Daily Ausaf:
2025-04-25@10:31:56 GMT

دنیا کے امرا اور انسانی بقاء کا مسئلہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

کہا جاتا ہے کہ جنگل کی زندگی میں شیر خونخوار درندہ تب بنتا ہے جب وہ سخت بھوک سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ اس دوران اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں وہ کسی جانور کا شکار کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھائے اور یا پھر بھوک سے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دے۔ لیکن اس لمحہ وہ اپنی پوری قوت سے شکار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ زندگی ہر جاندار کو عزیز ہوتی ہے اسی لئے وہ مرتے دم تک زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کی کچھ انواع اپنی زندگی بچانے کے لئے اپنے بچوں کو بھی قربانی کر دیتی ہیں۔ جنگل کے شیر کی مثال ہی لے لیں کہ بعض دفعہ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ بھوک کی انتہائی حالت میں شیر کو اگر شکار نہیں ملتا تو وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے اپنے ہی بچوں کا گلہ دبا کر انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ جنگلی زندگی کی ایک بہت عام اور معمولی سی مثال ہے جس کا تعلق زندگی کی بقا اور سلامتی سے جڑا ہوا ہے جس کو برطانوی محقق اور سائنس دان چارلس ڈاروان نے بھی اپنے ’’حیاتیاتی نظریہ ارتقاء‘‘ میں بیان کیا تھا۔ چارلس ڈاروان کے نظریہ ارتقاء میں ایک عنوان ’’موزوں ترین بقاء Survival Of The Fittest کا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جانداروں کی دنیا میں وہی انواع باقی بچتی ہیں جو زمین کے ماحول میں زندہ رہنے کے لئے موزوں ترین ہوتی ہیں جبکہ باقی جاندار انواع کو ماحول کے ہاتھوں شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس عنوان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ زندگی کی بقا یا زندہ رہنے کے لئے بنیادی شرط طاقت ہے بلکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی اہم اور بنیادی ترین شرط ’’موافقت‘‘ یعنی Adoptibilty ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحول کے مطابق دنیا میں آپ خود کو تبدیل نہیں کرتے ہیں اور اس سے موافقت پیدا نہیں کر پاتے ہیں تو دنیا میں آپ کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ کلیہ عام انسانوں کی زندگیوں پر بھی صادق آتا ہے۔ البتہ ستم در ستم یہ ہے کہ موزونیت اور موافقت کے باوجود بھی اگر آپ کمزور نسل کی مخلوق ہیں تو تب بھی طاقتوروں کے ہاتھوں آپ کی بقاء اور سلامتی کو مسلسل خطرہ درپیش رہتا ہے حتیٰ کہ خود آپ کو جنم دینے والے بھی اپنی بھوک مٹانے کے لئے آپ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔دنیا کا سرمایہ داری معاشی نظام بھی اب مسلسل جنگل کے قانون کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جہاں 2025ء میں دولت کا ارتکاز سکڑتے سکڑتے اپنی خطرناک ترین حد تک پہنچ گیا ہے کیونکہ دنیا کے ارب پتی افراد کی تعداد میں ایک تاریخی اضافہ ہوا ہے اور اس کا تناسب عدم برداشت، حسد، نفرت اور یہاں تک کہ بغاوت کی حد کو چھونے لگا ہے۔ امریکی میگزین فوربس 1987 ء سے دنیا بھر کے ارب پتی افراد کا ریکارڈ رکھ رہا ہے۔ تب دنیا بھر میں صرف 140ارب پتی تھے، لیکن یہ تعداد 2017ء میں 2,000تک پہنچ گئی۔ اب 2025 ء میں، یہ تعداد 3,028 تک پہنچ چکی ہے!گزشتہ سال کے مقابلے میں اس فہرست میں 247 نئے ارب پتی شامل ہوئے ہیں، اور نہ صرف ان کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ ان کی مجموعی دولت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ارب پتی افراد کی مجموعی دولت $16.

1 ٹریلین ہو گئی ہے، جو کہ 2024ء کے مقابلے میں$2ٹریلین زیادہ ہے۔ فوربس کی اس فہرست کے مطابق امریکہ میں 902 ارب پتی، چین اور ہانگ کانگ میں 516 ارب پتی اور بھارت میں 205 ارب پتی افراد ہیں۔ دنیا کی معیشت میں یہ حیران کن تبدیلیاں ثابت کرتی ہیں کہ سرمایہ کاری، کاروبار اور وراثت کے ذریعے دولت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں دنیا میں ارب پتی افراد کی تعداد اور ان کی دولت میں تاریخی اضافہ ہو رہا ہے، وہیں غربت بھی ایک اہم مگر خوفناک ترین مسئلہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ اب پوری دنیا تو ارب پتی بن نہیں سکتی ہے۔ لہٰذا عالمی معیشت میں دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم ایک تلخ اور خطرناک ترین مسئلہ ہے۔ آکسفیم اور دیگر تحقیقاتی ادارے مسلسل یہ رپورٹ کرتے ہیں کہ امیر ترین طبقہ تیزی سے مزید امیر ہو رہا ہے، جبکہ غریبوں کے حالات میں وہ بہتری نہیں آ رہی جو آنی چاہیے تھی۔
2024ء میں آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے امیر ترین 1فیصد افراد کے پاس بقیہ 99 فیصد کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت تھی۔ غربت کے خاتمے کی رفتار سست ہو گئی ہے اور مہنگائی، جنگوں، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے غریب طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق شدید تر ہوتا جا رہا ہے، جسے ’’دولت کا ارتکاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ان اعدادوشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جہاں سرمایہ داری نے کچھ افراد کو ناقابلِ یقین حد تک امیر بنا دیا ہے، وہیں کروڑوں لوگ بنیادی ضروریات کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کا یہ بڑھتا ہوا رجحان معاشرتی اور اقتصادی عدم استحکام کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ اگر دولت کے ارتکاز کا یہ سلسلہ یونہی بڑھتا رہا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کمزور طاقتور کے مقابلے میں اتنا زیادہ کمزور ہو جائے گا کہ اس سے اجتماعی غربت بذات خود ایک طاقت کی شکل اختیار کر لے گی۔اس بنیاد پر کیا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ ’’تہذیبی تصادم‘‘ کی بجائے جنگوں کی بنیاد دولت اور طاقت کا ارتکاز بنے گا؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے جب اپنی بقاء کا مسئلہ درپیش ہو تو پھر رشتے ناطوں اور سرحدوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ہے۔ ویسے بھی کمزوری مرگ مفاجات کا پیغام رکھتی ہے۔ فرمان اقبال ہے کہ ’’اٹھو!مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخِ امرا کے در و دیوار ہِلا دو۔‘‘ دنیا کے ارب پتیوں کو سوچنا چاہئے کہ امارت خود ان کے لئے خطرہ نہ بن جائے۔ کیونکہ شیر تبھی خوفناک درندہ بنتا ہے جب وہ حد درجہ بھوکا ہوتا ہے۔ امارت دوسروں میں حسد اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ دولت، ذرائع اور طاقت کے ارتکاز کی بنیاد پر تیسری عالمی جنگ شروع ہو دنیا کی اسٹیبلشمنٹ اور مقتدرہ اقوام کو نیا معاشی نظام ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جو جنگل اور طاقت کی فراوانی سے پاک ہو۔ اس بارے عالمی ماہرین اور معیشت دانوں کو سوچنا چایئے۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ دنیا کے یہ ارب پتی افراد اپنی دولت اور وسائل کا کثیر حصہ اس ناہموار سرمایہ داری نظام کو ختم کرنے پر صرف کریں تاکہ ایک دن اپنی بقا کے مسائل سے دوچار غرباء کے ہاتھوں خود ان کی بقاء خطرے میں پڑنے سے بچی رہے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہو رہا ہے اضافہ ہو دنیا میں یہ ہے کہ دنیا کے ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

ہمارا جینا، مرنا سندھ کے پانی اور انہی مسائل سے جڑا ہے، شیری رحمان


پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا سندھ کے پانی اور انہی مسائل سے جڑا ہے۔

سینیٹ اجلاس سے خطاب اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ 8 ماہ سے اٹھا رہی ہے۔

پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری

پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین(پی پی پی پی) کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا ہے کہ پانی کا معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا جینا مرنا سندھ کے پانی اور انہی مسائل سے جڑا ہے، ہمیں مزاحمت کی سیاست کرنی آتی ہے، جب ہمیں آپ دیوار سے لگائیں گے تو دمادم مست قلندر ہوگا۔

پی پی سینیٹر نے مزید کہا کہ سندھ کا مستقبل دریا سے منسلک ہے اس کا پانی کیوں بند کیا جارہا ہے، آصف زرداری نے جوائنٹ سیشن میں کہا کہ ہمیں کینالز پر اعتراض ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم پر ہم نے تحریک چلائی تھی، اچھا ہوتا کہ ہم عوامی مسائل پر بات کرتے، پانی کا مسئلہ کیوں متنازع انداز میں چلا رہے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • ںہروں کا مسئلہ حل، دھرنے ختم کیے جائیں، وزیر اعلیٰ سندھ
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • بُک شیلف
  • نہروں کے معاملہ پر عوام میں تشویش، مسئلہ حل کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی، شاہد خاقان
  • پہلگام حملہ فالس فلیگ آپریشن، مقصد اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے، مشاہد حسین سید
  • پنجاب: انسانی اسمگلنگ اور ویزا فراڈ کے 5 ملزمان گرفتار
  • مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جس سے دو کروڑ انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے
  • ہمارا جینا، مرنا سندھ کے پانی اور انہی مسائل سے جڑا ہے، شیری رحمان
  • دیوار سے لگائیں گے تو دما دم مست قلندر ہو گا، شیری رحمان