت اور مغرب کے درمیان شکر رنجی کا آغاز ہوا۔
نریندر مودی کے کچھ حامی سمجھتے ہیں کہ بھارت کے انتخابات میں نریندر مودی ’’رجیم چینج‘‘ کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ ان انتخابات میں مغربی ابلاغی اداروں کا رجحان راہل گاندھی کی طرف صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا مگر ایک بڑی شرط جیتنے کے لیے کانگریس ایک کمزور گھوڑا ثابت ہوئی اور ساتھ ساتھ ہی نریندر مودی دو تہائی اکثریت کے خوابوں اور سحر سے نکل کر عملی طور پر دو اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر آگئے۔ مغرب اور بھارت کے تعلقات میں یہ ارتعاش ایک عارضی کیفیت ہے۔ ماضی میں بھی دونوں کے تعلقات کی کشتی اس وقت تک خوب ہچکولے کھاتی رہی جب تک بھارت نے اپنی منڈیاں امریکا کے لیے کھولی نہ تھیں۔ امریکا کی کشمیر پر دلچسپی ہمہ پہلو تھی۔ خالصتان میں بھی ان کی دلچسپی مستور اور ملفوف انداز میں جاری تھی۔ اس کے علاوہ بھارت کے کمزور مقامات اور کمزور لمحات پر مغربی ممالک چوٹ لگانے سے نہیں چوکتے تھے۔ گزشتہ دہائیوں میں فرینک وزنر، رابرٹ اوکلی، اسٹیفن سولارز، مسز رابن رافیل، میڈلین البرائٹ اور نجانے سفارت کاری اور قانون سازی کی دنیا کے لاتعداد امریکی ماہرین کشمیر سمیت جنوبی ایشیا کے کئی معاملات میں بھارت کی کلائی مروڑتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر یہ معاملہ اس وقت اْلٹ گیا جب بھارت نے امریکا کے لیے اپنی منڈیاں کھول دیں اور پھر نوبل پیس پرائز اور مس ورلڈ کے انعامات اور اکرامات اچانک بھارت پر برسنے لگے۔ یوں لگ رہا تھا کہ مغرب کے کولمبس کو امریکا کی طرح ایک اور دنیا مل گئی ہو۔ نوبل پیس پرائز اور مس ورلڈ کی برسات سے بھارت کا ایک نیا نیک نامی اچھی شہرت پر مبنی امیج اْبھارنا مقصود تھا۔ بھارت نے اس پالیسی سے جم کر فائدہ اْٹھایا اور آج بھارت کے شہری کو ہتھکڑی پہنا کر زمین پر لٹانے میں اپنی ہی بنائے ہوئے بھارتی امیج پر بدنامی کی ہلکی سی لکیریں پھیرنا ہے۔ چونکہ حقیقت میں نہ ضرورتیں بدلی ہیں اور نہ سوچ کے انداز اور نہ ہی مستقبل کے خطرات کے خود تراشیدہ سائے تو ایسے میں یہ بدلی ہوئی پوزیشنیں عارضی ہیں۔ جونہی بھارت نے ’’ہاں‘‘ کر دی پرانا منظر بحال ہونے میں لمحوں کی تاخیر نہیں ہوگی۔