مودی حکومت نے سونم وانگچک کو بات چیت سے دور رکھنے کے لیے حراست میں لیا، اہلیہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
انہوں نے کہا بھارتی حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر وہ بات چیت کا حصہ بنے تو وہ لداخ کے لیے بہترین چیز پر اصرار کریں گے اور محض علامتی یقین دہانیوں پر ہرگز کان نہیں دھریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے خطے لداخ سے تعلق رکھنے والے معروف ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت جانتی ہے کہ ان کے شوہر سیاسی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے لہذا اس نے انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ ذرائع کے مطابق انگمو نے نئی دہلی میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ بھارتی حکومت کو پتہ ہے کہ وانگچگ کو توڑا نہیں جا سکتا اسی لیے انہیں لیہہ ایپکس باڈی (ایل اے بی) اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) سے دور کیا گیا جو لداخ خطے کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔انگمو نے کہا کہ ان کے شوہر ”ایل اے بی یا کے ڈی اے“ میں سے کسی کے رکن نہیں تھے لیکن ان کی ساکھ اور لداخ کے حقوق کی وکالت کی وجہ سے دونوں تنظیموں نے انہیں جولائی میں یکطرفہ طور پر خود میں شامل کر لیا۔ انہوں نے کہا بھارتی حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر وہ بات چیت کا حصہ بنے تو وہ لداخ کے لیے بہترین چیز پر اصرار کریں گے اور محض علامتی یقین دہانیوں پر ہرگز کان نہیں دھریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وانگچک کی نظربندی کا بنیادی مقصد مذاکراتی محاذ کو کمزور کرنا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بھارتی حکومت نے کہا کے لیے
پڑھیں:
مودی سرکار کا نیا حربہ، مسلم علاقوں کے نام ہندو رنگ میں ڈھالنے کی مہم تیز
بھارت میں مودی حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں نے ایک بار پھر مسلم ثقافت اور ورثے پر حملے کو نمایاں کر دیا ہے۔
اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے لکھیم پور کھیری کے علاقے مصطفیٰ آباد کا نام تبدیل کرکے کبیر دھام رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول، یہ فیصلہ مقامی ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ایودھیا کا نام فیض آباد، پریاگ راج کا الہٰ آباد اور کبیر دھام کا مصطفیٰ آباد رکھا تھا، اب مودی حکومت ان تاریخی مقامات کو ہندو مذہب سے منسوب کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔
رپورٹ کے مطابق، ریاستی فنڈز اب قبرستانوں کی چاردیواری کی تعمیر کے بجائے ہندو عقائد اور ورثے کی ترقی پر خرچ کیے جائیں گے۔ مبصرین کے مطابق بی جے پی کی یہ مہم محض ناموں کی تبدیلی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ، شناخت اور تہذیب کو مٹانے کی منظم سازش ہے۔
مودی حکومت کا نعرہ “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” اب عملی طور پر “سب کو مٹاؤ، ایک کا راج” کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو ریاستی سطح پر نفرت، انتقام اور فرقہ وارانہ تقسیم کا سب سے زیادہ سامنا ہے، جس سے بھارت کا سیکولر تشخص خطرے میں پڑ گیا ہے۔