چین قواعد پر مبنی کثیرالجہتی تجارتی نظام کے مشترکہ تحفظ کے لیے کام کرے گا ، چینی وزارت تجارت WhatsAppFacebookTwitter 0 23 July, 2025 سب نیوز

جنیوا:عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) نے یورپی یونین  کے چین کے ساتھ معیاری ضروری پیٹنٹس کے حوالے سے تنازع کا فیصلہ جاری کیا۔اس حوالے سے،چینی وزارت تجارت  کے قانونی معاہدات شعبے کے ایک ذمہ دار عہدیدار نے بتایا کہ ثالثی پینل نے ماہرین گروپ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ چین کے حکم ناموں نے دیگر ڈبلیو ٹی او ارکان کے پیٹنٹ حقوق کے تحفظ کو متاثر نہیں کیا اور نہ ہی یہ عالمی تجارتی قواعد کے دائرہ کار میں آنے والے دانشورانہ املاک کے نفاذ کے اقدامات میں شامل ہیں۔

چین اس فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے۔تاہم، پینل نے قواعد کی واضح بنیاد کے بغیر غلط طور پر یہ رائے قائم کی کہ ڈبلیو ٹی او کے اراکان کو دوسرے ارکان کے دائرہ اختیار میں پیٹنٹ ہولڈرز کے حقوق کے نفاذ کو متاثر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ اقدام ڈبلیو ٹی او ارکان کی ذمہ داریوں کو نامناسب طور پر وسیع کرتا ہے، جس پر چین نے اپنا عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔اگلے مرحلے میں، چین متعلقہ فیصلے کا بغور جائزہ لے گا اور عالمی تجارتی قواعد کے مطابق مناسب طریقے سے اس کا انتظام کرے گا۔

چین “کثیر فریقی عارضی اپیل ثالثی انتظامات”کے قانونی ذرائع کے ذریعے تجارتی تنازعات کو مؤثر طریقے سے نمٹانے کے حوالے سے قدر کو تسلیم کرتا ہے اور قواعد پر مبنی کثیرالجہتی تجارتی نظام کے مشترکہ تحفظ کے لیے کام کرے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کی ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ  18 دسمبر  سے جزیرے بھر میں آزاد کسٹمز آپریشن کاباضابطہ آغاز کرے گی چین کی ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ  18 دسمبر  سے جزیرے بھر میں آزاد کسٹمز آپریشن کاباضابطہ آغاز کرے گی چین یورپی یونین سربراہی اجلاس دوطرفہ تعاون اور بات چیت  کو فروغ دےگا،چینی وزارت خارجہ  امید ہے کہ امریکہ چین  کے ساتھ  بات چیت اور مواصلات کے ذریعے اتفاق رائے بڑھائے گا،  چینی وزارت خارجہ چین کے ہول سیل اور ریٹیل شعبے کی اضافی قدر میں نمایاں اضافہ ’’چائناصنعتی و سپلائی چین’’ عالمی صنعتوں کے لیے راستے ہموار کر رہی ہے ، چینی میڈیا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چینی وزارت کے لیے کرے گا

پڑھیں:

مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل

ریو ڈی جنیرو میں 2025 کی برکس کانفرنس میں اس سال کا مرکزی موضوع کثیرالجہتی (multilateralism) اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی تھا، جو اقوام متحدہ کے منشور میں درج مقاصد و اصولوں پر مبنی ہے۔

کانفرنس نے بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام، انسانی حقوق کے فروغ، اور باہمی احترام، انصاف، مساوات اور یکجہتی پر مبنی تعاون کے لیے اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو دہرایا۔ اس وقت جبکہ مغربی قیادت میں قائم حکمرانی کا نظام اپنی استحصالی اور تحفظاتی پالیسیوں کی بدولت مستقل طور پر ساکھ کی زوال پذیری سے دوچار ہے اور اس کی وجہ سے عالمی سطح پر بے یقینی میں اضافہ اور ترقی کی رفتار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے برکس(BRICS )سربراہی اجلاس میں گلوبل ساؤتھ کے مفادات کے تحفظ اور نئے چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے تعاون کا ایک فریم ورک پیش کیا۔ اس کا مقصد امریکہ کی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی پالیسیوں اور ترقی پذیر ممالک کی ترقی کی قیمت پر اپنی معیشت کو فروغ دینے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا تھا۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا پر غیر امتیازی محصولات عائد کیے ہیں، جو ایک صدی سے زائد عرصے میں پہلی بار دیکھنے میں آئے ہیں۔ یہ ‘‘جعلی’’ ٹیکس ظاہر کرتے ہیں کہ اب امریکہ نہ تو عالمی اقتصادی نظام کا مرکز ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ ہی آزاد تجارت کا ضامن۔ اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ پالیسی مقابلے سے خوف کی علامت ہے، جو دراصل امریکی معیشت میں جدت کو فروغ دے سکتی تھی اور جس نے عشروں تک امریکہ اور امریکی عوام کو فائدہ پہنچایا۔ یہ کرایہ خورانہ طرزِعمل (rent-seeking) نہ صرف عالمی معیشت بلکہ خود امریکی معیشت پر بھی بوجھ بن سکتا ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے مطابق، ٹرمپ کی جانب سے 2 اپریل کو متعارف کرائے گئے محصولات کے باعث 2025 میں امریکی شرحِ نمو 1.8 فیصد تک گر سکتی ہے، جو جنوری کی پیشگوئی سے 0.9 فیصد کم ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف بڑی معیشتوں کے درمیان فوری تجارتی مفاہمت کی ضرورت پر زور دے سکتا ہے۔ایسے نازک موقع پر، جب محصولات کی وجہ سے غیر یقینی کی سطح انتہائی بلند ہو چکی ہے، کثیرالجہتی (multilateralism) کو فروغ دینا علاقائی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ عالمی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے اور اجتماعی مشاورت و تفہیم کے ذریعے غیر قانونی محصولات و پابندیوں کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

برکس نے اپنے بنیادی اصولوں متفقہ فیصلہ سازی، ترقی و مساوات کو فروغ دینے، اور عالمی اداروں میں اصلاحات و جدید کاری کی بدولت گزشتہ برسوں میں غیر معمولی توسیع حاصل کی ہے۔ انڈونیشیا، مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، ایران، اور ممکنہ طور پر سعودی عرب جیسے کئی ابھرتے ہوئے ممالک اب اس تنظیم کا حصہ ہیں۔برکس کی مزید توسیع عالمی سطح پر اس بلاک کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ کرے گی اور بکھری ہوئی دنیا میں شمولیت اور ہم آہنگی لائے گی، اور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ جیسے خطوں میں جو کہ غزہ پر قبضے کی امریکی دھمکیوں، تہران پر فوجی کارروائی کے امکانات، اور تیل کی مارکیٹ میں محصولات سے پیدا ہونے والی کساد بازاری جیسے بڑے چیلنجز سے دوچار ہیں استحکام اور ترقی کو فروغ دے گی۔

اگرچہ برکس پر مغرب کی قیادت میں قائم اقتصادی اداروں کو چیلنج کرنے اور متبادل عالمی نظام قائم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، مگر یہ دعویٰ دلیل سے خالی ہے۔ برکس دراصل موجودہ عالمی نظام میں گلوبل ساؤتھ کے خلاف موجود تعصبات کو ختم کرنے، کثیرالجہتی کو فروغ دینے، بین الاقوامی اداروں کی اصلاح اور ایک مؤثر، جامع اور نمائندہ نظام کی تعمیر کے لیے کام کر رہا ہے۔ وانگ ای کی تجاویز اقوام متحدہ کے ویژن سے ہم آہنگ ہیں، جس کا ‘‘پیکٹ آف دی فیوچر’’ عالمی حکمرانی کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ برکس اجلاس میں گروپ کے کثیرالجہتی کے فروغ میں کردار پر زور دیا، ڈیجیٹل خلیج کے بڑھنے پر خبردار کیا، بریٹن ووڈ اداروں میں گلوبل ساؤتھ کی کم نمائندگی کا اعتراف کیا، اور زیادہ منصفانہ مالیاتی نظام، موسمیاتی اقدامات، ٹیکنالوجی تک رسائی اور امن کے قیام میں برکس سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ۔برکس کا ‘‘کنٹیجنٹ ریزرو ارینجمنٹ’’ عالمی مالیاتی نظام کی مضبوطی میں مدد دیتا ہے اور آئی ایم ایف کے معاون میکانزم کا تکملہ ہے، جب کہ اس کا ‘‘نیو ڈیولپمنٹ بینک’’ قابلِ تجدید توانائی، ا سمارٹ ٹرانسپورٹ اور ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ منصوبوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، جو اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی تباہی سے الگ کرتا ہے۔ برکس کی توسیع ایتھوپیا جیسے ممالک کو ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کر کے ڈیجیٹل خلیج کو پاٹنے میں مدد دیتی ہے۔

تنظیم سفارت کاری، شمولیتی مکالمے، تنازعہ سے بچاؤ، برداشت اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی قیادت میں ایک نئی اور اصلاح شدہ کثیرالجہتی نظام کو فروغ دیتی ہے۔ ثقافتی تبادلوں اور انسان دوست منصوبوں پر باہمی اتفاق سے اس کی شناخت ایک ہمہ جہت تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے۔آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے، وہ امریکی قوم پرستانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جو عالمی امن کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور کبھی مربوط رہنے والی گلوبلائزیشن کو ذاتی مفادات کے لیے تہ و بالا کر رہی ہیں۔ مغرب کی بالادستی والے ادارے موجودہ بحرانوں، جیسے یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے مسائل، کا حل فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، جس کے باعث گلوبل ساؤتھ میں اس ‘‘لبرل’’ نظام سے بددلی بڑھ رہی ہے۔برکس کی صورت میں گلوبل ساؤتھ، خاص طور پر پسماندہ ممالک کو ایک ایسا پلیٹ فارم ملا ہے جہاں ان کے ساتھ باہمی احترام، کھلے پن، شمولیت اور یکجہتی کے جذبے کے تحت برتاؤ کیا جاتا ہے۔ یہ ممالک اب عالمی ناانصافیوں اور اقتصادی ناہمواریوں کے خلاف اجتماعی آواز بلند کر سکتے ہیں، عالمی پالیسی سازی میں حصہ لے سکتے ہیں، ایک منصفانہ اور برابری پر مبنی اقتصادی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور حقیقی کثیرالجہتی کو فروغ دے کر گلوبلائزیشن کو دوبارہ استحکام دے سکتے ہیں۔ برکس ممالک دنیا کی تقریباً نصف آبادی، 36 فیصد رقبے، 39 فیصد عالمی GDP جبکہ G7 کا 28.4 فیصدحصہ ہے، اور 23 فیصد عالمی تجارت
کی نمائندگی کرتے ہیں ۔

اس اتحاد کے پاس اتنے وسائل اور معاشی و آبادیاتی طاقت ہے کہ وہ دنیا میں موجود عدم توازن کو ختم کر سکے اور مغرب کے زیر اثر عالمی نظام کو متوازن کر سکے۔ اگر یہ ممالک آپس میں اتحاد، کثیرالجہتی کے فروغ اور بہتر عالمی حکمرانی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ٹرمپ کی مالی خودمختاری پر حملے کو روک سکیں گے، بلکہ عالمی امن، استحکام اور ترقی پذیر دنیا میں مشترکہ ترقی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ برکس اب خود کو تاریخی طور پر محکوم اقوام کے اتحاد کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس کے اراکین اور شراکت داروں کی فہرست ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ 2025 میں کولمبیا اور بولیویا نے رکنیت میں دلچسپی ظاہر کی۔ خاص طور پر کولمبیا کی گزشتہ3 برسوں میں امریکی اثر سے علیحدگی اور زیادہ خودمختار خارجہ پالیسی کی طرف پیش رفت قابلِ ذکر ہے۔ برکس کے موجودہ مکمل رکن ممالک میں برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، انڈونیشیا اور ایران شامل ہیں جبکہ اس کے شراکت دار ممالک میں بیلاروس، بولیویا، کیوبا، قازقستان، ملائیشیا، نائجیریا، تھائی لینڈ، یوگنڈا اور ازبکستان شامل ہیں۔

2024 میں 30 سے زائد ممالک نے برکس میں مکمل رکن یا شراکت دار بننے کی خواہش ظاہر کی۔2025 کی کانفرنس نسبتاً کم نمایاں سمجھی جا رہی تھی، خاص طور پر 2024 کی کازان کانفرنس کے مقابلے میں،کیونکہ برازیل اس سالCOP30 کی میزبانی بھی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی توجہ منقسم نظر آئی۔ اس کے باوجود، برکس 2025 نے میڈیا کی توقع سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ اس تنظیم سے امریکہ کے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس میں شامل ہونے یا امریکی ڈالر کو بائی پاس کرنے والے کسی بھی ملک پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے یہ بات زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ خودمختار کرنسیوں میں دوطرفہ تجارت اور امریکی معاشی پالیسیوں، خاص طور پر ٹرمپ کی 100% ٹیرف کی تجاویز پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد، عالمی منڈیوں کو ہلا رہا ہے۔ امریکی ڈالر انڈیکس کے مطابق، جون 2024 سے ڈالر کی قدر میں تقریباً 8.8فیصد کمی ہوئی ہے۔2023 میں اقوامِ متحدہ کے تحت کچھ سرمایہ کاری بینکوں نے خبردار کیا تھا کہ امریکی ڈالر عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر اپنی حیثیت کھو سکتا ہے، اور اس کی جگہ چینی یوان، جاپانی ین یا ممکنہ برکس کرنسی لے سکتی ہے۔

برکس 2025 کانفرنس میں بڑے جغرافیائی تنازعات پر بھی بات کی گئی۔جون میں ایران پر امریکی اور اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کی گئی اور فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔بھارت کی جانب سے ان قراردادوں کی حمایت ایک اسٹریٹیجک توازن کو ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ بھارت برکس کے نوآبادیاتی مخالف بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے، لیکن اگر بین الاقوامی قانون کے نفاذ میں یکسانیت کا مطالبہ بڑھا تو اسرائیل سے اس کے قریبی تعلقات اور کشمیر پر اس کا غیر قانونی قبضہ، برکس میں اس کے کردار پر سوالات اٹھا سکتا ہے ۔2024 کی کازان کانفرنس نے برکس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس میں متعدد اقدامات شامل تھے جیسے برکس فنانس ٹریک مرکزی بینک ورکنگ گروپ ادائیگیوں کا تعاون کونسل تیز معلوماتی سلامتی چینل انسداد بدعنوانی ورکنگ گروپ برکس اسپیس کونسل برکس ہیلتھ کیئر اور نیوکلیئر میڈیسن ورکنگ گروپ وغیرہ برازیل نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سال5 نئے ورکنگ گروپس شروع کیے۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارSMEsانسداد دہشت گردی، آفات سے نمٹنے اور انسداد اجارہ داری اور مقابلہ پالیسی برکس 2025 کو عالمی جنوب کے مابین گہرے تعاون کی جانب ایک اور قدم قرار دیا جا رہا ہے، اس کا مقصد جامع اور پائیدار عالمی نظم و نسق قائم کرنا ہے۔جہاں 2024 کی کازان کانفرنس کثیرالجہتی ترقی اور سلامتی پر مرکوز تھی، وہیں ریو کی کانفرنس عالمی جنوب کی آواز کو ابھارنے پر زیادہ مرکوز رہی۔2026 کی برکس کانفرنس کی میزبانی بھارت کرے گا، اور یہ کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ ماہرین بھارت کے برکس کے اصلاحاتی ایجنڈے سے طویل المدتی وابستگی پر غیر یقینی کا اظہار کر رہے ہیں۔یہ کانفرنس بھارت کے لیے ایک آزمائش ہوگی اور اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ کیا وہ واقعی برکس کے کثیرالجہتی، جامع حکمرانی، اور جنوب۔جنوب تعاون کے وژن کے ساتھ کھڑا ہے، یا اس کی پالیسی اسٹریٹیجک ابہام پر ہی قائم رہے گی؟

متعلقہ مضامین

  • مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل
  • عالمی ادارہ صحت نے چکن گونیا وائرس کی عالمی وبا کا خدشہ ظاہر کر دیا
  • چین،2025 ایس سی او سولائزیشن ڈائیلاگ کا افتتاح
  • چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی مذاکرات سویڈن میں ہوں گے، ترجمان چینی وزارت تجارت
  • چین کے ساتھ بھائی چارے پر مبنی تاریخی تعلقات ہیں، ان کا تحفظ اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
  • چینی بھائیوں کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • چین یورپی یونین سربراہی اجلاس دوطرفہ تعاون اور بات چیت  کو فروغ دےگا،چینی وزارت خارجہ
  •  امید ہے کہ امریکہ چین  کے ساتھ  بات چیت اور مواصلات کے ذریعے اتفاق رائے بڑھائے گا،  چینی وزارت خارجہ
  • چین کے ہول سیل اور ریٹیل شعبے کی اضافی قدر میں نمایاں اضافہ