Juraat:
2025-06-09@03:46:09 GMT

شاہی سید کی ایم کیو ایم کے مرکز آمد،رہنماؤں سے ملاقات

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

شاہی سید کی ایم کیو ایم کے مرکز آمد،رہنماؤں سے ملاقات

کراچی کا مسئلہ لسانی نہیں بلکہ انتظامی ہے ، مگر اسے لسانی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، شاہی سید
ایم کیو ایم لسانی ہم آہنگی کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے ، شہر کے حالات کو خراب ہونے نہیں دیں گے، خالد مقبول

عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی)سندھ کے صدر شاہی سید نے ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادرآباد کا دورہ کیا جہاں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما مصطفی کمال سمیت دیگر مرکزی قیادت نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان موجودہ سیاسی صورتحال، کراچی کے مسائل اور لسانی ہم آہنگی کے فروغ پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہی سید نے کہا کہ کراچی کا مسئلہ لسانی نہیں بلکہ انتظامی ہے ، مگر اسے لسانی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں تعلیم اور بے روزگاری سب سے بڑے مسائل ہیں، پانی کی قلت ہے مگر کوئی اس وجہ سے مرا نہیں کیونکہ پانی نالوں میں نہیں بلکہ ٹینکروں میں موجود ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے کراچی کے نوجوان ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے باوجود بے روزگار ہیں، اور یہ ناانصافیاں شہریوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر چکی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ سیاست کا مقصد عہدے نہیں بلکہ عوام کے مسائل کا حل ہونا چاہیے ۔ شاہی سید نے کہا کہ کراچی کو صرف شہر یا صوبہ نہ سمجھا جائے بلکہ پورے پاکستان کا حصہ سمجھا جائے ۔شاہی سید کا کہنا تھا کہ شہر کے ادارے کرپشن پر نہیں بلکہ میرٹ پر چلنے چاہئیں۔ کراچی میں سمندر، ایئرپورٹ اور بے شمار وسائل موجود ہیں، پھر بھی یہاں کے نوجوانوں کو روزگار نہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ نیت کی کمی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ہر جماعت کو ان کا فرض یاد دلائیں گے ، چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم۔ ٹریفک حادثات پر بھی انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ حادثات بڑھ رہے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ گاڑیاں جلائی جائیں، بلکہ قانون کے مطابق فیصلے ہوں۔ایم کیو ایم کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ موجودہ ملکی حالات اور کراچی کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے شاہی سید کی ایم کیو ایم سے ملاقات اہمیت کی حامل ہے ۔ تمام لوگوں کی ملک کی بہتری کی ذمہ داری ہے ، ہم اب مزید پریشانیاں افورڈ نہیں کر سکتے ۔انہوں نے کہا کہ شہر کی لسانی ہم آہنگی کے لیے یہ ملاقات ایک سنگ میل ہے ۔ ایم کیو ایم لسانی ہم آہنگی کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور ہم کسی صورت شہر کے حالات کو خراب ہونے نہیں دیں گے ۔خالد مقبول نے مزید کہا کہ 90 کی دہائی میں ہوئی کچھ غلطیوں کی وجہ سے آج بھی دشواریاں درپیش ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ شہر کو ناانصافیوں سے نجات دلائی جائے ۔ کوٹہ سسٹم نے شہر کے نظام کو برباد کیا ہے ، اور ہم سمجھتے ہیں کہ شہر کے امن میں ہی ملک کی بقا ہے ۔انہوں نے شاہی سید کے خیالات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ لسانی ہم آہنگی کی تصویر ہیں، اور ایم کیو ایم ہر زبان بولنے والے کو ایک ہی قوم کا حصہ سمجھتی ہے ۔ملاقات کے اختتام پر دونوں جماعتوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کراچی کو ایک پرامن، باوقار اور ترقی یافتہ شہر بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: لسانی ہم آہنگی ایم کیو ایم نہیں بلکہ نے کہا کہ شاہی سید کہ کراچی انہوں نے شہر کے کہ شہر

پڑھیں:

بارود اور دلیل کا چراغ

برصغیرکی زمین نے نجانے کتنے ہی لشکروں کے نقوش اپنے دامن پرسجارکھے ہیں۔کبھی خنجرکی جھنکارنے امن کی فضاکو چیرڈالا،اورکبھی الفاظ کی تاثیرنے خونریزی کے طوفان کوروک لیا۔آج جب تاریخ ایک اورموڑپرکھڑی ہے،سوال یہ ہے کہ آیا ماضی کاخوں آشام سایہ پھرہمارے حال پرمنڈلارہاہے؟
ہندوستان اورپاکستان کے درمیان کشیدگی نہ صرف ایک علاقائی تنازع ہے بلکہ جنوبی ایشیاکے امن،ترقی،اوربقاء کے لئے ایک مسلسل خطرہ بن چکاہے۔ پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ طاقت کاتوازن کہاں کھڑاہے، بھارت کن داخلی بحرانوں میں گھراہوا ہے،اورمودی ہمیشہ کی طرح اب بھی اپنی عوام کوپاکستان اورچین کی طرف سے شدید خطرات کامنظرنامہ دکھاکراپنے آئندہ انتخابات میں جیتنے کے لئے فالس فلیگ جیسے ڈراموں کاسہارالے کر اس خطے کومیدانِ جنگ بنانے پرتلاہواہے۔ مستقبل میں جنگی تبدیلیوں کاکیامنظرنامہ ممکن ہوسکتاہے،تاریخی ودستاویزی حقائق اورعالمی ردعمل پرمبنی شواہد قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کررہاہوں۔
تاریخ کے صفحات اگرچہ خون سے ترہیں،مگروہ ہمیں ہرصفحہ پرامن کاسبق بھی دیتے ہیں۔موجودہ حالات میں،دونوں ممالک کے بیانات اور اقدامات اگرچہ مخاصمت کی بورکھتے ہیں،مگریہ کہناقبل ازوقت ہوگاکہ جنگ یقینی ہے۔ہاں،تصادم کاخدشہ ضرورموجود ہے۔ سرحدوں پربڑھتی ہوئی کشیدگی، سفارتی سطح پرتلخ بیانی اورعسکری مشقیں ایک نئے محاذکی پیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اوربھارت میں ایک اورتصادم متوقع ہے؟
عقل سلیم گواہی دیتی ہے کہ جنگ کوئی کھیل نہیں،اورتصادم محض تلواروں کے جھپٹنے کانام نہیں، بلکہ دوقوموں کی بقا،معیشت اورتہذیب کافیصلہ کن لمحہ ہوتاہے۔موجودہ حالات میں بارودکی بوفضامیں رچی بسی محسوس ہوتی ہے،جیسے خاموش دریاکے نیچے تندوتیزلہریں چھپی ہوں۔اگرمتعصب ہندومودی نے عقل وتدبرکو ترک کیااورجذبات کوسازشوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا تو یہ تصادم بعیدنہیں۔
بھارتی حکمرانوں کی طرف سے تند وتیزبیانات کے بعدیقینایہ سوال اٹھتاہے کہ کیابھارت اپنی شکست کابدلہ لینے کی تیاری کررہا ہے؟نہ صرف سیاسی بیانات، بلکہ دفاعی بجٹ میں اضافہ اوراسرائیل وامریکا سے اسلحہ کی خریداری اس امرکی دلیل ہیں کہ بھارت خطے میں بالادستی کاخواب دیکھ رہاہے۔تاریخ شاہدہے کہ زخم خوردہ اناجب عقل پرغالب آتی ہے تو بسااوقات اقوام کوہلاکت کے دہانے پرلاکھڑاکرتی ہے۔تاریخ کاسبق یہی ہے کہ جوطاقت شکست سے دوچارہو،وہ خاموش نہیں رہتی،بلکہ انتقام کی آگ میں اندر ہی اندرجلتی ہے۔بھارت کاعسکری تیور،اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے،اورپاکستان کے خلاف مسلسل بیان بازی یہ ظاہرکرتی ہے کہ وہ پھرسے آزمانے کے درپے ہے لیکن قومی غیرت کا تقاضایہ ہے کہ پاکستان ہوشیار،تیاراورپرامن رہے،مگرفوری جواب میں کمزوری ہرگزنہ دکھائے۔
امریکی صدرٹرمپ اپنے سرپرسیزفائر کا سہر اسجائے ساری دنیامیں یہ اعلان کررہے ہیں کہ مئی کے اوائل میں دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پرپہنچ چکی تھیں،میں نے فوری مداخلت کرتے ہوئے ایٹمی جنگ سے اس خطے کوبچالیا،کیاواقعی ایسا ہی ہے جیساکہ وائٹ ہاس کے نئے فرعون کابیانیہ ہے؟جوکچھ ہوا،وہ صرف عسکری تصادم نہ تھا،بلکہ خطے کے مستقبل کوایٹمی دھویں میں لپیٹ دینے کی سنگین علامت تھا۔ایک غلطی،ایک ناقص فیصلے کانتیجہ کروڑوں زندگیاں ہوسکتی تھیں۔اگرچہ سفارتی ذرائع نے وقتی طورپرآگ بجھائی، مگر راکھ میں چنگاری باقی ہے۔یقیناجو لمحہ گزرا،وہ صرف تاریخ کاایک صفحہ نہیں،بلکہ انسانیت کی پیشانی پرلکھاوہ سیاہ دھبہ ہے،جسے اگردوبارہ دہرایاگیاتو نہ تاریخ بچے گی،نہ پیشانی۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف جنگی تیاریوں میں تھے اورجوہری ہتھیاروں کے سائے تلے ہم سب ایستادہ تھے۔یہ لمحہِ عبرت تھا،مگرافسوس کہ سیکھنے والے کم اوردہرانے والے زیادہ ہیں۔
اقوامِ عالم،بالخصوص اقوامِ متحدہ،امریکا،چین اورروس نے فوری طورپرکشیدگی میں کمی کی اپیل کی مگران بیانات میں سنجیدگی کم،سفارتی رسمیت زیادہ دکھائی دی۔گویادنیابرصغیرکو میدانِ جنگ بننے سے روکناچاہتی ہے،مگرسنجیدہ ثالثی کے لئے قدم پیچھے کھینچ لیتی ہے۔لیکن جونہی پاکستان نے بھارتی جارحیت کاجواب دیاتوفوری طورپرگھنٹیاں بجنے لگیں اورفوری سیز فائرکے لئے بے تابی بڑھ گئی۔عالمی تجزیہ نگاربھی تسلیم کرچکے ہیں کہ سیزفائرکے لئے امریکااوربرطانیہ میں سیزفائرکے لئے فوری سنجیدگی کے پیچھے کئی اورعوامل بھی پنہاں تھے کہ وہ امریکاجس نے اعلانیہ اس جنگ سے لاتعلقی کااظہار کیا مگرپاکستانی جواب کے بعد اس سرعت کے ساتھ کیوں حرکت میں آگیا اور اس سیزفائرمیں اب مسئلہ کشمیر کاایک مرتبہ پھر ذکرکرکے پاکستان کولالی پاپ سے بہلانے کی لالچ بھی دی گئی۔
ہم سب جانتے ہی کہ بھارتی جارحیت پرعالمی طاقتیں وہ خاموش تماشائی بن گئیں،جیسے کوئی ظالم فلم کاناظرہو،اوراس کاضمیر محض’’تشویش‘‘کے بیانات دے کرمطمئن ہوجائے۔ اقوامِ متحدہ نے چندرسمی جملے ادا کیے،مگرمؤثراقدام ندارد۔صرف پاکستان سے دوستی نبھانے والے چین،ترکی اورچنددیگرممالک پہلے دن سے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اوراس سلسلے میں پاکستان کی سفارتی کارکردگی کے چرچے بھی شروع ہوگئے ۔دنیا کو چاہیے تھاکہ ثالثی کافعال کرداراداکرتی، مگراکثر طاقتور، امن کونفع کے ترازومیں تولتے ہیں ۔ اگرآئندہ ایٹمی خطرہ پیداہوگیاتو دنیاکے ہاتھوں میں صرف مذمتی بیانات ہوں گے اورزمین پرلاشیں۔ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آنے والے صرف لاہوریادہلی نہیں ہوں گے، بلکہ اس کازہر ہواں میں گھل کرلندن، نیویارک،ماسکوتک پہنچے گا۔اگرخدانخواستہ آئندہ ایٹمی خطرہ درپیش ہوتودنیا کی خاموشی ایک مجرمانہ غفلت تصورکی جائے گی۔عالمی برادری کوچاہیے کہ محض تشویش کااظہار کرنے کی بجائے تدبیر اختیارکرے۔یہ وقت ہے کہ دنیافیصلہ کرے، خاموش رہنا ہے یاضمیرکوبیدارکرنا ہے؟
پانی حیات کی علامت ہے اورجب یہی آبِ حیات کوہتھیاربنادیاجائے تویہ ظلمِ عظیم ہے۔سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پاکستان کی زراعت،معیشت اورخودمختاری پروار کے مترادف ہے۔بھارت کی یہ روش نہ صرف معاہداتی اصولوں کی پامالی ہے بلکہ یہ پانی کوایک نئی جنگ کامحرک بنانے کی کوشش ہے۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی ہے، اورزندگی کابہاروک دینا ظلمِ عظیم ہے۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی صرف قانونی نہیں،اخلاقی اورانسانی جرم بھی ہے۔ پاکستان کی زراعت، صنعت،اورخودمختاری کا دارو مدار انہی دریاں پرہے۔ پانی کی جنگ،بارود سے زیادہ خوفناک ہوسکتی ہے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • کامران ٹیسوری کی سعودی ولی عہد سے ملاقات، شاہی ظہرانے میں شرکت
  • کراچی میں ایک گھنٹے کے دوران 2 بار زلزلے کے جھٹکے، شدت 3.5 ریکارڈ کی گئی
  • کراچی کے مخلتف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے
  • کراچی : عید کے دوسرے روز بھی زلزلے کے جھٹکے، شدت 3.5 ریکارڈ
  • کراچی اور اورماڑہ میں زلزلہ
  • کراچی، ایران قونصلیٹ میں برسی امام خمینیؒ پر کانفرنس، شیعہ سنی علماء و رہنماؤں کی شرکت، ویڈیو
  • کراچی، ایران قونصلیٹ میں برسی امام خمینیؒ کی مناسبت سے کانفرنس، شیعہ سنی علماء و رہنماؤں کی شرکت
  • کراچی، ایران قونصلیٹ میں برسی امام خمینیؒ کی مناسبت سے اجتماع، شیعہ سنی علماء و رہنماؤں کی شرکت
  • بارود اور دلیل کا چراغ
  • کراچی میں ایک مرتبہ پھر زلزلے کے جھٹکے،شہریوں میں خوف و ہراس