بجلی مزید 1.71 روپے فی یونٹ سستی کرنے کی درخواست پر نیپرا میں سماعت
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
اسلام آ باد:
ملک میں بجلی کی قیمت میں مزید کمی کے لیے حکومت کی درخواست پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو گیا۔
نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار کی سربراہی میں ہونے والی سماعت میں بجلی ایک روپے 71 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کی درخواست پر سماعت کی جا رہی ہے۔پاور ڈویژن کے حکام کے مطابق حکومت نے یہ درخواست کابینہ سے منظوری کے بعد نیپرا میں جمع کرائی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کے الیکٹرک سمیت بجلی تقسیم کار تمام کمپنیوں پر اس کمی کا یکساں اطلاق کیا جائے۔
حکام کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت میں یہ ممکنہ کمی ٹیرف سبسڈی میں اضافے کے ذریعے کی جائے گی، تاکہ صارفین کو براہِ راست ریلیف مل سکے، تاہم پاور ڈویژن حکام نے واضح کیا کہ یہ کمی صرف عام صارفین کے لیے ہوگی اور لائف لائن یعنی کم ترین بجلی استعمال کرنے والے کم آمدنی والے صارفین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
نیپرا کی سماعت میں حکومت کی درخواست پر فریقین کا مؤقف سنے جانے کے بعد بجلی کی قیمت میں 1.
یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے بجلی کی قیمتوں میں 7 روپے 41 پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا تھا، جس کا اطلاق ملک بھر کے تمام صارفین کو ہوگا۔ اسی طرح صنعتوں کے لیے بجلی بجلی کی قیمت میں بڑی کمپنی کا اعلان کیا گیا ہے۔
پاور ڈویژن حکام کے مطابق 3 ماہ کے لیے صارفین کو بلز میں ریلیف ملے گا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے سے 58 ارب کی بچت ہوگی۔ 3ماہ میں اس کا ریلیف ٹیرف میں فرق ختم کرکے صارفین کو دیں گے۔
حکام نے نیپرا سماعت میں بتایا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں 12ارب 5 آئی پی پیز کے معاہدوں کی بچت کے شامل ہیں۔ سرکلر ڈیٹ کے معاملے پر بینکوں سے بات چیت جاری ہے، جسے جلد فائنل کرلیا جائے گا۔ آئی پی پیز سے بچت کا سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں ہی ریلیف ملے گا۔
نیپرا سماعت میں پاور ڈویژن حکام نے بتایا کہ ٹیرف میں فرق کو کم کرنے کے لیے وفاقی حکومت 266ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ مزید ٹیرف میں فرق کی سبسڈی شامل کرکے رقم 324ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔
حکام کے مطابق ریلیف کوارٹر ایڈجسٹمنٹ کی مد میں یا ری بیسنگ کی مد میں دیا جا سکتا ہے۔ 5آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات سے 12 ارب روپے کا فائدہ ہواجو عوام کو دے رہے ہیں۔ ہمارے 32 آئی پی پیز سے مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں۔ نیپرا میں 7آئی پی پیز کی سماعت ہو چکی ہے۔
پاور ڈویژن حکام نے بتایا کہ عوام کو تمام ریلیف کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے دیا جائے گا۔ سرکلر ڈیٹ کے حوالے سے جیسے کوئی پیش رفت ہوعوام کو ریلیف دیا جائے گا۔
چیئرمین نیپرا نے سماعت کے دوران کہا کہ کل کوارٹرلی ایڈجسمنٹ کی مد میں ریلیف دیا ہے۔ ایف سی اے کی مد میں ایک روپے 36پیسے کی کمی کی گئی ہے۔ ایک روپے 71 پیسے پر سماعت کر رہے ہیں۔ عوام کو 5روپے 3یا 4پیسے کا فوری ریلیف مل جائے گا ۔ تیسری کوارٹر ایڈجسٹمنٹ کی درخواست اپریل کے دوسرے ہفتے آنا شروع ہو جائے گی۔
بعد ازاں ملک بھر کے لیے بجلی ایک روپے 71 پیسے سستی کرنے پر نیپرا نے سماعت مکمل کر لی۔ اتھارٹی اعدادوشمار کاجائزہ لینےکے بعد فیصلہ جاری کرے گی۔
پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی اعلان کردہ قیمت میں کمی معاشی صورتحال سے مشروط ہے۔ معاشی صورتحال بہتررہنے تک صارفین کو ریلیف ملتا رہے گا۔ اس وقت سالانہ ری بیسنگ نہیں ہوسکتی اس لیے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت ریلیف دیاجارہا۔
Tagsپاکستان
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان بجلی کی قیمت میں پاور ڈویژن حکام کی درخواست پر صارفین کو کی مد میں ایک روپے فی یونٹ جائے گا حکام نے پی پیز کے لیے
پڑھیں:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
آواز
ایم سرور صدیقی
وفاقی حکومت نے جناتی اندازکا نیا بجلی کا سلیب سسٹم جاری کردیاہے جوطلسم ِ ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ سمجھ نہیں آتی اشرافیہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی ہے؟ شاید عوام کو چکر پہ چکر دینامقصودہے کہ عام آدمی سکھ کا سانس بھی نہ لے پائے ۔کہا یہ جارہاہے کہ بجلی ٹیرف کا پہلے جو 200 یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑھا کر 300 یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے یعنی مرے کو مارے شاہ مدار۔بجلی ٹیرف کے پرانے نظام میںپہلے 100 یونٹس پر ریٹ 9 روپے فی یونٹ تھا ۔اس کے بعد کے یونٹس (100) پر ریٹ ہوتا تھا 13 روپے فی یونٹ اور اگر آپ کا بل 200 یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو صارفین کو 34 روپے فی یونٹ کا اضافی ادا کرناپڑتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط عائد تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200 یونٹ سے کم پر آ جائیں تو صارفین کے بجلی کاریٹ واپس 9 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتا تھا۔ مطلب اگر کوئی صارف کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔ اب جناتی اندازکے نئے بجلی کے سلیب سسٹم میں 1 یونٹ سے لے کر 300 یونٹس تک کا ریٹ سیدھا 33 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے(ہور چوپو)صاف صاف ظاہرہے اب کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا کوئی 6 مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا ۔جو صارف پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200 یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا۔ اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ ہے کہ 300 یونٹ کے نام پر عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکا دیا گیا ہے کہ 300 یونٹ تک رعایت ہے لیکن حقیقتاً اب سب صارفین کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6 مہینے بعد سستے ریٹ کی اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے یہ تو سراسر عوام کے ساتھ زیادتی ہے، سنگین مذاق ہے، اور معاشی قتل کے مترادف ہے اس لئے حکمرانوںکا مطمح نظرہے کہ بھاری بل آنے والے پرجو کم وسائل، غریب اور مستحقین ہے وہ خودکشی کرتے ہیں تو کرتے پھریں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔صارفین کو اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔واپڈا کے ” سیانوں” نے عوام کو ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے ۔یہ پہلے سے بھی بڑا ظلم ہے ۔اس پر کون آواز اٹھائے گا کوئی نہیں جانتا ۔دوسری طرف بجلی بلوں کی تقسیم کا نیا نظام رائج کرتے ہوئے حکومت نے خسارے میں چلنے والے محکمہ پاکستان پوسٹ کو اہم ذمے داری سونپ دی گئی ملک بھر میں بجلی بلوں کی پرنٹنگ اور تقسیم کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے بل اب پاکستان پوسٹ کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ابتدائی مرحلے میں یہ نظام آزمائشی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ ہر ڈسکوز کے ایک سب ڈویژن میں پاکستان پوسٹ کا عملہ بجلی بل تقسیم کرے گا۔ پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں اسے مرحلہ وار پورے ملک تک توسیع دی جائے گی۔ آئندہ چھ ماہ میں بلوں کی مکمل تقسیم کا نظام پاکستان پوسٹ کے حوالے کر دیا جائے گا، جبکہ حتمی مرحلے میں بجلی بلوں کی چھپائی کا عمل بھی پاکستان پوسٹ انجام دے گا۔ اس نئے نظام کے نفاذ کے سلسلے میں تمام ریجنل پوسٹ ماسٹر جنرلز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ عملہ پیشگی تیاری کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں کے الیکٹرک کے ساتھ بھی بجلی بلوں کی تقسیم کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔یہ اقدام بلوں کی بروقت ترسیل، شفافیت اور لاگت میں کمی کے لئے حکومت کی ایک بڑی اصلاحاتی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔بہرحال یہ تو انتظامی ترجیحات ہیں لیکن بجلی کے بلوںکے حوالے سے عوام کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے پوری دنیا میں ایسا ناروا سلوک کوئی حکومت اپنے ہم وطنوں کے ساتھ نہیں کررہی شاید اسی بناء پرایک مہینے کے دوران نیا ریکارڈ قائم ہواہے۔ صرف مئی میں تقریباً 60 ہزار پاکستانی ملک چھوڑ گئے، بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں اپریل کے مقابلے میں 12.7 فیصد اضافہ، سال کے پہلے 5 مہینوں میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 85 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ لاکھوںپاکستانی اپنا وطن چھوڑنے پرمجبور اس لئے ہورہے ہیں کہ بجلی کے بلوںمیں ایک درجن ٹیکسز دینے کے باوجودملک میں ان کا تحفظ، سیکیورٹی نہ ہونے کے برابرہے۔ صفائی کی صورت ِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ گلی کوچوںمیں گندگی، اُبلتے گٹر وں نے الگ جینا عذاب بنارکھاہے ۔عام آدمی کے ساتھ ائیرپورٹ تھانوں اورکچہریوں میں جو سلوک ہوتاہے ،وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی عام آدمی سرکاری دفاتر میں روز ذلیل ہوتاہے۔ سڑکوں پر ٹریفک وارڈن اتنی عزت ِ نفس مجروح کرتے ہیں کہ انسان سوچتاہے اتنا بے عزت ہونے کی بجائے خودکشی کرلے تو بہترہے ۔ یہی عوام (1) انکم ٹیکس (2) جنرل سیلز ٹیکس (3) کیپیٹل ویلیو ٹیکس (4) ویلیو ایڈڈ ٹیکس (5) سینٹرل سیلز ٹیکس (6) سروس ٹیکس (7) فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز (8) پیٹرول لیوی (9) ایکسائز ڈیوٹی (10) کسٹمز ڈیوٹی (11) اوکٹرائے ٹیکس (میونسپل ایریا میں سامان کے داخلے پر عائد ٹیکس) (12) ٹی ڈی ایس ٹیکس (ٹیکس ڈیڈکشن ایٹ سورس) (13) ایمپلائمنٹ اسٹیٹس انڈیکیٹر ٹیکس (ESI ٹیکس) (14) پراپرٹی ٹیکس (15) گورنمنٹ اسٹیمپ ڈیوٹی (16) آبیانہ (زرعی زمین کے پانی پر ٹیکس) (17) عشر (18) زکوٰة (بینکوں میں موجود رقم سے کٹوتی) (19) ڈھال ٹیکس (20) لوکل سیس (21) ہرقسم لائسنس کی فیس (22) دفاتر،ہسپتالوں اور کئی قسمکی پارکنگ فیس (23) کیپیٹل گینز ٹیکس (CGT) (24) واٹر ٹیکس (25) فلڈ ٹیکس (یا اللہ! معاف فرما) (26) پروفیشنل ٹیکس (27) روڈ ٹیکس (28) ٹول گیٹ فیس (29) سیکیورٹیز ٹرانزیکشن ٹیکس (STT) (30) ایجوکیشن سیس (31) ویلتھ ٹیکس (32) ٹرانزیئنٹ اوکیوپینسی ٹیکس (TOT) (33) کنجیشن لیوی لازمی کٹوتی (34) سپر ٹیکس (3 سے 4%) (35) ودہولڈنگ ٹیکسز (36) ایجوکیشن فیس (5%) کے علاوہ (a) بھاری تعلیمی فیسیں (b) اسکولوں میں عطیات (c) ہر چوراہے پر بھکاریوں کی جذباتی بلیک میلنگ کے عوض کیا ملتاہے بے عزتی، رسوائی اورہوکے اور کچیچیاں ۔لگتاہے عوام اشرافیہ کو ٹیکسز دینے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں شاید اقبال تو اس لئے کہا تھا
نہ کہیںجہاںمیں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی؟