Daily Ausaf:
2025-06-09@16:03:53 GMT

دنیا کے امرا اور انسانی بقاء کا مسئلہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

کہا جاتا ہے کہ جنگل کی زندگی میں شیر خونخوار درندہ تب بنتا ہے جب وہ سخت بھوک سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ اس دوران اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں وہ کسی جانور کا شکار کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھائے اور یا پھر بھوک سے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دے۔ لیکن اس لمحہ وہ اپنی پوری قوت سے شکار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ زندگی ہر جاندار کو عزیز ہوتی ہے اسی لئے وہ مرتے دم تک زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کی کچھ انواع اپنی زندگی بچانے کے لئے اپنے بچوں کو بھی قربانی کر دیتی ہیں۔ جنگل کے شیر کی مثال ہی لے لیں کہ بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ بھوک کی انتہائی حالت میں شیر کو اگر شکار نہیں ملتا تو وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے اپنے ہی بچوں کا گلہ دبا کر انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ جنگلی زندگی کی ایک بہت عام اور معمولی سی مثال ہے جس کا تعلق زندگی کی بقا اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے جس کو برطانوی محقق اور سائنس دان چارلس ڈاروان نے بھی اپنے ’’حیاتیاتی نظریہ ارتقاء‘‘ میں بیان کیا تھا۔ چارلس ڈاروان کے نظریہ ارتقاء میں ایک عنوان ’’موزوں ترین بقاء Survival Of The Fittest کا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جانداروں کی دنیا میں وہی انواع باقی بچتی ہیں جو زمین کے ماحول میں زندہ رہنے کے لئے موزوں ترین ہوتی ہیں جبکہ باقی جاندار انواع کو ماحول کے ہاتھوں شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس عنوان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ زندگی کی بقا یا زندہ رہنے کے لئے بنیادی شرط طاقت ہے بلکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی اہم اور بنیادی ترین شرط ’’موافقت‘‘ یعنی Adoptibilty ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کے مطابق دنیا میں آپ خود کو تبدیل نہیں کرتے ہیں اور اس سے موافقت پیدا نہیں کر پاتے ہیں تو دنیا میں آپ کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ کلیہ عام انسانوں کی زندگیوں پر بھی صادق آتا ہے۔ البتہ ستم در ستم یہ ہے کہ موزونیت اور موافقت کے باوجود بھی اگر آپ کمزور نسل کی مخلوق ہیں تو تب بھی طاقتوروں کے ہاتھوں آپ کی بقاء اور سلامتی کو مسلسل خطرہ درپیش رہتا ہے حتیٰ کہ خود آپ کو جنم دینے والے بھی اپنی بھوک مٹانے کے لئے آپ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔دنیا کا سرمایہ داری معاشی نظام بھی اب مسلسل جنگل کے قانون کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جہاں 2025ء میں دولت کا ارتکاز سکڑتے سکڑتے اپنی خطرناک ترین حد تک پہنچ گیا ہے کیونکہ دنیا کے ارب پتی افراد کی تعداد میں ایک تاریخی اضافہ ہوا ہے اور اس کا تناسب عدم برداشت، حسد، نفرت اور یہاں تک کہ بغاوت کی حد کو چھونے لگا ہے۔ امریکی میگزین فوربس 1987 ء سے دنیا بھر کے ارب پتی افراد کا ریکارڈ رکھ رہا ہے۔ تب دنیا بھر میں صرف 140ارب پتی تھے، لیکن یہ تعداد 2017ء میں 2,000تک پہنچ گئی۔ اب 2025 ء میں، یہ تعداد 3,028 تک پہنچ چکی ہے!گزشتہ سال کے مقابلے میں اس فہرست میں 247 نئے ارب پتی شامل ہوئے ہیں، اور نہ صرف ان کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ ان کی مجموعی دولت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ارب پتی افراد کی مجموعی دولت $16.

1 ٹریلین ہو گئی ہے، جو کہ 2024ء کے مقابلے میں$2ٹریلین زیادہ ہے۔ فوربس کی اس فہرست کے مطابق امریکہ میں 902 ارب پتی، چین اور ہانگ کانگ میں 516 ارب پتی اور بھارت میں 205 ارب پتی افراد ہیں۔ دنیا کی معیشت میں یہ حیران کن تبدیلیاں ثابت کرتی ہیں کہ سرمایہ کاری، کاروبار اور وراثت کے ذریعے دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں دنیا میں ارب پتی افراد کی تعداد اور ان کی دولت میں تاریخی اضافہ ہو رہا ہے، وہیں غربت بھی ایک اہم مگر خوفناک ترین مسئلہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ اب پوری دنیا تو ارب پتی بن نہیں سکتی ہے۔ لہٰذا عالمی معیشت میں دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم ایک تلخ اور خطرناک ترین مسئلہ ہے۔ آکسفیم اور دیگر تحقیقاتی ادارے مسلسل یہ رپورٹ کرتے ہیں کہ امیر ترین طبقہ تیزی سے مزید امیر ہو رہا ہے، جبکہ غریبوں کے حالات میں وہ بہتری نہیں آ رہی جو آنی چاہیے تھی۔
2024ء میں آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے امیر ترین 1فیصد افراد کے پاس بقیہ 99 فیصد کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت تھی۔ غربت کے خاتمے کی رفتار سست ہو گئی ہے اور مہنگائی، جنگوں، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے غریب طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق شدید تر ہوتا جا رہا ہے، جسے ’’دولت کا ارتکاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جہاں سرمایہ داری نے کچھ افراد کو ناقابلِ یقین حد تک امیر بنا دیا ہے، وہیں کروڑوں لوگ بنیادی ضروریات کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کا یہ بڑھتا ہوا رجحان معاشرتی اور اقتصادی عدم استحکام کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ اگر دولت کے ارتکاز کا یہ سلسلہ یونہی بڑھتا رہا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کمزور طاقتور کے مقابلے میں اتنا زیادہ کمزور ہو جائے گا کہ اس سے اجتماعی غربت بذات خود ایک طاقت کی شکل اختیار کر لے گی۔اس بنیاد پر کیا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ ’’تہذیبی تصادم‘‘ کی بجائے جنگوں کی بنیاد دولت اور طاقت کا ارتکاز بنے گا؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے جب اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہو تو پھر رشتے ناطوں اور سرحدوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ہے۔ ویسے بھی کمزوری مرگ مفاجات کا پیغام رکھتی ہے۔ فرمان اقبال ہے کہ ’’اٹھو!مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخِ امرا کے در و دیوار ہِلا دو۔‘‘ دنیا کے ارب پتیوں کو سوچنا چاہئے کہ امارت خود ان کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ کیونکہ شیر تبھی خوفناک درندہ بنتا ہے جب وہ حد درجہ بھوکا ہوتا ہے۔ امارت دوسروں میں حسد اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ دولت، ذرائع اور طاقت کے ارتکاز کی بنیاد پر تیسری عالمی جنگ شروع ہو دنیا کی اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ اقوام کو نیا معاشی نظام ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جو جنگل اور طاقت کی فراوانی سے پاک ہو۔ اس بارے عالمی ماہرین اور معیشت دانوں کو سوچنا چایئے۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ دنیا کے یہ ارب پتی افراد اپنی دولت اور وسائل کا کثیر حصہ اس ناہموار سرمایہ داری نظام کو ختم کرنے پر صرف کریں تاکہ ایک دن اپنی بقا کے مسائل سے دوچار غرباء کے ہاتھوں خود ان کی بقاء خطرے میں پڑنے سے بچی رہے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہو رہا ہے اضافہ ہو دنیا میں یہ ہے کہ دنیا کے ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

خون آلود ویٹو

اسلام ٹائمز: تاریخ ہر گز نہیں بھولے گی کہ اس لمحے جب دنیا غزہ میں جاری نسل کشی روکنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف تھی، امریکہ نے ان کوششوں کی مخالفت کی اور نسل کشی کا ساتھ دیا۔ یہ ویٹو نہ صرف سفارتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ غزہ میں جاری اسرائیل کے انسان سوز مظالم، جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے مجرمانہ اقدامات میں امریکہ کے شریک ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ اگر آج غزہ کے کسی مہاجر کمیپ میں کوئی بچہ قتل ہوتا ہے یا کوئی ماں اپنے بچے کی لاش پر گریہ کناں نظر آتی ہے تو اس خون آلود تصویر میں وائٹ ہاوس بھی برابر کا شریک ہے۔ امریکہ کے اس ویٹو کے بعد یہ سوال سنجیدگی سے سامنے آیا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کی حامل سیکورٹی کونسل کس حد تک امن اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کی طاقت اور جواز رکھتی ہے؟ امریکہ کے بار بار کے ویٹو نے اسے ایک بے اثر اور ناکارہ ادارہ بنا دیا ہے۔ تجرہر: رسول قبادی
 
اس رات جب غزہ کی پٹی میں بسنے والے دو کروڑ سے زائد خوف، بھوک اور جلاوطنی کے مارے فلسطینیوں کی امید اقوام متحدہ سے لگی ہوئی تھی، صرف ایک ووٹ نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور وہ امریکہ کا ویٹو تھا۔ امریکہ نے اس اقدام کے ذریعے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ انسانی حقوق کا حامی نہیں بلکہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے مسلسل مجرمانہ اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کا حامی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کے روز کئی ماہ سے جاری قتل و غارت اور جلاوطنی کے بعد غزہ کے بارے میں ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور دونوں طرف کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر مشتمل قرارداد پیش کی گئی۔ سیکورٹی کونسل کے 10 اراکین نے مل کر یہ قرارداد پیش کی تھی اور اسے کل 15 اراکین میں سے 14 کی حمایت بھی حاصل ہو گئی لیکن امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔
 
جھوٹی زبان اور خون میں لت پت ہاتھ
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے دوروتی شی نے عجیب موقف اختیار کرتے ہوئے دعوی کیا کہ چونکہ اس قرارداد میں "حماس" کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا لہذا وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس نے کہا: "ہم کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کریں گے جس میں حماس کی مذمت نہ کی گئی ہو۔" لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ غزہ کی پٹی میں انجام پا رہا ہے وہ ایک غاصب رژیم کی اسلحہ سے لیس فوج اور بے پناہ کروڑوں عام شہریوں کے درمیان جنگ ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن ایسے ناقابل قبول بہانوں کے ذریعے دسیوں ہزار انسانوں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، کے قتل عام کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹرمپ حکومت نے بھی بائیڈن حکومت کی جانب سے پانچ بار جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے کے بعد پہلی بار ویٹو کر کے اپنے ووٹرز کو بھی مایوس کر دیا ہے۔
 
اقوام متحدہ، ایک ووٹ کے محاصرے میں
امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے نے ایک بار پھر سلامتی کونسل کی ناقص ترکیب کو عیاں کر دیا ہے۔ ایسا ادارہ جہاں صرف ایک ملک باقی تمام رکن ممالک کے ووٹ کو بے اثر کر سکتا ہے۔ روس کے نمائندے ویسیلے نبینزیا اس بارے میں کہتے ہیں: "اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ عالمی امن کی محافظ ہونے کی بجائے امریکہ کے جیوپولیٹیکل اندازوں کی اسیر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "سلامتی کونسل کی جانب سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان 80 سالہ جنگ کے تناظر میں عالمی امن اور استحکام کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لینے کا ایک اور موقع ضائع ہو گیا ہے۔" دوسری طرف چین نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی جانب سے ویٹو کی شدید مذمت کی ہے۔
 
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب فو کونگ نے امریکہ کے اس اقدام کو "ویٹو کی طاقت کا شر پر مبنی غلط استعمال" قرار دیا اور کہا: "واشنگٹن نے انتہائی بے رحمی سے غزہ کی عوام کی امید ختم کر دی ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "جب سے غزہ میں جنگ شروع ہوئی ہے دنیا دیکھ رہی ہے کہ انسانی امداد کو ایک ہتھیار میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، سویلین انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صحافیوں اور امدادی کارکنوں کا وحشیانہ قتل عام ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے اقدامات نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی تمام سرخ لکیریں پار کر دی ہیں اور سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں نیز عالمی عدالت انصاف کے جاری کردہ احکامات کو بھی پامال کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ایک مخصوص ملک (امریکہ) کی حمایت سے عالمی قوانین کی یہ خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔"
 
یورپ بھی امریکہ کا مخالف
شاید اس بار جو چیز پہلے سے بہت زیادہ مختلف تھی وہ برطانیہ جیسے ممالک کا موقف تھا۔ سلامتی کونسل میں لندن کے نمائندے نے کہا: "ہم نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے کیونکہ غزہ میں انسانی صورتحال ناقابل برداشت ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل کو چاہیے کہ وہ فوراً غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی محدودیت ختم کر دے۔" اس برطانوی سفارتکار نے کہا: "اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی آپریشن کا دائرہ بڑھانے کے فیصلے کا کوئی جواز نہیں اور ہمیں اس پر اعتراض ہے۔" دوسری طرف انسانی حقوق کے اداروں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے امریکہ کے ویٹو کی مذمت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا یہ اقدام ایک سفارتی اقدام نہیں بلکہ "جرم میں شریک ہونا" ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل نے اپنے بیانیے میں کہا: "یہ ویٹو اسرائیل کو اہل غزہ کی نسل کشی جاری رکھنے اور عام شہریوں کو بھوکا رکھنے کے لیے سبز جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔"
 
امریکہ شریک جرم ہے
تاریخ ہر گز نہیں بھولے گی کہ اس لمحے جب دنیا غزہ میں جاری نسل کشی روکنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف تھی، امریکہ نے ان کوششوں کی مخالفت کی اور نسل کشی کا ساتھ دیا۔ یہ ویٹو نہ صرف سفارتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ غزہ میں جاری اسرائیل کے انسان سوز مظالم، جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے مجرمانہ اقدامات میں امریکہ کے شریک ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ اگر آج غزہ کے کسی مہاجر کمیپ میں کوئی بچہ قتل ہوتا ہے یا کوئی ماں اپنے بچے کی لاش پر گریہ کناں نظر آتی ہے تو اس خون آلود تصویر میں وائٹ ہاوس بھی برابر کا شریک ہے۔ امریکہ کے اس ویٹو کے بعد یہ سوال سنجیدگی سے سامنے آیا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کی حامل سیکورٹی کونسل کس حد تک امن اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کی طاقت اور جواز رکھتی ہے؟ امریکہ کے بار بار کے ویٹو نے اسے ایک بے اثر اور ناکارہ ادارہ بنا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خون آلود ویٹو
  • پاکستان سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا ہو یا دہشتگردی کا، جنگ ان مسائل کا حل نہیں ہے؛ بلاول بھٹو
  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے
  • ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا
  • ٹرمپ سے جھگڑا: ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا
  • بھارت کے بڑی طاقت ہونے کا جھوٹا تاثر ختم ہو گیا، جلیل عباس جیلانی
  • سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ اور اراکینِ سلامتی کونسل سے اچھی بات چیت ہوئی: جلیل عباس جیلانی
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • امام خمینی نے اپنی حکمت و بصیرت اور کمال دانشمندی سے اسلام مخالف قوتوں کو زیر کیا، علامہ قاضی نادر حسین علوی
  • ’’یہ وقت ہرچند کہ بہت نازک ہے مگر مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم اس پر غالب آئیں گے‘‘۔۔۔قائداعظمؒ کا پیغام عیدالاضحیٰ