اسلام آباد: وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ “بجلی کے شعبے میں بڑی اصلاحات کی ہیں، انہوں نے 3,696 ارب روپے کی بچت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ریلیف عوام کو ملے گا۔
وفاقی دارالحکومت میں میڈیا نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن اویس لغاری نے بجلی کے شعبے سے متعلق کئی اہم اقدامات اور چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ 36 آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات سے 3,696 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے، جو آنے والے سالوں میں صارفین کے لیے ریلیف کا باعث بنے گی۔
انہوں نے بتایا کہ بجلی کے شعبے کا سب سے بڑا چیلنج پیداواری لاگت ہے، جس میں ٹیرف میں اضافے اور 2,400 ارب روپے کے گردشی قرضے نے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ اسی طرح ڈسکوز کی ناقص کارکردگی اور کوآرڈینیشن کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جب کہ بجلی کی طلب میں مسلسل کمی بھی شعبے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ ٹرانسمشن لائنز کے نقصانات کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں 1 سے 2 روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ ان نقصانات کو کم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 1.

89 کروڑ صارفین (جو 100 یونٹس تک استعمال کرتے ہیں) کے لیے بجلی کی قیمت میں 6 روپے 14 پیسے کمی کی گئی ہے جبکہ مجموعی طور پر ان کے نرخوں میں 56 تک کمی کی گئی ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ 6 سال کے اندر گردشی قرضے کو ختم کر دیا جائے گا اور آئندہ سالوں میں اسے زیرو پر لایا جائے گا۔تمام بجلی کے میٹرز کو آٹومیٹڈ سسٹم سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح آئیسکو، فیسکو اور گیپکو کی نجکاری کا عمل جاری ہے، جبکہ دوسرے مرحلے میں لیسکو، میپکو اور ہزیکو کی نجکاری کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 27,000 ٹیوب ویلز کو 7 ماہ میں سولر انرجی پر منتقل کر دیا جائے گا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت چائنیز پلانٹس میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار پر توجہ دی جائے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جولائی سے دسمبر تک ڈسکوز کے نقصانات کا ہدف 303 ارب روپے تھا، لیکن 145 ارب روپے کی بچت کرتے ہوئے نقصانات 158 ارب روپے تک محدود رہے۔گردشی قرضے کے شعبے میں 9 ارب روپے کی بچت کی گئی ہے۔
بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ ہم مہنگی بجلی خریدنے کے بجائے مستقبل کے لیے پائیدار حل تلاش کر رہے ہیں۔ 10 سالہ الیکٹرک پالیسی کے تحت بجلی کے شعبے کو مستحکم کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کمی یا اضافے کا ابھی سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں جون تک کیا صورتحال ہوگی دیکھنا ہوگا۔ بذریعہ ریگولیٹر ہی تمام امور انجام دہیے جاتے ہیں کام حکومت کرتی ہے۔ 7 روپے 41 پیسے کا جو ریلیف دیا گیا ہے یہ بنیادی ٹیرف میں بھی شامل ہے۔ بنیادی ٹیرف کے بارے میں فل الحال کوئی پیشنگوئی نہیں کرسکتا۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

’’بندر کے ہاتھ ماچس لگ گئی‘‘ پنجاب میں گندم بحران پر مشیر خزانہ پختونخوا کا ردعمل

پشاور:

مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے پنجاب اور ملک میں جاری گندم بحران پر سخت ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ  بندر کے ہاتھ ماچس لگ جائے تو پورے جنگل کو آگ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اس مثال کو وزیراعلیٰ پنجاب کی ٹک ٹاک پالیسیوں پر فٹ قرار دیا۔

مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کسانوں کی کمر توڑ دی، جس کے باعث رواں سال گندم کی پیداوار تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کو 3 سے 4 ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی، جس سے معیشت پر مزید دباؤ بڑھے گا۔

صوبائی مشیر کا کہنا تھا کہ ملک میں کسانوں کو 900 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے، جن میں صرف پنجاب کے کسانوں کا نقصان 600 ارب روپے سے زائد ہے۔

انہوں نے ڈراما تھیٹر ریگولیٹر عظمیٰ بخاری پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وہ کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے دوبارہ میدان میں آئی ہیں۔ عظمیٰ بخاری کی جانب سے کسانوں کو فی ایکڑ 5000 روپے دینے کے اعلان پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس رقم سے تو کھاد کی ایک بوری بھی نہیں آتی۔ یہ امداد کسانوں کی 3 دن کی مزدوری کے برابر بھی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت نے صرف 500 کے لگ بھگ ٹیوب ویلز کو سولر سسٹم پر سبسڈی دی، مگر جب کسانوں نے قیمتیں دیکھیں تو نہ سولر سسٹم خریدا اور نہ ٹریکٹر لیا۔ کل سبسڈی 11.5 ارب روپے ہے جب کہ کسانوں کا نقصان 600 ارب روپے ہے، جو کہ ایک واضح تضاد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ زیادہ گندم اگانے والوں کے لیے صرف 10 کروڑ روپے کی انعامی اسکیم رکھی گئی، جبکہ گندم کا ریٹ اگر ایک روپیہ فی من بھی بڑھے تو وہ 50 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ مشیر خزانہ نے الزام لگایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے مڈل مین کے ذریعے اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا۔

مزمل  اسلم نے کہا کہ فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈرز کو سود سے پاک اربوں روپے کا قرض دیا گیا اور گودام کرایے کی ادائیگی کا وعدہ بھی انہی کے لیے کیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب خود اعتراف کر چکی ہیں کہ جب قیمت بہتر ہو جائے تو گندم بیچ دینا، یعنی کم قیمت کا بیانیہ صرف کسان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ جلد خیبرپختونخوا حکومت کسانوں کے لیے خوشخبری لے کر آئے گی۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال خیبرپختونخوا حکومت نے پہلی بار براہ راست کسانوں سے گندم خریدی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • عوام اسرائیلی مصنوعات سے بائیکاٹ کرکے اپنا حق ادا کریں، انجمن تاجران بلوچستان
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • وفاقی حکومت ناکام ہوچکی کے پی میں حکومت کی رٹ ہی نہیں ہے، فضل الرحمان
  • کسان اتحاد کا آئندہ سال گندم کی کاشت میں بڑی کمی لانے کا اعلان
  • پاکستان کا دورہ کرکے جانیوالے امریکی رکن کانگریس کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہ
  • چکن کی قیمتیں عام شہری کی پہنچ سے باہر ، عوام کو اربوں روپے کا نقصان
  • پولیس کو دھمکیاں دینے کا کیس؛ عالیہ حمزہ کو عدالت سے ریلیف مل گیا
  • ’’بندر کے ہاتھ ماچس لگ گئی‘‘ پنجاب میں گندم بحران پر مشیر خزانہ پختونخوا کا ردعمل
  • بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا صارفین کو بلوں میں اربوں روپے کاریلیف دینے کافیصلہ 
  • پنجاب کے کسان کی بات کرنے والوں کو سندھ نظر نہیں آتا: عظمٰی بخاری