Jasarat News:
2025-10-30@05:22:04 GMT

پاکستان افغانستان تعلقات میں بداعتمادی

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251030-03-2
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری میں مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں ختم ہوگیا ہے اور ان مذاکرات میں ترکیہ اور قطر نہ صرف میزبانی کا حق ادا کر رہے تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا کوئی درمیانی راستہ نکل سکے۔ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے راؤنڈ میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑی ثالثی سامنے آ سکے گی اور حالات جنگ یا کشیدگی کے بجائے بہتری کی طرف آگے بڑھیں گے۔ لیکن دوسرے راؤنڈ میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں بداعتمادی کے کئی پہلو دیکھنے کو ملے جو مذاکرات کی کامیابی میں مشکلات کا سبب بنے اور عملاً مذاکرات ناکام ہوگئے۔ پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ جب تک افغان حکومت ہمیں تحریری طور پر اس بات کی یقین دہانی نہیں کرائے گی کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ جبکہ مذاکرات کے دوسرے حصے میں افغان حکومت مسلسل تحریری طور پر کسی بھی طرز کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ افغان حکومت کے بقول ہم داخلی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پاکستان کو تحریری ضمانت دے سکیں۔ البتہ ہم پاکستان کے تحفظات پر یقین رکھتے ہیں اور کوشش کریں گے کہ پاکستان کے تحفظات کو مذاکرات کے نتیجے میں دور کیا جا سکے۔ قطر اور ترکیہ کی کوشش کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے افغان حکومت کسی بڑی سیاسی کمٹمنٹ کے لیے تیار نہیں تھی۔ پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ افغان حکومت یا افغان طالبان کسی اور کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اور اس ایجنڈے کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول افغان حکومت نے پاکستان کے تحفظات پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی اور نہ عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائی ایسی صورت میں مذاکرات ناکام ہی ہونے تھے۔ اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے دفاع کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ پاکستان کا یہ بھی الزام تھا کہ ان مذاکرات کی ناکامی یا اس میں بڑی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ بھارت کا طرز عمل بنا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے خلاف جو باہمی گٹھ جوڑ ہے اس کی بنیاد پاکستان مخالفت پر قائم ہے۔ طالبان کی حکومت پاکستان کے تحفظات سے زیادہ ان تمام تر معاملات میں بھارت کے مفادات کو زیادہ تقویت دے رہی ہے جس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان مذاکرات کا بڑا نتیجہ نہ آنے کی وجہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا با اختیار نہ ہونا تھا اور ان کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کابل میں اپنی حکومت سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان افغانستان کے حالات میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا بھی ہے اور سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر دونوں ملکوں کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ افغان حکومت براہ راست پاکستان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان معاملات میں ٹال مٹول اختیار کی جا رہی ہے جس سے پاکستان میں ان مذاکرات کے تناظر میں مایوسی پائی جاتی تھی۔ اگرچہ طالبان حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کے تحفظات اپنی جگہ درست ہیں لیکن انہیں کابل کی حکومت کے معاملات کو بھی سمجھنا ہوگا اور خاص طور پر یہ سمجھنا کہ تمام تر معاملات کا حل ہماری حکومت کے پاس ہے، ایسا نہیں ہے۔ ان کے بقول افغانستان کے بعض علاقوں میں ٹی ٹی پی کے بارے میں ہمدردی بھی پائی جاتی ہے اور جب بھی ان کے خلاف کوئی بڑے آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو وہاں سے افغان حکومت کو سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا عمل کامیاب نہیں ہوا اور قطر یا ترکیہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا تصفیہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر صرف جنگ کا راستہ بچے گا جو دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔ خاص طور پر پاکستان جو پہلے ہی دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے دو صوبے خیبر پختون خوا اور بلوچستان حالت جنگ میں ہیں۔ ایسے میں ایک طرف بھارت سے خطرہ ہے تو دوسری طرف افغان بارڈر بھی پاکستان کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے کافی تشویشناک ہے اور ہمیں ہر صورت میں افغانستان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول وہ واحد شخص ہے جو پاکستان افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر امریکی صدر کیوں خاموش ہیں اور کیوں بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ امریکا نے افغانستان سے بگرام کا فوجی اڈا مانگا ہے اور تاحال افغانستان نے اس پر رضا مندی ظاہر نہیں کی ہے۔ امریکا اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کو درمیانی راستہ نکالتا ہے تو اس میں اس کا اپنا مفاد زیادہ ہے اور وہ افغانستان میں بیٹھ کے چین کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ چین کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانستان میں اس کی موجودگی ضروری ہے اور یہ کام وہ طالبان کی حکومت سے کروانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر نہ ہوں بلکہ اس میں اور زیادہ بداعتمادی بڑھے تاکہ اس کا براہ راست فائدہ بھارت کو ہو تو پاکستان کو مستقل بنیادوں پر دبائو میں رکھا جا سکے۔ ایسے لگتا ہے پاکستان کی سول اور فوجی اداروں نے یہ طے کر لیا ہے افغانستان کے بارے میں اب ہمیں کسی تضاد میں نہیں رہنا اور جو بھی فیصلہ کرنا ہے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر افغانستان کے حوالے سے سخت گیر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ طالبان حکومت کس حد تک قطر اور ترکیہ کی بات کو تسلیم کرتی ہے یا ان کے دبائو کا سامنا کرتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ دونوں بڑے ممالک بڑا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے یا ان کی سفارت کاری ناکام ہوئی ہے تو اس صورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات ایک بڑی جنگ کی طرف ہی جا سکتے ہیں۔ پاکستان نے کوشش کی تھی کہ حالات کو اس نہج پہ نہ لے کے جایا جائے جہاں جنگ کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہ ہو۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا جب افغان حکومت بھی اپنے طرز عمل میں نہ صرف لچک کا مظاہرہ کرتی بلکہ عملی طور پر کچھ ایسے اقدامات کرتی جو پاکستان کو ٹی ٹی پی کے تناظر میں مطمئن کر سکے۔ لیکن اگر افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہ کی اور اس پر پاکستان کو اعتماد میں نہ لیا تو پھر حالات کی درستی کا مستقبل کافی مخدوش نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے پاکستان سے تعلقات کے تناظر میں افغان حکومت دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک دھڑا سمجھتا ہے کہ پاکستان کا موقف درست ہے اور ہمیں اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے جبکہ دوسرا دھڑا حالات کی خرابی کی ساری ذمے داری پاکستان پہ ڈال کر خود کو بچانا چاہتا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا عمل کامیاب نہیں ہوا تو اس کی ایک وجہ بھی افغانستان میں ان فیصلوں پر داخلی تقسیم بھی ہے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے تحفظات کے درمیان مذاکرات کے لیے تیار نہیں کامیاب نہیں افغان حکومت مذاکرات کا ان مذاکرات مذاکرات کے پاکستان کو کہ پاکستان کے بقول کے خلاف کی کوشش ہے اور

پڑھیں:

پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی

استنبول میں پاک افغان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ استنبول میں مذاکرات دوحہ مذاکرات کا تسلسل ہیں جو 18 اور 19 اکتوبر کو ہوئے تھے۔ دوحہ میں فوری جنگ بندی پرر اتفاق ہوا تھا۔ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے مکینزم کی تجویز دی گئی تھی ، سرحد پر امن اور استحکام کو دیرپا بنانے کے لیے استنبول میں 25 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ ترکی اور قطر  پاک افغان مذاکرات میں بطور ثالث شریک ہیں۔

دوحہ میں افغان وفد کی سربراہی وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد نے کی تھی ۔ استنبول کے لیے  طالبان وفد کی قیادت ڈپٹی انٹیریئر منسٹر رحمت اللہ نجیب کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ وفد میں سہیل شاہین، انس حقانی، نور احمد نور، نور رحمان نصرت اور عبدالقہار بلخی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں

ڈپٹی وزیر داخلہ رحمت اللہ نجیب لوگر اور غزنی کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق غزنی لویا پکتیا سے ہے۔ ان کے وزیرستان کے عسکری گروپوں سے تعلقات رہے ہیں۔  سہیل شاہین کا تعلق بھی پکتیا سے ہے یہ اس وقت قطر کے لیے افغان طالبان کے نمائندے ہیں۔ یہ  دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ بھی رہے ہیں۔

نور احمد نور کا تعلق قندھار  سے ہے، یہ  امیر خان متقی کے قریبی عزیز ہیں اور وزارت خارجہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ نور رحمان نصرت طالبان کی وزارت دفاع میں ہیڈ آف آپریشن رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کے ساتھ دہشت گردی سیکیورٹی اور باڈر کے معاملات پر مذاکرات میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ عبدالقہار بلخی وزارت خارجہ کے ترجمان ہیں۔ یہ سابق طالبان امیر ملا اختر منصور کے داماد ہیں اور آسٹریلیوی لہجے میں اچھی انگریزی بولتے ہیں۔

استنبول کے لیے افغان طالبان کے وفد میں ہیوی ویٹ شمولیت انس حقانی کی ہے۔ یہ افغان طالبان کے وزیر داخلہ خلیفہ سراج حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں حقانی نیٹ ورک کے اہم فرد ہیں۔ دوحہ مذاکرات کی کامیابی میں اگر ملا یعقوب کا کردار تھا تو استنبول مذاکرات میں تعطل کی وجہ انس حقانی ہو سکتے ہیں۔ وجہ سادہ ہے کہ پرابلم ایریا لویا پکتیا ہے جو پکتیا، پکتیکا، خوست، لوگر اور غزنی کے کچھ علاقوں کے علاوہ پاکستان میں کرم ایجنسی، وزیرستان اور بنوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں حقانیوں کا زور ہے جو پاکستانی عسکریت پسندوں کا خاصا مرہون منت رہا ہے۔

پاکستان جس کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے وہ لویا پکتیا سے متعلق ہے۔ وزارت داخلہ حقانیوں کے پاس ہے اور آپریشنل علاقہ وہی ہے جو ان کی پاور بیس ہے، تو نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ میڈیا پر جو رپورٹس آ رہی ہیں، ان میں یہ کہا جا رہا ہے کہ استنبول میں موجود افغان وفد کابل سے ہدایت لے رہا ہے۔ کابل سے متضاد ہدایات آ رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ افغان طالبان کے اندر بھی پالیسی اختلافات موجود ہیں۔

افغان طالبان حکومت کو اب تک صرف روس نے تسلیم کیا ہے۔ ایک روسی نیوز سائٹ میں افغان انٹیلی جنس کے سیکرٹ مراسلے چھپے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے شمالی صوبوں میں روسی انٹیلی جنس کی موجودگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ انٹیلی جنس موجودگی کیوں بڑھی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ افغانستان سے سینٹرل ایشیا اور روس کو لاحق خطرات کا بروقت اندازہ لگانے کے لیے۔

مزید پڑھیے: پاکستان سے لڑائی افغان طالبان کی تنہائی میں اضافہ

احمد مسعود نیشنل ریزسٹنس فرنٹ آف افغانستان کے لیڈر ہیں اور احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں ٹی ٹی پی سمیت مختلف عسکری گروپوں کی افغانستان میں موجودگی اور ان سے افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کو خطرات پر بات کی ہے۔ رشید دوستم اور ان کے علاوہ سابق حکومت کے کئی اہلکار اس وقت ترکی میں مقیم ہیں جو پاک افغان مذاکرات کا ثالث ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان پر فوکس گروپ ہو، ماسکو فارمیٹ ہو، یا یو این کی سائڈ لائین پر ہونے والے ایران، پاکستان، چین اور روس کے 4 ملکی اجلاس ہوں یا خود یو این کی سلامتی کونسل کی رپورٹیں ہوں یا یورپی یونین اور امریکا ہوں۔ افغان طالبان کی موجودہ حکومت پر سب کو بہت سے اعتراضات ہیں۔ افغانستان میں موجود مسلح گروپ، خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی کی وجہ سے طالبان حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

افغان طالبان کو انڈیا کی حمایت ضرور حاصل ہوئی ہے۔ یہ حمایت خاصی ڈھیلی ماٹھی اور ڈھکی چھپی ہی رہے گی کہ افغان طالبان حکومت کو دنیا تسلیم نہیں کرتی تو عالمی قوانین اس حکومت کی کھل کر مدد کرنے پر روک لگاتے ہیں۔ حقانیوں کو الگ سے مڈل ایسٹ میں کچھ حمایت ضرور میسر ہے جو پاکستان کے خلاف مؤثر نہ ہو۔

پاک افغان مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان لازمی طور پر اقدامات کرے گا۔ یہ اقدامات افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، تجارتی روک اور مسلح گروپوں کو افغانستان کے اندر نشانہ بنانے کی صورت سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان ایک طرح سے افغان طالبان کا وہ واحد حمایتی ہے جس کی وجہ سے افغان طالبان حکومت قائم ہے۔

مزید پڑھیں: ڈیجیٹل اکانومی پاکستان کا معاشی سیاسی لینڈ اسکیپ بدل دے گی

دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں جس طرح سیکیورٹی فورسز ایک 3 اور ایک 2 کے تناسب سے جانوں کا نذرانہ دے رہی ہیں۔ اس پریشر کے بڑھنے کا اندازہ ریٹائر اعلی افسران کے افغان ایشو پر بولنے سے لگانا چاہیے۔ یہ پریشر زیادہ دیر نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ پاکستانی افغان طالبان کے مخالفوں کی معمولی سی حمایت بھی کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ افغان طالبان بہت سے علاقوں پر کنٹرول کھو دیں گے اور افغانستان میں ایک سے زیادہ گروپ سامنے آ سکتے ہیں جن کے پاس مختلف علاقوں کا کنٹرول ہوگا۔

ایسا ہوا تو طالبان کے پاس پہلے کی طرح پاکستان بطور محفوظ پناہ گاہ بھی میسر نہیں ہو گا۔ پاک افغان مذاکرات کی ناکامی افغان طالبان کو بطور حکومت ہی فیل کرنے طاقت رکھتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

استنبول افغان طالبان رجیم افغانستان پاک افغان مذاکرات پاکستان

متعلقہ مضامین

  • افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے، رائٹرز
  • افغانستان کے ساتھ مذاکرات ناکام، پاکستان کا دہشتگردوں اور انکے حامیوں کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان
  • استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات ناکام ہو گئے
  • افغان طالبان 3 حصوں میں تقسیم، یہ ٹی ٹی پی مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے: میجر جنرل (ر) انعام الحق
  • افغان وفد کا بدلتا موقف: کابل کے ناجائز مشورے مذاکرات کی بے یقینی کا باعث: طالبان کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں، خواجہ آصف
  • پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ناکام ہوگئے، طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے، عطاء تارڑ
  • پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی آخری کوشش، ذرائع
  • پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور شروع