Express News:
2025-11-04@10:43:53 GMT

جمہوری نظام کو درپیش چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

پاکستان میں جمہوری سیاست کا تصور بہت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ جمہوریت کا سفر آج بھی اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے لیکن جمہوری عمل مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔جمہوریت محض اقتدار اور حکمرانی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرز عمل سے جڑا نظام ہے جہاں ہم ریاستی اور حکومتی نظام سمیت معاشرتی نظام کو جمہوری اقدار اور طرز عمل کے بنیادوں پر چلاتے ہیں۔

جمہوریت کی بنیادی کنجی نہ صرف ایک مسلسل جمہوری عمل سے جڑا ہوا ہے بلکہ جمہوریت میں جواب دہی کا ایک موثر نظام اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست اور فیصلے جمہوری عمل کی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔جمہوریت کی ایک اور بنیادی کنجی منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں جہاں حق حکمرانی کسی مخصوص طبقے کے مقابلے میں عوام کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی ومنشا کے مطابق اپنی سیاسی قیادت کا انتخاب کر سکیں۔
پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا عمل مختلف نوعیت کے مسائل یا فکری تضادات یا فکری مخالطوں کا شکار ہے۔ہم خود کو ایک جمہوری طرز پر مبنی معاشرے کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان عملی طور پر ایک جمہوری ملک ہے۔لیکن عملاً ہم جمہوری معاشرے کے مقابلے میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں جمہوریت محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کی جائے ۔ سیاسی یا جمہوری قوتوں کے مقابلے میں اختیارات کا مرکز غیر سیاسی قوتوں یا طاقت کے مراکز کے پاس ہو۔

اسی طرح ہم اقتدار تو چاہتے ہیں مگر اقتدار کو جمہوریت سے جڑے خطوط پر استوار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔جو بھی حکومت آتی ہے اس کا طرز عمل غیر سیاسی ہوتا ہے اور وہ بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری طرز عمل کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔انسانی حقوق کی پاسداری،آزادی اظہار،متبادل آوازوں کو سننے کی صلاحیت،محروم طبقہ کے مفادات کا تحفظ،آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور،افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی،سیاسی نظام سمیت سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کے اپنے داخلی جمہوری نظام سمیت طاقت کی حکمرانی کے مقابلے میں سیاسی حکمت عملیوں کی بالادستی جیسے سنجیدہ سوالات ایک مضبوط جمہوری نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔

جمہوریت محض انتخابات کرانے،حکومت بنانے اور طاقت کے مرکز میں جاری سیاسی کشمکش کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جمہوریت کا عمل عوام،ریاست اور حکمرانی کے نظام میں موجود خلیج کو کم کرتا ہے ۔
یہ ممکن نہیں کہ ہم جمہوریت کے نظام کی بنیاد پر تو آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر جو جدید معاشروں میں جمہوری فریم ورک موجود ہے اس کو استوار کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں جب ہمارے جیسے معاشروں یا ریاست کے بارے میں دنیا میں جمہوریت کی جو بھی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہمارا شمار ایک بری جمہوریت کے تناظر میں ہوتا ہے۔

ایک ایسی جمہوری ریاست جو سیاست اور جمہوریت کے بجائے طاقت کی حکمرانی یا طبقاتی بنیادوں پر مخصوص طبقہ کی حکمرانی کے نظام کو تقویت دیتی ہے۔ہمارے جیسے معاشروں میں جمہوریت کے حقیقی فوائد عام آدمی کو ملنے کے بجائے پہلے سے موجود طاقتور طبقات کو ملتی ہے۔جب کہ اس کے برعکس عام آدمی یا محروم طبقات یا کمزور افراد کو اس موجودہ جمہوری نظام میں مختلف نوعیت کی سیاسی،سماجی،انتظامی، قانونی اور معاشی نوعیت پر مبنی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آئین یا قانون کی حکمرانی یا اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں طاقتور افراد کی بالادستی نے ہمارے جیسے سماج میں جمہوریت کی بنیادی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا میں جو بھی نظام ہے ان میں جمہوری نظام ہی اہمیت رکھتا ہے اور یہ نظام ہی لوگوں کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے شہری حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی جمہوری نظام کے ساتھ ہیں یا جمہوری نظام عملی طور پر ہم سے بہت دور کھڑا ہے۔
پاکستان میں اگر ہم نے جمہوریت کو جانچنا ہے تو ہمیں اقلیتوں، کسان، مزدور، عورتیں، معذور افراد، خواجہ سرا اور نوجوان طبقات کی سیاسی،سماجی اور معاشی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا ۔ریاستی یا حکومتی سرکاری اعداد و شمار ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ ہماری قومی ترجیحات میں یہ کمزور طبقات بہت کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں۔

اسی طرح سیاسی اور جمہوری قوتوں کا ریاست اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے باہمی گٹھ جیسے عمل نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت کا نظام مضبوط نہیں ہو سکا تو اس کی ذمے داری محض ایک فریق پر نہیں بلکہ ہم سب ہی اس ناکامی کے ذمے دار ہیں۔ ہم جمہوری نظام پر یا اس کی حمایت پر بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیںاور لوگوں کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتی ہیں۔لیکن عملی طور پر ہمارا سیاسی نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے اور عدم مرکزیت کو ہم اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جمہوریت کی بنیادی کنجی مضبوط یا خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑی ہوئی ہے۔عمومی طور پر مقامی حکومت کو تیسری حکومت کے طور پر پاکستان کے آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ اس اصول کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جمہوریت کا نظام مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیرچلایا جا رہا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جہاں مقامی حکومتوں کے نظام کو بالادستی نہیں ہوگی وہاں جمہوری نظام مکمل جمہوری نظام کی عکاسی نہیں کر سکتا۔اسی طرح اگر ہمارے سیاسی،انتظامی اور قانونی اداروں نے اپنے اپنے سیاسی وقانونی فریم ورک یا دائرہ کار میں کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے نظام میں مداخلت کرنے کو ہی فوقیت دی تو پھر جمہوری نظام کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔

جمہوری نظام کی کامیابی کی ایک بنیادی شرط ایک مضبوط سیاسی نظام ہوتا ہے اور اس میں سیاسی جماعتوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔لیکن عملا یہاں پر سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اور تحفظات موجود ہیں۔کیونکہ جس انداز سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں یا سیاسی نظام کو چلانا چاہتی ہیں یا مورثی یا خاندان کی بنیاد پر یا محض نجی کمپنیوں کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں تومضبوط جمہوریت کا تصور اور زیادہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں یا ان کی قیادت سیاسی وجمہوری موقف کے مقابلے میںطاقت کی حکمرانی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور جہاں ان کے سیاسی ذاتی مفادات کو تقویت ملتی ہے۔

عمومی طور پر ہمارے جیسے معاشروں کو یا ریاستی نظام کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں یا جدید ریاست کے تصورات یا جمہوریت میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کے ساتھ خود کو جوڑنا ہے۔ہمیں بطور ریاست یہ سیکھنا ہے کہ دنیا میں ریاستی نظام کیسے مضبوط بنیادوں پر چل رہے ہیں ، ہم حالات کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی یا جمہوری طرز فکر کے ساتھ کرنے کی جگہ طاقت کے استعمال کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔اسی سوچ اور فکر نے معاشرے میں سیاسی اور جمہوری طرز فکر کے مقابلے میں انتہا پسندی اور پرتشدد مبنی رجحانات کو تقویت دی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے تیار نہیں کے مقابلے میں پاکستان میں مقامی حکومت جمہوری نظام کی بالادستی کی بنیاد پر جمہوری طرز جمہوریت کا جمہوریت کی کی حکمرانی اور جمہوری سیاسی نظام میں جمہوری بنیادوں پر حکمرانی کے جمہوریت کے چاہتے ہیں میں سیاسی دنیا میں کے بجائے ہوتا ہے نظام کی نظام کو کے ساتھ کرنے کے ہے لیکن کے نظام نہیں ہے ہے اور

پڑھیں:

لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ

اسلام ٹائمز: اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

لبنان پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی خلاف ورزیوں میں روز بروز اضافہ دیکھا جا رہا ہے، ایسے حالات میں عالمی سطح پر مبصرین کے مابین ایک سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کو لبنان میں کامیابی نہیں ملی۔؟ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے اہم ترین کمانڈروں اور بالخصوص سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کو قتل کرنے کے بعد پوری دنیا کو یہی تاثر دیا ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں ختم کر دیا گیا ہے اور اب لبنان میں حزب اللہ کمزور ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں پھر اسرائیل کو مسلسل جنوبی لبنان اور دیگر علاقوں پر بمباری کی کیا ضرورت ہے۔؟ اس عنوان سے اسرائیلی مبصرین بعض اوقات لبنان کی موجودہ کشیدگی کو ایک سنگین صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسرائیل پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرے اور یہ ایک ایسا موقع ہو، جس سے حتمی طور پر حزبِ اللہ کو کمزور یا غیر مسلح کیا جاسکے۔

اس تجزیہ کی بنیاد سے لگتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل اور امریکہ کے کئے گئے دعوے سب کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لبنان کا توازن یہ بتا رہا ہے کہ حزب اللہ بھرپور عوامی حمایت کی حامل ہے اور سیاسی سطح پر بھی اچھی پوزیشن میں ہے۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے سابق میجر جنرل تامیر ہیمن نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فضائی حملے ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں ہیں، کیونکہ بمباری عمارتیں تباہ کر دیتی ہے، مگر نظریات اور سیاسی سرمایہ کو نیست و نابود نہیں کرتی۔ جنرل تامیر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل عمارتوں اور شخصیات کو ختم کر رہا ہے، لیکن عقائد ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے خود اس کی اپنی عارضی کمزوری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جبکہ مخالف قوتوں کو منظم ہونے، تجربات سے سیکھنے اور دوبارہ تیار ہونے کا عزم حاصل ہو رہا ہے۔

اسرائیلی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے ایک بڑی جنگ کا سامنا کیا ہے اور ابھی تک اسرائیلی جارحیت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اپنی طاقت کو منظم کر رہی ہے اور جنگ میں ہونے والے نقصانات اور جنگی تجربات سے سبق حاصل کرکے آگے کے لئے مضبوط اور موثر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے کہ جو صرف اپنی فضائی قوت کی برتری پر لبنان کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے، جو اب اس کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی بنتی چلی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلیدا (Blida) پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد صدر جوزف عون کی فوجی ردعمل کی ہدایت نے صورتحال کو مزید گرم کر دیا ہے۔ لبنانی صدر عون نے آئندہ کسی بھی اسرائیلی دراندازی کے خلاف فوج کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ حزبِ اللہ اور سیاسی حلقوں نے بھی سخت موقف اپنایا ہے۔

یہ واقعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کشمکش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ نہ صرف یہیبلکہ اسرائیلی جارحیت نے لبنان کے تمام حلقوں اور گروہوں کو اتحاد کی طرف پلٹنے کا بھی ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اسرائیلی مبصرین نے مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میدانی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ حزبِ اللہ بعض علاقوں سے پیچھے ہٹ گئی تھی، لیکن وہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ منظم کر رہی ہے۔ زمینی روٹس، ذخائر اور مقامی نیٹ ورکس کی بحالی کا کام بھی جاری ہے، جسے اسرائیل اور مغربی حلقے تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض فضائی بمباری سے بقاء کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

لبنانی حکومت اور فوج کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جنوبی علاقوں میں اسلحہ کی گزرگاہیں بند کریں یا مخصوص مقامات سے اسلحہ نکالا جائے، مگر یہ عمل داخلی سیاسی حساسیت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ فوج کا کردار پارٹیوں کے مابین توازن برقرار رکھنے تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکی شرکت یا ساز باز کے شواہد بھی موجود ہیں، کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جہاں ایک طرف جنگی کارروائیوں کی مدد سے حزب اللہ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف اور سیاسی حیثیت پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میدانوں میں ان کو کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی موجودہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح لبنان کو اندر سے کمزور کر دیں۔ اگر اسرائیل براہِ راست حزبِ اللہ کو عسکری طور پر ختم نہیں کرسکتا تو بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وہ اب سیاسی اور سماجی انتشار پیدا کرکے لبنان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنانی فوج کو الجھانا، معاشرتی تقسیم کو ہوا دینا اور بیرونی شراکت داری کے ذریعے مقامی تنازعات کو گرم رکھنا۔ یہ حکمتِ عملی خطرناک اور غیر مستحکم ہے، کیونکہ اس کے طویل مدتی نتائج پورے خطے میں تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے لمبے عرصے کے لیے امن سیاسی حل، اعتماد سازی اور معاشی استحکام کے منصوبوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ فضائی مہمات اور بار بار کے حملے وقتی فتح دکھا سکتے ہیں، مگر وہ تنازعے کے بنیادی اسباب قبضہ، سلامتی کے توازن اور علاقائی مداخلت کو حل نہیں کرتے۔ بین الاقوامی اداروں کو فوجی دباؤ کے بجائے بحالی، ڈپلومیسی اور واضح سیاسی ڈھانچے کی حمایت پر زور دینا چاہیئے۔

خلاصہ یہ کہ اسرائیل ایک ایسے سراب کا پیچھا کر رہا ہے، جو اسے فوری عسکری حل دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں دوررس سیاسی و سماجی نتائج کو نظر انداز کرتا ہے۔ حزبِ اللہ وقتی دھچکوں کے بعد دوبارہ منظم ہونے اور عسکری و سیاسی سطح پر خود کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر امن چاہتے ہیں تو طاقت کے استعمال کی بجائے سیاسی تصورِ امن، لبنانی خود مختاری اور بین الاقوامی معاونت (اقتصادی و سیاسی) کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی لبنان میں کچھ حاصل نہیں کیا، سوائے اس کے کہ عمارتوں کو تباہ کیا، شخصیات کو قتل کیا، لیکن فتح آج بھی حزب اللہ کی ہے، کیونکہ عقیدہ اور نظریہ آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے زیادہ توانائیوں کے ساتھ میدان میں آنے کے لئے تیار ہے۔ یہی امریکہ اور اسرائیل کی شکست کا ثبوت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • پیپلز پارٹی آئینی عدالت پرمتفق، میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں،رانا ثناء
  • مسابقتی کمیشن کی اسٹیل سیکٹر کو درپیش چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
  • آزادیِ اظہار اور حقِ گوئی جمہوری معاشروں کی پہچان اور بنیاد ہیں، کامران ٹیسوری
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ