پہلا 3 روزہ اوورسیز پاکستانیز کنونشن کل سے اسلام آباد میں شروع ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
حکومتِ پاکستان اور اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کی جانب سے پہلا اوورسیز پاکستانیز کنونشن 13 تا 15 اپریل اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔
وزارتِ اوورسیز کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اس کنونشن کا مقصد اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہنا، انہیں گلے لگانا، ان کے تحفظات سننا اور ان کی قیمتی تجاویز کی روشنی میں پالیسی سازی کو بہتر بنانا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ کنونشن میں شرکت کے لیے آنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو ریاستی مہمان کا درجہ حاصل ہوگا۔ ہوائی اڈوں پر ان کے والہانہ استقبال کے لیے خصوصی انتظامات اور خیر مقدمی بینرز آویزاں کیے جا رہے ہیں۔
شرکا کو مکمل پروٹوکول اور عزت و تکریم کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے گا، جبکہ عوامی سطح پر تقریبات بھی منعقد کی جائیں گی۔
وزیرِاعظم پاکستان کی خصوصی ہدایت پر یہ تمام انتظامات اس عزم کے ساتھ کیے جا رہے ہیں کہ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ پاکستان ان کا اپنا گھر ہے۔
اوورسیز پاکستانیز کنونشن ایک ایسا فورم فراہم کرے گا جہاں بیرونِ ملک پاکستانی، حکومتی نمائندگان اور قومی ادارے ایک ہی چھت تلے اکٹھے ہوں گے۔
اس مقصد کے لیے مختلف سرکاری اداروں کے سہولتی کاؤنٹرز قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ایک ہی مقام پر معلومات، رہنمائی اور خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔
یہ اقدام اس بات کا مظہر ہے کہ حکومتِ پاکستان اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو سننے، سمجھنے اور فوری حل فراہم کرنے کے لیے نہایت سنجیدہ ہے۔
اس موقع پر اوورسیز کمیونٹی کو پاکستان کے ترقیاتی عمل میں مؤثر کردار ادا کرنے کی دعوت دی جائے گی، اور ان کیلئے موجود سہولیات و پالیسیوں میں بہتری کی تجاویز پر بھی غور کیا جائیگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانیوں اوورسیز پاکستانیز پاکستانیوں کو کے لیے
پڑھیں:
بجٹ 26-2025 کے بعد، اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل ہو جائیں گے ؟
اوورسیز پاکستانی طویل عرصے سے وطن واپسی، رقوم کی منتقلی، اور سرمایہ کاری جیسے اہم معاملات میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بجٹ 2025-26 کے بعد یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا ان کے دیرینہ مسائل کے حل کی کوئی امید پیدا ہوئی ہے؟
سب سے پہلا اور اہم مسئلہ ریمیٹنس یا قانونی ذرائع سے رقوم کی منتقلی کا ہے۔ اوورسیز پاکستانی جب بینکاری چینلز کے ذریعے رقم بھیجتے ہیں تو یا تو فیس زیادہ ہوتی ہے یا عمل بہت سست، جس کے باعث بہت سے افراد غیرقانونی یا غیر روایتی طریقے اپناتے ہیں۔ نتیجتاً ملک کو زرمبادلہ کی صورت میں جو فائدہ ہونا چاہیے، وہ پوری طرح حاصل نہیں ہو پاتا۔
دوسرا اہم اور پیچیدہ مسئلہ جائیداد پر قبضے کا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی زمین یا املاک پر قبضہ مافیا قابض ہو جاتی ہے اور عدالتوں سے فوری انصاف نہ ملنے کے باعث یہ مسئلہ مزید گمبھیر ہو جاتا ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے کا فوری اور مؤثر حل نکال لے تو نہ صرف بیرون ملک مقیم شہریوں کو تحفظ ملے گا بلکہ ملک میں براہ راست سرمایہ کاری کے امکانات بھی روشن ہوں گے۔ یہ وہ افراد ہیں جو فی الحال صرف اپنے خاندانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم بھیجتے ہیں، مگر سرمایہ کاری کی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں:اوورسیز پاکستانی ہمارا فخر ہیں، ترسیلات و سرمایہ کاری سے پاکستان کا وقار بلند کیا، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
تیسرا مسئلہ نادرا، پاسپورٹ اور NICOP جیسے اہم دستاویزات کے اجرا یا تجدید میں تاخیر کا ہے، جو بیرون ملک مقیم افراد کے لیے مستقل پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ ان سہولیات کی آسان فراہمی اور ڈیجیٹلائزیشن سے بڑی حد تک مشکلات کم کی جا سکتی ہیں۔
مزید یہ کہ اوورسیز پاکستانیوں کو سیاسی نمائندگی کا بھی شدید فقدان ہے۔ صرف ووٹ کا حق کافی نہیں، بلکہ پارلیمان میں مؤثر نمائندگی، مخصوص نشستوں یا اوورسیز سیٹوں کی فراہمی جیسے اقدامات اُن کے مسائل کے دیرپا حل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح حکومتی اسکیموں جیسے اوورسیز ہاؤسنگ، بینکنگ یا سرمایہ کاری منصوبوں تک رسائی اور شفافیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ اگر ان اسکیموں کو واقعی اوورسیز پاکستانیوں کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جائے، تو ان کے ذریعے ملک کو بھی بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اس حوالے سے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ بیرون ملک پاکستانی اس وقت صرف گھریلو اخراجات کے لیے ترسیلات زر بھیج رہے ہیں، جبکہ ان میں سے اکثریت سرمایہ کاری کی اہلیت رکھتی ہے مگر انہیں محفوظ اور پُراعتماد ماحول فراہم نہیں کیا جا رہا۔
ان کے مطابق 2024 کے مقابلے میں 2025 میں پاکستانی ورک فورس کی برآمد میں کمی آئی ہے، جبکہ دنیا، خصوصاً عرب ممالک میں افرادی قوت کی مانگ موجود ہے، لیکن ہم اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔
مزید پڑھیں: اوورسیز پاکستانی اور ڈیجیٹل پاکستان کا خواب
انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں اب صرف 9 فیصد پاکستانی ورکرز جا سکے ہیں، جو انتہائی کم شرح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سنجیدگی سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے تو ان مسائل کا حل ممکن ہے۔
عدنان پراچہ نے بتایا کہ اس وقت سعودی عرب میں 60 فیصد سے زائد پاکستانی ورکرز موجود ہیں اور اس شرح میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ہم ویزہ عمل کو آسان بنائیں، تربیت یافتہ ہنرمند افراد تیار کریں، اور عالمی معیار کے مطابق سہولیات فراہم کریں۔
ان کے مطابق حکومت سے اس وقت مشاورت جاری ہے اور جلد ہی بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے نئی اسکیمیں متعارف کرائی جا رہی ہیں، جن کے ذریعے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا اور بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنے اثاثوں کے تحفظ کی یقین دہانی بھی دی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
NICOP اوورسیز پاکستانی بجٹ 26-2025 جائیداد پر قبضہ ریمیٹنس قانونی ذرائع سے رقوم کی منتقلی