پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 میں شامل 6 ٹیموں کے کپتانوں کی جانب سے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صحافی کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال پر بابر اعظم کا جواب سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صحافی نے بابر اعظم سے سوال کیا کہ ٹیم کے موجودہ حالات پر کب بولیں گے؟ کیا جس دن پوری ٹیم ختم ہوجائے گی اس دن آپ بولیں گے کہ پاکستان کی کرکٹ میں کیا ہورہا ہے۔

بابراعظم نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جہاں مجھے بولنا ہوتا ہے میں وہاں پر بولتا ہوں، میں لوگوں کی طرح میڈیا پر بیٹھ کر نہیں بولوں گا کہ کیا کرنا چاہیے۔ مجھے جن لوگوں کو کچھ بولنا ہوتا ہے میں ان کو کمرے کے اندر بول دیتا ہوں۔ میں سوشل میڈیا پر آ کر ڈھنڈورا نہیں پیٹوں گا کہ ایسا ہونا چاہیے، یہ میرا کام نہیں ہے‘۔

Question: Will you speak on the current performance when the team is finished?

Babar Azam: I speak when I need to.

Main yahan a kar dheendora nahi peetunga pic.twitter.com/sH8VZm7UiX

— junaiz (@dhillow_) April 10, 2025

ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین کی جانب سے اس پر مختلف تبصرے کیے گئے۔ ایک صارف نے کہا کہ دوسرے کھلاڑیوں اور بابر اعظم میں یہی فرق ہے کہ وہ میڈیا میں نوٹنکی نہیں کرتا۔

Yehi cheez difference hai dusro me aur babar me. Media me nautanki nahi karta ????

— cosmopolitan (@LalaLodubhai) April 10, 2025

ایک ایکس صارف نے بابر اعظم کی جانب سے جواب دیتے ہوئے طنزاً لکھا کہ ’گراؤنڈ میں جواب دوں گا‘۔

Ground mein jawab dun ga ???????????? https://t.co/7nRFrckp74

— Punter (@Rizziverse) April 10, 2025

عمر نامی صارف نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ بابر اعظم سے پی ایس ایل سے متعلق سوال کریں۔

Kia faarig journalists hein yaha kay
Psl ka sawaal pooch na bhai https://t.co/R0L7FhY8ZZ

— umer (@paddlesweeep) April 10, 2025

ماہا خان لکھتی ہیں کہ کپتان سامنے بیٹھا ہے یہ سوال اس سے کریں ناکہ بابر اعظم سے۔

Ye kon brainless admi hai
Captain samne betha hai us se pucho https://t.co/rpF1V7k256

— Maha Khan|sub bhar mai jao era (@MahaBA56) April 10, 2025

کئی صارفین کا کہنا تھا کہ کپتان، وائس کپتان، ہیڈ کوچ اور چیئرمین کوئی اور ہے لیکن ایسا سوال بابر اعظم سے پوچھا جارہا ہے۔ صارفین کا کہنا تھا کہ بابر اعظم نے بالکل ٹھیک جواب دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کی جانب سے میڈیا پر

پڑھیں:

معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر  انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔

کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟

کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟

اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !

بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟

یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راؤ علی

بلوچستان کوئٹہ لڑکیاں

متعلقہ مضامین

  • ایف بی آر آفس سے سونے چاندی کی اشیاء سمیت 43 چیزوں میں خرد برد کا انکشاف
  • چینی وزیر اعظم 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس میں شرکت کریں گے، وزارت خارجہ
  • چینی وزیر اعظم 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس میں شرکت کریں گے، وزارت خا رجہ
  • روس کا مسافر طیارہ پہاڑوں میں گر کر تباہ، 49 افراد کی ہلاکت کا خدشہ
  • چین کی عالمی تجارتی تنظیم میں یکطرفہ ٹیرف اقدامات کی مخالفت کی اپیل
  • خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری معیشت کی بہتری کیلئے ناگزیر ہے، وزیر اعظم
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • ٹی 20ن کی نئی رینکنگ جاری، بابر اعظم اور محمد رضوان پیچھے رہ گئے
  • پہلے لیڈر اور نظریے کی گاڑی چلاتا تھا اور اب مریم کی گاڑی چلانے کیلئے بہت سارے لوگ ہیں: کپٹن صفدر کا  وی لاگ میں سوال کا جواب
  • ’لارڈز ٹیسٹ میں انگریز اوپنرز 90 سیکنڈ لیٹ آئے‘، بھارتی کپتان نے چالاکی پر سوال اٹھادیا