Daily Pakistan:
2025-07-27@04:42:29 GMT

عمران خان کی رہائی کی ڈیل، بات بنتے بنتے بگڑ گئی

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

عمران خان کی رہائی کی ڈیل، بات بنتے بنتے بگڑ گئی

راولپنڈی (ڈیلی پاکستان آن لائن )عمران خان کی جانب سے ڈیل کی ٹھوس کوشش کا عمل ایک بار پھر عین وقت پر پٹری سے اتر گیا ہے۔ اس بار بانی پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی پر معافی سمیت وہ تمام شرائط تسلیم کرلی تھیں، جو کامیاب ڈیل کا لازمی جز وہیں لیکن بات بنتے بنتے بگڑ گئی۔
روز نامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے پونے دو برس کے دوران جب سے عمران خان جیل گئے ہیں، ہر تیسرے روز ان کے باہر آنے اور پس پردہ ڈیل کا چرچا ہوتا ہے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کے ہمدرد یو ٹیوبرز میں سے تو بہت سے کئی بار باقاعدہ ہیلی کاپٹر تک اڈیالہ جیل پہنچا چکے ہیں، جس نے بانی پی ٹی آئی کو لے کر آنا تھا۔ پھر یہ چرچا کیا گیا کہ ٹرمپ کے آتے ہی ایک فون کال پر عمران خان کے لئے جیل کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس نوعیت کا دعویٰ کرنے والوں میں فٹ پاتھئے یو ٹیوبرز کے ساتھ پی ٹی آئی کے ہمدرد اینکرز اور ایسے سیاستدان بھی شامل تھے، جنہوں نے زندگی بھر پارٹیاں بدلیں لیکن تاحال یہ تمام پیش گوئیاں ناکامی سے دو چار ہیں۔ایسے میں پچھلے ایک ہفتے سے ایک بار پھر عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں پس پردہ مذاکرات کا شور ہے۔ ان خبروں یا افواہوں میں کتنا سچ ہے، یہ جاننے کے لئے ”امت“ نے اپنے مصدقہ ذرائع سے رابطہ کیا تو یہ کہانی سامنے آئی۔
بتایا گیا ہے کہ عمران خان نے حال ہی میں اپنی رہائی سے متعلق ایک پروپوزل اپنے ان قریبی لوگوں کو دیا تھا، جو دونوں طرف کھیل رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس پروپوزل کے مطابق پی ٹی آئی کے عام دعوﺅں ”ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان“ کے برعکس عمران خان فی الحال جیل سے نکلنے کے لئے ہر شرط ماننے کو تیار ہیں۔ جسے عرف عام میں ”لیٹ جانا“ کہتے ہیں۔ذرائع کے بقول تازہ پیشکش میں بانی پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی پر معافی مانگنے کی بنیادی شرط سمیت دیگر شرائط پر بھی آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اپنا یہ پیغام متعلقہ اہم لوگوں تک پہنچانے کا کہا تھا۔ اس پیغام کے ذریعے عمران خان نے معافی کے ساتھ اپنے اوورسیز سوشل میڈیا نیٹ ورک کو خاموش کرانے کی ہامی بھری۔ ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ پاکستان اور اس کے اہم اداروں کے خلاف امریکا میں لابنگ کا عمل بھی روک دیا جائے گا۔
اسی طرح اس پر بھی آمادگی کا اظہار کیا کہ سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کے لئے موجودہ حکومت کو پانچ برس مکمل کرنے دیئے جائیں گے۔ بطور اپوزیشن پی ٹی آئی سیاسی جلسے جلوس تو کرے گی لیکن انتشار پر مبنی لانگ مارچ یا دھرنوں سے گریز کیا جائے گا جبکہ آئندہ انتخابات کے لئے ایک سیاسی تحریک اور جدوجہد کی تیاری کی جائے گی، جس کے لئے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی یقین دہانی مانگی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کی ان پیشکشوں کو ابھی فریق دوئم تک پہنچانے کی تیاری کی جارہی تھی، جس کے بعد ممکنہ طور پر اس پروپوزل پر شاید غور بھی کیا جاتا کہ عین وقت پر بات بگڑ گئی۔ بات یوں بگڑی کہ سلمان اکرم راجہ کی قیادت میں پی ٹی آئی کا ایک وفد بلوچ یکجہتی کونسل سے اظہار یکجہتی کے لئے اس دھرنے میں پہنچ گیا، جو اختر مینگل نے ماہ رنگ کی رہائی کے لئے دیا ہوا ہے۔ جہاں لطیف کھوسہ نے ایک زہریلا خطاب بھی کیا جبکہ پی ٹی آئی بلوچستان پہلے ہی ماہ رنگ بلوچ کی رہائی کے لئے اختر مینگل کے لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت کا اعلان کرچکی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے اس عمل کے نتیجے میں عمران نے اپنی رہائی کے حوالے سے جو پیشکش اور بنیادی شرائط تسلیم کرنے کا پیغام بھجوایا تھا، جو شاید ابھی راستے میں ہی تھا کہ ان ساری کوششوں پر پانی پھر گیا۔ یہ پروپوزل متعلقہ لوگوں تک پہنچ جانے کی صورت میں ممکنہ طور پر اس پر سوچ و بچار ہوسکتی تھی لیکن اب یہ امکان ختم ہو چکا ہے۔ یوں عمران خان کی رہائی کی کوششوں کے عمل میں حصہ لینے والے درمیان کے لوگوں کی کوششوں کو بھی بڑا دھچکا لگا ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ذرائع کے مطابق ماہ رنگ بلوچ کی جانب سے بی ایل اے کے دہشت گردوںکی حمایت کے تناظر میں ریاست کسی صورت اب نرم رویہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہے اور یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ اب سیاست کے لبادے میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کی حمایت اور سہولت کاری کرنے والوں کو کسی صورت رعایت نہیں دی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی مذمت کے بجائے بی ایل اے کے حامیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نے اہم لوگوں کو پہلے سے زیادہ ناراض کردیا ہے۔ فی الحال عمران خان کی جانب سے آنے والی کسی پیشکش کو گھاس نہیں ڈالی جائے گی بلکہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کے خلاف مزید سختیوں کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں مزید اہم گرفتاریوں کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ اس سوال پر کہ جب عمران خان نے خود ہی اپنی رہائی کے لئے تمام شرائط تسلیم کرنے کا پروپوزل دے دیا تھا تو وہ اپنے وفد کو اختر مینگل کے دھرنے میں جانے سے روکنے کی ہدایت بھی کر سکتے تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کا وفد ان کی اجازت کے بغیر چلا گیا ہو۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ آزاد ہواﺅں میں لگژری لائف گزارنے والی پی ٹی آئی قیادت کے زیادہ تر لوگ نہیں چاہتے کہ عمران خان باہر آئیں کیونکہ اس صورت میں انہیں اپنا سیاسی مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ یہ آوازیں تو اب خود پی ٹی آئی کے اندر سے اٹھ رہی ہیں۔ تازہ معاملے میں بھی شاید یہی کچھ ہوا ہے۔

کشمیریوں کو انصاف ملنے تک جنوبی ایشیاءمیں امن قائم نہیں ہو سکتا: علی رضا سید

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بی ایل اے کے پی ٹی آئی کے کی جانب سے کی رہائی رہائی کے کے مطابق کے ساتھ گیا ہے کے لئے

پڑھیں:

جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟

فرانس کی ایک جیل میں 41 سال سے قید کاٹنے والے لبنانی استاد اور انقلابی کارکن جارج عبداللہ آخرکار آب بروز جمعہ رہائی پانے جا رہے ہیں۔ ان کی رہائی نہ صرف انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ایک فتح تصور کی جا رہی ہے بلکہ یہ فلسطینی کاز سے وابستگی اور نظریاتی مزاحمت کی ایک غیر معمولی مثال بھی ہے۔

 پس منظر: ایک استاد سے انقلابی بننے تک

جارج ابراہیم عبداللہ 1951 میں شمالی لبنان میں ایک مسیحی مارونی خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1970 کی دہائی میں وہ مارکسسٹ انقلابی نظریے سے متاثر ہوئے، اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل ہو گئے۔

لبنان میں جاری خانہ جنگی، فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اسرائیلی حملے، اور 1982 کے صبرا و شتیلا قتلِ عام جیسے واقعات نے عبداللہ کو عملی مزاحمت کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے ایک زیرِ زمین انقلابی تنظیم Lebanese Armed Revolutionary Factions (LARF) قائم کی، جس کا مقصد اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف یورپ میں کارروائیاں کرنا تھا۔

 فرانس میں حملے اور گرفتاری

LARF نے 1982 میں فرانس میں 2 سفارتی قتل کی ذمہ داری قبول کی:

اسٹراسبرگ میں امریکی نائب سفیر چارلس رے کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

پیرس میں اسرائیلی سفارتکار یاکوو بارسیمانتوف کو نشانہ بنایا گیا۔

عبداللہ کو 1984 میں فرانس کے شہر لیون سے گرفتار کیا گیا۔ وہ خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے نشانے پر سمجھتے تھے، اور اسی خوف کے تحت پولیس اسٹیشن پہنچ کر خود کو حوالے کیا۔ ابتدائی طور پر ان پر جعلی پاسپورٹ رکھنے اور مجرمانہ سازش کے الزامات لگائے گئے، لیکن بعد ازاں ان کے اپارٹمنٹ سے اسلحہ کا ذخیرہ برآمد ہوا، جس میں قتل میں استعمال ہونے والی بندوق بھی شامل تھی۔

سیاسی دباؤ اور انصاف میں تاخیر

1987 میں جارج عبداللہ کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ وہ 1999 سے مشروط رہائی کے اہل تھے، لیکن ان کی 11 سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔ ان کی رہائی میں امریکا اور اسرائیل کے دباؤ کو مرکزی رکاوٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

2013 میں فرانسیسی عدالت نے ایک موقع پر ان کی رہائی کی منظوری دے دی تھی، لیکن اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فرانسیسی حکومت کو خط لکھ کر عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کی سفارش کی۔
یہ خط بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آیا۔ فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے بعد ازاں ان کی رہائی کے لیے درکار اخراجی حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

 زندگی، نظریہ اور جیل میں مزاحمت

عبداللہ نے حالیہ دنوں میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنی ذہنی حالت کو فلسطینی مزاحمت سے وابستہ رکھ کر سنبھالے رکھا۔ ان کی جیل کی کوٹھری میں چی گویرا کی تصویر، دنیا بھر سے حامیوں کی ارسال کردہ کارڈز اور خطوط، اور روزانہ کے اخبارات کا ایک ڈھیر موجود تھا۔

ان کا کہنا ہے ’اگر میرے پاس جدوجہد کا جذبہ نہ ہوتا، تو شاید میں پاگل ہو چکا ہوتا۔ ‘

وہ آج بھی خود کو مارکسسٹ لیننسٹ نظریات سے وابستہ قرار دیتے ہیں، اور ان کے حامی ہر سال ان کی جیل کے باہر مظاہرہ کرتے رہے۔ فرانس کے 3 بائیں بازو کے زیرِ انتظام بلدیاتی اداروں نے انہیں ‘اعزازی شہری’ بھی قرار دیا۔

 عدالتی فیصلہ اور رہائی کا حکم

2025 میں ایک تازہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جارج عبداللہ کی قید کی مدت اب ’غیر متناسب‘ ہے، اور وہ اب مزید خطرہ نہیں سمجھے جاتے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ان کی رہائی کے فوراً بعد انہیں فرانس سے بے دخل کر کے لبنان بھیجا جائے گا۔

80 کی دہائی میں جارج عبداللہ دو فرانسیسی پولیس اہلکاروں کے درمیان کمرہ عدالت میں موجود  سیاسی، قانونی اور اخلاقی اثرات

عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے کہا:

’یہ ایک قانونی فتح ضرور ہے، لیکن یہ فرانس کی ریاستی ناانصافی اور امریکی دباؤ کے تحت انصاف کی پامالی کا بھی ایک ثبوت ہے۔‘

نوبیل انعام یافتہ ادیبہ انی ارنو نے بھی ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی اور انہیں ’ریاستی ظلم کا نشانہ‘ قرار دیا۔

فرانسیسی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ایو بونے نے تو یہاں تک کہا کہ جارج عبداللہ کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا جو کسی قاتلِ مسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا۔ امریکا ان کی رہائی کو روکنے میں جنونی حد تک شامل رہا۔

 ایک تاریخی نظیر

فرانسیسی اخبار Le Monde کے مطابق، اسرائیل میں سزائے عمر قید پانے والا کوئی بھی فلسطینی قیدی 40 سال سے زیادہ قید میں نہیں رہا — مگر جارج عبداللہ نے 41 سال قید کاٹی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جارج عبداللہ صرف ایک قیدی نہیں، وہ مزاحمت، نظریے اور انصاف کے لیے جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔ اُن کی رہائی، چاہے جتنی تاخیر سے ہو، عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا لمحہ ہے — اور فرانس جیسے جمہوری ملک کے انصاف اور آزادی کے دعوؤں پر ایک سوالیہ نشان۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جارج عبداللہ فرانس فلسطین لبنان

متعلقہ مضامین

  • عمران کی رہائی کا امکان نہ بیٹے پاکستان آئینگے: گورنر خیبر پی کے
  • پی ٹی آئی کے کون سے رہنما عمران خان کی رہائی نہیں چاہتے؟ نصرت جاوید کے انکشافات
  • عمران خان کی رہائی کا امکان ہے، نہ ہی ان کے بیٹے پاکستان آئیں گے، گورنر کے پی
  • عمران خان کی رہائی کا امکان نہیں اور نہ ہی ان کے بیٹے پاکستان آئیں گے، گورنر کے پی
  • بیٹوں کا دورہ امریکا عمران خان کی رہائی میں کتنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟
  • قاسم اور سلیمان نے بڑا کھیل کھیلا | کیا عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی عدالتِ انصاف سے اپیل کی گئی؟
  • جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • عمران خان کی رہائی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، بیرسٹر سیف
  • قاسم اور سلیمان میری اولادیں ہیں اور باپ کی رہائی کیلیے آواز اٹھانا اُن کا حق ہے، عمران خان