City 42:
2025-04-25@09:29:58 GMT

صدر آصف علی زرداری  کے متعلق شاندار خبر

اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT

سٹی42:  سوشل میڈیا اور دشمن ملک کے میڈیا میں پھیلائی جا رہی فیک نیوز کے طوفان کے دوران صدر آصف علی زرداری  کے متعلق شاندار خبر آ گئی ہے۔

 صدر آصف علی زرداری کے ڈاکٹر عاصم حسین نے آصف علی زرداری کی صحت سے متعلق افواہوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا، الحمدللہ صورتحال یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری کل نہیں تو پرسوں ہسپتال سے ڈسچارج ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی صحت بہت بہتر ہے۔ 

سونے کی قیمت میں ہزاروں روپے کمی

عین اس وقت جب صدر مملکت کے سارا گھرانہ اور پارٹی کے کارکن شہید  قائد عوام ذیڈ اے بھٹو کی برسی  کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور خود صدر مملکت صاحب فراش ہونے کے سبب ہسپتال میں زیر علاج ہیں، پاکستان کے دشمنوں، شر پسندوں اور بھارت میں پاکستان کے کھلم کھلا دشمنوں نے صدر آصف علی زرداری کے متعلق جھوٹی افواہوں کی بارش کر دی۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے فیک تصویریں اور ویڈیوز بھی پھیلائی گئیں، یہ جھوٹ کا طوفان اتنا بڑھا کہ آج کراچی مین صدر آصف علی زرداری کے دوست اور ذاتی فزیشن ڈاکٹر عاصم کو نیوز کانفرنس کر کے قوم کو یہ خوشی کی خبر بتانا پڑی کہ صدر آصف زرداری بخیریت ہیں اور زیادہ سے زیادہ دو دن میں ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو رہے ہیں۔ 

سود میں مزید کمی کی گنجائش، مہنگائی کے خٓتمہ کا فائدہ عوام تک پہنچانا ہے، اورنگزیب

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی بیماری کے حوالے سے بھارتی چینلز اور سوشل میڈیا پر چلنے والی تصاویر جعلی اور خبریں و اطلاعات غلط ہیں۔

ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی طبیعت کافی بہتر ہوگئی ہے۔ وہ کل یا پرسوں اسپتال سے ڈسچارج ہوجائیں گے۔ وہ ہفتہ کو ضیاء الدین اسپتال کلفٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔  

ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے حوالے سے سوشل میڈیا اور بھارتی چینلز بے بنیاد خبریں چلا رہے ہیں۔ صدر مملکت گزشتہ ہفتہ کے روز اسلام آباد سے نوابشاہ گئے۔ میں کراچی آ گیا تھا، صدرِ مملکت کا فون آیا کہا کہ عید کے دن میری طبیعت ناساز ہے۔ 

"کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی"ایک بار پھرسکرین پرواپسی کے لیے تیار

ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ صدر مملکت کا عید کے دن شام کو پھر فون آیا اور کہا کہ سردی لگ رہی ہے، مجھے بخار ہو گیا ہے۔  میں رات کو نوابشاہ پہنچا۔ وہاں اتنی سہولیات نہیں ہیں۔

ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ گزشتہ پیر کو ہم صدرِ مملکت کو کراچی لائے، اسپتال میں داخل کیا اور ان کے ٹیسٹ شروع کیے۔ ٹیسٹ سے یہ معلوم  ہوا کہ صدرِ مملکت کو کورونا ہوا ہے۔  

ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ اب صدرِ آصف زرداری کی طبیعت کافی بہتر ہے، کل یا پرسوں صدرِ مملکت اسپتال سے ڈسچارج ہو جائیں گے۔ سینئر ڈاکٹرز کی ٹیم صدرِ مملکت کو دیکھ رہی ہے۔ کورونا اب بھی پاکستان میں موجود ہے۔ اینٹی وائرس دوائیاں بھی اب پاکستان آ گئی ہیں۔  

پنجاب میں نئے کار واش اسٹیشنز پر پابندی عائد

انہوں نے کہا کہ سیاسی مخالفین جو چاہیں کہتے رہیں، بھارت تو ویسے ہی ہمارا دشمن ہے۔ سوشل میڈیا پر جو  فیک خبریں چل رہی ہیں وہ مناسب نہیں ہیں۔ صدرِ مملکت کو بلڈ پریشر اور شوگر ہے۔  

ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا کہ صدرِ مملکت اپنی اسپتال سے فوٹیج جاری کرتے ہیں یا نہیں، یہ ان کا  ذاتی فیصلہ ہو گا۔ پرائویسی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ سوشل میڈیا پر جو نام نہاد  فوٹیجز چل رہی ہیں وہ سب جعلی ہیں۔

Waseem Azmet.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: صدر ا صف علی زرداری ڈاکٹر عاصم حسین نے صف علی زرداری کے ڈاکٹر عاصم نے سے ڈسچارج ہو سوشل میڈیا زرداری کی صدر مملکت نے کہا کہ مملکت کو کہ صدر

پڑھیں:

وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر

کتنی اچھی تھی وہ بیسویں صدی۔تھوڑے سے ڈاکٹر، اور تھوڑے ہی مریض ہوتے۔ موسمی بخار  اور نزلہ زکام ہی معمول کی بیماریاں تھیں۔ ہاں کسی کو ماں کی بددعا یا فقیر کی آہ لگ جاتی تو دانت یا کان کے درد جیسے ’سنگین امراض‘ بھی لاحق ہوجاتے۔ تشویشناک مریضوں کی اکثریت وہ ہوتی جو ٹرک اور بس کے تصادم میں اوپر پہنچنے کی بجائے اسپتال پہنچ جاتے۔ یوں سرجیکل وارڈ ہی ہر اسپتال کے بڑے وارڈز ہوتے۔ تب پبلک ٹرانسپورٹ کم اور شاہراہیں شہروں میں بھی یکطرفہ پر دو طرفہ تھیں۔ سو تصادم آمنے سامنے کے ہوتے اور ہر دوسرے ہفتے 20 ہلاک 40 زخمی کی خبر اخبارات میں نظر آتی۔ پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور اس نے دو رویہ شاہراہوں کا جال پھیلا کر قوم کو مزید معذور ہونے سے بچا لیا۔  یوں پاکستان نئے دور یعنی اکیسویں صدی میں دو رویہ سڑکوں کے ساتھ داخل ہوا۔

نئی صدی تھی، سو لوگ بھی نئے تھے۔ اور لوگ نئے تھے تو ڈاکٹر بھی نئے تھے۔ بیسویں صدی والا ڈاکٹر بہت بڑی بے ایمانی بھی کرتا تو یہ کہ 50 روپے فیس پتلون میں اڑسنے کے بعد جو دوا لکھ کر دیتا وہ ایسی دیتا کہ مریض پہلے ہی چکر پر ٹھیک نہ ہو۔ کم از کم 50 کا ایک نوٹ مزید دینے کو حاضر ہو پھر بیشک صحت مند ہوجائے۔ مطب بند ہوتا تو شٹر کو چائنا والے 2 عدد تالے لگے ہوتے۔ یوں بورڈ پڑھے بغیر بند شٹرز سے پتہ ہی نہ چلتا کہ کون سا کلینک ہے اور کون سی پرچون کی دکان؟ مطب کھلتا تو کوئی ریسیپشن نہ ہوتا۔ ڈاکٹر اور اس کا  کمپاؤڈرہی کل اہلیان مطب ہوتے۔ اور کمپاؤڈر کمپاؤڈری کے ساتھ مطب کے جھاڑو پوچے اور چوکیداری کے اضافی قلمدان بھی رکھتا۔ بھروسہ اس پر  ڈاکٹر  ٹکے کا نہ کرتا۔ جس کا پتہ یوں چلتا کہ فیس ڈاکٹر صاحب ہر حال میں بدست خود وصول فرماتے اور پتلون کی جیب میں اڑستے جاتے۔ گھر جاتے تو بیگم کو ساتھ ملا کر ان مڑے تڑے 50 کے نوٹوں کو استری کر لیتے۔ بیگم کسی ہفتہ صفائی کے نتیجے میں  کم آمدنی کی شکایت کرتی تو وہ فرماتے

’ڈارلنگ ! بس کسی طرح یہ مہینہ گزار لو۔ اگلے مہینے ساون شروع ہوجائے گا، پھر مریض ہی مریض ہوں گے۔‘

دور نے گزرنا ہوتا ہے، سو وہ دور بھی نہ رہا۔ اب  ہم کھڑے ہیں اکیسویں صدی میں۔

جہاں وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر ایکسپائر ہوچکا۔ اور اس کی جگہ لے لی ہے نئے دور کے نئے ڈاکٹر نے۔ جتنا یہ ڈاکٹر  خود عجیب و غریب ہے اتنی ہی عجیب و غریب یہ بیماریاں ساتھ لایا ہے، جس کے لیے اسے جراثیمی امور کے سائنسدانوں کی مدد حاصل ہے۔ اس کے کلینک کی دیوار شیشے کی  ہے۔ سلائیڈنگ ڈورز ہیں، اور سلائیڈنگ ہی کھڑکیاں۔ جھاڑو پوچے کے لیے سویپر رکھا ہوا ہے۔ باہر ایک کاؤنٹر ہے، اور کاؤنٹر پر ایک دوشیزہ ہے۔ صورت بیشک ڈراؤنی ہے مگر ہے دوشیزہ ہی۔ اندر ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک اسسٹنٹ چوکس و تیار کھڑا ہے۔ جو بوقت ضرورت مریض کا ناڑا کھولنے کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ اور ماشاءاللہ  کلینک میں اے سی بھی چل رہا ہے۔ یوں پہلے صرف ڈاکٹر کی فیس دینا پڑتی تھی جو 50 روپے ہوتی۔ اب ڈاکٹر کے کلینک کے کھڑکی شیشوں کا خرچ بھی مریض نے ہی تاحیات قسطوں میں اٹھانا ہے۔ اے سی کا بل، وہ باہر والی دوشیزہ،  اندر والے اسسٹنٹ اور سویپر کی تنخواہیں بھی مریض کی جب سے جائیں گی۔ یوں جاتے ہم ڈاکٹر کے پاس ہیں مگر فیس ہمیں ان 4 لوگوں کی ادا کرنا ہوتی ہے۔

آپ نے غور کیا؟ اس اکیسویں صدی والے ڈاکٹر کے اسٹاف میں کمپاؤڈر کا ذکر نہیں آیا۔ ہے نا عجیب بات ؟ سوال یہ ہے کہ کمپاؤڈر گیا کہا ں؟ اگر کوئی ارتقاء ہوا ہے تو اس کی جگہ لینے والا اب کیا کہلاتا ہے ؟ یہی تو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے۔ کمپاؤڈر کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے نسل ہی ختم کردی۔ اب آپ کو مطب سے دوا نہیں صرف پرچی ملتی ہے۔ اور پرچی بھی نہیں بلکہ پرچیاں ملتی ہیں۔ وہ 50 روپے والا ڈاکٹر اتنا وضعدار تھا  کہ ہم منہ بنا کر جاتے تو وہ کہتا

’منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟ ہلکا سا بخار ہے دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا’

اور یہ آج کل والے نمونے کے پاس اگر ہنستے مسکراتے جایئے تو یہ فورا کہتا ہے

مجھے لگتا ہے آپ اپنی بیماری کو سیریس نہیں لے رہے !

‘سیریس؟ ہلکا سا زکام ہی تو ہے، اس میں سیریس کیا چیز ہے ؟‘

’نہیں بھئی !  مجھے یہ کچھ اور لگ رہا ہے۔ بس دعا کیجیے کہ جو مجھے لگ رہا ہے وہ ہو ناں۔ یہ پرچی لیجیے، اور ’لٹ مچاؤ لیب‘ سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لائیے تب ہی صورتحال واضح ہوگی۔‘

جو شخص کچھ ہی دیر قبل  بہت پر اعتماد قدموں سے چلتا کلینک میں داخل ہوا تھا۔ وہ خود پر آیت الکرسیاں پڑھتے ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہوجاتا ہے تو  اکیسویں صدی کا ڈاکٹر پیچھے سے آواز دے کر کہتا ہے:

میں ’لٹ مچاؤ لیب‘ کے سوا کسی بھی لیب پر ٹرسٹ نہیں کرتا۔ ٹیسٹ وہیں کے ہونے چاہئیں۔

اور جب وہ 10 ہزار روپے کے ٹیسٹ کرا کر رپورٹس کا لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ پر لا رکھتا ہے تو  یہ رپورٹ پر ایک  نظر ڈالتا ہے اور پھر چہرے پر مصنوعی تبسم پھیلا کر یوں گویا ہوتا ہے

’شکر الحمدللہ ! ! ! ! ! مبارک ہو سر ! مجھے جو خدشہ تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ یہ زکام ہی ہے۔ 5 دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باہر فارمیسی ہے، اسی سے یہ ساری دوائیاں لیجیے گا، کیونکہ باقی سب جعلی دوائیاں فروخت کرتے ہیں۔ پورے شہر میں اصلی دوائیاں صرف اسی فارمیسی سے ملتی ہیں۔ انشاءاللہ دو تین ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔‘

’سر ! زکام کے لیے اتنی ساری دوائیں؟‘

’یہ عام زکام نہیں ہے۔ اسے ہلکا مت لیجیے۔ معمولی سی بھی غفلت برتی  توکووڈ 19 میں کنورٹ ہوجائے گا۔‘

یوں یہ اکیسویں صدی کا ڈاکٹر  لیب اور فارماسیوٹیکل کمپنی دونوں سے کمیشن پاتا ہے۔ اور اس لیے پاتا ہے کہ لیب اور فارما کے لیے ہماری جیبوں بلکہ تجوریوں پر ڈاکہ ڈاکٹر صاحب نے ہی ڈالا ہے۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جس طرح ’ڈاکے‘ والا ڈاکو کہلاتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر بھی ڈاکے سے ہی ماخوذ لگ رہا ہے۔ صورتحال اس قدر افسوسناک ہے کہ نیورالوجسٹ ڈپریشن کےشکار شخص کا ڈیڑھ برس تک اس کے باوجود علاج کرتے ہیں کہ ڈپریشن سرے سے طبی مرض ہی نہیں۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے۔ سو یہ جب بھی سوشل سرگرمیاں کمپرومائز کرے گا، ڈپریشن کا شکار ہونا طے ہے۔ کیا نیورالوجسٹ کو نہیں معلوم کہ ڈپریشن طبی عارضہ نہیں؟ اور اس کا شکار شخص کبھی بھی دوا کے ذریعے اس سے نجات نہیں پاسکتا ؟ وہ اچھی طرح جانتا ہے مگر کلینک آیا شخص تو ڈاکٹر کی روزی روٹی ہے۔ بھلا کوئی روزی روٹی کو بھی لات مارتا ہے؟

اگر آپ ڈپریشن کا شکار ہیں تو کسی ڈاکٹر کے پاس مت جایئے۔ بس اتنا کر لیجیے کہ اپنی سوشل سرگرمی کے تینوں سرکل پوری طرح ایکٹو کر لیجیے۔ پہلا سرکل فیملی کا ہے۔ فیملی کو باقاعدہ وقت دیجیے۔ اہلخانہ سے روز کم از کم گھنٹہ دو گپ شپ کیجیے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام 6 بجھے سے رات 9 تک گھر کا وائی فائی بند رکھیے۔ وہ بند ہوگا سب اہلخانہ ٹی وی لاؤنج میں ہوں گے، اور خود کار طور پر گپ شپ کا ماحول بن جایا کرے گا۔

دوسرا سرکل آپ کے رشتے داروں کا ہے، ان سے اسی طرح میل جول اختیار کر لیجیے جس طرح سوشل میڈیا دور سے قبل والی نسل کا تھا۔

تیسرا سرکل ذاتی دوستوں کا ہے۔ ان میں آپ کے کلاس فیلوز، کولیگز، ٹیم میٹس، اور گاؤں والوں سمیت وہ سب آتے ہیں جن سے آپ کی ذاتی دوستی ہے۔ ان سے بھی آپ کا میل جول متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

اگر آپ کے یہ تینوں سرکل پورے بھی ہیں اور نارمل بھی ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہوں۔ یہ وبا سوشل میڈیا دور کی دین ہے۔ اس کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ سو اس کے علاج کے لیے نیورالوجسٹ سے دور رہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

رعایت اللہ فاروقی

متعلقہ مضامین

  • قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے قوم کی آواز ہیں :صدر مملکت آصف علی زرداری
  • پوری قوم سلامتی کمیٹی کے فیصلوں اور اقدامات کے ساتھ کھڑی ہے: صدر مملکت
  • بھارت کے بے بنیاد الزامات اور غیر منطقی اقدامات کا کوئی جواز نہیں بنتا، صدر مملکت
  • خوشحال خان خٹک ایکسپریس 5 سال بعد بحال، بھکر سٹیشن پر شاندار استقبال
  • خوشحال خان خٹک ایکسپریس ٹرین پانچ سال بعد بحال، بھکر اسٹیشن پر شاندار استقبال
  • تجارتی مسائل دباؤ سے نہیں مذاکرات اور سفارتکاری سے حل کرنے کی ضرورت ہے: عاصم افتخار احمد
  • پاکستان آنے کیلئے جواصول دنیا کیلئے وہی افغان شہریوں کیلئے بھی ہیں: طلال چودھری
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • وزیر خزانہ کی امارات کے وزیر مملکت برائے مالی امور سے ملاقات
  • پی ایس ایل 10: اسلام آباد یونائیٹڈ کی ملتان سلطانز کیخلاف شاندار کامیابی