ٹرمپ، دنیا اور عالمی مالیاتی نظام
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
وہی ہوا اور ہورہا ہے جس کا ڈر تھا۔ ٹرمپ نے دنیا بھر میں عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔ امریکیوں نے بھی چن کے وہ بندہ اپنا صدر بھرتی کیا ہے جو امریکا اور دنیا بھر کا دیوالیہ نکالے گا۔
ٹرمپ کا بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور جو فیصلہ کرلیتا ہے تو بس اسی پر ٹک جاتا ہے۔ یہ خصوصیت ذاتی حیثیت میں ٹھیک ہے بلکہ خوبی ہے لیکن ملکی معامالات ایسے چل ہی نہیں سکتے۔ ٹرمپ اپنی ذاتی زندگی میں 3 مرتبہ صفر سے ملینیئر بنا ہے۔ یہ بھی ایک خوبی ہے اور اگر یہ صلاحیت کسی لیڈر میں ہو تو یہ خامی ہے کیونکہ ملک یا قوموں کےلیے صفر ہوکر دوبارہ پیروں پر کھڑے ہونے میں نسلیں گزر جاتی ہیں۔ ٹرمپ امریکا کو ٹیرف وار کے راستے جس ڈھلوان پر گھسیٹنے لگا ہے، اس کا اثر صرف امریکا پر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر پر ہوگا۔
ٹرمپ نے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ ٹیرف کی جنگ چھیڑ دی ہے اور جواب میں طاقتور ممالک نے امریکا پر بھی ٹیرف عائد کردیے ہیں۔ اس کے ساتھ دنیا بھر کی مالیاتی مارکیٹس گرنا شروع ہوگئی ہیں۔ خاکسار اس وقت دبئی میں موجود ہے اور یہاں کے معاشی ماہرین سے گفتگو کے بعد مجھے نجانے کیوں 2008 کے فنانشل کرائسز سے ملتا جلتا کچھ ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ کچھ ایسا ہونے لگا ہے جو دنیا بھر کے مالیاتی سسٹم کو جھٹکا دے گا اور گلوبل فنائنسز یا جیو اکنامکس بدل جائیں گے۔ کیا یہ تبدیلی اچھی ہوگی؟ جی، نہیں!
سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ نے ٹیرف کی جنگ شروع کیوں کی ہے؟ اس کا بہت سادہ کا جواب یہی ہے کہ امریکی سادہ بدھووں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امریکی معیشت کو بیرونی خطرات سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں مڈ ٹرم الیکشن میں اپنی سیٹ بچانے کےلیے اس نے اتنا بڑا محاذ کھول دیا ہے کہ اس کو اس کے بڑے بھی اب بند نہیں کرسکیں گے۔ اس اقدام کے بعد سے دنیا بھر میں امریکی اجارہ داری ختم ہوناشروع ہوگی اور دنیا اگلے 5 سال میں ہی کوئی نیا عالمی ٹھیکیدار دیکھے گی۔ ٹرمپ کی یہ پالیسی اس کے اچھے بزنس مین اور ایک نا کام لیڈر ہونے کی واضح نشانی بھی ہے کیونکہ اس نے معاشی تاریخ اوراپنے تجارتی فہم کو بطور بزنس مین تو دیکھا ہے لیکن اگر وہ یہ سب کچھ بطور لیڈر دیکھتا تو یہ احمقانہ قدم ہرگز نہ اٹھاتا۔
جو باتیں معاشی ماہرین سمجھ رہے ہیں، میرا پورا یقین ہے کہ وہ باتیں امریکی معاشی ماہرین بھی سمجھتے ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے اقدامات کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ واران بفے نے سب سے پہلے اپنے اسٹاکس مارکیٹ میں فروخت کرکے اس کو ڈالرز میں بھی بدل لیا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنی موجودہ فتح کو خدائی مدد سے تعبیر کرتے ہوئے خود سے یہ اخذ کیا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کےلیے آزاد ہے اور عالمی المیہ یہ ہے کہ دنیا ڈالرز کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور کوئی بھی دوسرا مالیاتی نظام نہ تو اس کا متبادل ہے اور نہ ہی اس کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اب دنیا کوئی افسانوی ناول تو ہے نہیں کہ 250 صفحات میں سب کچھ بدل جائے لہٰذا لمحہ موجود میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا ایک اور عالمی کساد بازاری کے در پر کھڑی ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف جنگ اب دنیا بھر کی معیشتوں پر اثر انداز ہوگی اور ظاہر ہے کہ ٹرمپ اس سے پیچھے تو ہٹے گا نہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکا کو بھی نقصان ہوگا جس کا سارا الزام ٹرمپ چین اور یورپ کے سر منڈھ دے گا۔ اپنے مڈ ٹرم الیکشن 2026 میں اس کے ہاتھ میں یہی ہتھیار ہوگا کہ میں دنیا کی معیشت کا ٹھیکیدار نہیں ہوں، میں امریکی معیشت کو ٹھیک کرنے آیا ہوں اور میں نے دنیا بھر کے ٹیرف اس لیے بڑھائے تھے کہ مقامی لوگ امریکی مصنوعات کو بطور متبادل لیں۔
اس سب تماشے میں سب سے زیادہ نقصان اسٹاک مارکیٹس اور رئیل اسٹیٹ کا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دنیا بھر میں مالیاتی مارکیٹس اس طرح کے جھٹکوں سے اتنی جلدی ریکور نہیں ہوتی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو پھر شاید دنیا دوبارہ سے 2008 جیسا بحران دیکھے کہ جب لے ہیمن برادرز نے اپنا ڈیفالٹ ڈکلئیر کیا تھا اور اس کے ساتھ مارٹگیج مارکیٹ ڈیفالٹ کی اور ساتھ ہی دنیا بھر کے بینکس اور مالیاتی نظام زمین بوس ہونا شروع ہوگیا۔ اس وقت اوباما تھا، ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ جن کے ہاتھ میں دنیا بھر کا مالیاتی نظام موجود ہے انہوں نے اوباما کو اس کی اوقات یاد دلانے کےلیے یہ حرکت کی تھی۔ خیر، دنیا بھر کی مارکیٹس کو اس جھٹکے سے نکلنے میں 3 سے 5 سال لگ گئے تھے۔ اب کیا ہوتا ہے، اس حوالے سے کوئی بھی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی۔
اس نقطے کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اثاثوں کی قدر میں کمی سے سب سے بڑا مسئلہ مارجن کالز اور لیکویڈٹی کا ہوتا ہے۔ امریکا میں پرائیوٹ ایکویٹی اور ہیج فنڈز اس مسائل سے پہلے سے ہی دوچار ہیں۔ اس وقت بٹ کوائن، کروڈ آئل کو بڑے نقصان کا سامنا ہے حتیٰ کہ رسک فری سمجھے جانے والے بانڈز پر دباؤ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ یہ صورتحال 2008 جیسی کریڈٹ کرنچ کو پیدا کر رہی ہے اور اگر صورتحال پر کسی بھی طرح قابو نہ پایا گیا تو کریڈٹ کرائسز جنم لے گا۔
پوری دنیا میں اس وقت صرف دبئی اس پوری صورتحال سے نمٹنے کےلیے بہتر طور پر تیار نظر آتا ہے۔ دبئی میں کریڈٹ ڈیفالٹ کے امکانات سب سے کم ہیں اور ڈیبٹ پیمنٹ کےلیے بھی سب سے بہترین اور منظم طریقہ کار مو جود ہے یعنی دبئی اکانومی کسی بھی قسم سے حالات سے نمٹنے کےلیے بہتر طور پر تیار نظر آتی ہے اور اس نے جو قرضے لیے ہوئے ہیں، اس کے پاس ان کی ادائیگی کا انتظام موجود ہے۔ دبئی میں مستحکم شرح سود بھی اس ضمن میں معاون ثابت ہوگی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دبئی نے گزشتہ سال کے اواخر میں ہی سب کچھ سمجھ کر پالیسی بنا لی تھی اور اب سب کچھ اسٹریم لائن ہے، لہٰذا دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ بالخصوص تیار پراپرٹی مارکیٹ پر اس کے اثرات بہت کم ہوں گے۔ مزید یہ بھی ہے کہ دبئی نے 2008 کے فنانشل کرائسز سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اپنا انحصار ایک دو کے بجائے اس کے دائرہ کار کو پھیلادیا ہے۔ لہٰذا اگر ایک سیکٹر پر ہٹ آتی ہے تو باقی ماندہ سیکٹرز مل کر اس کو بچائیں گے۔ لہٰذا بظاہر یہی لگتا ہے کہ دبئی اس وقت ٹرمپ کی ٹریڈ وار سے نکل جائے گا۔
اس پوری صورتحال میں اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ شاید دبئی اور پورا گلف مستقبل میں خود کو امریکی معیشت سے فاصلے پر کرلے۔ اس بات کے امکانات اگرچہ محدود ہیں، لیکن موجود ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کی وجہ سے دنیا دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں دوبارہ سے گلوبل کرائسز کا سامنا کر رہی ہے اور اب کا گلوبل کرائسز قیادت کی ناسمجھی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے، وہ کسی بھی طرح سے اچھا معاشی شراکت دار نہیں ہوسکتا۔
اس سب کے ساتھ ایک اہم نقطہ جو اہم معاشی سرکلز میں زیر بحث ہے وہ یہ کہ کیا یہ سب کچھ اچانک ہو رہا ہے؟ گلوبل مارکیٹس میں ہلچل اور راتوں رات کھربوں ڈالرز کا مارکیٹ سے نکل جانا، عالمی مالیاتی اداروں کا گرنا اور اس کے ساتھ موجود دیگر عوامل۔ نہیں! یہ نہ تو اتفاق ہیں اور نہ ہی حقیقی معلوم ہو رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسٹیج سجایا گیا ہے۔ دوسری جانب عالمی کاروباری خبروں میں جو خوف کا عنصر شامل ہوا ہے جس کی وجہ سے فروخت کنندگان ایک دم بہت زیادہ اور خریدار کم ہیں، یہ بھی مصنوعی ہے۔
اب ذرا یہ دیکھیں کہ خریدار کون ہیں؟ وارن بفے نے چند ماہ قبل اپنے شیئرز لیکویڈیٹ کیے اور اس کی دیکھا دیکھی بہت سے مالیاتی اداروں نے ایسا کیا۔ وارن نے تقریباً 134 ارب کے شیئرز کو لیکویڈیٹ کرکے 334 ارب کا کیش پائل کھڑا کیا ہوا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے کہ بفے کچھ وقت کے بعد دوبارہ سے مارکیٹ میں انٹری کےلیے تیار ہورہا ہے۔ اب ایک جانب تیل کی قیمت کم ہو رہی تھی اور دوسری جانب سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مصنوعی طور پر ماس پینک پھیلایا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ادارے مارکیٹ سے ایگزٹ لیں اور اہم شیئرز کی قیمتیں گرنا شروع ہو جائیں۔ ایسا شروع ہوچکا ہے۔
اب اگر بڑے فنڈز کچھ عرصے کے بعد شیئرز کو دوبارہ سستے داموں خریدنا شروع کرتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ سب کچھ مصنوعی تھا اور امریکا کی ٹیرف وار کی آڑ میں گیم کھیل دی گئی ہے۔ اس کے قوی امکانات موجود ہیں۔ ایسا کرنے والے کون ہیں؟ وہی جو عالمی مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جو شرح سود کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جو جنگوں اورعالمی وباؤں کو اسپانسر کرتے ہیں، جن کی ملکیت میں بڑے مالیاتی ادارے بھی ہیں اور جو میڈیا کے مالکان بھی ہیں۔ ان کا طریقہ واردات ہی انوکھا ہوتا ہے۔ یہ سب مل جل کر خاموشی سے چلتے ہیں اور جب دنیا جذباتی فیصلے لے رہی ہوتی ہے، یہ انہیں کیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ بلیک راک اور وینگارڈ کیا کررہے ہیں۔ کیا اس سب کے بعد دنیا عالمی طور پر نئے ڈیجیٹل فنانشل سسٹم میں داخل ہورہی ہے؟ اس کے بھی قوی امکانات موجود ہیں۔
ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ انگریزی کا مقولہ ہے کہ ڈر کو مت خریدیں۔ جذبات کے بجائے ہوش مندی سے کام لیں۔ ایک دم گھبرانے کی اور بھیڑ چال کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرآپ شیئر بازار میں ہیں تو ڈمپنگ میں ضرور خریدیں۔ دوسری جانب ٹوکنائزڈ اثاثہ جات پر نظر رکھیں، انڈر ویلیو بلیو چپس اور قیمتی دھاتوں کی قیمتوں پر نظر رکھیں۔ اب ڈیجیٹل دور ہے، سب کی کارکردگی کے چارٹس آن لائن دستیاب ہیں۔ بس اتنا سا کیجیے، ڈر کر فیصلہ مت کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مالیاتی نظام دنیا بھر کے کے امکانات موجود ہیں محسوس ہو کرتے ہیں کی معیشت ہے کہ وہ ہوتا ہے ہیں اور شروع ہو کے ساتھ اور اس کے بعد رہا ہے ہے اور یہ بھی سب کچھ
پڑھیں:
مکار ،خون آشام ریاست
دنیا نے دہشت گردی کے بے شمار واقعات دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا کوئی ملک نہیں جو خود اپنے شہریوں کو قتل کرکے الزام دشمن پر تھوپنے کی مہارت رکھتا ہو — سوائے بھارت کے۔ یہ وہ ریاست ہے جو اپنے فالس فلیگ آپریشنز سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال چکی ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر ممبئی کی سڑکوں تک، جہاں کہیں خون بہا، وہاں بھارت کی بزدل، مکار اور منافق حکومت کا ہاتھ نظر آیا۔فالس فلیگ بھارت کی پرانی اور شرمناک روائت ہے ، جو ایک بار پھر 26بے گناہوں کا خون پی گئی ۔ بھارتی درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، ابھی کل کی بات ہے ، جب ابھی نندن کو چپیڑیں پڑی تھیں ، وہ بھی ایک فالس فلیگ ہی کا نتیجہ تھا ، یعنی پلوامہ کا حملہ جب فروری 2019 میںچالیس سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے۔ مودی حکومت نے چند گھنٹوں میں الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔ بعد ازاں خود بھارتی فوج کے سابق افسران اور ماہرین نے اشارہ دیا کہ یہ “اندرونی سازش” تھی تاکہ انتخابات سے قبل ہمدردی حاصل کی جائے۔ مودی نے اس کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اڑی حملہ،ستمبر 2016،خود ہی ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا، الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کیا۔ مگر بعد میں بی بی سی سمیت کئی بین الاقوامی ادارے اس حملے کی مشکوک نوعیت پر سوال اٹھاتے رہے۔بدنام زمانہ ممبئی حملے 26/11 – 2008، بھارت نے اسے بھی پاکستان سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن کئی سوالیہ نشان اٹھتے رہے، بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی؟ حملہ آوروں کے داخلی نیٹ ورکس؟ یہاں تک کہ معروف بھارتی افسر “ہیمنت کرکرے” جو ان حملوں کی آزاد تحقیق کر رہے تھے، انہیں بھی مشکوک انداز میں قتل کر دیا گیا۔ سمجھوتا ایکسپریس آتش زدگی 2007، یہ وہ واقعہ ہے جو بھارت کے لیے سب سے بڑا طمانچہ بنا۔ 68 افراد، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی، کو زندہ جلا دیا گیا۔ ابتدائی الزام پاکستان پر لگا، مگر بعد میں کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ اور دیگر انتہاپسند ہندو رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ یعنی یہ خالصتاً اندرونی بھارتی دہشت گردی تھی، جس میں بھارتی عدالتوں نے ثابت کیا کہ بھارتی فوج کے حاضر ڈیوٹی افسران خود ملوث تھے ، ابھی کل کی بات ہے ، خون آشام مودی نے ان تمام دہشت گردوں کو عام معافی دے کر رہا کیا ۔ اسی پر بس نہیں ، ڈانڈلی (کشمیر) میں خودساختہ حملے، بھارتی افواج نے خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروائے تاکہ تحریک آزادی کو بدنام کیا جا سکے۔
بھارت کا سب سے بڑا فالس فلیگ نہ پلوامہ تھا، نہ اڑی، بلکہ سب سے خطرناک فالس فلیگ وہ ہے جو آج بھی مسلسل کشمیر کی گلیوں میں جاری ہے،’’ریاستی دہشت گردی کا نام جمہوریت رکھ کر دنیا کو دھوکہ دینا‘‘۔مقبوضہ کشمیر میں ہر روز بے گناہ نوجوان لاپتہ ہوتے ہیں، ان کے جسم جعلی انکاؤنٹر میں گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے ہیں، اور پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے۔ ان کے جنازے بھی گھر والوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی سیکولر ازم ہے؟ کیا یہی وہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ہے جس کے نعرے سے بھارت دنیا کو دھوکہ دیتا ہے؟
سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مغربی طاقتیں، بھارت کے ان جرائم پر خاموش ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے؟ یا اس لیے کہ بھارت نے تہذیب” کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے؟ لیکن یہ لبادہ خون آلود ہے، اس کے اندر وہ درندہ چھپا ہے جو اپنے فائدے کے لیے اپنے ہی شہریوں کی لاشوں پر سیاست کرتا ہے۔ہر وہ وقت جب کوئی امریکی یا یورپی وفد بھارت آتا ہے، بھارت ایک جعلی دہشت گرد حملہ کروا کر خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے — اور الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کرتا ہے۔پاکستان نے ہر بار بھارت کی فریب کاریوں کا مؤثر جواب دیا، مگر ہمیشہ اخلاقی دائرے میں رہ کر۔ پاکستان نے کبھی بچوں کی لاشوں پر سیاست نہیں کی، کبھی اپنے لوگوں کو مار کر الزام دوسروں پر نہیں لگایا۔ لیکن بھارت؟ وہ ایک ایسا شیطانی ذہن رکھتا ہے جو اپنے ہی خون سے اپنے چہرے کو دھو کر اسے دشمن کا رنگ دیتا ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ، عسکری قیادت اور سفارتی اداروں کے لئے اب مزید خاموشی کی گنجائش نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان فالس فلیگ حملوں کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے۔ ہر جعلی حملے کی بین الاقوامی نگرانی میں انکوائری ہو تاکہ بھارت کی ننگی حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔
بھارتی میڈیا، جو کبھی صحافت تھا، اب محض جنگی پروپیگنڈے کا آلہ بن چکا ہے۔ “ریپبلک ٹی وی”، زی نیوز”، اور “ٹائمز ناؤ” جیسے چینلز اپنے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں۔ ان کے اینکرز صحافی نہیں، غصے سے چیختے سپاہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے پلوامہ جیسے حملے کو فلمی اسکرپٹ بنا کر پیش کیا، اور بھارتی عوام کو جنگ کے جنون میں مبتلا کر دیا، جواب میں جب پاکستان نے بھارتی وکاس کو دھو کر رکھ دیا تو میڈیا کو چپ لگ گئی ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جو پاکستان کی معاشی بحالی اور اپنی کٹھ پتلیوں کی ناکامی پر انگاروں پر لوٹ رہاہے ، کیا آگے چپ رہے گا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے ۔ وہ ایک بار پھر فالس فلیگ سازشوں کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ کشمیر میں حالیہ سیاحوں پر حملہ اسی شیطانی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت اس وقت بلوچستان میں اپنی پراکسیز کے خاتمے، ایران میں نیٹ ورک کی بے نقابی، اور افغانستان میں رسائی ختم ہونے سے سخت بوکھلایا ہوا ہے۔ ان تمام محاذوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نیا ڈرامائی حملہ” خارج از امکان نہیں۔ حالیہ حملہ جس میں غیر ملکی سیاح مارے گئے، اس بات کا عندیہ ہے کہ بھارت اب عالمی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ ایک سفاک حکومت کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ ہر فالس فلیگ آپریشن کا مکمل فیکٹ فائل تیار کرے، جس میں واقعات، مشکوک پہلو، انٹیلی جنس رپورٹس، میڈیا پراپیگنڈا اور بھارتی بیانات کو جمع کر کے اقوام متحدہ، او آئی سی، ہیومن رائٹس کونسل اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے رکھا جائے۔ ہر پاکستانی سفارت خانے کو یہ ہدف دیا جائے کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر ایک ایک رپورٹ متعلقہ ملک کے دفتر خارجہ، تھنک ٹینکس، اور میڈیا ہاؤسز کو فراہم کرے۔دوسری جانب یہ بھی لازم ہے کہ ہمارے ادارے جو پہلے ہی چوکس ہیں ، ریڈ الرٹ پر آجائیں ، متحرک اور متحد ہو کر بھارت کی ہر ممکنہ چال پر نظر رکھیں، پیشگی وارننگ اور پروف کے ساتھ دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت کیا کرنے والا ہے، اور اگر ابھی نندن جیسی کوئی دوسری حماقت کرے تو پھر یہ اس کی آخری حماقت ہونی چاہئے ۔
بھارت ایک بار پھر چالاکی، سازش اور ظلم کا جال بُن رہا ہے — مگر ہم جاگ رہے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر، ایک مؤقف کے ساتھ، ایک آواز میں دنیا کو بتانا ہوگا:
ہم خاموش ضرور ہیں، مگر کمزور نہیں۔
ہم امن چاہتے ہیں، مگر بزدل نہیں۔
ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھو —
کیونکہ جب پاکستان بولتا ہے، دنیا سنتی ہے۔
اور جب ہم وار کرتے ہیں،
دشمن کی سانسیں بند ہو جاتی ہیں۔