ہنگامی غذائی امداد کی امریکی بندش پر ڈبلیو ایف پی کو تشویش
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے امریکی حکومت کی جانب سے 14 ممالک میں ہنگامی غذائی امداد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بند کرنے کے اعلان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد گویا ان لاکھوں لوگوں کے لیے سزائے موت کے مترادف ہو گا جو شدید بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
Tweet URL'ڈبلیو ایف پی' نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ادارہ اس بارے میں وضاحت کے لیے امریکہ کی حکومت سے رابطے میں ہے اور زندگی کو تحفظ دینے کے ان پروگراموں کو جاری رکھنے پر زور دیتا ہے۔
(جاری ہے)
ادارے نے امریکہ سمیت تمام عطیہ دہندگان کی جانب سے اب تک موصول ہونے والی امداد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا عملہ دنیا بھر میں بھوک کے شکار علاقوں میں بدحال لوگوں کو ضروری غذائی مدد پہنچانے کے لیے انتھک کام کر رہا ہے۔
'ڈبلیو ایف پی' دنیا بھر میں ہنگامی حالات سے دوچار لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے اور لوگوں کو مستحکم و مضبوط روزگار کے حصول میں مدد فراہم کرتا ہے تاکہ کوئی انسان بھوکا نہ رہے۔
'ڈبلیو ایف پی' کے امدادی ذرائعدنیا بھر کی حکومتیں ہی 'ڈبلیو ایف پی' کو مالی وسائل کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ 60 سے زیادہ حکومتیں ادارے کے امدادی و ترقیاتی منصوبوں کی سرپرستی کرتی ہیں اور ان کی جانب سے مہیا کی جانے والی تمام مدد رضا کارانہ ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر کے کاروباری ادارے بھی بھوک کے خلاف جنگ میں 'ڈبلیو ایف پی' کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
ادارہ بھوک کے شکار لوگوں کی مدد کے لیے عام لوگوں سے بھی عطیات وصول کر سکتا ہے۔ ادارے کو لوگوں سے بحران زدہ آبادیوں کے لیے غذائی مدد اور سکولوں میں زیرتعلیم بھوکے بچوں کے لیے کھانے کی صورت میں امداد بھی ملتی ہے۔ علاوہ ازیں، غریب خاندانوں کو اپنی بیٹیاں سکول بھیجنے کی ترغیب دینے کے لیے انہیں کھانے کی فراہمی بھی ان عطیات کا حصہ ہے جو 'ڈبلیو ایف پی' کو وصول ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) یکساں اجرت کے عالمی دن پر 'یو این ویمن' نے حکومتوں، آجروں اور محنت کشوں کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دینے کے مسئلے کو حل کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔
ادارے نے مساوی قدر کے کام کے لیے مساوی اجرت کو بنیادی انسانی حق اور پائیدار ترقی کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 30 سال پہلے، حکومتوں نے بیجنگ اعلامیہ اور 'پلیٹ فارم فار ایکشن' کے تحت مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور اس پر مؤثر عمل درآمد کا وعدہ کیا تھا جس کی توثیق پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں بھی کی گئی ہے۔
Tweet URLتاہم، آج بھی دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین اوسطاً 20 فیصد کم اجرت حاصل کرتی ہیں جب کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی، جسمانی معذور اور تارک وطن خواتین کے لیے یہ فرق اور بھی زیادہ ہے۔
(جاری ہے)
ادارے کا کہنا ہے کہ غیر مساوی اجرت کا تسلسل خواتین کی آمدنی کے تحفظ کو کمزور کرتا ہے، امتیازی سلوک ان کی آوازوں کو دباتا اور جامع و پائیدار معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ 2030 کے ایجنڈے کی تکمیل میں پانچ سال سے بھی کم وقت باقی ہے اسی لیے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے تیزرفتار اجتماعی اقدامات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔
مساوی اجرت کا فروغعالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور ادارہ معاشی تعاون و ترقی (او ای سی ڈی) کے تعاون سے بین الاقوامی مساوی اجرت اتحاد (ایپک) کی شریک قیادت کے طور پر یو این ویمن حکومتوں، آجروں، تجارتی انجمنوں اور محققین کی شراکت میں مساوی اجرت کو فروغ دینے کے لیے نمایاں کام کر رہا ہے۔
ادارے نے حکومتوں پر واضح کیا ہے کہ وہ قانون اور پالیسی سے متعلق مضبوط طریقہ کار متعارف کرائیں، آجر شفاف اجرتی نظام نافذ کریں، مساوات پر مبنی آڈٹ کرایا جائے اور کام کی جگہوں پر صنفی مساوات کے لیے حساس ماحول تشکیل دیا جائے۔
محنت کشوں کی انجمنیں سماجی مکالمے اور اجتماعی سودے بازی کو فروغ دیں جبکہ بین الاقوامی و تعلیمی ادارے اور نجی شعبہ اس فرق کو ختم کرنے کے لیے درکار احتساب اور رفتار فراہم کر سکتے ہیں۔
جراتمندانہ اقدامات کی ضرورتآئندہ ایام میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے قبل یو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ مساوی قدر کے کام کے لیے مساوی اجرت 'آئی ایل او' کے کنونشن 100 میں بنیادی انسانی حق کے طور پر شامل ہے۔
یو این ویمن نے کہا کہ اجرت میں مساوات کی مخالفت، انصاف اور تعاون کے ان اصولوں پر حملے کے مترادف ہے جن کی اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی توثیق کی گئی ہے۔
مساوی اجرت کے عالمی دن پر یو این ویمن نے تمام متعلقہ فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہوئے 'ایپک' میں شمولیت اختیار کریں اور صنفی بنیاد پر اجرتوں کے فرق کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں۔