گزشتہ چند برسوں سے لکی مروت اور ملحقہ علاقوں میں عید کے موقع پر نوجوانوں کی ایک نئی اور حیران کن روایت سامنے آ رہی ہے۔ مقامی طور پر چلنے والی کھلی پک اپ یا سوزوکی گاڑیوں میں نوجوان رنگین کپڑے پہنے، چادریں اوڑھے، پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے، سڑکوں پر ڈھول کی تھاپ پر ناچتے، تھرکتے اور مختلف قسم کی حرکات کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ مناظر موبائل فونز پر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام پر وائرل کیے جاتے ہیں۔ ان وڈیوز کو دیکھ کر کئی لوگ تفریح حاصل کرتے ہیں، بعض ہنستے ہیں، جب کہ کچھ شدید تنقید اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
ان ویڈیوز میں جو حرکات دیکھی جا رہی ہیں، وہ کسی بھی زاویے سے پشتون ثقافت یا تہذیب کا حصہ نہیں۔ جہاں موسیقی اور رقص کو پشتون معاشرے میں ایک مخصوص مقام حاصل ہے، جیسے ‘اتنڑ’ جو وقار، ترتیب اور ہم آہنگی کی علامت ہے، وہاں یہ کھلی سڑکوں پر پرفارم کیے جانے والے حرکات نہ تو فن کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی روایتی ثقافت کی۔ بلکہ یہ محض توجہ حاصل کرنے کی ایک دوڑ ہے، جس میں نوجوان اپنی شناخت اور مقبولیت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
نوجوان ایسا کیوں کر رہے ہیں؟کیا یہ صرف تفریح ہے یا خود کو منوانے کی خواہش کا اظہار؟ ماہرین عمرانیات کے مطابق یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ نوجوانوں کو اپنے جذبات اور توانائی کے اظہار کے لیے روایتی ذرائع اور پلیٹ فارمز دستیاب نہیں۔
سوشل میڈیا نے انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم دیا ہے جہاں وہ چند لمحوں میں ہزاروں، لاکھوں لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ایسے مناظر کی تیاری میں اپنی ساری توانائی صرف کر دیتے ہیں تاکہ وہ ‘وائرل’ ہو سکیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے الگورتھمز ایسے مواد کو زیادہ پروموٹ کرتے ہیں جو غیر معمولی، مزاحیہ یا چونکا دینے والا ہو۔ اس لیے نوجوان وہی کچھ کرتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرے۔ اس کے پیچھے مالی فوائد، فالوورز کی تعداد بڑھانے اور سوشل میڈیا پر شناخت بنانے کی شدید خواہش بھی شامل ہے۔
لیکن کیا صرف نوجوان قصوروار ہیں؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے، معاشرتی ادارے اور کمیونٹیز نوجوانوں کو وہ ماحول دے رہی ہیں جہاں وہ مثبت طریقے سے خود کو ظاہر کر سکیں؟ کیا ہم نے نوجوانوں کے لیے کوئی ایسا فورم بنایا ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہمیں تنقید، طنز اور مذاق سے نکل کر سنجیدہ مکالمے کی طرف آنا ہوگا۔ نوجوانوں کو بہتر راہ دکھانے کے لیے ہمیں ان کے جذبات کو سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ثقافت محفوظ رہے اور نوجوان اس پر فخر کریں تو ہمیں انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ اس ثقافت کا حصہ ہیں، اس کے امین ہیں، اور اس کی بہتری میں ان کا کردار کلیدی ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ انہیں صرف ماضی کی روایات کا پابند بنانے کے بجائے، موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق رہنمائی دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی شناخت کو نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ اسے دنیا کے سامنے ایک مثبت انداز میں پیش کر سکیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کرتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
گائے کی لات لگنے سے نوجوان جاں بحق، ذبیحہ کے دوران حادثات میں 144 زخمی
خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں ذبیحہ کے دوران گائے کی لات لگنے سے نوجوان جاں بحق جبکہ پنجاب میں بھی اسی طرح کے واقعات میں 41 شہری زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ٹوپی صوابی کے علاقے مینئی لویہ لار میں قربانی کی گائے نے ذبیحہ کے وقت لات ماری جو ایک نوجوان کو لگی۔
گائے نے ذبیحہ سے قبل رسیاں باندھنے کے دوران لات ماری، جو نوجوان کے سینے پر لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ واقعے کے بعد نوجوان کی لاش کو اسپتال منتقل کیا گیا اور پھر ضابطے کی کارروائی کے بعد جسد خاکی کو لواحقین کے حوالے کردیا گیا۔
حادثاتی موت پر اہل خانہ شدت غم سے نڈھال ہوگئے جبکہ حادثاتی موت پر علاقے کی فضا بھی سوگوار ہے۔
دوسری جانب پنجاب کے مختلف علاقوں میں جانور ذبیحہ کے دوران بھگڈر اور دیگر حادثات میں 144 شہری زخمی ہوئے جن میں سے 33 شدید زخمی ہوئے
ریسکیو 11122 کے مطابق 111 زخمیوں کو طبی امداد کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی جبکہ 33 شدید زخمی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
ترجمان ریسکیو 1122 کے مطابق لاہور،راولپنڈی، فیصل آباد سمیت تمام اضلاع میں قربانی کرنے کے دوران جانوروں کے بھاگنے سے حادثات ہوئے ہیں۔