Express News:
2025-09-18@17:30:28 GMT

ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

8اپریل2025 کی دوپہر جب اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت Pakistan Minerals Investment Forum کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی، عین اُس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی نے اپنا ’’ تماشہ‘‘ لگا رکھا تھا ۔ اور اُسی وقت کراچی میں ایک منفرد سیاسی ’’تماشہ‘‘ یوں لگا تھا کہ ایم کیوایم کی سینئر قیادت (جن میں ایک وفاقی وزیر بھی شامل تھے) سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور کراچی میئر کے خلاف سخت زبان کی حامل پریس کانفرنس کررہی تھی۔ اوراُسی وقت بلوچستان کے کوہستانی علاقوں میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، اختر مینگل، کی قیادت میں شوریدگی پر آمادہ ایک جلوس وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت کے خلاف نعرہ زَن تھا۔ اور عین اُسی وقت ایک پانچواں ’’تماشہ‘‘ سندھ میں یوں لگ رہاتھا کہ سندھ حکومت اور کئی سندھی قوم پرست جماعتیں مبینہ6نہروں کے بارے وفاقی حکومت کے خلاف سڑکیں گرم کررہے تھے۔ اوراِنہی ہاؤ ہُو کے مناظرمیں ایک منظر یہ بھی دکھائی دے رہا تھا کہ پاکستان بھر سے افغان مہاجرین سمیت غیر قانونی غیر ملکیوں کوبے دخل کیا جارہا تھا۔

ایسے متنوع منظر نامے اور جھگڑوں میں قومی یکجہتی اور اتفاق کا عنصر تلاش کیا جائے تو کیسے اور کیونکر؟ایسے پُر شور اور شوریدہ سر ماحول میں وفاقی حکومت نے اگر اسلام آباد میں ’’ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم‘‘ کے زیر عنوان دو روزہ (8تا9اپریل)بھرپور کانفرنس کا انعقاد کیا ہے تو اِسے غیر معمولی مثبت اقدام قرار دیا جانا چاہیے ۔ اِس کانفرنس میں 300کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی وفود نے شرکت بھی کی ہے اور پاکستان سے معدنیات نکالنے میں بھاری سرمایہ کاری کا اظہار بھی کیا ہے ۔ امریکیوں نے بھی اِس میں شرکت کی ہے ۔ اِس اہم کانفرنس سے و زیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مفصّل خطاب کیا ۔ اِن خطابات کے جملہ مندرجات ہمارے میڈیا میں شائع اور نشر ہو چکے ہیں ۔

اِن مندرجات کا غائر نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایک عنصر مشترکہ طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اگر پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے پہاڑوں ، میدانوں اور ریگزاروں میں چھپی قیمتی معدنیات کو نکال لیا جائے تو ہمارے سارے دلدّر دُور ہو جائیں گے۔بقول وزیر اعظم شہباز شریف، یہ معدنیات کھربوں ڈالرز مالیت کی ہیں اور اِن کی بدولت ہم اپنے تمام غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی چھُوٹ سکتے ہیں۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی ایک خوشنما نوید اِن الفاظ میں سنائی ہے:’’پاکستان عالمی معدنی معیشت کی قیادت کے لیے تیار ہے۔‘‘

اگر وزیر اعظم صاحب و دیگر مقررین صاحبان کے جملہ دعوے نہائت رُوح افزا، دلکش او ر دلکشا ہیں۔ لیکن اِس خواب کی تعبیر تب ہی ممکن ہے اگر وطنِ عزیز میں پائیدار امن قائم ہو۔ اگر ہمارے سیاسی استحکام میں کوئی دراڑ نہ پڑے ۔ اگر آئے روز اڈیالہ جیل کے باہر تماشے نہ لگائے جائیں ۔

یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ جب8اور 9 اپریل2025 کو اسلام آباد میں محولا بالا کانفرنس ہورہی تھی، اڈیالہ جیل کے باہر بانی پی ٹی آئی کی تینوں محترم ہمشیرگان و دیگران نے جو تماشہ لگایا ، اِس کی بازگشت کانفرنس مذکور کے شرکت کنندگان کے کانوں تک نہیں پہنچی ہوگی؟مذکورہ کانفرنس کے شرکت کنندگان نے وہ شور ِ اور شوریدگی نہیں سُنی اور دیکھی ہوگی جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور سندھی قوم پرستوں نے مبینہ نہروں کی اساس پر اُٹھا رکھی ہے؟ جو بلوچستان میں اختر مینگل نے احتجاجی ڈھول بجا رکھا ہے ؟ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے؟ اِس شور اور اُٹھائی گئی دھول میں معدنیات نکالنے کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رُخ کریگا تو کیونکر؟

اس تاریخ ساز کانفرنس میں پاکستان کے تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تو شریک ہُوئے مگر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی عدم شرکت ایک بار پھر نئے سوالات کھڑی کر گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی ایک ہمشیرہ ، محترمہ علیمہ خان، نے تو غیر مبہم الفاظ میں اِس کانفرنس کے خلاف ایک کھلا بیان یوں دیا ہے: اگر عمران خان جیل میں بند رہے تو پھر ایسی کانفرنس میں ہماری شرکت کا فائدہ؟ پی ٹی آئی نے بلوچستان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جعفر ایکسپریس کے اغوا کے بعد اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

اور اب پی ٹی آئی نے منرلز کانفرنس میں بھی شرکت نہ کرکے اپنے مرکزِ گریز ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ لاریب اِس عدم شرکت سے پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے دامن پر ایک اور دھبہ لگا لیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں اور مرکزی قیادت میں نااتفاقیوں، جھگڑوںاور سرپھٹول نے جو لاتعداد تماشے لگا رکھے ہیں، یہ مناظر اپنی جگہ حیرت انگیز ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بانی صاحب اِن مناظر کے سامنے بے بس ہیں ۔

 پی ٹی آئی کے باطنی جھگڑے روز افزوں ہیں۔ یہ جھگڑے پی ٹی آئی کو روز بروز اپنے عشاق عوام سے دُور بھی کررہے ہیں اور پی ٹی آئی اپنی محوری طاقت بھی کھو رہی ہے ۔ یہ پارٹی کے لیے غیر معمولی خسارہ ہے ۔ پی ٹی آئی کے تین سینئر قائدین( سلمان اکرم راجہ، اعظم سواتی اور علی امین گنڈا پور) کی جانب سے اپنے ہی ساتھیوں پر جو تازہ الزامات سامنے آئے ہیں، اِن سے یہ خسارہ اور نقصان دو چند ہو گیا ہے۔ ایسے میں جب خیبر پختونخوا کی ’’داخلی احتساب کمیٹی‘‘ کی طرف سے تیمور سلیم جھگڑا ( کے پی میں پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ و صحت) پر جب 36ارب روپے کی مبینہ بد عنوانیوں کا الزام عائد کیا گیا تو اِس الزام کی بازگشت دُور و نزدیک صاف سنائی دی گئی ۔

پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی تو اپنے جملہ سیاسی حریفوں کو ’’چور‘‘ کہتی رہی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اب یہی سیاہ داغ خود پی ٹی آئی پر پی ٹی آئی کی قیادت کے ہاتھوں لگ رہے ہیں ۔ تیمور جھگڑا پر کرپشن کا مبینہ الزام سب کو حیران کر گیا ہے۔ تیمور جھگڑا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔وہ سابق صدرِ پاکستان، غلام اسحاق خان ، کے نواسے ہیں ۔ جنوری 2019کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ نے اپنے ایک تفصیلی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ تیمور خان جھگڑا جب پی ٹی آئی میں شامل ہُوئے تھے، اُس وقت وہ ممتاز عالمی ادارے Mckinseyکے پارٹنر تھے اور6لاکھ ڈالرز سالانہ تنخواہ لے رہے تھے (تقریباً17کروڑ روپے سالانہ، تقریباً 56لاکھ روپے ماہانہ)۔ ایسے جنٹلمین اور خوشحال شخص پر مذکورہ بالا الزام لگا ہے تو سب ششدر رہ گئے ہیں ۔

سب حیران ہیں اور یہ سوال کررہے ہیں کہ تیمور جھگڑا پر یہ الزام عائد کیے جانے کے عقب میں کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ بعض تجزیہ کار اِس سوال کا یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ تیمور جھگڑا دراصل علی امین گنڈا پور کے حقیقی سیاسی حریف ہیں۔ تیمور جھگڑا میں جو اوصاف پائے جاتے ہیں، وہ اُنہیں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ قیافہ لگانے والے کہتے ہیں کہ تیمور جھگڑا کے خلاف الزام کا یہ راستہ کس نے اختیار کیا ہوگا ۔

تیمور جھگڑا نے پی ٹی آئی کی ’’داخلی احتساب کمیٹی ‘‘کی طرف سے چارج شیٹ ملنے پر جو مبینہ جواب داخل کیا ہے، اِس کی شدت کا مرکزی ہدف علی امین گنڈا پور ہیں۔ اُنھوں نے علی امین کے مالی معاملات پرانگشت نمائی کی ہے ۔ شنید ہے کہ تیمور جھگڑا کے خلاف مزید انکوائری فی الحال روک دی گئی ہے۔الزام تراشی کے یہ متنوع اور متعدد مناظر دراصل اِس امر کے بھی غماز ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ پی ٹی آئی کی مرکزیت بکھر چکی ہے اور اِس کے باطن میں کئی قطب (Poles) بن چکے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اندر تہمت تراشی زبیر علی تابش کے اِس شعر کی تفسیر بن گئی ہے:ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں/ نجانے کس سے جھگڑا کررہا ہُوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کی پی ٹی ا ئی کے کانفرنس میں اسلام ا باد حکومت اور علی امین غیر ملکی کے خلاف ہیں اور کیا ہے ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

دوحہ کانفرنس اور فیصلے

حمیداللہ بھٹی

دوحہ پرہونے والا 9 ستمبر کا بہیمانہ اور بلا اشتعال حملہ ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے اِس کا واحد مقصدمشرقِ وسطیٰ میں جاری امن کوششوں کوسبوتاژکرناہے تاکہ اسرائیل کو جارحیت کے جوازحاصل رہیں۔ حملے کے اثرات ومضمرات کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قطر کی میزبانی میں پندرہ ستمبر کو اسلامی دنیاکی سربراہی کانفرنس ہوئی جو شرکت کے حوالے سے تو بھرپور اور جامع رہی جس میں حملے کے اثرات و مضمرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا مگر کانفرنس سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ وجہ فیصلوں کافقدان رہا۔حالانکہ اچھا موقع تھا کہ قطر سب کو اعتماد میں لے کر اسرائیل کے معاشی و اقتصادی بائیکاٹ پر راضی کرلیتا مگرایسا کچھ نہیں ہو سکا ۔خود قطر ابھی تک اسرائیل کو گیس کی فراہمی کا سلسلہ معطل نہیں کر پارہا۔ علاوہ ازیں یو اے ای کا اسرائیل کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں ساتھ دینے اور تعلقات پر نظرثانی کرنے سے انکار مزیدتباہ کُن ہے ۔فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر شمار ہونے والا قطر جیسا امیر ملک فیصلوں میں اِتناکمزور اور بے بس ہو گا حیرت ہے۔ اسی لیے واقفانِ حال کاکہناہے قطر جوابی کارروائی کی بجائے دوحہ حملے جیسے واقعات آئندہ نہ دُہرائے جانے کی گارنٹی چاہتاہے ۔امریکہ نے ایسی یقین دہانی کرائی تو ہے مگر قطری قیادت کے شکوک وشبہات برقرار ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی اور جدیدترین ہتھیاروں کے باوجودقطری آزادی وخود مختاری کی پامالی ہو گئی مگرامریکی گارنٹر کی طرف سے کچھ نہ کرنا ملی بھگت ظاہرہوتی ہے ۔اسی بنا پر قطر مزید اعتمادکرتے ہوئے ہچکچا تو رہا ہے لیکن غیر معمولی فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا۔
عین ایسے وقت جب قطر پراسرائیلی حملے کے حوالے سے اسلامی ممالک غوروخوض میں مصروف تھے، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اپنی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلانے کے لیے اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں کررہے تھے ۔یہ اشارہ ہے کہ عربوں کے غم و غصے کو امریکی وقتی اُبال سمجھتے ہیں کیونکہ عرب بادشاہتوں کا سرپرست امریکہ ہے اور وہ جانتاہے کہ سرپرستی سے دستکش ہونے کی صورت میں یہ بادشاہتیں اپناوجود کھو بیٹھیں گی ۔اسی لیے عرب بادشاہ ایسا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں جو اقتدار سے محرومی کا باعث بنے ۔ایسی سوچ نے ہی عرب شاہوںکو غیر معمولی فیصلوں سے روک رکھا ہے اور وہ اقتدار کے لیے آزادی وخود مختاری کی خلاف ورزیاں تک برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔
اگر آزادی وخود مختاری کاتحفظ کرناہے تو عرب ممالک کو غیر معمولی دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جس طرح رواں برس پاکستان نے حملے کے جواب میں چند گھنٹوں میں بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔جون میں اسرائیلی حملے کے وقت ایسے حالات میں جب فضائیہ نہ ہونے کے برابر تھی اِس کے باوجود ایران نے بھرپورجوابی کارروائی کی ۔پاکستان اور ایران کے بروقت اور منہ توڑ فیصلوں کاہی اثر تھا کہ جارح ممالک جنگ بندی پر مجبورہوئے۔ قطر نے بھی جوابی کارروائی کا عندیہ ظاہر کر رکھا ہے مگر حملے کو آٹھ روزگزرچکے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل کوبدستور گیس کی فراہمی جاری ہے ۔یہ کمزوری اور بزدلی کی انتہا ہے جب تک عرب ممالک عوامی پسند وناپسند کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے عالمی طاقتیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہیں گی ۔دنیا کے ذرائع ابلاغ پر اسرائیل نواز طاقتوں کاکنٹرول ضرور ہے۔ قطر کے پاس تو الجزیرہ جیسا اہم ذریعہ موجودہے جس کی ایک ساکھ ہے۔ دنیا اُسے سنتی اور اعتماد کرتی ہے ۔اِس کے باوجود وہ کیوں اپناموقف درست طریقے سے پیش نہیں کرپارہا کہ دنیا کی ہمدردیاں حاصل کر سکے ؟
قطر پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے جس پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی پر اُس کی رُکنیت معطل کرانے کی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں ۔غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے ۔بدترین نسل کشی کے خلاف اب بھی اگرمسلم ممالک اجتماعی اقدامات نہیں کرتے تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دوحہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل سے فوری اورغیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ توکیا گیا ہے مگر اسرائیل جیسا غاصب ملک ایسا کیوں کرے گا؟جب عدم تعمیل کی صورت میں کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا کوئی خدشہ نہیں پاکستان نے قطر سے یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل کوکٹہرے میں لانے نیز اُسے توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کے لیے اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب عرب ممالک میں اتحاد و اتفاق ہو ۔
عربوں کی دُرگت بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ساراوزن امریکی پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔ اُن کی دولت امریکہ اور مغربی ممالک کے پاس ہے۔ اسلحہ ہویا فضائیہ ،سب امریکی ومغربی ساختہ ہے ۔اسی لیے جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو دولت ،اسلحہ اور فضائیہ سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ محض 11571مربع کلومیٹر رقبے پر محیط قطر کا دفاعی بجٹ پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اپنے دفاع کے پھر بھی قابل نہیں۔ اگر عرب ممالک امریکہ یامغربی ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے متبادل کاآپشن بھی رکھیں تو حالات یکسرمختلف ہوں ترکیہ نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجودروسی ہتھیاربھی خریدتا ہے ۔خوش قسمتی سے چین و روس کونئے اتحادیوں کی تلاش ہے۔ اِس دستیاب موقع سے فائدہ اُٹھانا ہی دانشمندی ہے۔ اِس کے لیے پاکستان کی صورت میں ذریعہ موجود ہے جس کے تجربات اور فضائیہ سے بھی عرب فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ضرورت کے وقت اسلحہ اور فضائیہ کوخود استعمال کرسکیںگے ۔پاکستان اورترکیہ کے پاس اپنے عرب بھائیوں کی تربیت کرنے کی بھی صلاحیت ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کم اور متبادل ہو۔ اسلامی سربراہی کانفرس کے فیصلوں سے توبظاہر ایساتاثر ملتا ہے جیسے امریکہ سے پوچھ کر کیے گئے ہوں ۔
قطر حملے پر پاکستان ،ترکیہ ،ملائشیااور ایران جیسے ممالک نے تو جاندار موقف اختیار کیا مگر عربوں کا موقف غیر واضح اور مُبہم ہے صرف مذمت سے حملے یا میزائل رُکتے توساری دنیا کی طرف سے مذمت کے باوجود غزہ میں بدترین نسل کشی نہ ہورہی ہوتی۔ عزت اور انصاف کے لیے بھی طاقت ضروری ہے۔ آذربائیجان ،پاکستان اور ایران یہ ثابت کرچکے پھربھی عرب ممالک سمجھ نہیں پارہے۔ ٹھیک ہے مشترکہ اعلامیے میں مسلم ممالک نے قطر کے ثالثی عمل پر حملے کو عالمی امن کوششوں پر حملہ قرار دیا ہے مگر اسرائیل کویواین اومیں بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل تو اسرائیل کا نام لیے بغیر قطرپر حملے کی مذمت کرتی ہے ۔امیرترین عرب ممالک کے باوجود اسرائیل غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ اِس کے باوجود نتیجہ خیز فیصلے نہیں ہورہے۔ پاکستان و ترکیہ کی دفاعی خودکفالت سے فائدہ اُٹھا کر عرب دفاعی
حوالے سے خود مختار ہو ں وگرنہ یادرکھیں باری باری سبھی عرب ممالک اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ساف انڈر17 فٹبال چیمپئن شپ: پاکستان اپنا دوسرا میچ جمعہ کو کھیلے گا
  • دوحہ کانفرنس اور فیصلے
  • امریکی صدر ٹرمپ کا آسٹریلوی صحافی سے جھگڑا کس سوال پر ہوا؟
  • اسلام آباد بار کا جنرل باڈی اجلاس؛ تقریر کیلئے باری نہ ملنے پر وکلا کے درمیان جھگڑا
  • چھ طیارے تباہ، جنگ ہاری، اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے: وزیر اطلاعات
  • ایشیا کپ تنازع: دبئی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی آج ہونے والی پریس کانفرنس ملتوی
  • 6طیارے تباہ کروانے اور جنگ ہارنےکےبعد کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے،عطاتارڑ
  • پاکستانی ٹیم سے ہاتھ نہ ملانے پر بھارتی بورڈ کا موقف سامنے آگیا
  • ایشیا کپ، اگلے چند گھنٹوں میں پی سی بی اپنا مؤقف دے گا
  • ہماری ٹیم نے پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملاکر غلط کیا: دبئی میں بھارتی شائقین کی اپنی ٹیم پر تنقید