امریکا کا نیا ٹیرف پاکستان کی معیشت کے لیے خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
امریکا کی جانب سے پاکستان پر انتیس فیصد ٹیرف کے نفاذ کے بعد ملکی معیشت اور تجارت پر منفی اثرات کے خدشات بڑھ گئے ہیں وزارت تجارت کی جانب سے سامنے آنے والی ایک اہم دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس نئے ٹیرف کے نتیجے میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر تک کا ممکنہ نقصان ہو سکتا ہے دستاویز کے مطابق ٹیرف کے نفاذ کے باوجود امریکا کو بھی دو ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا رہے گا گزشتہ مالی سال میں پاک امریکا تجارت کا مجموعی حجم سات ارب تیس کروڑ ڈالر رہا جس میں امریکا نے پاکستان کو دو ارب دس کروڑ ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں اور ان برآمدات میں مالی سال دو ہزار تئیس کی نسبت چار اعشاریہ چار فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا پاکستان کی امریکا کو برآمدات دو ہزار چوبیس میں پانچ ارب دس کروڑ ڈالر کی سطح تک پہنچ گئیں جن میں گزشتہ سال کے مقابلے میں چار اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا ہے اس وقت امریکا کا پاکستان کے ساتھ تجارتی خسارہ تین ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جو کہ مالی سال دو ہزار تئیس کے مقابلے میں پانچ اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے پاکستان کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کا رہا جو کہ پچپن فیصد تک ریکارڈ کیا گیا جبکہ آئی ٹی شعبے کی برآمدات بھی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں ذرائع کے مطابق نئے امریکی ٹیرف کے بعد پاکستان کی برآمدات خاص طور پر ٹیکسٹائل مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی جس سے ان کی مانگ میں واضح کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کو چاول اور ٹیکسٹائل کے لیے متبادل عالمی منڈیوں کی تلاش میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور ملکی برآمدات میں دس سے پندرہ فیصد تک کمی آ سکتی ہے ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکا کے ساتھ فوری تجارتی مذاکرات وقت کی اہم ضرورت بن چکے ہیں تاکہ پاکستان اپنی برآمدات کو جاری رکھ سکے اور ممکنہ معاشی نقصان سے بچا جا سکے
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان کی کی برآمدات ارب ڈالر ٹیرف کے
پڑھیں:
پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء) مشیر خزانہ خیبرپختونخواہ مزمل اسلم نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ، حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے زراعت ایمرجنسی کا اعلان محض ایک نمائشی قدم ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے پاکستان کی زرعی معیشت کو مسلسل تباہی کا سامنا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم کے دور میں دوسرا سیلاب آگیا انکے پاس زرعی اور ماحولیاتی نمائشی ایمرجنسی کے علاؤہ کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ مزمل اسلم نے کہا کہ زراعت ایمرجنسی لگانے سے کیا ہوگا جب پچھلے چار سال سے کسان کو ختم کیا جا رہا ہو، زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہوں اور ملک خوراک کی کمی کے بحران میں داخل ہو چکا ہے۔(جاری ہے)
ملک میں گندم اور آٹے کا بحران ہے اور ملک میں تاریخ کی سب سے مہنگی کھاد ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اب غذائی عدم تحفظ کے شکار ملک کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں پیداوار مسلسل گر رہی ہے اور حکومتوں کی توجہ صرف نمائشی اعلانات پر مرکوز ہے۔ خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مزمل اسلم نے کہا کہ پوری دنیا میں پاکستان کیلئے شرم کا مقام ہے کہ صرف چار فیصد رقبے پر پاکستان میں جنگلات ہیں جبکہ پاکستان کے کل جنگلات کا 45 فیصد خیبرپختونخوا میں ہے۔ وزیراعظم بتائیں یہ انکی چوتھی حکومت ہے اورملک میں اور پنجاب میں کتنے درخت لگائے ہیں۔ مزمل اسلم نے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال میں ملک کی شرح نمو ممکنہ طور پر صفر فیصد تک گر سکتی ہے جو معیشت کی مکمل ناکامی کا اعلان ہے۔مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ عمران خان کو اسلئے ہٹا دیا کہ معیشت ٹھیک کرسکے حال یہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں پہلے سال شرح نمو منفی 0.5 فیصد رہی دوسرے سال شرح نمو 2.4 فیصد رہی جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ جعلی طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔تیسرے سال شرح نمو 2.7 فیصد قرار دیا گیا جس پر میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے جس پر وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ ڈیٹا غلط ہے چوتھے سال کیلئے یہ کہہ رہے ہیں کہ 4.2 فیصد ہدف ہے لیکن حالات اتنے خراب ہیں کہ یہ دنیا کے دس بدترین معیشت کے ملکوں میں آچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو صرف تین سال دیے گئے لیکن موجودہ حکومت ساڑھے تین سال سے برسراقتدار ہے اور اب تک کوئی احتساب نہیں ہوا، ہماری حکومت پر ہر دن تنقید ہوتی تھی مگر نواز شریف، شہباز شریف، زرداری یا بلاول سے کوئی سوال نہیں کرتا۔مزمل اسلم نے بلاول بھٹو اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں 2010 کے سیلاب کے دوران زرداری نے ایڈ نہیں، ٹریڈ کا نعرہ لگایا تھا مگر آج بھی یہی حکمران عالمی امداد کے سہارے حکومت چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اس وقت بطور وزیر خارجہ بلاول نے جس عالمی امداد کے دعوے کیے تھے، وہ کہاں گئی مزمل اسلم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں صوبوں کے درمیان غیر منصفانہ تقسیم پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ پنجاب کے 46 لاکھ افراد کو بی آئی ایس پی فنڈز دیے جا رہے ہیں، سندھ میں 26 لاکھ افراد کو 100 ارب روپے دیے گئے جبکہ خیبرپختونخوا کو صرف 72 ارب اور بلوچستان کو محض 5 ارب روپے دیے گئے۔