زباں فہمی نمبر244 ؛کچھ جوشؔ کے بارے میں
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
ادب کسی بھی زبان کا ہو، اس کے تخلیق کرنے والے اہل قلم کی انفرادی واجتماعی نفسیات ہر فن پارے سے عیاں ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شاعر یا ادیب کوئی ایسا اختراعی کام کرجائے جس کا اُس کی جڑ (یعنی اپنی اصل) سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے تو بہت سی باتوں کی تفہیم آسان ہوجاتی ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی کا شمار ہمارے ادب کی انتہائی متنازعہ فیہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ (یہ ترکیب فقط مُتنازع یا متنازعہ نہیں!)۔ اُن کے کلام (نظم و نثر) میں اُن کی نجی زندگی کے تقریباً تمام پہلو اس قدر نمایاں ہیں کہ اُن کی زندگی اور شخصیت دونوں ہی کھُلی کتاب کے مانند نظر آتی ہیں۔ جوشؔ کے کور مقلّدِین کے نزدیک اُن کا ہر قول ہی نہیں فعل بھی داد کا سزاوار ہے، مگر خود جوشؔ کی اپنی وضع کردہ کسوٹی پر اُن کے معاملات پرکھیں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو انسان سمجھنا، فرشتہ یا شیطان نہ سمجھنا اور کور تقلید پر مبنی شخصیت پرستی سے گریز کرنا ہی اُن کے اور مداحِین کے حق میں بہتر ہے۔
’’دنیا کی تمام باتوں میں دو باتیں خصوصیت کے ساتھ ، ایسی تھیں کہ لڑکپن ہی سے مجھ کو شدید نفرت تھی۔ ایک تو اِن میں تھی بادہ خواری اور دوسری تھی دروغ گفتاری.                
      
				
’’میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے زندگی بھر،کبھی ایک بار بھی ’دروغ بافی‘ کا ارتکاب نہیں کیا‘‘۔ جوشؔ نے جھوٹ گھڑنے کے لیے ’دروغ بافی‘ کی اصطلاح گویا ایجاد کی ہے۔ یہاں رُک کر یہ بھی جان لیں کہ جوشؔ کے متعدد معاشقوں پر مبنی رنگین داستانِ حیات ’یادوں کی برات‘ کا خود اُن کی بیگم کے نزدیک کیا معیارِصحت تھا۔ جب بیگم جوشؔ سے استفسار ہوا تو محترمہ نے اسے جوشؔ کی ’لفّاظی‘ سے تعبیر کیا، گویا نِری گپ اور گھڑت کا شاہکار۔ سوال یہ ہے کہ جوشؔ کو اَپنی شخصیت کے سب سے نمایاں وصف (یا عیب) کو اُجاگر کرنے کے لیے سترہ اٹھارہ معاشقے گھڑنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ مجھے لگتا ہے کہ جوشؔ کی بیگم نے اپنی وفاشعاری کی انتہا کرتے ہوئے اُنھیں صاف صاف بچانے کے لیے صاف جھوٹ بولا ہوگا۔
اسی طرح جوشؔ کے اِکلوتے بیٹے سجّاد خروشؔ کے بارے میں بہت ہی مشہور بیان ہے کہ جونہی مغرب کی اذان ہوتی، وہ جوشؔ کے حکم (’’لانا بھئی میرا مُصلّیٰ!‘‘) کی تعمیل میں شراب کا فوری اہتمام کرتے تھے; جوشؔ کے انتقال کے فوراً بعد اُنھوں نے (ساری دنیا کو ششدر کرتے ہوئے) اخبارات کو اِنٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میرے والد تہجد گزار تھے۔ اللّہ ہی جانے کہ ’یادوں کی برات‘ میں اپنی زندگی کی تقریباً تمام کتھا بیان کرتے ہوئے نہ شرمانے والا جوشؔ جس نے کبھی کہا تھا کہ ’’شبیر حسین خاں سے بھی چھوٹا ہے خُدا‘‘ (معاذاللّہ) اور معاشقوں کی تفاصیل کے علاوہ بھی سبھی کچھ لکھنے پر کبھی شرمسار نہ ہوا، وہ آخری وقت میں یکدم، یکسر کیسے پلٹ گیا؟ ایک فیصد اِمکان ہے کہ جوشؔ نے توفیقِ الٰہی سے توبہ کرکے تجدیدِایمان کرلی ہو۔ ’جوش ؔ نواز‘ تو اُن کی اس تحریر کا دفاع بھی ضرور کریں گے:
’’میں نے اللہ میاں سے باتیں شروع کردیں۔ میں نے کہا’سُنتا ہوں کہ اے اللہ میاں! جب کوئی تمھاری طرف ایک قدم اُٹھاتا ہے تو تُم اُس کی جانب سَو قدم بڑھ آتے ہو، لیکن میرے ساتھ تمھارا معاملہ برعکس ہے۔ میں تمھاری طرف بڑھتا ہوں اور تم ٹس سے مس نہیں ہوتے ہو۔ تمھیں خوش کرنے کے لیے، میں نے اپنے باپ کو ناخوش کرلیا، جائیداد سے محروم ہوگیا اور تم مجھے یہ بتاتے ہی نہیں کہ مَیں راہِ راست پر ہُوں یا گُم راہ ہوگیا ہوں۔ اے اللّہ میاں! کچھ تو مُنھ سے بولو، سرسے کھیلو!‘‘۔ (یادوں کی برات)۔ یہاں جوشؔ نے کائنات کے خالق کو بالکل اپنا ہمسر اور اپنے ہی جیسا (معاذاللّہ) سمجھتے ہوئے خطاب کیا ہے جو شاید تصوف کی ادھوری معلومات والوں کے لیے لائق تحسین ہو۔
بات کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم، تربیت، آگہی اور شعور کا فقدان اس قدر زیادہ ہے کہ ہر شعبے کے مشاہیر اور زُعَماء کو لائقِِ تقلید (اور کچھ کے نزدیک گویا لائقِ پرستش) سمجھا جانے لگا ہے تو ایسے میں شاعر اور وہ بھی بڑا شاعر ، جو کچھ کرے ، سند اور لائق ِ تحسین وتقلید سمجھا جاتا ہے۔ خاکسار اپنی تقریروتحریر میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہے کہ بڑا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، بڑا اِنسان ہونا بڑی بات ہے اور ہر بڑاشاعر یا ادیب (یا صحافی) بڑا اِنسان نہیں ہوتا۔ بہرحال ہمارے معاشرے میں عمومی رَوش یہی ہے کہ دین دنیا کے ہر مسئلے میں ( باقاعدہ معلومات حاصل کیے بغیر)،’’فُلاں نے یوں کہا، فُلاں نے یوں کیا‘‘ ہی عمل کی بنیاد اور راہِ نجات سمجھی جاتی ہے۔ دینی زبان میں بات کروں تو آج کل ’قال اللّہ ‘ (اللہ نے فرمایا) یا ’قال رسول اللہ ﷺ (رسول ﷺ نے فرمایا) کی بجائے ’قال فُلاں‘ ہی ہر طرف چرچا ہے۔
بقول معروف ادیب و ماہرنفسیات ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم ’’یادوں کی برات کا شاعر اگر ایک اَنا پرست رئیس زادے کی تصویر پیش کرتا ہے تو اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ جوشؔ نے شعوری کاوش سے یہ سب کچھ کیا ہے۔ اپنے خاندان کے جلال کی مثالیں جو پیش کی ہیں تو اِس لیے کہ خاندانی طنطنے کا اظہار ہوسکے۔ اپنے غیظ وغضب کے نمونے پیش کیے تو خود کو صاحبِ جلال ثابت کرنے کے لیے۔ ویسے ایک بات ہے کہ اگر جوشؔ جلالی نہ ہوتے تو ایسے پُرجوش اشعار اُن سے کیسے سرزد ہوسکتے تھے؟‘‘۔ (جوشؔ کا نفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر سلیم اختر)۔
جوشؔ ملیح آبادی کو ابتدائے سخن میں ’شاعرِرومان‘ کہا گیا، پھر اُن کے کلام میں جوش، بغاوت، مزاحمت اور مخصوص گھن گھرج کے سبب، ’شاعرِ انقلاب‘ کا لقب دیا گیا اور جب اُنھوں نے بہ سُرعت تمام خطہ ہند میں بہت سے دیگر سخنوروں کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت حاصل کرلی تو اُن کے مداحوں نے اُنھیں ’شاعرِاعظم‘ بھی قرار دیا۔ خاکسار نے بعض قدیم ادبی جرائد میں جوشؔ کے نام سے پہلے ’شاعر ِ اعظم‘ کا لقب لکھا ہوا دیکھا ہے۔ خاکسار نے بہت سال پہلے اپنی ناقص معلومات کی بناء پر یہ کہا اور لکھا بھی تھا کہ جوش ؔ کو شاعر ِانقلاب کہنا صحیح نہیں، وہ شاعرِ بغاوت ہیں۔ انقلاب محض توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور اسی قسم کی تخریبی کارروائی اور اُس کی دعوت کا نام نہیں۔ احتجاجی طرزبیان، بغاوت کا اعلان، بغاوت پر اُکسانا ہی کافی نہیں۔ انقلاب نام ہے نظام کی مکمل ومثبت تبدیلی کا۔ محض اتفاق دیکھیے کہ ایک خاتون نے اسی موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس کا ذکر ایک ادبی جریدے میں آیا اور یہ راقم اُس کا بے نامی (De-facto) مُدیر تھا۔
اس نکتے کی روشنی میں کلامِ جوشؔ کا جائزہ لیجئے تو یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے۔ جب یہاں تک آپہنچے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جوشؔ کے کلام میں انقلاب، بغاوت اور مزاحمت کے عناصر پر کچھ گفتگو کی جائے۔ ’جوش ؔ نواز‘ حلقے کا خیال ہے کہ اُن کا اس قسم کا کلام دعوتِ انقلاب ہے:
سنو اے بستگان زلف گیتی
ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
’’جوش کی نظمیں آثارِانقلاب، غلاموں سے خطاب، صدائے بیداری، بغاوت، مستقبل کے غلام، غلاموں سے خطاب، آدمی دے اے خدا، نوجوان سے خطاب، محرومِ تمغہ، روحِ استبداد کا فرمان، سرمایہ دار شہریار، وفاق، بارگاہِ قدرت میں ایک اشتراکی رند کا مشورہ، باغی انسان، وفادارانِ ازلی کا پیام، انسان کا ترانہ اور روشنیاں ایسی نظمیں تھیں جن سے ہندوستانی ذہنوں میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی گئی‘‘۔ (’’جوشؔ، بیسویں صدی کے بے باک مزاحمتی شاعر‘‘ اَز سید جعفر عسکری)
’جوش ؔنواز‘ یہ سمجھتے ہیں کہ جوش ؔ ملیح آبادی کی بلند آہنگ شاعری میں انقلاب کی راہ دکھانے والا تمام مواد موجود ہے۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے فرمایا کہ ’’جوشؔ کی آواز محض للکار نہیں، صرف جھنکار نہیں، محض برہمی نہیں۔ وہ ’گلشنِ ناآفریدہ ‘ کو لُوٹنے والی اُن تمام سماجی قوتوں کی نشان دہی کرتے ہیں جو اُس تاجرانہ بازار کے ذمے دار ہیں (یہ ’تاجرانہ بازار‘ کیا ہوتا ہے؟ : س ا ص)۔ اُن کا قلم سرمایہ داری، رشوت خوری، مہاجن، عصبیت کے ناگ، مولوی، مُلّا، خانقاہ، مسجد ، منبر یعنی سامراج کے تمام گُرگوں کو چھِیل ڈالتا ہے۔ سامراج دشمنی کی لے تیز کرکے عوامی شعور سے جُڑ کر اِنقلاب کا راستہ دِکھاتا ہے‘‘۔ (’شاعرِ انقلاب: نظریاتی وتنقیدی مطالعہ ‘)
ہمارے ایک بزرگ معاصر جناب محمد حمید شاہد نے گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے فرمایا کہ ’’جوش نے خود کو شاعر آخرالزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگر حیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہوجائے گا‘‘۔ یہاں وہ جوشؔ ہی کا قول نقل فرماتے ہیں :
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب وانقلاب وانقلاب
(مضمون ’’جوش صاحب؛ کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب‘‘ برائے ویب سائٹ دی وائر اُردو)
یہاں ہمارے ایک اور بزرگ معاصر جناب ظفر اقبال کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیں:’’جہاں تک انقلابی شاعری کا تعلق ہے تو فیضؔ اور حبیب جالبؔ، جوش‘ سے زیادہ نمایاں رہے کیونکہ فیض اور بالخصوص جالب نے جس عوامی سطح پر اُتر کر شاعری کی، جوش نے آساں گوئی کی بجائے فنی اور علمی انداز پر زیادہ زور دیا اور تفکر کی ایک بلند تر سطح برقرار رکھی اور عوام کی نسبت خواص یعنی پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ مقبول و محترم ٹھہرے۔‘‘
میرے مشفق بزرگ کرم فرما ڈاکٹر انور سدید مرحوم نے جوشؔ کے متعلق یوں اظہارِخیال فرمایا تھا:’’جوش ملیح آبادی کی ترقی پسندی ان کے لااُبالی مزاج کا حصہ ہے۔ وہ فرد کو موجودہ نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن اس بغاوت کی جہت متعین نہیں کرتے، چنانچہ قاری ان کے سیلِ رجز میں شامل ہونے ہی کو قومی خدمت تصور کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی نظموں میں جوش و جنوں کی کیفیت تو موجود ہے لیکن انقلاب کی آواز پھُسپھُسی ہے‘‘۔
ہمارے یہاں عموماً ’ترقی پسند ‘ سے مُراد لی جاتی ہے کسی ایسے شخص سے جو اِشتراکیت واِشتمالیت کا مُقلّد ہو، حالانکہ ’رجعت پسند‘ کا الزام سہنے والے بھی ترقی پسند ہی ہوتے ہیں، تنزل پسند نہیں (تنزلی کہنا غیرضروری ہے)۔ اس پر ایک لطیفے جیسا واقعہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ خاکسار جناب نقّاش کاظمی کے گھر، اُن کی دعوت پر ملنے گیا۔ محض اتفاق ہے کہ ابھی گفت وشُنِید کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ وہاں شِیبا حیدری آپہنچیں۔ یاد نہیں کہ تمہیدی کلمات کیا تھے، مگر کچھ اسی طرح بات چل نکلی کہ ترقی پسند سے کیا مُراد ہے اور یہ کیسے معلوم ہو کہ مَیں ترقی پسند ہوں کہ نہیں۔ کاظمی صاحب نے فرمایا کہ بھئی وہ تو کام بتاتا ہے۔
راقم نے کہا کہ میری رائے میں تو ہر اَدیب یا شاعر بنیادی طور پر ترقی پسند ہی ہوتا ہے، کیونکہ وہ فرسودہ رِوایات کے خلاف اظہارِخیال کرتا ہے۔ بس ابھی بندہ کچھ جواب دے ہی رہا تھا کہ شیبا نے Top gear میں آغاز کیا اور پھر جو بوچھاڑ کی تو مجھے مصلحتاً چند جملوں کے بعد سکوت اختیار کرنا پڑا اور اَدبی دنیا میں طویل مدت گزارنے والے نقاش کاظمی بُری طرح پسپا ہوگئے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر اور رُکوں یا راہِ فرار اختیار کروں، عافیت اسی میں جانی کہ انھیں ’ترقی پسندی‘ کا باب چند گھنٹوں میں ختم کرنے کو ’تن۔ہا‘ چھوڑ دوں......اور صاحبو! میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اصل میں ہمارے یہاں چند مخصوص کلیشے اور موضوعات یا عنوانات ہی نام نہاد ترقی پسندی سمجھے جاتے ہیں اور بس!
’’وہ جو شاعر نے کہا تھا، جی چاہتا نہ ہو تو دُعا میں اثر کہاں، تو کچھ یہی حال ادیب اور اُس کے ادب کا بھی ہے۔ یوں کہنے کو تو ہمارا اَدیب خُدا کا مُنکر ہوتا ہے، حکومت کا باغی ہوتا ہے، معاشرتی ٹیبوز توڑتا ہے، سماجی اقدار پامال کردیتا ہے، اخلاقی معیاروں کی دھجیاں بکھیردیتا ہے، ظالم سماج کی دیواریں گِرادیتا ہے وغیر ہ وغیرہ۔ یہ تو ہُوا سب تحریر کی حد تک، لیکن عمل یہ ہے کہ وہ تو اخبار کے ادبی ایڈیشن کے انچارج کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا، تو پھر کیا ادب کی شناخت اور کیا ادیب کی شناخت۔ گر یَہ نہیں تو بابا، باقی کہانیاں ہیں‘‘۔ (اقتباس از ’پاکستانی ادیب کی ذمے داری‘: جوشؔ کا نفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر سلیم اختر)۔
اس مضمون کی تحریک خاکسار کو ’’جوشؔ کی مزاحمتی شاعری۔ ایک مطالعہ‘‘ جیسی منفرد کتاب سے ہوئی جو ہمارے ایک خُردمعاصر محقق ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب (لیکچرار، شعبہ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، صوابی۔ خیبرپختون خواہ) کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اُنھوں نے اَزراہِ عنایت مجھے ہدیہ کی اور خاکسار کو اپنا اُستاد قرار دیا۔ اس کتاب کے ابواب کچھ یوں ہیں:
مزاحمتی شاعری: تمہیدی مباحث، جوش کی نظم میں مزاحمتی عناصر، جوش کے مراثی میں مزاحمتی عناصر، جوش کی شاعری میں مزاحمتی عناصر (متفرق شعری اصناف کے تناظر میں)، جوش کی رباعی میں مزاحمتی عناصر، جوش کے گیت میں مزاحمتی عناصر اور جوش کے قطعات میں مزاحمتی عناصر۔ راقم کا خیال ہے کہ محقق موصوف نے ’’جوشؔ شناسی‘‘ کا ایک عمدہ باب رقم کیا ہے اور اِس کی کوئی جہت نہیں چھوڑی۔ اب یہ اہل نقدونظر کا کام ہے کہ اُن کی اس کتاب کا بہ نظرِغائر جائزہ لے کر تنقید کریں;خوب کو خام سے جُدا کریں اور وطنِ عزیز میں تحقیق کے میدان میں ہونے والی اس پیش رفت کا چرچا کریں، کیونکہ ہمارے یہاں شاعری بہت ہورہی ہے، نثر بھی لکھی جارہی ہے، تقریر کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے، مگر تحقیق خال خال ہی ہے۔
ڈاکٹر محمداسماعیل نے موضوع کی بنیاد پر اچھا کام کرتے ہوئے جوشؔ سے بہت پہلے کے شعرائے کرام کے کلام میں مزاحمتی عناصر تلاش کیے ہیں، گو اِس باب میں مزید تحقیق وتحریر کی جاسکتی ہے، بہرحال اُن کی یہ مساعی اس لیے بھی اہم ہے کہ جوشؔ کے کورمقلدین یہ خیال دل سے نکال دیں کہ جوش ؔ ہی اردو شاعری میں مزاحمت، بغاوت اور (بقول اُن مداحین کے) انقلاب کا اوّلین پرچار ک ہے یا حرفِ اوّل وآخر ہے۔ زیرِنظر کتاب کا ایک اقتباس حسبِ حال ہے:
’’مزاحمتی ادب (یعنی ہمارے خطے والے نام نہاد ترقی پسند اَدب: س اص) کے پیروکاروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ افریقہ اور وِیت نام کے اہلِ قلم نے بھی مزاحمتی ادب تخلیق کیا ہے (یعنی فقط روس اور چین ہی میں آپ کے ’کاملیت پسند‘ نہیں ہوئے: س ا ص)، دَراَصل مزاحمتی ادب کسی خاص گروہ، علاقہ یا قوم کی میراث نہیں;دنیا میں جہاں مظلوم انسان ہوں گے اور جہاں وہ اپنے حق اور آزادی کی جنگ لڑرہے ہوں گے، وہاں مزاحمتی ادب انھیں جوش، ولولہ اور جذبہ فراواں دے رہا ہوگا‘‘۔ پروفیسر محمد عثمان رمز: ’’مزاحمتی ادب۔ ایک تجزیہ ‘‘ (مشمولہ رسالہ سیارہ، شمارہ نمبر 64بابت فروری 1991ء)
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں مزاحمتی عناصر یادوں کی برات مزاحمتی ادب ملیح ا بادی فرمایا کہ نے فرمایا کرتے ہوئے ہے کہ جوش کے نزدیک کے کلام ہوتا ہے ہے میرا نہیں کہ ہے کہ ا ہ نہیں جوش کی تھا کہ کیا ہے
پڑھیں:
’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
’’ فرصت ہی نہیں ملتی‘‘ آج کل جیسے دیکھو ، یہی رونا ہے۔ فرصت ہی نہیں، دو گھڑی آرام کی بھی۔ عدیمی الفرصتی کا ایسا بہانہ، کہ نہ ملنے کا شکوہ کیا، تو سننے کو ملا ’’کہ یہاں تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور آپ ملنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘ ہمیں تو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے گویا یہ سب کا تکیہ کلام ہی بن گیا ہے کہ ہر زبان پر ایک ہی جملہ سننے کو مل رہا ہے کہ ’’ہمیں فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘
ارے بھئی یہ فرصت کس چڑیا کا نام ہے جو آپ کے ہاتھ نہیں آرہی۔کبھی تو یہ ہر گھرمیں بڑے آرام سے اڑتی، چہچہاتی نظر آتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا¡ سادگی نے دامن چھوڑا، تکلفات نے جگہ لی، بناوٹ و تصنع نے گھر کیا۔ اسٹیٹس کی ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن کا چین گیا، راتوں کی نیندیں حرام ہوئیں۔ ایک ہی دھن سوار ہے کہ فلاں کے پاس وہ سب کچھ، میرے پاس نہیں۔ بس اسی غم میں دن رات کُڑھتے ہوئے ایسے گَھن چکر بنے کہ کولہو کے بیل بنے ہوئے نہ ہی بچوں کے لیے وقت، نہ ہی اپنے سے ملاقات کا سمے۔ وہ ملاقات جو ہماری ذات کا سُکھ چین کا باعث تھی۔
آسائشوں کی لمبی دوڑ اور کچھ پانے نہیں، بلکہ سب کچھ پانے کی ہوِس نے ہم سے زندگی کا حُسن ہی چھین لیا۔ خود اپنی ہی ذات سے بے گانہ کر کے وہ خوشیاں ہی چھین لی ہیں، جو زندگی کا محور و مرکز تھیں۔ لمبی عمروں کا باعث تھیں۔ نہ وہ بے ساختہ قہقہے و محفلیں رہیں۔ نہ بیتی باتوں کی وہ پھلجڑیاں، جو وقت بے وقت گزرے زمانوں کو یاد کر کے، کہ کیسے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے کتنے بیتے زمانے تصور ہی تصور میں ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ نہ ہی وہ فرصت کے لمحات رہے جب ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹتے ہوئے خود کو فکروں سے آزاد کرلیتے تھے۔ ذہنی پریشانیوں کے جال میں الجھنے کے بہ جائے۔ انھیں مل کر سلجھاتے ہوئے اون کے ان پریشانیوں کے بکھیڑوں کو آسانی سے لپیٹ لیتے تھے۔ مل بیٹھنا ہی اس کا سب سے بڑا حل تھا۔ اپنوں کی سنگت میں، سادگی سے گزرے لمحے کیا کچھ یاد دلاتے ہیں۔ کہاں تو یہ عالم کوئی آگیا سو بسمہ اﷲ دلوں کی طرح دسترخواں بھی کھلا، جو بھی گھر میں بنا، چاہے دال روٹی یا چٹنی روٹی آنے والا اس میں خوشی خوشی شریک ہوگیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔ نہ کوئی شکایت، نہ بناوٹ، نہ آنے والا پریشان کہ معاف کیجیے بنا بتائے، یا بے وقت آگیا اور نہ میزبان کے ماتھے پر کوئی شکن، نہ بھاگم بھاگ پیزا، چکن بروسٹ لانے کا جھنجھٹ۔ کیسی سادگی تھی، نہ آنے والا نہ کھلانے والا تذبذب کا شکار کہ تھوڑے سے وقت میں مہمان کی خاطر داری کیسے کریں۔ مزے سے گپ شپ لگائی، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہوئے۔ ایک دوسرے کو پیار اور خلوص بانٹتے ہوئے ایسے رخصت ہوئے کہ وہی لمحے یاد گار بن کر زندگی کو بڑھا دیتے اور اب حال یہ ہے کوئی بے وقت آگیا تو فوری بچھا ہوا دسترخوان لپیٹ ، میاں کو بازار کی دوڑ لگوائی، چکن رول سے لے کر آئس کریم تک کہ سب کچھ لے کر آئیے۔ انھوں نے ہمارے جانے پر کیسے میز بھری تھی۔ کوئی کمی نہ رہ جائے، ناک ہی نہ کٹ جائے، اور بیگم گپ شپ کے بہ جائے۔ آپ ذرا بیٹھیے، میں ابھی آئی کہتے ہوئے یوں باورچی خانے بھاگیں کہ رہے سہے لوازمات، وہ کباب، سموسے بھی لگے ہاتھوں تل لیں کہ دسترخوان خالی نہ رہ جائے اور یوں جو دو گھڑی ملنے کے میسر بھی آئے وہ بھی ہم نے تکلفات کی بھاگ دوڑ میں اور مہمان داری میں گنوادیے۔ اوپر سے یہ شکایت، اف ڈھنگ سے بات بھی نہ ہو سکی۔ بتاکر آتے تو کم از کم آرام سے سب بندوبست ہو جاتا۔
گزرے زمانوں و فی زمانہ یہی تو فرق ہے، جو ہمیں مار گیا ہے۔ یہ نام نہاد کے ڈھکوسلے اور خواہ مخواہ کے دکھاوے نے ہماری زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ قصور سارا اپنا کہ بے جا لوازمات میں خود کو ایسا الجھایا ہے کہ ان سے نکل ہی نہیں پاتے اور الزام دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ملتی، ایک اسٹیٹس اور اپنی ناک اونچا کرنے کی فکر نے ہماری ذہنی آسودگی کو عرش سے فرش پر لاپٹخا ہے۔ اب تو ملنے پر بھی، ’’بتاؤ ماشاء اﷲ بچے اچھی ملازمت پر لگ گئے۔ تم لوگوں کی محنت نے بچوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔‘‘ پہلے اب یہ باتیں کہاں سننے کو ملتی ہیں اور اب بچوں کو کچھ بنانے کے بہ جائے ان کے لیے کچھ بنانے کے خیال نے بات چیت کا انداز ہی بدل دیا ہے۔ ’’ارے تم نے بیٹے کے لیے کون سی گاڑی خرید لی۔ میں نے تو اپنے بیٹے کے لیے نئی ماڈل کی گاڑی خریدی ہے اور موبائل بھی وہ والاجو آج کل مارکیٹ میں نیا آیا ہے۔ اس کے دوست کے پاس وہی تھا۔ سو اس کی فرمائش تو پوری کرنی تھی اور پھر چل سو چل، قصہ گاڑی، موبائل سے ہوتا ہوا ختم ہوتا ہے کہ تم نے ڈیفنس میں کوئی پلاٹ وغیرہ لیا اور سننے والا صدمے میں ایسے جاتا ہے کہ میاں کے کان کھاتا ہے کہ دیکھ لیں ان کے پاس ہر چیز نئی سے نئی اور ایک ہم ہیں بیوی کا رونا دیکھ کرمیاں قرضوں کا بوجھ اٹھائے راہ عدم سدھار جاتے ہیں۔
آج کل کے زمانے کی سو فی صد ہو بہو تصویر ہے۔ خواہشوں کے اِزدحام نے انسان کو ایسے نگلا ہے کہ یہ بھی حاصل کرنا، وہ بھی حاصل کرنا، کوٹھی، بنگلا آگیا، تو مہنگے سے مہنگا فرنیچر و پردے بھی درکار، رکھ رکھاؤ کے لیے لباس بھی قیمتی، ہاتھوں میں نئی گھڑی اور موبائل اور اس بھیڑ چال میں کچھ وقت اپنے لیے نکالنے کا سوچتے بھی ہیں، تو پھر خیال آتا ہے۔ بہتر ہے وہ کام بھی کر ہی لوں، اچھا موقع ہے، منافع ہی منافع ہے اور اس منافع کو حاصل کرنے کے لیے ہم جو اپنی لاکھوں سی قیمتی جان کا منافع داؤ پر لگارہے ہیں، جو صرف اور صرف فراغت و فرصت کے لمحات میں پوشیدہ و انھی کی مرہون منت ہے۔ یعنی اپنی صحت، قیمتی ان مول دولت کو یوں ضائع کرتے ہوئے، ہمیں تھوڑا سا بھی دکھ و ملال نہیں ہوتا۔ وہ دولت جو کسی قیمت پر ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتی۔ ذرا غور سے اپنے آپ کو کبھی آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیجیے۔
لاکھوں سی جان کو ہم نے مصروفیت کے تانوں بانوں میں الجھاکر ایسا توڑا مروڑا ہے کہ ہماری اصلی صورت ہی بگڑ کر رہ گئی ہے۔ یہ وقت سے پہلے آتا ہوا بڑھاپا، یہ بالوں میں سفیدی، ماتھے پر شکنیں، نظر میں دھندلاہٹ، ٹانگوں میں درد، سب شکستہ عمارت کی وہ نشانیاں، جو حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کے پیچھے ہم نے پائی ہیں۔ سب کچھ حاصل کرنے کی تمنا میں آج عمر کی اس منزل پر آئینہ کیسے آپ کے حالت زار کی چغلی کھا رہا ہے۔ جن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تم نے زندگی بتادی۔ خوار ہوتے رہے ، ریشم و اطلس کے خواب دیکھتے رہے۔آج تمہاری دسترس سے دور تمہارے لیے بے معنی ہوگئی ہیں کیونکہ تم میں اب نہ وہ جان ہے نہ وہ ہمت ہے کہ ان سے لطف اندوز ہو سکو ۔
آنکھوں میں وہ دم نہیں، ٹانگوں میں بھاگنے کی جان نہیں، دوائیوں اور گولیوں سے فرار ناممکن، وہ ہی اب آپ کی ہم دَم و ساتھی۔ اگر نہ ملیں تو کیسے کیسے مرض حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دواؤں کا ایسا عادی بنایا، جس کے بغیر جینا محال ہوگیا۔ سوچو تو بہت کچھ، نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں۔ اب بھی وقت ہے ، زندگی کی گاڑی کی رفتار کچھ کم کر کے اپنی عمر کو صحت مند بنائیں۔ فرصت نہ ملنے کا رونا روکر اسے داؤ پر مت لگائیں، سُکھ، چین، شانتی، سکون سے بیٹھ کر ہر مسئلے کا حل نکالیں۔ ہر چیز کو ذہن پر سوار مت کریں کہ یہ نہ ہوا تو وہ ہو جائے گا، ایسے نہ ہوا تو یہ ہو جائے گا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ صحت مند ہوں گے تو سب کچھ ہوجائے گا۔ ہر کام پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی جاتا ہے۔
عمر کی وہ نقدی، یوں بے دریغ انتھک لٹاتے خرچ کرتے ہوئے ہم اس احساس سے ہی عاری ہوگئے کہ جانے زندگی کے کتنے پل باقی ہیں، جو باقی رہ گئے ہیں۔ کاش ہم کبھی فرصت کے چند لمحوں میں کبھی اپنے لیے بھی تو جیتے۔‘‘ اپنی زندگی تو جیتے، اپنے آپ کو آئینے کے سامنے سنوارتے ہوئے کبھی اپنے اندر تو جھانکتے کہ ہمیں کیا چاہیے۔ وہ قیمتی لمحات زندگی کے جو بیت گئے واپس نہیں آئیں گے۔ آسائش آپ خرید سکتے ہیں، لیکن زندگی نہیں خرید سکتے۔ زندگی کے آخری اوور کو پورا کرنے کے لیے زندگی کی خالی کشکول میں کوئی چند سکے بھی زندگی کے، آپ کو ادھار نہیں دے سکتا۔
اس لیے فرصت کا رونا روکر اپنی زندگی کو گہن مت لگائیے، جو آپ کے پاس ہے اسے غنمت جانیے کہ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے۔ اسی میں آپ کے آج کا سکھ و چین ہے اور کل کی طویل العمری کی نوید ہے۔ اپنے آج کو کل کے لیے قربان مت کریں جیب میں جتنی بھی فرصت کے پل ملیں، انھیں استعمال کیجیے کیوں کہ کل یہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کھوٹے سکے بن کر آپ کے کسی کام نہ آئیں گے۔ کسی سے ملنا ہے، کسی کا حال پوچھنا ہے، کسی کی تیمار داری کرنی ہے تو اپنی مصروفیت کا دامن جھٹک کر ’’وقت‘‘ نکالیے۔ زندگی اتنی ارزاں شے نہیں کہ اسے یوں توڑ مروڑ دیا جائے۔ قدرت کے اس ان مول عطیے سے فیض اٹھاتے ہوئے، پل پل زندگی اپنے لیے جیتے ہوئے، یہ مت کہیے کہ فرصت نہیں ملتی بلکہ یوں کہیے کہ وقت نکالنا پڑتا ہے تو پھرآج ہی سے اپنے لیے وقت نکالیے۔ یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور آپ کے بنگلے، کوٹھیاں، گاڑیں گویا کہ آہیں بھرتے ہی رہ جائیں کہ ہمیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے کارن تم نے اپنی زندگی کے بے بہا فرصت کے لمحات گنوادیے۔ آج ہم تو وہیں کھڑے ہیں، لیکن تم نے اس اپنی تمام عمر کی تگ و دو میں کیا حاصل کیا ’’صرف دو گز زمین کا ٹکڑا‘‘ اب تو سمجھ جائیں، زندگی آپ سے کیا مانگتی ہے۔ چلتی کا نام گاڑی ہے۔ رک جائے، کھڑی ہو جائے تو بے کار، دوسروں کے لیے بوجھ ،جینا مشکل و دوبھر ، اس لیے اسے چلتا رکھنے کے لیے فراغت و فرصت کا تیل ضرور دیجیے ورنہ زنگ آلود گاڑی تو دھکا دینے سے بھی نہیں چلتی اور دنیا کیا اپنے بچوں پر بھی بوجھ بنی نظر آتی ہے۔