این ایف سی ایوارڈ کے تحت حق نہ ملا تو زبردستی لیں گے، علی امین گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوار کی مد میں 256 ارب روپے اضافی سالانہ ہمارا آئینی حق بنتا ہے جو نہیں دیا جا رہا، حق نہ ملا تو ذبردستی لیں گے۔
مردان میں بے نظیر چلڈرن اسپتال میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ عمران خان کے وژن کے مطابق ہمارے اقدامات کی بدولت خیبر پختونخوا ملک کا امیر ترین صوبہ بن گیا ہے، ہم نے اصلاحات کیں جبکہ گزشتہ 13 ماہ میں ایک پیسہ بھی قرض نہیں لیا بلکہ 50 ارب روپے کا قرض اتارا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صوبے کے اختیارات کسی کو نہیں دیے جارہے، پروپیگنڈا کرنے والے عمران خان کے خیر خواہ نہیں، علی امین گنڈاپور
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ عوام کو سہولیات گھر کی دہلیز پر فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم اسپتال میں علاج، اسکول میں تعلیم اور دفتر میں سہولیات کی دستیابی کے وژن کے تحت کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پر ہی خرچ کررہے ہیں، سرکار کا پیسہ عوام کا پیسہ ہے، عوام اسے اون کریں اور ترقیاتی منصوبوں کے معیار کو یقینی بنانے میں حکومت کی مدد کریں، جب ہم نے حکومت سنبھالی تو صحت کارڈ کے تحت علاج معطل اور 17 ارب روپے کے بقایاجات تھے، دیگر محکموں کے بھی اربوں روپے کے بقایاجات تھے جو ہم ادا کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی خبریں، جنید اکبر کا بڑا دعویٰ سامنے آگیا
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ قرضوں پر چلنے والی قومیں خودمختار اور خوددار نہیں ہوتیں، ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے، آئندہ سال کا بجٹ ہمارے وژن کے مطابق ہوگا، اس میں عوامی فلاحی منصوبے ہوں گے، ہم ان ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کررہے ہیں جو سالوں سے چل رہے تھے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ نے کہا کہ چھوٹے کاموں کے لیے نمائندوں کو 50، 50 کروڑ روپے دیے جائیں گے، بجٹ میں ہر حلقے کو 2،2 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز ملیں گے، این ایف سی ایوارڈ کے تحت 256 ارب روپے اضافی سالانہ ہمارا آئینی حق بنتا ہے جو نہیں دیا جارہا۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا ٹاسک: علی امین گنڈاپور کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہر فورم پر اپنا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑ رہے ہیں، ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کے بہت قریب ہیں اور پورا یقین ہے مل کر صوبے کو ہر لحاظ سے خود کفیل بنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پختونوں نے پاکستان و کشمیر کے لیے قربانیاں دیں مگر انہیں عزت و حق نہ مل سکا، ہم اپنے حقوق کے لیے ہر فورم پر لڑیں گے، این ایف سی میں حق نہ ملا تو زبردستی لیں گے، اپنا حق عدالتوں اور قانونی فورم پر لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: تیمور جھگڑا اور علی امین گنڈاپور میں جھگڑا کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر بیرونی ایما پر ظلم کیا جا رہا ہے، عمران خان ہماری نسلوں کی بقا کے لیے قربانی دے رہے ہیں، بانی کی آزادی کے لیے بھرپور کوشش کررہے ہیں، ہمارا مقصد صرف آئین و قانون کی بالادستی ہے کوئی عہدہ نہیں، اگر ہم ناکام ہوئے تو آئندہ نسلیں بھی محرومیوں کا شکار رہیں گی۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ضم اضلاع کے لیے ہمارے آئینی حق کے تحت 256 ارب ابھی تک نہیں دیے گئے ، ہم عدالت اور عوام کی طاقت سے اپنا حق حاصل کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news این ایف سی ایوارڈ پاکستان خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور عمران خان وزیراعلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: این ایف سی ایوارڈ پاکستان خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور وزیراعلی علی امین گنڈاپور ایف سی کررہے ہیں نے کہا کہ ارب روپے رہے ہیں کے تحت کے لیے لیں گے
پڑھیں:
ملک میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟
ملک بھر میں روزمرہ استعمال کی سبزیوں اور مصالحہ جات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ٹماٹر کے بعد اب لہسن اور ادرک کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت منڈی میں ادرک قریباً 540 روپے تک جبکہ لہسن قریباً 400 روپے کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔
مارکیٹ ذرائع کے مطابق ادرک 600 روپے کلو تک جبکہ لہسن 500 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
واضح رہے کہ ستمبر کے شروع میں فی کلو ادرک 350 سے 400 روپے کے لگ بھگ تھا، جبکہ لہسن کی قیمت 190 روپے سے 230 روپے تک فروخت ہوتا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب: مریم نواز کا سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے پر اظہارِ تشویش، نرخ کم کرنے کی ہدایت
سبزی منڈی میں کام کرنے والے سبزی فروش محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ درآمدی سپلائی میں کمی اور سرحدی راستوں پر مشکلات ہیں۔
ایک تاجر نے بتایا کہ ادرک اور لہسن کی زیادہ تر مقدار چین اور افغانستان سے آتی ہے، لیکن تجارتی روانی میں رکاوٹ کے باعث مارکیٹ میں قلت پیدا ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی حالیہ لہر نے عام شہریوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر دیا ہے۔ ایک شہری نے شکایت کی کہ چند ماہ پہلے ادرک 250 روپے کلو اور لہسن 350 روپے کلو تک ملتا تھا، مگر اب یہ قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں۔
معاشی ماہر راجا کامران کا کہنا ہے کہ پہلے ٹماٹر اور پھر لہسن اور ادرک کی قیمتوں میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک جیو پولیٹیکل اور دوسری ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) ایک بڑی وجہ ہے۔
مزید پڑھیں: ٹی ایل پی احتجاج سے نظامِ زندگی درہم برہم، سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
پاکستان میں سب سے پہلے سیزن بلوچستان میں شروع ہوتا ہے جہاں سے لہسن اور ادرک آنا شروع ہوتا ہے۔ جب وہ سیزن ختم ہو رہا ہوتا ہے تو سندھ کی فصل تیار ہو جاتی ہے اور مارکیٹ میں ادرک و لہسن کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بلوچستان کا سیزن ختم ہو گیا مگر سندھ کا سیزن ایک ماہ تاخیر کا شکار ہوا۔
لہسن اور ادرک کی فصلیں وقت پر تیار نہیں ہو سکیں جو فصلیں اکتوبر کے شروع میں مارکیٹ میں آنی چاہیئیں تھیں، اب نومبر کے آغاز میں آنا شروع ہوں گی۔ اس سے توقع ہے کہ قیمتوں میں کمی کا عمل شروع ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کا جغرافیائی پہلو یہ ہے کہ بلوچستان کے ساتھ لگنے والے افغان علاقے میں بھی بڑی مقدار میں لہسن اور ادرک کاشت ہوتا ہے، اور اس کی کھپت پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔
تاہم اس وقت چونکہ افغانستان کا سیزن بھی ختم ہو چکا ہے اور بارڈر بندش کے باعث وہاں سے سپلائی نہیں آ رہی، اس لیے مارکیٹ میں قلت پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لہسن، ادرک اور ٹماٹر سمیت دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن چونکہ اب مقامی فصل آنا شروع ہو گئی ہے، اس لیے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں مارکیٹ دوبارہ معمول پر آ جائے گی۔
مزید پڑھیں: پاک افغان نیا زرعی تجارتی معاہدہ، بلوچستان کے زمینداروں اور پھل سبزی فروشوں کو تحفظات کیوں؟
زرعی تجزیہ کار ڈاکٹر عارف حسان نے اس حوالے سے کہا کہ پاکستان میں سبزیوں کی قیمتوں میں استحکام کے لیے طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہم ہر سال ادرک، لہسن، ٹماٹر اور پیاز جیسے اجناس کی قلت کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ ان کی پیداوار کا انحصار موسمی حالات اور درآمدی ذرائع پر ہے۔ اگر حکومت مقامی کاشتکاروں کو جدید بیج، موسمی تحقیق اور ذخیرہ اندوزی کی بہتر سہولتیں فراہم کرے تو اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت مسئلہ صرف مہنگائی کا نہیں بلکہ زرعی منصوبہ بندی کی کمی کا ہے۔ اگر سپلائی چین کو مضبوط اور ذخیرہ کرنے کے نظام کو بہتر بنایا جائے تو موسمی اتار چڑھاؤ کے باوجود قیمتیں مستحکم رکھی جا سکتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ادرک آلو پیاز سبزی سبزی منڈی لہسن