دفعہ 144 نافذ،نوٹیفیکیشن جاری
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
شہر قائد کے ضلع وسطی میں ایک روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، 5سےزائدافراد جمع ہونےپرپابندی ہوگی۔ کراچی کے ضلع وسطی میں ایک روز کیلئے دفعہ144نافذ کردی گئی ہے اس حوالے سے کمشنرکراچی نے ضلع وسطی میں دفعہ144کے نفاذ کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک سیاسی جماعت کی ریلی کے اعلان کے پیش نظر دفعہ144نافذ کی گئی ہے، ایس ایس پی سینٹرل کا کہنا ہے کہ ریلی نکالنے کے حوالے سے بھی کوئی پیشگی اجازت نہیں لی گئی ہے، تاہم اس حوالے سے کمشنر کراچی نے ضلع وسطی میں ایک روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جو کہ علاقے میں کشیدگی ، ہنگامہ آرائی کو مدنظر رکھتے ہوئے لگائی گئی۔ جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کراچی کے ضلع وسطی میں ریلی، احتجاجی مظاہرہ اور5سے زائد افراد ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی ہوگی۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو خلاف ورزی پر ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کے بھی احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: گئی ہے
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا کا قانون نافذ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔آستانہ : قازقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے خلاف سخت قانون نافذ کرتے ہوئے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قازقستان نے خواتین اور کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، منگل کے روز نافذ ہونے والے ایک نئے قانون کے تحت اب زبردستی شادی پر مجبور کرنے والوں کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قازق پولیس کے مطابق یہ قانون خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور جبری شادیوں جیسے غیر انسانی رواج کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے، اب اغوا کاروں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے وہ متاثرہ کو رہا کریں یا نہ کریں۔
پولیس نے واضح کیا کہ ماضی میں دلہن کے اغوا کے واقعات میں ملزم اگر متاثرہ کو اپنی مرضی سے رہا کر دیتا تھا تو وہ قانونی کارروائی سے بچ سکتا تھا، لیکن اب اس قانون نے ایسی تمام رعایتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، قازقستان میں جبری شادیوں سے متعلق درست اعداد و شمار کا فقدان ہے کیونکہ ملکی فوجداری قانون میں اس جرم کے لیے کوئی مخصوص دفعہ موجود نہیں تھی۔ تاہم، ایک رکن پارلیمان نے رواں سال انکشاف کیا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئیں، جو اس سماجی مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ قانون اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب 2023 میں خواتین کے حقوق کا معاملہ قازقستان میں سرخیوں کی زینت بنا۔ ایک سابق وزیر کے ہاتھوں اپنی اہلیہ کے قتل کے دلخراش واقعے نے معاشرے میں گہری بحث چھیڑ دی تھی، جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کی روک تھام کرے گا بلکہ قازق معاشرے میں خواتین کے وقار اور خودمختاری کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت کریں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف مل سکے۔