Express News:
2025-04-25@07:06:10 GMT

جمہوری نظام کو درپیش چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

پاکستان میں جمہوری سیاست کا تصور بہت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ جمہوریت کا سفر آج بھی اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے لیکن جمہوری عمل مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔جمہوریت محض اقتدار اور حکمرانی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرز عمل سے جڑا نظام ہے جہاں ہم ریاستی اور حکومتی نظام سمیت معاشرتی نظام کو جمہوری اقدار اور طرز عمل کے بنیادوں پر چلاتے ہیں۔

جمہوریت کی بنیادی کنجی نہ صرف ایک مسلسل جمہوری عمل سے جڑا ہوا ہے بلکہ جمہوریت میں جواب دہی کا ایک موثر نظام اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست اور فیصلے جمہوری عمل کی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔جمہوریت کی ایک اور بنیادی کنجی منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں جہاں حق حکمرانی کسی مخصوص طبقے کے مقابلے میں عوام کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی ومنشا کے مطابق اپنی سیاسی قیادت کا انتخاب کر سکیں۔
پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا عمل مختلف نوعیت کے مسائل یا فکری تضادات یا فکری مخالطوں کا شکار ہے۔ہم خود کو ایک جمہوری طرز پر مبنی معاشرے کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان عملی طور پر ایک جمہوری ملک ہے۔لیکن عملاً ہم جمہوری معاشرے کے مقابلے میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں جمہوریت محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کی جائے ۔ سیاسی یا جمہوری قوتوں کے مقابلے میں اختیارات کا مرکز غیر سیاسی قوتوں یا طاقت کے مراکز کے پاس ہو۔

اسی طرح ہم اقتدار تو چاہتے ہیں مگر اقتدار کو جمہوریت سے جڑے خطوط پر استوار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔جو بھی حکومت آتی ہے اس کا طرز عمل غیر سیاسی ہوتا ہے اور وہ بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری طرز عمل کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔انسانی حقوق کی پاسداری،آزادی اظہار،متبادل آوازوں کو سننے کی صلاحیت،محروم طبقہ کے مفادات کا تحفظ،آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور،افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی،سیاسی نظام سمیت سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کے اپنے داخلی جمہوری نظام سمیت طاقت کی حکمرانی کے مقابلے میں سیاسی حکمت عملیوں کی بالادستی جیسے سنجیدہ سوالات ایک مضبوط جمہوری نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔

جمہوریت محض انتخابات کرانے،حکومت بنانے اور طاقت کے مرکز میں جاری سیاسی کشمکش کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جمہوریت کا عمل عوام،ریاست اور حکمرانی کے نظام میں موجود خلیج کو کم کرتا ہے ۔
یہ ممکن نہیں کہ ہم جمہوریت کے نظام کی بنیاد پر تو آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر جو جدید معاشروں میں جمہوری فریم ورک موجود ہے اس کو استوار کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں جب ہمارے جیسے معاشروں یا ریاست کے بارے میں دنیا میں جمہوریت کی جو بھی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہمارا شمار ایک بری جمہوریت کے تناظر میں ہوتا ہے۔

ایک ایسی جمہوری ریاست جو سیاست اور جمہوریت کے بجائے طاقت کی حکمرانی یا طبقاتی بنیادوں پر مخصوص طبقہ کی حکمرانی کے نظام کو تقویت دیتی ہے۔ہمارے جیسے معاشروں میں جمہوریت کے حقیقی فوائد عام آدمی کو ملنے کے بجائے پہلے سے موجود طاقتور طبقات کو ملتی ہے۔جب کہ اس کے برعکس عام آدمی یا محروم طبقات یا کمزور افراد کو اس موجودہ جمہوری نظام میں مختلف نوعیت کی سیاسی،سماجی،انتظامی، قانونی اور معاشی نوعیت پر مبنی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آئین یا قانون کی حکمرانی یا اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں طاقتور افراد کی بالادستی نے ہمارے جیسے سماج میں جمہوریت کی بنیادی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا میں جو بھی نظام ہے ان میں جمہوری نظام ہی اہمیت رکھتا ہے اور یہ نظام ہی لوگوں کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے شہری حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی جمہوری نظام کے ساتھ ہیں یا جمہوری نظام عملی طور پر ہم سے بہت دور کھڑا ہے۔
پاکستان میں اگر ہم نے جمہوریت کو جانچنا ہے تو ہمیں اقلیتوں، کسان، مزدور، عورتیں، معذور افراد، خواجہ سرا اور نوجوان طبقات کی سیاسی،سماجی اور معاشی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا ۔ریاستی یا حکومتی سرکاری اعداد و شمار ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ ہماری قومی ترجیحات میں یہ کمزور طبقات بہت کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں۔

اسی طرح سیاسی اور جمہوری قوتوں کا ریاست اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے باہمی گٹھ جیسے عمل نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت کا نظام مضبوط نہیں ہو سکا تو اس کی ذمے داری محض ایک فریق پر نہیں بلکہ ہم سب ہی اس ناکامی کے ذمے دار ہیں۔ ہم جمہوری نظام پر یا اس کی حمایت پر بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیںاور لوگوں کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتی ہیں۔لیکن عملی طور پر ہمارا سیاسی نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے اور عدم مرکزیت کو ہم اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جمہوریت کی بنیادی کنجی مضبوط یا خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑی ہوئی ہے۔عمومی طور پر مقامی حکومت کو تیسری حکومت کے طور پر پاکستان کے آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ اس اصول کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جمہوریت کا نظام مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیرچلایا جا رہا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جہاں مقامی حکومتوں کے نظام کو بالادستی نہیں ہوگی وہاں جمہوری نظام مکمل جمہوری نظام کی عکاسی نہیں کر سکتا۔اسی طرح اگر ہمارے سیاسی،انتظامی اور قانونی اداروں نے اپنے اپنے سیاسی وقانونی فریم ورک یا دائرہ کار میں کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے نظام میں مداخلت کرنے کو ہی فوقیت دی تو پھر جمہوری نظام کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔

جمہوری نظام کی کامیابی کی ایک بنیادی شرط ایک مضبوط سیاسی نظام ہوتا ہے اور اس میں سیاسی جماعتوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔لیکن عملا یہاں پر سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اور تحفظات موجود ہیں۔کیونکہ جس انداز سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں یا سیاسی نظام کو چلانا چاہتی ہیں یا مورثی یا خاندان کی بنیاد پر یا محض نجی کمپنیوں کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں تومضبوط جمہوریت کا تصور اور زیادہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں یا ان کی قیادت سیاسی وجمہوری موقف کے مقابلے میںطاقت کی حکمرانی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور جہاں ان کے سیاسی ذاتی مفادات کو تقویت ملتی ہے۔

عمومی طور پر ہمارے جیسے معاشروں کو یا ریاستی نظام کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں یا جدید ریاست کے تصورات یا جمہوریت میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کے ساتھ خود کو جوڑنا ہے۔ہمیں بطور ریاست یہ سیکھنا ہے کہ دنیا میں ریاستی نظام کیسے مضبوط بنیادوں پر چل رہے ہیں ، ہم حالات کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی یا جمہوری طرز فکر کے ساتھ کرنے کی جگہ طاقت کے استعمال کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔اسی سوچ اور فکر نے معاشرے میں سیاسی اور جمہوری طرز فکر کے مقابلے میں انتہا پسندی اور پرتشدد مبنی رجحانات کو تقویت دی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے تیار نہیں کے مقابلے میں پاکستان میں مقامی حکومت جمہوری نظام کی بالادستی کی بنیاد پر جمہوری طرز جمہوریت کا جمہوریت کی کی حکمرانی اور جمہوری سیاسی نظام میں جمہوری بنیادوں پر حکمرانی کے جمہوریت کے چاہتے ہیں میں سیاسی دنیا میں کے بجائے ہوتا ہے نظام کی نظام کو کے ساتھ کرنے کے ہے لیکن کے نظام نہیں ہے ہے اور

پڑھیں:

اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان

جمیعت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم موجودہ اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے فلسطینیوں کے حق میں کراچی میں ملین مارچ کیا ، 27 اپریل کو لاہور میں بھی ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینیوں کے حق میں ایک آوازہوں گے، 11 مئی کو پشاور میں جبکہ 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کی آواز دنیا تک پہنچتی ہے اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بھی جھنجھوڑ رہی ہے اور خود مسلم امہ کی بھی آواز بن رہی ہے، یہ شرف پاکستان کو حاصل ہے تو ہمیں اللہ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا اس وقت ملک اور خصوصاً خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، عوام نہ بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں نہ ان کے لیے کما سکتے ہیں، کاروباری برادری سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں، اس حوالے سے حکومتی کارکردگی زیرو ہے، حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال کو حفاظت فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا ہے کہ دھاندلی کی نتیجے میں قائم ہونے والی صوبائی اور وفاقی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، جے یو آئی ف کو امتیاز حاصل ہے کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نتائج تسلیم نہیں کیے، 2024 کے الیکشنز کے بارے میں بھی یہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، ہم اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ قوم کو غیرجانبدار اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے ہی پلیٹ فارم سے ہی سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، الیکشن، غزہ اور صوبوں کے حقوق کے بارے میں ہمارا جو موقف ہے ان پر جمیعت علمائے اسلام (ف) اپنے پلیٹ فارم سے ہی میدان میں رہے گی، البتہٰ روزمرہ معاملات میں کچھ مشترک امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں سے اشتراک کی ضرورت ہو تو اس کے لیے اسٹریٹیجی جماعت کی شوریٰ کمیٹی طے کرے گی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اتحاد صرف حکومتی بینچوں کا ہوتا ہے، اپوزیشن میں باضابطہ اتحاد کا تصور نہیں ہوتا، اپوزیشن کا ابھی تک باضابطہ اتحاد موجود نہیں ہے تاہم ہم باہمی رابطوں کو برقرار رکھیں گے لیکن اپوزیشن کے باقاعدہ اتحاد پر ہماری مجلس عمومی آمادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کو خیبر پختونخوا میں پیش کیا جارہا ہے اور بلوچستان میں پیش ہوا ہے، ہماری مجلس عمومی نے اسے مسترد کیا ہے، بلوچستان میں ہمارے جن ممبران نے اس قانون کو ووٹ دیا ہے، ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے، ان کے جواب سے جماعت مطمئن ہوئی تو ٹھیک ورنہ ان کی رکنیت ختم کی جائے گی، ہمیں اسمبلی میں اپنی تعداد کی پروا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

maualana fazl ur rehman الیکشنز پریس کانفرنس پی ٹی آئی اتحاد غزہ مولانا فضل الرحمان

متعلقہ مضامین

  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • ووٹ کی طاقت ہی جمہوریت کو مضبوط بناتی ہے: ملک محمد احمد خان
  • کراچی کی مشہور لسّی جو پنجاب سے آئے مہمان بھی پسند کرتے ہیں
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان
  • تحریکِ انصاف کا اندرونی انتشار اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن گیا، جماعت اسلامی
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • جنوبی ایشیا میں امن جوہری خطرات میں کمی کے باہمی اقدامات سے ممکن، جنرل ساحر شمشاد مرزا
  • جے یو آئی کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، حافظ حمداللّٰہ
  • بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، ایمل ولی خان