چین اور یورپ کے قواعد پر مبنی کثیر جہتی تجارتی نظام سے یقینی صورتحال پیدا ہوگی، چینی وزیر تجارت
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
چین اور یورپ کے قواعد پر مبنی کثیر جہتی تجارتی نظام سے یقینی صورتحال پیدا ہوگی، چینی وزیر تجارت WhatsAppFacebookTwitter 0 10 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چینی وزیر تجارت وانگ وین تاؤ نے یورپی کمیشن کے تجارت اور معاشی سلامتی کے کمشنر ماروش شفکووچ کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں بات چیت کی۔
دونوں فریقوں نے جلد از جلد مشاورت کا آغاز کرنے اور چین-یورپ ٹریڈ ریمیڈی ڈائیلاگ میکانزم کی بحالی کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا۔
جمعرات کے روز وانگ وین تاؤ نے زور دیا کہ موجودہ صورت حال میں، چین اور یورپ کے قواعد پر مبنی کثیر جہتی تجارتی نظام کو مشترکہ طور پر برقرار رکھنے اور تجارتی آزادی پر قائم رہنے سے عالمی معیشت اور عالمی تجارت میں زیادہ استحکام اور یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔
ماروش شفکووچ نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے عائد کردہ محصولات نے بین الاقوامی تجارت پر شدید اثر ڈالا ہے، جس نے یورپ، چین اور کمزور ممالک پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ امریکہ عالمی مال کی تجارت کا صرف 13 فیصد حصہ رکھتا ہے اور یورپ چین سمیت دیگر عالمی تجارتی تنظیم کے اراکین کے ساتھ مل کر عالمی تجارت کے معمولات چلانے کو یقینی بنانے کے لیے تیار ہے۔
دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مارکیٹ تک رسائی سے متعلق مسائل پر گہری بحث کرنے، کاروباری ماحول کو زیادہ سازگار بنانے، اور فوری طور پر الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتوں کے عہد نامے پر مذاکرات کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ چین-یورپ آٹو موبائل صنعت میں سرمایہ کاری میں تعاون پر جلد از جلد مشاورت شروع کی جائے۔
دونوں فریقوں نے چین-یورپ ٹریڈ ریمیڈی ڈائیلاگ میکانزم کی بحالی، ٹریڈ ڈائیورژن پر بات چیت کرنے، اور تجارتی تنازعات کو مناسب طریقے سے نمٹنے کی حمایت کی۔ دونوں فریقوں نے کہا کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم کو مرکز بنانے والے کثیر جہتی تجارتی نظام کو برقرار رکھیں گے۔
9 اپریل کو چین کے وزیر تجارت وانگ وین تاؤ نےآسیان کے موجودہ چیرمین ملک، ملائیشیا کے وزیر تجارت و صنعت ظفرالعزیز کے ساتھ ویڈیو لنک پر بات چیت کی۔ وانگ وین تاؤ نے کہا کہ چین آسیان سمیت اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مواصلات اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔ظفرالعزیز نے کہا کہ ملائیشیا کثیر جہتی نظام اور عالمی تجارت کی ترقی کی مشترکہ حمایت کرنے کو تیار ہے اور آسیان ممالک کے ساتھ امریکہ کے ” ریسیپروکل ٹیرف ” سے متعلق سلسلہ وار اقدامات پر مشاورت کرکے اجتماعی طور پر جواب دے گا ۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کثیر جہتی تجارتی نظام عالمی تجارت نے کہا کہ اور یورپ کے ساتھ چین اور
پڑھیں:
پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) پاکستان میں چینی کی اس قلّت کے پیچھے چند وجوہات ہیں جو اسی تواتر سے ہر سال ایک سی ہی رہی ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان لے چلتے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دو سالوں سے چینی کی پنجاب سے بلوچستان آمد اور پھر بلوچستان کے راستے افغانستان اسمگل ہونے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہی ہیں۔
سرکاری افسران اور بس میں سفر کرنے والوں نے بتایا کہ یہ چینی بسوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی رہی ہے۔ کسٹمز حکام نے بھی اس کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ 2023 میں ہر دوسرے روز کوئٹہ سے 100 ٹن چینی اور ہفتے میں 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی گئی۔
جہاں اس اسمگلنگ میں پچھلے تین سالوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا وہیں اس سال اسمگلنگ سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔
(جاری ہے)
اس کی وجہ حکام یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی چینی مہنگی ہے جس سے اس کی غیر قانونی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ افغانستان میں اس وقت قدرے کم قیمت پر بھارتی چینی بازاروں میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس لیے اس وقت اسمگلنگ میں پہلے کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان سے چینی افغانستان اور دیگر ممالک باقاعدہ طور پر برآمد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اب یہی چینی قانونی راستوں سے افغانستان پہنچتی ہے۔
بلوچستان میں ایک صوبائی افسر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''ان واقعات کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر چینی لانے اور لے جانے والوں کے لیے پرمِٹ رکھنا اور چیک پوسٹوں پر دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ بے شک آپ کی گاڑی یا ٹرک کئی بار اسی چیک پوسٹ سے گزرے ہوں، آپ سے پرمِٹ مانگا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ پرمِٹ پہلے بھی دکھائے جاتے تھے لیکن ایک صوبائی افسر نے بتایا کہ ''کچھ گاڑیوں کا پرمِٹ چیک نہیں کیا جاتا،‘‘ جس کے نتیجے میں چینی گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے اسمگل ہوتی رہی۔
تاجروں کے مطابق قانونی راستوں سے چینی یا خورد و نوش کی کوئی بھی اشیا بھیجنے میں منافع کم ملتا ہے۔مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ اب ''پنجاب سے چینی اس مقدار میں نہیں آرہی جتنی پہلے آتی تھی۔ تو اسمگلنگ کا مارجن پہلے سے قدرے کم ہو گیا ہے۔‘
‘
حالیہ 'بحران‘ کیسے اور کیوں بنی؟سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''یہ ایک مصنوعی بحران ہے جسے ہر سال مِل مالکان کو فائدہ دینے کے لیے بنایا جاتا ہے۔
اور پھر گنّے کی کرشنگ کا موسم آتے ہی (جس دوران مِل مالکان خسارے میں ہوتے ہیں) ختم کردیا جاتا ہے تاکہ سب برابر کما سکیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ ''حکومت نے 757,597 میٹرک ٹن چینی 2024-2025 میں برآمد کی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں ایسا کیا گیا تھا جب بغیر کسی پلان اور حکمتِ عملی کے 900000 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔
آپ کو اگر چینی برآمد کرنی ہی ہے تو آپ پہلے 100000 میٹرک ٹن برآمد کریں تاکہ آپ کو مارکیٹ اور حقائق کا پتا چل سکے۔ مارکیٹ اور برآمد کے نتائج جانے بغیر آپ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘مفتاح نے کہا کہ ''ان کا مقصد چینی کی قیمت بڑھانے سے ہے نا کہ معاملات سنبھالنے سے۔ یہ مِل مالکان اور ان کے دوستوں پر مشتمل طبقہ ہے جو اس بحران سے منافع کماتا ہے۔
‘‘واضح رہے کہ چینی کی قیمت جولائی کے مہینے میں 210 روپے فی کلو ہوئی جس کے بعد اب حکومت نے اسے 163 روپے فی کلو پر روک دیا ہے۔
اس کے بارے میں معاشی تجزیہ کار شمس الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "2024-2025 کے دوران پاکستان نے تقریباً 84 ملین ٹن گنے اور 70 لاکھ چینی کی پیداوار کی، اس کے باوجود اس بڑے پیمانے پر پیداوار کے فوائد عام کاشت کاروں تک نہیں پہنچتے۔
اس کے ساتھ ہی ایک شوگر کارٹیل قیمتوں اور پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بنائے گئے بحران کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔‘‘شمس الاسلام نے کہا کہ یہ ایک 'منصوبہ بند بحران‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال شوگر کارٹیل ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حکومت کو برآمدات کی منظوری دینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے مِلوں کو مقامی قیمتوں میں افراط زر کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں سے کم فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
شمس الاسلام نے کہا کہ برآمدات مکمل ہونے کے بعد، کارٹیل خام چینی کی درآمد کا مطالبہ کرتا ہے، سپلائی کے بحران کا دعویٰ کرتا ہے، قیمتوں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یوٹیلٹی اسٹورز اور 'سستی چینی بازار' کے ذریعے چینی کی فروخت پر بھاری سبسڈی خرچ کرتی ہے۔ شوگر ملز کو صنعت کی مدد کے بھیس میں اربوں کی سرکاری سبسڈی ملتی ہے۔
‘‘جب چینی کی عالمی قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل برآمدی سبسڈی کا مطالبہ کرتا ہے، ٹیکس دہندگان کو اپنے منافع کو فنڈ دینے پر مجبور کرتا ہے۔ جب بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل مقامی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے درآمدات کو روکتا ہے۔
اس بحران سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟شمس الاسلام نے کہا کہ ''اس کا فائدہ انہیں خاندانوں کو ہوتا ہے جو پاکستان پر حکومت کرتے ہیں۔
‘‘انہوں نے کہ پاکستان کی شوگر انڈسٹری مارکیٹ فورسز کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس پر سیاسی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔ سب سے بڑے مل مالکان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ بااثر بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات جو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی کے لیے لابنگ کرتے ہیں، اور بڑی شوگر ملوں میں براہ راست حصص رکھنے والے ریٹائرڈ فوجی اہلکار سب شامل ہیں۔‘‘
سحر بلوچ
ادارت: جاوید اختر