ٹرمپ کا ممکنہ فیصلہ جنوبی کوریا کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتا ہے، امریکی جنرل
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا میں مقیم امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی شمالی کوریا کی بڑھتی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا کے جنوبی کوریا پر انوکھے طرز کے حملوں میں اضافہ
یو ایس فورسز کوریا کے کمانڈر جنرل زیویئر برنسن نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران کہا کہ شمالی کوریا اپنے ہتھیاروں کے پروگراموں کو فروغ دے رہا ہے اور روس کے ساتھ فوجی تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے لہٰذا ایسے وقت میں جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی مسئلہ کھڑا کردے گی۔
واضح رہے کہ کچھ دنوں پہلے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت جنوبی کوریا اور دیگر جگہوں پر امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے پر غور کر سکتی ہے۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم یورپ میں امریکی فوج پر خرچ کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں ہمیں ادائیگی زیادہ نہیں ہوتی اور یہی حال جنوبی کوریا کا بھی ہے۔
یاد رہے کہ اپنی پچھلی میعاد کے دوران ٹرمپ نے کوریا میں تعینات 28،500 امریکی فوجیوں کے لیے جنوبی کوریا کے مالیاتی تعاون میں بڑے پیمانے پر اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک موقع پر اس وقت کے صدر مون جے سے انہوں نے 400 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا اور اس حوالے سے کئی ماہ تک مذاکرات بھی چلتے رہے تھے۔
جنوبی کوریا نے اکتوبر میں واشنگٹن کے ساتھ ایک نئے 5 سالہ لاگت کے اشتراک کے معاہدے پر دستخط کیے تھے لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: شمالی کوریا نے ’فریڈم ایج‘ مشقوں کے جواب میں 2 بیلسٹک میزائل داغ دیے
زیویئر برنسن نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ جنوبی کوریا میں موجود امریکی فوجی نہ صرف شمالی کوریا کے خطرات کو روکتے ہیں بلکہ روس اور چین کے خلاف بھی دفاع کی ایک اہم لائن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہاں تعینات فوج خطے میں بیلسٹک میزائل دفاع کے لیے ایک اہم جز ہے اور انڈو پیسیفک کمانڈ کو شمال کے خطرات کو دیکھنے، سمجھنے اور سمجھنے اور بہت سے مخالفین کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔
زیویئر برنسن جنوبی کوریا امریکا کمبائنڈ فورسز کمانڈ کی قیادت بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے یو این کمانڈ نے شمالی کوریا کے جوہری اور ہتھیاروں کے پروگراموں اور روس کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات کے بارے میں بھی خبردار کیا۔
انہوں نے کمیٹی کو جمع کرائے گئے ایک بیان میں لکھا کہ ڈیموکریٹک عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) نے گزشتہ سال کے دوران روس کو لاکھوں توپ خانے اور درجنوں بیلسٹک میزائل بھیجے ہیں اور ساتھ ہی یوکرینی افواج کے خلاف لڑنے کے لیے 10،000 سے زیادہ فوجیوں کو تعینات کیا ہے۔
زیویئر برنسن نے کہا کہ اس کے بدلے میں روس شمالی کوریا سے خلائی، جوہری اور میزائل کے لیے قابل اطلاق ٹیکنالوجی، مہارت اور مواد کے اشتراک کو بڑھا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس کا توسیعی تعاون اگلے 3 سے 5 سالوں میں شمالی کوریا کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام میں پیشرفت کے قابل بنادے گا۔
انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم آپریشنز، ہتھیاروں کی برآمدات اور غیر قانونی تجارت سے فروغ پانے کے ساتھ ساتھ پیانگ یانگ نے بیک وقت بیرونی فوجی مدد فراہم کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
فروری میں شمالی کوریا کے ہیکرز نے کرپٹو ایکسچینج بائیبٹ سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے ورچوئل اثاثے چراتے ہوئے تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی چوری کی تھی۔
زیویئر برنسن نے کہا کہ خوراک کی قلت کی وجہ سے تباہی کی پییشن گوئیوں کے برعکس شمالی کوریا پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہے جو کہ آمدنی کے نئے سلسلے کے ذریعے پیدا ہونے والے کافی وسائل سے تقویت حاصل کرچکا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟
سماعت کے دوران یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کے کمانڈر ایڈمرل سیموئل پاپارو جونیئر نے بھی خبردار کیا کہ امریکی فوجیوں میں کمی سے شمالی کوریا کے حملے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
پاپارو نے کہا کہ جنوبی کوریا سے فوجی کم کیے گئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ شمالی کوریا اس پر حملہ کردے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم گئی تو اس سے ہماری تنازعات میں غالب آنے کی صلاحیت کم ہوجائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا جنوبی کوریا جنوبی کوریا میں امریکی فوجی شمالی کوریا یو ایس فورسز کوریا کے کمانڈر جنرل زیویئر برنسن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا جنوبی کوریا جنوبی کوریا میں امریکی فوجی شمالی کوریا امریکی فوجیوں کی تعداد زیویئر برنسن نے جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کے امریکی فوجی میں امریکی نے کہا کہ کے دوران انہوں نے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
سینیٹر ٹیڈ کروز نے 9 دسمبرکو امریکی سیاست کا بدنام لمحہ کیوں قرار دیا؟
امریکی سینیٹر ٹیڈ کروز نے ٹرمپ-روس تفتیش کے آغاز کا موازنہ 1941 میں پرل ہاربر پر جاپانی حملےسے کرتے ہوئے اسے امریکی سیاسی تاریخ کا ایک ’بدنام لمحہ‘ قرار دیا ہے۔
ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹیکساس کے سینیٹر نے فوکس نیوز پر گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ پر عوام سے جھوٹ بولنے اور وفاقی اداروں کو استعمال کر کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک نے امریکا کے لیے نئی ایپ بنانے کی رپورٹس کو مسترد کردیا
ٹیڈ کروز کا کہنا تھا کہ 9 دسمبر ایک ایسا دن ہونا چاہیے جو بدنامی کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے، انہوں نے یہ بات 2016 میں اس تاریخ کو ایف بی آئی کی جانب سے شروع کی گئی تفتیش کے حوالے سے کہی، ٹید کروز نے صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی اُس مشہور تقریر کا حوالہ بھی دیا جو انہوں نے پرل ہاربر پر اچانک حملے کے بعد کی تھی۔
’یہ وہ لمحہ تھا جب ہماری حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے امریکی عوام سے جھوٹ بولنے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
مزید پڑھیں: امریکا نے عالمی وبائی خطرات سے نمٹنے کے منصوبہ مسترد کردیا، دستخط سے انکار
امریکی خفیہ ادارے کی ڈائریکٹر ٹلسی گیبارڈ کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کردہ غیر خفیہ دستاویزات کے مطابق، 9 دسمبر 2016 کو ایک اجلاس کے دوران اُس وقت کے صدر باراک اوباما نے قومی سلامتی کونسل کے اہلکاروں کو ہدایت دی کہ وہ تمام انٹیلیجنس رپورٹس ضائع کر دیں جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کا کوئی کردار نہیں تھا، اور ان کی جگہ جھوٹے اور من گھڑت شواہد کی بنیاد پر ماسکو کو ذمہ دار ٹھہرانے والے دعوے شامل کیے جائیں۔
واضح رہے کہ نومبر 2016 کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست دی تھی، یہ تنازع بعد ازاں ایک طویل عرصے تک جاری رہنے والی ٹرمپ-روس تحقیقات، جسے ’رشیا گیٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کا باعث بنا۔
مزید پڑھیں: فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا
اسی ’رشیا گیٹ‘ نے واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں پابندیاں عائد ہوئیں، اثاثے منجمد کیے گئے اور معمول کی سفارتی سرگرمیاں معطل ہو گئیں۔
روس نے ابھی تک تلسی گیبارڈ کے انکشافات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم، ماسکو نے مسلسل یہ الزام مسترد کیا ہے کہ اس نے 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔
کریملن نے ’رشیا گیٹ‘ کو ایک سیاسی بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا ہے، جس کا مقصد پابندیوں کو جواز فراہم کرنا اور روس کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب کرنا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی سینیٹر ایف بی آئی باراک اوبامہ بدنام لمحہ پرل ہاربر تلسی گیبارڈ ٹیڈ کروز ٹیکساس ڈونلڈ ٹرمپ رشیا گیٹ ریپبلکن پارٹی سفارتی سرگرمیاں سیاسی تاریخ فرینکلن ڈی روزویلٹ ماسکو واشنگٹن