کچھ عناصر ریڈ زون کو یرغمال بنانے پر بضد ہیں‘: بلوچستان حکومت کا بی این پی لانگ مارچ کیخلاف کارروائی کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
کوئٹہ : بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ بی این پی (مینگل) کے مجوزہ لانگ مارچ کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات موجود ہیں، جنہیں چند حالیہ واقعات نے مزید تقویت دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ کے دوران قیادت کی جانب سے کی گئی تقریر پر بھی حکومت کو تشویش ہے، جس کا جائزہ لیا گیا ہے اور اب قانونی راستہ اپنایا جائے گا۔
شاہد رند نے ہفتے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہ کہ حکومت نے اب تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اور مارچ کے شرکا سے دو مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انہیں شاہوانی اسٹیڈیم، سریاب روڈ تک آنے کی اجازت دی، لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ترجمان کے مطابق صوبے میں اس وقت بھی دفعہ 144 نافذ ہے، اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانون اپنا راستہ لے گا۔
شاہد رند کا کہنا تھا کہ بی این پی (مینگل) کے کچھ عناصر ریڈ زون کو یرغمال بنانے پر بضد ہیں، مگر حکومت قانون کے مطابق انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں مسئلہ مذاکرات سے حل ہوگا، لیکن اگر وہ ضد پر قائم رہے تو حکومت کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔
ادھر سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی (ایم) نے 6 اپریل کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، اور کارکنان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 5 اپریل تک مستونگ کے علاقے لک پاس پہنچ جائیں۔ پارٹی بی وائی سی کے تمام رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔
لانگ مارچ میں بی این پی (ایم) کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ نیشنل پارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مارچ میں شرکت کا اعلان کیا ہے، جس سے مارچ کو ایک بڑا سیاسی اجتماع تصور کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے مارچ کے شرکاء کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات سخت کر دیے ہیں۔ داخلی راستوں پر کنٹینرز کھڑے کر دیے گئے ہیں، سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، اور اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔
تاہم، نجی ٹی وی کے مطابق سیاسی اور قبائلی حلقوں کے ذریعے پسِ پردہ مذاکراتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے عید تعطیلات کے دوران اپوزیشن رہنماؤں، جیسے ڈاکٹر مالک بلوچ اور مولانا عبدالواسع سے ملاقاتیں کی ہیں۔
سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی میں یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ اگر اپوزیشن چاہے تو حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے، جس کی صدارت ڈاکٹر مالک یا اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری کو دی جا سکتی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: لانگ مارچ بی این پی مارچ کے
پڑھیں:
اسرائیل نے بربریت کی انتہا کردی؛ غزہ امدادی کشتی ضبط کرکے رضاکاروں کو یرغمال بنالیا
اسرائیلی فوج نے عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضا کار گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی کشتی کو غزہ جانے سے روک کر جبری طور پر تحویل میں لے لیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ کشتی اسرائیلی بحری ناکہ بندی کے خطرے کے باوجود غزہ کے بھوک سے موت کے منہ میں جاتے فلسطینیوں کے لیے امدادی اشیا لے کر جا رہی تھی۔ جس میں چاول اور بچوں کا فارمولا دودھ بھی شامل تھا۔
کشتی پر عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضاکار خاتون گریٹا تھنبرگ سمیت برازیل، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین، سویڈن اور ترکیہ کے شہری سوار تھے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ گریٹا اور دیگر افراد نے ایک ٹرک سے بھی کم امدادی سامان لے کر سستی شہرت کے لیے میڈیا پر ڈراما رچانے کی کوشش کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ حالانکہ اسرائیل نے صرف 2 ہفتوں میں 1,200 سے زائد امدادی ٹرک غزہ میں داخل کیے اور غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے تقریباً 1 کروڑ 10 لاکھ کھانے کے پیکیجز شہریوں تک پہنچائے ہیں۔
اسرائیلی وزرت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو امداد پہنچانے کے کئی طریقے موجود ہیں لیکن ان میں انسٹاگرام سیلفیاں شامل نہیں ہیں۔
قبل ازیں اسرائیلی فوج نے میڈلین نامی امدادی کشتی کو کھلے سمندر میں روک کر نہ صرف ضبط کرلیا بلکہ 12 رضاکاروں کو بھی غیر قانونی طور پر تحویل میں لے لیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق "میڈلین" نامی امدادی کشتی کو رضاکاروں سمیت اب اشدود بندرگاہ لے جایا جا رہا ہے، جو غزہ سے تقریباً 27 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امدادی کشتی محفوظ طریقے سے اسرائیل کے ساحل کی جانب گامزن ہے اور اس کے تمام مسافروں کو جلد ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔
اس واقعے کی فوٹیج بھی جاری کی گئی ہے جس میں اسرائیلی فوجیوں کو کشتی پر موجود کارکنوں کو سینڈوچ اور پانی فراہم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ادھر فریڈم فلوٹیلا کولیشن (FFC) نے ٹیلیگرام پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ "میڈلین" سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ انہوں نے ایک تصویر بھی پوسٹ کی ہے جس میں کارکنوں کو لائف جیکٹس پہنے اور ہاتھ بلند کیے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے مطابق یہ پُرامن سول جہاز بین الاقوامی پانیوں میں سفر کر رہا تھا جس میں کسی کے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا۔
انھوں نے اسرائیل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی حقوق کے محافظوں پر تشدد اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف ہے کہ غزہ پر بحری ناکہ بندی کا مقصد حماس کے جنگجوؤں کو اسلحہ کی فراہمی روکنا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو "انتہائی افسوسناک انتخاب" کا سامنا ہے یا تو بھوک سے مر جائیں یا خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بنیں۔
اسرائیل نے حال ہی میں تین ماہ کی زمینی ناکہ بندی کے بعد غزہ میں محدود امداد کی اجازت دینا شروع کی ہے، تاہم یہ امداد اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن" کے ذریعے تقسیم کی جا رہی ہے، جس پر کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعتراض کیا ہے۔
یاد رہے کہ 2010 میں اسرائیلی کمانڈوز نے ترک جہاز "ماوی مرمارا" پر دھاوا بولتے ہوئے 10 ترک کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا، جو غزہ کی جانب امدادی سامان لے جا رہے تھے۔