بلوچستان کے دشمن، پاکستان کے دشمن
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ سال ہا سال سے ہر حکومت کو بلیک میل کرکے مال بنانے والا اختر مینگل اچانک احتجاج پر کیوں اتر آیا ، لانگ مارچ اور مرنے مارنے کی باتیں کیوں کرنے لگا ؟ حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ کبھی بھی پاکستان کا نہیں مفادات کا وفادار ہے ، صرف اسی پر موقوف نہیں ، موصوف کے والد عطا ء اللہ مینگل کا پروفائل یہی ہے کہ 70کی دہائی میں ریاست کے خلاف جنگ میں شریک رہا ، بعد میں جب افغانستان میں افغان مجاہدین نے ناطقہ بند کیا تو یہ اور خدابخش مری ضیاء الحق حکومت میں معافی مانگ کر واپس آئے ، ریاست نے ہر دور میں ان لوگوں کو رعائت دی ، مراعات دیں، لیکن یہ ہر دور میں نہ صرف پاکستان بلکہ بلوچستان سے دشمنی کرتے رہے ۔ ایک بڑے نام نہاد انقلابی سے ایک انٹر ویو کے دوران پوچھا گیا کہ ’’ ہر چند سال بعد پہاڑوں پر کیوں چڑھ جاتے ہو ،ا ور پھر واپس کیوں آجاتے ہو ‘‘ اس نے کہا ’’ بھارت مڈھی ( پیسے ) دیتا ہے تو ہتھیار اٹھالیتے ہیں ، ریاست پیسے دیتی ہے تو واپس آجاتے ہیں ،‘‘ مسئلہ اصولی نہیں وصولی کا ہے اور اب بھی اس احتجاج کی وجہ وصولی کے سوا کچھ نہیں ۔ جہاں تک معاملہ بلوچستان اور بلوچوں کے حقوق کا ہے تو کون نہیں جانتا کہ بلوچوں کے اصل مجرم یہ سردار ہیں ریاست نہیں ۔الیکشن ہو یا دہشت گردی سب ایک ہی خاندان کے گرد گھومتا ہے۔ایک بلوچ سردار الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچتا ہے، اس کا مخالف امیدوار کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا بھائی ہوتا ہے۔ اسی خاندان کا تیسرا فرد ‘ دہشت گرد تنظیم چلا کر ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتا ہے۔ ایک ہاتھ سے اقتدار، دوسرے سے بغاوت،ادھر سے بھی وصولی ملک دشمنوں سے بھی وصولی ،مگر نقصان کس کا؟ بلوچستان کے عام شہری کا! موصوف اختر مینگل جو اٹھتے بیٹھتے پنجاب کو گالی دیتے اور ریاست کو غاصب قرار دیتے ہیں ، ان کی اولاد کی شادیاں کہاں ہوئی ہیں ، ان کی فیملی لاہور میں کیوں رہتی ہے ؟ان کی اپنی ذاتی 16 مائننگ کمپنیاں ہیں اور 6 کمپنیاں بیوی ،بیٹوں،بیٹیوں بھائیوں کے نام پر رجسٹرڈ ہیں، مگر عملا ً اختر مینگل ان کمپنیز میں شراکت دار ہیں ، بلوچستان سے معدنیات لوٹ کر دنیا بھر میں جائدادیں بنا تے ہیں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو اسلام آباد کے خلاف اکسا کر ان کے سکول ، ہسپتال تک تباہ کر دیتے ہیں ، کیوں ؟ سردار اختر مینگل اس کھیل میں تنہا نہیں ہیں ، اور بھی بے شمار ہیں ، خصوصا دہشت گردی کا چورن بیچنے والے تمام ، ہیربیار سے لے کر جاوید مینگل اوربراہمداخ تک کہاں ہیں ؟ مغربی ممالک میں شاہانہ زندگی کے اخراجات کہاں سے پورے کرتے ہیں ؟ یہ بلوچ کے دشمن ہیں ، قوم کا حق کھا رہے،اپنی نسلوں کا مستقبل بیرون ملک محفوظ بناتےہیں اور غریب بلوچ کو بغاوت پر اکسا کر فورسز کے مقابل لاتے ہیں ۔ اصل قاتل اور دشمن ان کے سوا کون ہے ؟ اختر مینگل بلوچستان کا وزیر اعلیٰ رہا ، اس کے والد عطااللہ مینگل بھی وزیر اعلیٰ رہا ، کوئی پوچھ سکتا ہے کہ انہوں نے صوبائی بجٹ سے صرف اپنے علاقے وڈھ میں کتنے سکول بنائے ، کتنے ہسپتال قائم کئے ، حد تو یہ کہ سردار کی شاہانہ سواری کے لئے بھی ایک سڑک تک نہیں بنائی تاکہ غریب بلوچ کو فائدہ نہ پہنچ سکے ۔
اسلام آباد کے بعض صحافتی بھونپوجن کی دہشت گردوں کے عشرت کدوں میں عیاشیوں کے ثبوت موجود ہیں ، ملک دشمنوں سے ان کے رابطے بھی ڈھکے چھپے نہیں ، وہ بلوچستان میں دہشت گردی کو حقوق کی جنگ قرار دے کر ریاست کو مجرم قرار دیتے نہیں تھکتے ، حالانکہ ان کا حقوق کی پامالی کا دعویٰ غلط نہیں لیکن اس کے مجرم کون ہیں وہ اس معاملہ میں منافقت سے کام لیتے ہیں ۔ قیام پاکستان سے آج تک بلوچستان میں جتنی مرتبہ بھی بغاوت ہوئی اس کی وجہ واقعتا ً حقوق ہی تھے ، جب بھی ریاست نے بلوچ عوام کو حقوق دینے کی بات کی دہشت گرد سردار پہاڑوں پر جا چڑھے ۔ یہ آج کی بات نہیں 1876 سے نام نہاد سردار انگریز کے گماشتے اور بلوچ عوام کے حقوق کے قاتل ہیں ، جب بلوچستا ن کے انگریز چیف کمشنر اور بعد میں ہندوستان کے گورنر جنرل رابرٹ سنڈیمن نے اس بلوچ سرداری نظام کے ذریعہ سے بلوچوں کی غلامی کی بنیاد رکھی ۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 8 اپریل 1976ء کو کوئٹہ میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیاتو یہی عطاءاللہ مینگل ، شیر محمد مری عرف شیروف اور خدابخش مری اپنے حواریوں کو لے کر پہاڑوں پر جا چڑھے اور ریاست کے خلاف جنگ شروع کردی ۔ بعد میں جنرل پرویز مشرف نے بھی یہ نظام ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی تو وہی لوگ ایک بار پھر دہشت گردی پر اتر آئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔
بلوچستان کے ان سرداروں نے تعلیمی نظام کو تباہ کیا ، سکولوں کو اوطاقوں میں تبدیل کر دیا ،ہسپتالوں تک کو بند کیا ، ترقیاتی فنڈز جعلی سکیموں کے ذریعہ سے ہڑپ کئےا ور جب عوام نے حقوق کی بات کی تو وفاق پر چڑھ دوڑے ۔دنیا نے جس تیزی سے ترقی کی ان سرداروں نے بھی ترقی کی،لیکن بلوچستان کے باسی آج بھی پتھروں کے زمانے میں رہنے پر مجبور ہیں۔آزادی سے آج تک بلوچستان میں کبھی کوئی غیر بلوچ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر نہیں آیا ، کبھی بلوچستان کا بجٹ نہیں روکا گیا ، قومی آمدن سے فی کس کی شرح سے سب سے زیادہ فنڈز ہمیشہ بلوچستان کو ملے ، لیکن وزراء اعلیٰ اور سرداروں کے محلات میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوتی رہی اور عام بلوچ اسی طرح سے غلامی اور کسمپرسی کی زندگی گزارتارہا،جسے یہ حقوق کے نام پر گولیوں کے سامنے کھڑا کرتے ہیں اور اس کی لاش بھی فروخت کرکے بھارت اور اسرائیل سے پیسے کھرے کرتے ہیں ، وہ بھی اس کے خاندان کو نہیں ملتے ۔
جہاں تک بی این پی کے نام نہاد لانگ مارچ کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دہشت گردی کے ہینڈلرز کی جانب سے ایک چال ہے ، جس میں ہمارا فتنہ انتشار بھی استعمال ہو رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف ہو رہا ہے ، مارے دہشت گرد جا رہے ہیں ، تکلیف انہیں کیوں ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ان دہشت گردوں کا سافٹ چہرہ ہیں ، انہیں کے اشاروں پر ناچتے اور انہی کے مقاصد کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ پہلے ماہ رنگ بلوچ جلسہ جلوس کے ذریعہ سے دہشت گردوں کی نقل وحرکت اور اسلحہ کی ترسیل کو ممکن بناتی تھی ،وہ پکڑی گئی تو اب ریٹائرڈ سہولت کار کو میدان میں اتار دیا گیا ۔ دہشت گرد بی ایل اے کی جانب سے اس کی حمائت کے بعد اگر کسی کو کوئی شبہ تھا تو وہ بھی نہیں رہا ۔ گزشتہ روز 6مارچ کو بلوچ دہشت گردوں کے بھارت سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا چینل کے ذریعہ سے دہشت گردوں کے لئے ایک پیغام جاری کیا گیا ہے ، جو یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ لانگ مارچ کے مقاصد کیا ہیں ، اور یہ کیوں جاری ہے ؟ اپنے تحریری میڈیا بیان میں دہشت گرد بی ایل اے نے لکھا ہے کہ ’’بلوچ لبریشن آرمی (پی ایل اے) سردار اختر مینگل اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے جاری لانگ مارچ‘ جووڈھ سے کوئٹہ کی طرف رواں د واں ہے‘ کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتی ہے ۔ یہ مارچ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف کیا جارہاہے جو کہ بلوچ قوم کی آزادی اور حقوق کی جدوجہد کے ساتھ ہماری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ہمیں مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ پاکستانی ریاست اس پرامن مارچ کو کچلنے کے لئے ایک بڑی فوجی کارروائی کی تیاری کررہی ہے۔ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اختر مینگل ‘ بی این پی (مینگل) کے رہنمائوں یا مارچ میں شریک کسی بھی فرد کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کا بی ایل اے بھرپور جواب دے گی۔ ہم اپنی قوم اور مقصد کے دفاع کے لئے ہر سطح پر تیار ہیں۔اگر ریاست نے کوئی اقدام کیا تو ہم بھرپور قوت سے میدان میں آئیں گے اور ہم نے اپنےلوگوں کو مارچ کی سیکورٹی کے لئے تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ریاستی حملے کی صورت میں فوری جواب دیا جاسکے۔‘‘
دہشت گردوں کی اس قدر کھلی حمائت کے بعدکوئی جواز نہیں رہتا کہ کہ اس مارچ کو سیاسی سرگرمی قرار دیا جائے ، یہ دہشت گردوں کی سہولت کاری ہے ، اور ریاست کو اپنے وعدے کے مطابق دہشت گردوں کےسہولت کار کو معاف نہیں کرنا چاہئے ۔ دوسری جانب یہ بھی لازم ہے کہ حکومت بلوچستان کے تمام بی ایریاز کو ختم کرکے قانون کی حکمرانی قائم کرے ، بلوچ شہری پاکستان کے محب وطن ہیں ، انہیں مزید دہشت گرد سرداروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے اختر مینگل لانگ مارچ کرتے ہیں حقوق کی کے خلاف ہیں اور کے لئے ایل اے
پڑھیں:
بھارت کی روایتی الزام تراشی
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پرہونے والے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اگلے روز میڈیا کے سوالات کے جواب میں ترجمان وزارت خارجہ نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پہلگام حملے میں سیاحوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور واقعہ میں ہلاک افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔
ادھرمیڈیا رپورٹس کے مطابق اگلے روز ہی پہلگام واقعہ پردہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے سیکیورٹی (CCS) کا ہنگامی اجلاس ہوا۔اس ہنگامی اجلاس کے بعد بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی کو 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ پہلگام حملے میں25 بھارتی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا۔بھارتی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ کابینہ کمیٹی کو بریفنگ میں دہشت گرد حملے کے سرحد پار روابط سامنے لائے گئے۔ یہ حملہ یونین ٹیریٹری میں انتخابات کے کامیاب انعقاد اور اقتصادی ترقی کی طرف اس کی مسلسل پیش رفت کے تناظر میں ہوا ہے۔دہشت گردانہ حملے پر کابینہ کمیٹی نے سندھ طاس آبی معاہدہ معطل کرنے سمیت اہم اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارتی سیکریٹری خارجہ کے مطابق اٹاری چیک پوسٹ کو فوری طور پر بند کر دیا جائے گا۔ بھارتی شہری جو پاکستان گئے ہیں ‘وہ یکم مئی 2025 سے پہلے اس راستے سے واپس آ سکتے ہیں۔سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت بھارت میں موجود پاکستانی شہری 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑ دیں۔پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت ہندوستان آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ماضی میں پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ تصور ہوں گے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں دفاعی، ملٹری، بحری اور فضائی مشیروں کو پرسننا نان گراٹا (ناپسندیدہ) قرار دے کر انھیں ایک ہفتے میں بھارت چھوڑنے کی مہلت دی گئی ہے۔
بھارت اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے دفاعی، بحریہ، فضائی مشیروں کو واپس بلائے گا۔ متعلقہ ہائی کمیشنز میں یہ آسامیاں کالعدم ہوں گی۔ دونوں ہائی کمیشنز سے سروس ایڈوائزرز کے پانچ معاون عملے کو بھی واپس لے لیا جائے گا۔ہائی کمیشنوں کی مجموعی تعداد کو یکم مئی 2025 تک مزید کم کر کے 55 سے 30 تک لایا جائے گا۔بھارتی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انڈین حکام نے پہلگام حملے میں بچ جانے والوں کی مدد سے تین مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے اور ان کے نام اورعرفیت جاری کر دیے ہیں۔ ادھر بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈین فضائیہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ایسی کسی بھی دہشتگردانہ کارروائیوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا ہے۔ ان حملوں کا زوردار اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔
پہلگام کے واقعہ کے سلسلے میں انڈین حکومت ہر وہ قدم اٹھائے گی جو ضروری اور حالات کے مطابق ہو گا۔بھارتی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ہم صرف ان لوگوں تک نہیں پہنچیں گے جنھوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے ہم ان تک بھی پہنچیں گے جنھوں نے پس پردہ بھارت کی سرزمین پر ایسی سازشیں رچی ہیں۔بھارتی کانگریس پارٹی کے رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے پہلگام حملے پر اپنے ردعمل میں وزیراعظم مودی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں امن کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حکومت کو ہر صورت اس واقعے کی ذمے داری لینی چاہیے۔
بھارتی حکومت نے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں ابھی باقاعدہ طور پر تحقیقات مکمل نہیں کی ہیں۔ نا مکمل یا ابتدائی نوعیت کی کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی بڑا یا حتمی فیصلہ کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ پہلگام حملہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کے نائب صدر بھارت میں موجود تھے۔
اس حملے کے منصوبہ سازوں کے کیا مقاصد ہیں ‘ان کے بارے میں فوری طور پر رائے قائم کرنا درست نہیں ‘پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی ایک لمبی تاریخ ہے ‘ اس پس منظر کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے ابتدا میں ہی پاکستان پر الزام تراشی کا آغاز کر دیا۔ بھارتی میڈیا کا یہ طرز عمل صحافتی اور ابلاغی اخلاقیات اور اصولوں کے برعکس ہے‘ بھارت کے بعض نام نہاد تجزیہ نگار جن کا ریکارڈ ہی بے تکی اور بے مقصد گفتگو کرنے سے عبارت ہے‘ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ پاکستان پر انگلی اٹھانی شروع کر دی۔ اس قسم کی گفتگو مسائل کو حل کرنے کی بجائے زیادہ پیچیدہ بناتی ہے اور عوام کو کنفیوژ کرتی ہے۔
پاکستان کا موقف اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس واقعہ میں مارے جانے والوں کے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی اگلے روز کہا کہ وہ کشمیر واقعہ میں مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں، انھوں نے واضح کیا کہ بھارت نے پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے کوئی شواہد نہیں دیے اور اس طرح بغیر شواہد غصہ نکالنا غیر مناسب ہے،بھارت کے اعلانات میں ناپختگی اور غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔
بدقسمتی سے بھارت ہر واقعے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے اور ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بلیم گیم پاکستان کی طرف ڈالنے کی کوشش کی گئی، اگر انڈیا کے پاس شواہد ہیں تو انھیں سامنے لائے۔پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلگام واقعے سے متعلق بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، جو دہشت گردی کا شکار ہیں وہ کیسے دہشت گردی کو فروغ دیں گے۔
انھوں نے کہا پاکستان کی افواج ہر جگہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں، ہم دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔وزیر دفاع نے کہا پہلگام واقعہ میں فالس فلیگ آپریشن کی بات کو بالکل مسترد نہیں کیا جاسکتا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوال اٹھایا کہ بھارت کی سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں ہے تو بھارتی فوج سے بھی پوچھنا چاہیے، کہ اگر لوگ مارے جا رہے ہیں تو وہ وہاں کیا کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا بھارتی حکومت پہلگام واقعے کی تحقیقات کرے، صرف الزام لگانے سے ذمے داری سے جان نہیں چھڑا سکتے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے جو سوالات اٹھائے ہیں ‘ وہ بھارت میں بھی اٹھائے جا رہے ہیں‘ سیکیورٹی لیپس کی باتیں بھارت کے دانشور اور عوامی حلقے بھی کر رہے ہیں ‘ویسے بھی پہلگام کنٹرول لائن سے خاصی دور جگہ ہے ‘یہ جگہ خاصی محفوظ بھی سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس جگہ ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے‘ یوں دیکھا جائے تو سیکیورٹی لیپس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ اتنی اہم جگہ پر جہاں غیر ملکی اہم شخصیات بھی آتی ہیں ‘ پانچ چھ دہشت گرد جدید اسلحہ لے کر کیسے سرعام کارروائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بھارت کو اس پہلو پر لازمی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ جنوبی ایشیا میں ایسے گروہ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان فوجی تصادم کا شکار ہو جائیں‘ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز دونوں ملکوں میں موجود ہیں اور ایک دوسرے سے رابطے میں بھی ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی دونوں ملکوں کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام بھی اسے نا پسند کرتے ہیں۔ دہشت گردی پاکستان کے لیے بھی وبال جان بنی ہوئی ہے ‘ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی قیادت ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور اپنے ملک میں نفرتیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے‘ بھارتی میڈیا کا کردار انتہائی منفی رہا ہے۔ پاکستان کا موقف تو واضح ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے اور وہ اب تک دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔
پاکستان نے بھی بھارت کے اقدامات کا جواب دیا ہے ‘پاکستان نے بھارت کے لیے فضائی حدود پر پابندی لگا دی ہے ‘پاکستان کے راستے تجارت معطل کر دی ہے۔ بھارت نے پانی کا بہاؤ روکا یا رخ موڑا تو اسے اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے یکطرفہ معطلی کے بھارتی اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کو مسکت جواب دے دیا ہے۔ بھارتی قیادت کو معاملات کو زیادہ بگاڑنا نہیں چاہیے بلکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے اس خطے میں دہشت گردی کا بھی خاتمہ ہو گا اور قیام امن کا بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔کشیدگی میں اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں۔