عبوری افغان حکومت نے بگرام ائیربیس امریکا کے حوالے کرنے کی تردید کردی
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
عبوری افغان حکومت نے بگرام ائیربیس امریکا کے حوالے کرنے کی تردید کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 9 April, 2025 سب نیوز
کابل(سب نیوز) افغانستان کی طالبان حکومت نے بگرام ائیر بیس امریکا کے حوالے کرنے کی خبروں کی تردید کردی۔
افغان میڈیا کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ طالبان نے بگرام ائیر بیس کا کنٹرول امریکا کے حوالے کردیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی فوجی طیارے بشمول ایک سی 17طیارہ مبینہ طور پر فوجی سازوسامان اور سینئر انٹیلی جنس حکام کو لے کربگرام پہنچا ہے۔طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا رپورٹس کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں کسی غیر ملکی فوجی کی موجودگی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
خیال رہے کہ دو دہائیوں تک افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کا اہم فوجی مرکز رہنے والا بگرام ائیربیس اگست 2021 میں امریکی انخلا کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آگیا تھا۔خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑا گیا اسلحہ اور بگرام ائیر بیس واپس لینے کا اعلان کرچکے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا امریکا کو بگرام ائیربیس پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے تھا، بگرام انتہائی اہم ائیر بیس ہے، بگرام ائیر بیس چین پر نظر رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے، ہم بگرام ائیر بیس افغان طالبان سے واپس لیں گے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: امریکا کے حوالے
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔