افغان وفد کا بدلتا موقف: کابل کے ناجائز مشورے مذاکرات کی بے یقینی کا باعث: طالبان کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
اسلام آباد+ استنبول (خبرنگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے تیسرے راؤنڈ میں مذاکرات 18 گھنٹے تک جاری رہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے وفد نے متعدد بار پاکستان کے خوارج (ٹی ٹی پی) اور دہشت گردی کے خلاف مصدقہ اور یقینی کارروائی کے منطقی اور جائز مطالبے سے اتفاق کیا۔ میزبانوں کی موجودگی میں بھی افغان وفد نے اس مرکزی مسلئے کو تسلیم کیا۔ تاہم ہر مرتبہ کابل سے ملنے والی ہدایات کے باعث افغان طالبان کے وفد کا مؤقف بدل جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران کابل سے ملنے والے غیر منطقی اور ناجائز مشورے ہی بات چیت کے بے نتیجہ رہنے کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم پاکستان اور میزبان انتہائی مدبرانہ اور سنجیدہ طریقے سے اب بھی ان پیچیدہ معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اب بھی ایک آخری کوشش جاری ہے کہ طالبان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کسی طرح اس معاملے کو منطق اور بات چیت سے حل کر لیا جائے اور مذاکرات ایک آخری دور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ پہلے دن اندازہ ہو گیا تھا کہ مذاکرات کا اختیار کابل حکومت کے پاس نہیں۔ طالبان حکومت کا کنٹرول پورے افغانستان پر نہیں۔ مجھے ان باتوں کا اندازہ مذاکرات کی پہلی نشست میں ہو گیا تھا۔ ایک گروپ کی زبانی یقین دہانیوں پر ہم کتنا بھروسہ کر سکتے ہیں۔ جب سے افغان طالبان حکومت میں آئے ہیں ہمارے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ انہوں نے بھارت کی پراکسی جنگ شروع کی ہے۔ بھارت نے جو ہزیمت اٹھائی ہے اب وہ کابل کے ذریعے تلافی کی کوشش میں ہے۔ بھارت اپنی شکست اور ذلت کا بدلہ کابل کے ذریعے لینا چاہتا ہے۔ قطر اور ترکیے جیسے دوس ممالک پاکستانی مؤقف کے قریب ہیں۔ طالبان وفد پانچ دفعہ یقین دہانیاں کرانے کے بعد پیچھے ہٹ گیا۔ پانچ چھ بار معاہدہ ہوا‘ جب کابل فون پر رابطے کرتے پھر آ کر لاچاری کا اظہار کرتے۔ کابل نے جو پتلی تماشا لگایا وہ نئی دہلی سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اگر اسلام آباد کی طرف کسی نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔ ماضی کے جن حکمرانوں نے طالبان کی حمایت کی ان پر مقدمہ چلنا چاہئے۔ چاہے وہ دنیا میں ہوں یا نہ ہوں ان کو سزا ملنی چاہئے۔ چالیس سال ہمارے مہمان رہے پھر بھی کابل کی نگاہوں میں شرم نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کابل کسی کا چمچہ نہ بنے۔ عزت دار ہمسائے کی طرح رہے۔ فلسطینیوں کی حفاظت کیلئے کردار ادا کر سکیں تو یہ خوش قسمتی ہو گی۔ خیبر پی کے کی منتخب حکومت ہے، ہمیں ان کا احترام ہے۔ ہم پورا ہفتہ افغان طالبان سے مذاکرات کر چکے ہیں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ ہم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کریں گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ ہم نے بہت شفاف مذاکرات کئے‘ صوبائی حکومت پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: افغان طالبان
پڑھیں:
’’دہشتگردی روکیں‘‘ پاکستان موقف پر قائم
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق افغان طالبان تحریری معاہدہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے لچک نہ دکھانے پر صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جاری ہے۔ آج مذاکرات کے دور میں ثالث ابراہیم قالن بھی موجود ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا پاکستان نے واضح کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ پاکستان کے برعکس طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ افغان طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے جب کہ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔ جبکہ پاکستان مذاکرات میں اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان طالبان خوارج کی سرپرستی ختم کریں۔ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے استعمال سے روکا جائے۔ منفی اور بیرونی اثرات کے باوجود پاکستان اور دوست ممالک سنجیدگی سے بات چیت آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوست ممالک خلوص کے ساتھ بات چیت مثبت طریقے سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتوار کے روز افغان طالبان کو دو ٹوک مؤقف سے آگاہ کیاگیا تھا۔ پاکستان نے کہا کہ دہشتگردوں کی سرپرستی منظور نہیں۔ مطالبات واضح اور شواہد پرمبنی ہیں۔ مذاکرات میں پیش رفت مثبت رویے پر منحصر ہے۔استنبول میں پاکستان اور افغانستان میں مذاکرات کا تیسرا دور ہوا۔ مذاکرات میں پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان طالبان خوارج کی سرپرستی ختم کریں۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے استعمال سے روکی جائے۔ذرائع کے مطابق استنبول میں جاری مذاکرات کا تیسرا دن بھی مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان نے جو منطقی اور مدلل مطالبات پیش کیے ہیں وہ جائز ہیں۔ افغان طالبان کا وفد ان مطالبات کو پوری طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ میزبان ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے یہ مطالبات معقول اور جائز ہیں۔ دلچسپ طور پر افغان طالبان کا وفد خود بھی سمجھتا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا درست ہے۔ افغان طالبان کا وفد بار بار کابل انتظامیہ سے رابطہ کر کے انہی کے احکامات کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ انہیں کابل سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی وفد نے بارہا یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنا سب کے مفاد میں ہے۔ میزبان ممالک نے بھی افغان وفد کو یہی بات سمجھائی ہے۔ تاہم کابل انتظامیہ سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آ رہا، جس سے تعطل پیدا ہو رہا ہے۔ کچھ عناصر کسی اور ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کا مؤقف بدستور منطقی، مضبوط اور امن کے لیے ناگزیر ہے۔