Islam Times:
2025-11-04@04:37:47 GMT

جہاد فرض ہوچکا ہے

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

جہاد فرض ہوچکا ہے

اسلام ٹائمز: گذشتہ کل (10 اپریل 2025ء) پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں ایک بہت اہم کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے اکابر علماء نے شرکت کی اور یک آواز ہوکر فرضیت جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ امت کے تمام حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ غزہ کے اسلامی جہاد میں عملی طور پر حصہ لیں۔ یہ ایک اہم فتویٰ ہے، جسکی پورے عالم اسلام کو پیروی کرنی چاہیئے۔ جہاں یہ کانفرنس غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں منعقد ہوئی، وہاں پر ایک قابل افسوس پہلو جو مجھے نظر آیا، وہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام موجود تھے، لیکن مجھے مکتب تشیع کے علماء نظر نہیں آئے، یا تو انہیں دعوت نہیں دی گئی یا پھر انہوں نے دعوت قبول نہیں کی اور وہ خود تشریف نہیں لائے۔ دونوں صورتوں میں میرے نزدیک یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

‎امت مسلمہ پر اب جہاد فرض عین ہے۔ غزہ میں ناحق خون مسلم بہہ رہا ہے اور  شعائر اسلام کو بہت بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے۔ اہل غزہ کی ہی صرف نسل کشی نہیں کی جا رہی بلکہ یہ پورے عالم اسلام کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔سکولوں پر آگ برساتے بارود کے گولے میرے معصوم بچوں کی لاشیں آسمان کی طرف اچھال رہے ہیں۔ کہاں گئے وہ مسلمان جو میدان جہاد میں اپنا جھنڈا سر نگوں تک نہیں ہونے دیتے تھے کہ اس میں دین اسلام کی توہین ہے۔ وہ اس کو سر بلند رکھنے کے لیے اپنی جانیں وار دیا کرتے تھے۔ انہی کی اولادیں آج مساجد کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہی ہیں، اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و ناموس کو یہودیوں اور صہیونیوں کے ہاتھوں لٹتا دیکھ رہی ہیں، مگر وہ خاموش ہیں۔ یہ خاموشی وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے، یہ خاموشی افواج کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے اور یہ خاموشی آلات حرب و ضرب کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ خاموشی بزدلی کی وجہ سے ہے۔

یہ بزدلی استکبار کے رعب اور دبدبہ کی وجہ سے ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ خاموشی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ کمزوری ایمان کے عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔ غزہ محض ایک علاقہ نہیں ہے بلکہ یہ اب شعآئر اللہ میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ حق و باطل کے معیار کا روپ دھار چکا ہے۔ شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کا تحفظ وہی لوگ کرتے ہیں، جو اہل اللہ ہوتے ہیں، اہل اللہ وہ لوگ ہیں، جن کے قلوب و اذہان تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ تقویٰ ایمان کے بغیر محقق نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: "ذلک ومن یعظم شعآئر اللہ فانھا من تقوی القلوب" (سورۃ الحج،آیت :32) ترجمہ: "یہی حق ہے اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بے شک یہ دلوں کے تقوی کی بات ہے۔۔۔" علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ شعائر اللہ سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جس کی نسبت خداوند متعال طرف کی جائے۔

‎غزہ میں شعائر اللہ پامال ہو رہے ہیں، انسانی شرف کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، انسانیت سسک رہی ہے، 55 ہزار سے زائد معصوم جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ اگر جہاد آج فرض نہیں ہے تو پھر کبھی بھی فرض نہیں ہوگا۔ اگر کتاب اللہ کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کم و بیش آدھا قرآن احکام جہاد پر مشتمل ہے، دنیا میں کوئی قوم جہاد کے بغیر اپنے وجود کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ دنیا ظالموں اور استحصالی قوتوں سے بھری پڑی ہے۔ آج مغرب کی استکباری قوتیں کمزور اقوام کا استحصال کر رہی ہیں، خصوصاً مسلم قوم اور اس کے تمام علاقے امریکہ اور یورپ کے نشانے پر ہیں۔ وہ مسلمانوں کا مقدس خون بہا رہے ہیں، ان کے وسائل لوٹ رہے ہیں، لیکن مسلم ممالک کے حکمران یہ سب کچھ بہت ڈھٹائی سے دیکھ رہے ہیں اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی ان کے اندر جرآت موجود نہیں ہے۔

قوموں کی زندگیاں ظالموں سے قصاص لینے کی جرآت کے بغیر بے معنی ہوتی ہیں۔اسی لیے قرآن مجید نے مسلمانوں کو مخاطب ہو کر فرمایا: "ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولیٰ الالباب" (البقرۃ۔آیت 179) ترجمہ: "اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے، اے عقلمند و! تاکہ تم کہیں بچ سکو۔" ظاہر ہے کہ جو قوم ظالم کے ساتھ کھڑی ہو اور ظالم کے جرائم کی تاویلات میں مگن ہو تو اسے تباہی و بربادی سے کون بچا سکتا ہے۔ آج امت کا ظالموں سے پالا پڑا ہوا ہے، مظلوموں کو ان کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے اور جہاد کرنے کا حق حاصل ہے، جبکہ مسلمانوں پر ان کی نصرت فرض ہے۔ اگر امت کے کسی علاقے یا کسی قوم کو ہدف ظلم بنایا جاتا ہے تو اسے اللہ نے جہاد کرنے کی اجازت دی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا: "اذن للذین یقاتلون بانھم ظلمواوان اللہ علی نصرھم لقدیر" (سورۃ الحج :آیت ،39) ترجمہ: "جن سے لڑائی کی جاتی ہے، انہیں جہاد کی اجازت ہے، کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قدرت رکھتا ہے۔"

اسی طرح حملہ آوروں کے ساتھ بھی اللہ نے جہاد کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔"وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم" (البقرۃ:190) ترجمہ: "اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو، جو تمہارے ساتھ قتال کرتے ہیں۔" درجہ بالا آیات قرآنی سے جہاد فی سبیل اللہ کا حکم شرعی واضح طور پر مستنبط ہو رہا ہے۔ لیکن بہت بدقسمتی ہے کہ مسلم قوم پر خصی حکمران سوار ہیں، جبکہ قوم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اہل غزہ، اہل لبنان اور اہل یمن استعمار اور اس کے مسلم حلیفوں کی وجہ سے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔گذشتہ کل (10 اپریل 2025ء) پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں ایک بہت اہم کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے اکابر علماء نے شرکت کی اور یک آواز ہو کر فرضیت جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ امت کے تمام حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ غزہ کے اسلامی جہاد میں عملی طور پر حصہ لیں۔ یہ ایک اہم فتویٰ ہے، جس کی پورے عالم اسلام کو پیروی کرنی چاہیئے۔

جہاں یہ کانفرنس غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں منعقد ہوئی، وہاں پر ایک قابل افسوس پہلو جو مجھے نظر آیا، وہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام موجود تھے، لیکن مجھے مکتب تشیع کے علماء نظر نہیں آئے، یا تو انہیں دعوت نہیں دی گئی یا پھر انہوں نے دعوت قبول نہیں کی اور وہ خود تشریف نہیں لائے۔ دونوں صورتوں میں میرے نزدیک یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اگر اہل تشیع علماء بھی اس کانفرنس میں شرکت کرتے تو اس کا وزن، وقار اور اہمیت دو چند ہو جاتی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور پھر دہرا رہا ہوں کہ ہم استکباری قوتوں کا اکیلے اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایک دو مسالک مل کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں اسلام مخالف قوتوں کے مقابلے کے لیے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اکٹھا ہونا ہوگا اور اپنے تمام وسائل جب تک امت یکجا نہیں کرتی، تب تک امریکہ اور اس کے حواریوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ امت مسلمہ کے حکمران اتحاد امت کے لیے کوئی معقول اور اہم جدوجہد ضرور کریں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غزہ کے مظلوموں کی وجہ سے ہے منعقد ہوئی پاکستان کے یہ خاموشی اور اس کے رہی ہیں نہیں ہے رہے ہیں کی اور امت کے ہے اور

پڑھیں:

دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان

لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے، اسکی بلیک میلنگ و جارحیت میں کسی بھی قسم کی کمی نہ ہوگی بلکہ اس امر کے باعث دشمن مزید طلبگار ہو گا اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے ساتھ وابستہ اتحاد "الوفاء للمقاومۃ" کے سربراہ محمد رعد نے اعلان کیا ہے کہ گو کہ ہم اسلامی مزاحمت میں، اِس وقت مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور دشمن کی ایذا رسانی و خلاف ورزیوں کے سامنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین پر پائیدار ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے موقف و انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ اپنے اور اپنے وطن کے وقار کا دفاع کر سکیں۔ عرب ای مجلے العہد کے مطابق محمد رعد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک لبنان کی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں اور  خون تک کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور مزاحمت کے انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ دشمن؛ ہم سے ہتھیار ڈلوانے یا ہمیں اپنے معاندانہ منصوبے کے سامنے جھکانے کو آسان نہ سمجھے۔
  سربراہ الوفاء للمقاومہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب بھی لبنان کے اندر سے کچھ ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو قابض دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور لبنان کی خودمختاری سے ہاتھ اٹھا لینے پر اُکسا رہی ہیں درحالیکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں گے! انہوں نے کہا کہ ان افراد نے انتہائی بے شرمی اور ذلت کے ساتھ ملک کو غیروں کی سرپرستی میں دے دیا ہے جبکہ یہ لوگ، خودمختاری کے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں۔ 

محمد رعد نے تاکید کی کہ انتخاباتی قوانین کے خلاف حملوں کا مقصد مزاحمت اور اس کے حامیوں کی نمائندگی کو کمزور بنانا ہے تاکہ ملک پر قبضہ کرنا مزید آسان بنایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود، اسلامی مزاحمت اب بھی جنگ بندی پر پوری طرح سے کاربند ہے تاہم دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا، "لبنان پر حملے" کے بہانے کے لئے تشہیری مہم کا سبب ہے اور یہ اقدام، دشمن کی بلیک میلنگ اور جارحیت کو کسی صورت روک نہیں سکتا بلکہ یہ الٹا، اس کی مزید حوصلہ افزائی ہی کرے گا کہ وہ مزید آگے بڑھے اور بالآخر پورے وطن کو ہی ہم سے چھین لے جائے۔ محمد رعد نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے وہ کم از کم کام کہ جو ہمیں انجام دیا جانا چاہیئے؛ اس دشمن کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت اور اپنے حق خود مختاری کی پاسداری ہے!!

متعلقہ مضامین

  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ
  • تجدید وتجدّْ
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ