حکومت کا ملازمت کرنے والی خواتین کے لیے ورکنگ ویمن ہاسٹل بنانے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
 وفاقی دارالحکومت میں ملازمت کرنے والی خواتین کے لیے خوشخبری سامنے آئی ہے جب کہ  وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن میں ورکنگ ویمن ہاسٹل بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سی ڈی اے بورڈ نے آئی نائن فور میں ورکنگ ویمن ہاسٹل تعمیر کرنے کی منظوری دے دی۔
سیکریٹری وزارت تعلیم محی الدین احمد وانی کاکہناہے کہ ورکنگ ویمن ہاسٹل کی اشد ضرورت ہونے کے باعث یہ اقدام اٹھایا ہاسٹل کی تعمیر سے ورکنگ خواتین کے رہائشی مسائل میں کمی آئے گی۔
اسپیشل ایجوکیشن کے سینٹر آئی نائن فور کو ورکنگ ویمن ہاسٹل میں تبدیل کیا جائے گا، وزارت تعلیم اور وزارت انسانی حقوق نے ہاسٹل تعمیر کرنے کی درخواست کی تھی۔
وزیر اعظم نے ورکنگ خواتین کے رہائشی مسائل کم کرنے کے لیے ہاسٹل تعمیر کرنے کی ہدایات دیں، سی ڈی اے نے وزارت تعلیم کو منظوری سے متعلق نوٹیفیکیشن بھجوا دیا ہے۔
سیکریٹری وزارت تعلیم محی الدین احمد وانی نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر ہاسٹل کی تعمیر سے ورکنگ خواتین کے رہائشی مسائل میں کمی آئے گی، ورکنگ ویمن ہاسٹل کی اشد ضرورت ہونے کے باعث یہ اقدام اٹھایا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ورکنگ ویمن ہاسٹل وزارت تعلیم خواتین کے ہاسٹل کی
پڑھیں:
دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ کے بچے بتدریج اپنی برباد شدہ درسگاہوں کی جانب لوٹنے لگے ہیں، جہاں ایک بار پھر تعلیم کی شمع روشن ہونے لگی ہے۔ جنگ بندی کے بعد تعلیم کی بحالی نے نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے دلوں میں بھی نئی اُمید پیدا کر دی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی اُنروا نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں بعض اسکول جزوی طور پر دوبارہ کھول دیے گئے ہیں، جہاں بچے عارضی کلاس رومز میں تعلیمی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں۔
اُنروا کے سربراہ فلپ لزارینی کے مطابق اب تک 25 ہزار سے زائد طلبہ عارضی تعلیمی مراکز میں واپس آچکے ہیں، جبکہ تقریباً 3 لاکھ بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ادارے کے مطابق غزہ کے علاقے نصیرات میں واقع الحصینہ اسکول میں تدریسی عمل بحال کر دیا گیا ہے، اگرچہ عمارت اب بھی تباہ شدہ ہے اور کمروں کی شدید قلت ہے۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں 11 سالہ فلسطینی بچی وردہ نے کہا کہ “میں اب چھٹی جماعت میں ہوں، لیکن جنگ اور نقل مکانی نے میری دو سال کی تعلیم چھین لی۔” اُس نے بتایا کہ اسکول اب آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے، اور جیسے ہی عمارت خالی ہوگی، کلاسز معمول کے مطابق جاری ہو سکیں گی۔
رپورٹ کے مطابق تدریس کے ابتدائی دنوں میں ایک ہی کمرے میں پچاس سے زائد طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں، نہ میزیں ہیں نہ کرسیاں، صرف زمین پر بیٹھ کر وہ نوٹ بک میں لکھنے پر مجبور ہیں۔
سخت حالات، محدود وسائل اور ادھڑی عمارتوں کے باوجود غزہ کے بچوں نے ہار نہ مانی۔ وہ علم کے ذریعے اپنی برباد دنیا کو ازسرِنو روشن کرنے کے عزم کے ساتھ اسکولوں کا رُخ کر رہے ہیں — اس اُمید کے ساتھ کہ شاید تعلیم ہی اُن کے مستقبل میں امن کی کرن بن سکے۔