دنیا کے امرا اور انسانی بقاء کا مسئلہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
کہا جاتا ہے کہ جنگل کی زندگی میں شیر خونخوار درندہ تب بنتا ہے جب وہ سخت بھوک سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ اس دوران اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں وہ کسی جانور کا شکار کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھائے اور یا پھر بھوک سے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دے۔ لیکن اس لمحہ وہ اپنی پوری قوت سے شکار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ زندگی ہر جاندار کو عزیز ہوتی ہے اسی لئے وہ مرتے دم تک زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کی کچھ انواع اپنی زندگی بچانے کے لئے اپنے بچوں کو بھی قربانی کر دیتی ہیں۔ جنگل کے شیر کی مثال ہی لے لیں کہ بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ بھوک کی انتہائی حالت میں شیر کو اگر شکار نہیں ملتا تو وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے اپنے ہی بچوں کا گلہ دبا کر انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ جنگلی زندگی کی ایک بہت عام اور معمولی سی مثال ہے جس کا تعلق زندگی کی بقا اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے جس کو برطانوی محقق اور سائنس دان چارلس ڈاروان نے بھی اپنے ’’حیاتیاتی نظریہ ارتقاء‘‘ میں بیان کیا تھا۔ چارلس ڈاروان کے نظریہ ارتقاء میں ایک عنوان ’’موزوں ترین بقاء Survival Of The Fittest کا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جانداروں کی دنیا میں وہی انواع باقی بچتی ہیں جو زمین کے ماحول میں زندہ رہنے کے لئے موزوں ترین ہوتی ہیں جبکہ باقی جاندار انواع کو ماحول کے ہاتھوں شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس عنوان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ زندگی کی بقا یا زندہ رہنے کے لئے بنیادی شرط طاقت ہے بلکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی اہم اور بنیادی ترین شرط ’’موافقت‘‘ یعنی Adoptibilty ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کے مطابق دنیا میں آپ خود کو تبدیل نہیں کرتے ہیں اور اس سے موافقت پیدا نہیں کر پاتے ہیں تو دنیا میں آپ کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ کلیہ عام انسانوں کی زندگیوں پر بھی صادق آتا ہے۔ البتہ ستم در ستم یہ ہے کہ موزونیت اور موافقت کے باوجود بھی اگر آپ کمزور نسل کی مخلوق ہیں تو تب بھی طاقتوروں کے ہاتھوں آپ کی بقاء اور سلامتی کو مسلسل خطرہ درپیش رہتا ہے حتیٰ کہ خود آپ کو جنم دینے والے بھی اپنی بھوک مٹانے کے لئے آپ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔دنیا کا سرمایہ داری معاشی نظام بھی اب مسلسل جنگل کے قانون کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جہاں 2025ء میں دولت کا ارتکاز سکڑتے سکڑتے اپنی خطرناک ترین حد تک پہنچ گیا ہے کیونکہ دنیا کے ارب پتی افراد کی تعداد میں ایک تاریخی اضافہ ہوا ہے اور اس کا تناسب عدم برداشت، حسد، نفرت اور یہاں تک کہ بغاوت کی حد کو چھونے لگا ہے۔ امریکی میگزین فوربس 1987 ء سے دنیا بھر کے ارب پتی افراد کا ریکارڈ رکھ رہا ہے۔ تب دنیا بھر میں صرف 140ارب پتی تھے، لیکن یہ تعداد 2017ء میں 2,000تک پہنچ گئی۔ اب 2025 ء میں، یہ تعداد 3,028 تک پہنچ چکی ہے!گزشتہ سال کے مقابلے میں اس فہرست میں 247 نئے ارب پتی شامل ہوئے ہیں، اور نہ صرف ان کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ ان کی مجموعی دولت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ارب پتی افراد کی مجموعی دولت $16.
2024ء میں آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے امیر ترین 1فیصد افراد کے پاس بقیہ 99 فیصد کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت تھی۔ غربت کے خاتمے کی رفتار سست ہو گئی ہے اور مہنگائی، جنگوں، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے غریب طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق شدید تر ہوتا جا رہا ہے، جسے ’’دولت کا ارتکاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جہاں سرمایہ داری نے کچھ افراد کو ناقابلِ یقین حد تک امیر بنا دیا ہے، وہیں کروڑوں لوگ بنیادی ضروریات کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کا یہ بڑھتا ہوا رجحان معاشرتی اور اقتصادی عدم استحکام کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ اگر دولت کے ارتکاز کا یہ سلسلہ یونہی بڑھتا رہا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کمزور طاقتور کے مقابلے میں اتنا زیادہ کمزور ہو جائے گا کہ اس سے اجتماعی غربت بذات خود ایک طاقت کی شکل اختیار کر لے گی۔اس بنیاد پر کیا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ ’’تہذیبی تصادم‘‘ کی بجائے جنگوں کی بنیاد دولت اور طاقت کا ارتکاز بنے گا؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے جب اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہو تو پھر رشتے ناطوں اور سرحدوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ہے۔ ویسے بھی کمزوری مرگ مفاجات کا پیغام رکھتی ہے۔ فرمان اقبال ہے کہ ’’اٹھو!مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخِ امرا کے در و دیوار ہِلا دو۔‘‘ دنیا کے ارب پتیوں کو سوچنا چاہئے کہ امارت خود ان کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ کیونکہ شیر تبھی خوفناک درندہ بنتا ہے جب وہ حد درجہ بھوکا ہوتا ہے۔ امارت دوسروں میں حسد اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ دولت، ذرائع اور طاقت کے ارتکاز کی بنیاد پر تیسری عالمی جنگ شروع ہو دنیا کی اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ اقوام کو نیا معاشی نظام ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جو جنگل اور طاقت کی فراوانی سے پاک ہو۔ اس بارے عالمی ماہرین اور معیشت دانوں کو سوچنا چایئے۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ دنیا کے یہ ارب پتی افراد اپنی دولت اور وسائل کا کثیر حصہ اس ناہموار سرمایہ داری نظام کو ختم کرنے پر صرف کریں تاکہ ایک دن اپنی بقا کے مسائل سے دوچار غرباء کے ہاتھوں خود ان کی بقاء خطرے میں پڑنے سے بچی رہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہو رہا ہے اضافہ ہو دنیا میں یہ ہے کہ دنیا کے ہیں کہ کے لئے
پڑھیں:
تلاش
’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔
غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔
انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔
دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔
دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔
مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔
ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔
کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔
انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔
خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔
تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔
انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔
تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔