زباں فہمی نمبر244 ؛کچھ جوشؔ کے بارے میں
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
ادب کسی بھی زبان کا ہو، اس کے تخلیق کرنے والے اہل قلم کی انفرادی واجتماعی نفسیات ہر فن پارے سے عیاں ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شاعر یا ادیب کوئی ایسا اختراعی کام کرجائے جس کا اُس کی جڑ (یعنی اپنی اصل) سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے تو بہت سی باتوں کی تفہیم آسان ہوجاتی ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی کا شمار ہمارے ادب کی انتہائی متنازعہ فیہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ (یہ ترکیب فقط مُتنازع یا متنازعہ نہیں!)۔ اُن کے کلام (نظم و نثر) میں اُن کی نجی زندگی کے تقریباً تمام پہلو اس قدر نمایاں ہیں کہ اُن کی زندگی اور شخصیت دونوں ہی کھُلی کتاب کے مانند نظر آتی ہیں۔ جوشؔ کے کور مقلّدِین کے نزدیک اُن کا ہر قول ہی نہیں فعل بھی داد کا سزاوار ہے، مگر خود جوشؔ کی اپنی وضع کردہ کسوٹی پر اُن کے معاملات پرکھیں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو انسان سمجھنا، فرشتہ یا شیطان نہ سمجھنا اور کور تقلید پر مبنی شخصیت پرستی سے گریز کرنا ہی اُن کے اور مداحِین کے حق میں بہتر ہے۔
’’دنیا کی تمام باتوں میں دو باتیں خصوصیت کے ساتھ ، ایسی تھیں کہ لڑکپن ہی سے مجھ کو شدید نفرت تھی۔ ایک تو اِن میں تھی بادہ خواری اور دوسری تھی دروغ گفتاری.
’’میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے زندگی بھر،کبھی ایک بار بھی ’دروغ بافی‘ کا ارتکاب نہیں کیا‘‘۔ جوشؔ نے جھوٹ گھڑنے کے لیے ’دروغ بافی‘ کی اصطلاح گویا ایجاد کی ہے۔ یہاں رُک کر یہ بھی جان لیں کہ جوشؔ کے متعدد معاشقوں پر مبنی رنگین داستانِ حیات ’یادوں کی برات‘ کا خود اُن کی بیگم کے نزدیک کیا معیارِصحت تھا۔ جب بیگم جوشؔ سے استفسار ہوا تو محترمہ نے اسے جوشؔ کی ’لفّاظی‘ سے تعبیر کیا، گویا نِری گپ اور گھڑت کا شاہکار۔ سوال یہ ہے کہ جوشؔ کو اَپنی شخصیت کے سب سے نمایاں وصف (یا عیب) کو اُجاگر کرنے کے لیے سترہ اٹھارہ معاشقے گھڑنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ مجھے لگتا ہے کہ جوشؔ کی بیگم نے اپنی وفاشعاری کی انتہا کرتے ہوئے اُنھیں صاف صاف بچانے کے لیے صاف جھوٹ بولا ہوگا۔
اسی طرح جوشؔ کے اِکلوتے بیٹے سجّاد خروشؔ کے بارے میں بہت ہی مشہور بیان ہے کہ جونہی مغرب کی اذان ہوتی، وہ جوشؔ کے حکم (’’لانا بھئی میرا مُصلّیٰ!‘‘) کی تعمیل میں شراب کا فوری اہتمام کرتے تھے; جوشؔ کے انتقال کے فوراً بعد اُنھوں نے (ساری دنیا کو ششدر کرتے ہوئے) اخبارات کو اِنٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میرے والد تہجد گزار تھے۔ اللّہ ہی جانے کہ ’یادوں کی برات‘ میں اپنی زندگی کی تقریباً تمام کتھا بیان کرتے ہوئے نہ شرمانے والا جوشؔ جس نے کبھی کہا تھا کہ ’’شبیر حسین خاں سے بھی چھوٹا ہے خُدا‘‘ (معاذاللّہ) اور معاشقوں کی تفاصیل کے علاوہ بھی سبھی کچھ لکھنے پر کبھی شرمسار نہ ہوا، وہ آخری وقت میں یکدم، یکسر کیسے پلٹ گیا؟ ایک فیصد اِمکان ہے کہ جوشؔ نے توفیقِ الٰہی سے توبہ کرکے تجدیدِایمان کرلی ہو۔ ’جوش ؔ نواز‘ تو اُن کی اس تحریر کا دفاع بھی ضرور کریں گے:
’’میں نے اللہ میاں سے باتیں شروع کردیں۔ میں نے کہا’سُنتا ہوں کہ اے اللہ میاں! جب کوئی تمھاری طرف ایک قدم اُٹھاتا ہے تو تُم اُس کی جانب سَو قدم بڑھ آتے ہو، لیکن میرے ساتھ تمھارا معاملہ برعکس ہے۔ میں تمھاری طرف بڑھتا ہوں اور تم ٹس سے مس نہیں ہوتے ہو۔ تمھیں خوش کرنے کے لیے، میں نے اپنے باپ کو ناخوش کرلیا، جائیداد سے محروم ہوگیا اور تم مجھے یہ بتاتے ہی نہیں کہ مَیں راہِ راست پر ہُوں یا گُم راہ ہوگیا ہوں۔ اے اللّہ میاں! کچھ تو مُنھ سے بولو، سرسے کھیلو!‘‘۔ (یادوں کی برات)۔ یہاں جوشؔ نے کائنات کے خالق کو بالکل اپنا ہمسر اور اپنے ہی جیسا (معاذاللّہ) سمجھتے ہوئے خطاب کیا ہے جو شاید تصوف کی ادھوری معلومات والوں کے لیے لائق تحسین ہو۔
بات کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم، تربیت، آگہی اور شعور کا فقدان اس قدر زیادہ ہے کہ ہر شعبے کے مشاہیر اور زُعَماء کو لائقِِ تقلید (اور کچھ کے نزدیک گویا لائقِ پرستش) سمجھا جانے لگا ہے تو ایسے میں شاعر اور وہ بھی بڑا شاعر ، جو کچھ کرے ، سند اور لائق ِ تحسین وتقلید سمجھا جاتا ہے۔ خاکسار اپنی تقریروتحریر میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہے کہ بڑا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، بڑا اِنسان ہونا بڑی بات ہے اور ہر بڑاشاعر یا ادیب (یا صحافی) بڑا اِنسان نہیں ہوتا۔ بہرحال ہمارے معاشرے میں عمومی رَوش یہی ہے کہ دین دنیا کے ہر مسئلے میں ( باقاعدہ معلومات حاصل کیے بغیر)،’’فُلاں نے یوں کہا، فُلاں نے یوں کیا‘‘ ہی عمل کی بنیاد اور راہِ نجات سمجھی جاتی ہے۔ دینی زبان میں بات کروں تو آج کل ’قال اللّہ ‘ (اللہ نے فرمایا) یا ’قال رسول اللہ ﷺ (رسول ﷺ نے فرمایا) کی بجائے ’قال فُلاں‘ ہی ہر طرف چرچا ہے۔
بقول معروف ادیب و ماہرنفسیات ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم ’’یادوں کی برات کا شاعر اگر ایک اَنا پرست رئیس زادے کی تصویر پیش کرتا ہے تو اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ جوشؔ نے شعوری کاوش سے یہ سب کچھ کیا ہے۔ اپنے خاندان کے جلال کی مثالیں جو پیش کی ہیں تو اِس لیے کہ خاندانی طنطنے کا اظہار ہوسکے۔ اپنے غیظ وغضب کے نمونے پیش کیے تو خود کو صاحبِ جلال ثابت کرنے کے لیے۔ ویسے ایک بات ہے کہ اگر جوشؔ جلالی نہ ہوتے تو ایسے پُرجوش اشعار اُن سے کیسے سرزد ہوسکتے تھے؟‘‘۔ (جوشؔ کا نفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر سلیم اختر)۔
جوشؔ ملیح آبادی کو ابتدائے سخن میں ’شاعرِرومان‘ کہا گیا، پھر اُن کے کلام میں جوش، بغاوت، مزاحمت اور مخصوص گھن گھرج کے سبب، ’شاعرِ انقلاب‘ کا لقب دیا گیا اور جب اُنھوں نے بہ سُرعت تمام خطہ ہند میں بہت سے دیگر سخنوروں کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت حاصل کرلی تو اُن کے مداحوں نے اُنھیں ’شاعرِاعظم‘ بھی قرار دیا۔ خاکسار نے بعض قدیم ادبی جرائد میں جوشؔ کے نام سے پہلے ’شاعر ِ اعظم‘ کا لقب لکھا ہوا دیکھا ہے۔ خاکسار نے بہت سال پہلے اپنی ناقص معلومات کی بناء پر یہ کہا اور لکھا بھی تھا کہ جوش ؔ کو شاعر ِانقلاب کہنا صحیح نہیں، وہ شاعرِ بغاوت ہیں۔ انقلاب محض توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور اسی قسم کی تخریبی کارروائی اور اُس کی دعوت کا نام نہیں۔ احتجاجی طرزبیان، بغاوت کا اعلان، بغاوت پر اُکسانا ہی کافی نہیں۔ انقلاب نام ہے نظام کی مکمل ومثبت تبدیلی کا۔ محض اتفاق دیکھیے کہ ایک خاتون نے اسی موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس کا ذکر ایک ادبی جریدے میں آیا اور یہ راقم اُس کا بے نامی (De-facto) مُدیر تھا۔
اس نکتے کی روشنی میں کلامِ جوشؔ کا جائزہ لیجئے تو یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے۔ جب یہاں تک آپہنچے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جوشؔ کے کلام میں انقلاب، بغاوت اور مزاحمت کے عناصر پر کچھ گفتگو کی جائے۔ ’جوش ؔ نواز‘ حلقے کا خیال ہے کہ اُن کا اس قسم کا کلام دعوتِ انقلاب ہے:
سنو اے بستگان زلف گیتی
ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
’’جوش کی نظمیں آثارِانقلاب، غلاموں سے خطاب، صدائے بیداری، بغاوت، مستقبل کے غلام، غلاموں سے خطاب، آدمی دے اے خدا، نوجوان سے خطاب، محرومِ تمغہ، روحِ استبداد کا فرمان، سرمایہ دار شہریار، وفاق، بارگاہِ قدرت میں ایک اشتراکی رند کا مشورہ، باغی انسان، وفادارانِ ازلی کا پیام، انسان کا ترانہ اور روشنیاں ایسی نظمیں تھیں جن سے ہندوستانی ذہنوں میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی گئی‘‘۔ (’’جوشؔ، بیسویں صدی کے بے باک مزاحمتی شاعر‘‘ اَز سید جعفر عسکری)
’جوش ؔنواز‘ یہ سمجھتے ہیں کہ جوش ؔ ملیح آبادی کی بلند آہنگ شاعری میں انقلاب کی راہ دکھانے والا تمام مواد موجود ہے۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے فرمایا کہ ’’جوشؔ کی آواز محض للکار نہیں، صرف جھنکار نہیں، محض برہمی نہیں۔ وہ ’گلشنِ ناآفریدہ ‘ کو لُوٹنے والی اُن تمام سماجی قوتوں کی نشان دہی کرتے ہیں جو اُس تاجرانہ بازار کے ذمے دار ہیں (یہ ’تاجرانہ بازار‘ کیا ہوتا ہے؟ : س ا ص)۔ اُن کا قلم سرمایہ داری، رشوت خوری، مہاجن، عصبیت کے ناگ، مولوی، مُلّا، خانقاہ، مسجد ، منبر یعنی سامراج کے تمام گُرگوں کو چھِیل ڈالتا ہے۔ سامراج دشمنی کی لے تیز کرکے عوامی شعور سے جُڑ کر اِنقلاب کا راستہ دِکھاتا ہے‘‘۔ (’شاعرِ انقلاب: نظریاتی وتنقیدی مطالعہ ‘)
ہمارے ایک بزرگ معاصر جناب محمد حمید شاہد نے گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے فرمایا کہ ’’جوش نے خود کو شاعر آخرالزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگر حیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہوجائے گا‘‘۔ یہاں وہ جوشؔ ہی کا قول نقل فرماتے ہیں :
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب وانقلاب وانقلاب
(مضمون ’’جوش صاحب؛ کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب‘‘ برائے ویب سائٹ دی وائر اُردو)
یہاں ہمارے ایک اور بزرگ معاصر جناب ظفر اقبال کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیں:’’جہاں تک انقلابی شاعری کا تعلق ہے تو فیضؔ اور حبیب جالبؔ، جوش‘ سے زیادہ نمایاں رہے کیونکہ فیض اور بالخصوص جالب نے جس عوامی سطح پر اُتر کر شاعری کی، جوش نے آساں گوئی کی بجائے فنی اور علمی انداز پر زیادہ زور دیا اور تفکر کی ایک بلند تر سطح برقرار رکھی اور عوام کی نسبت خواص یعنی پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ مقبول و محترم ٹھہرے۔‘‘
میرے مشفق بزرگ کرم فرما ڈاکٹر انور سدید مرحوم نے جوشؔ کے متعلق یوں اظہارِخیال فرمایا تھا:’’جوش ملیح آبادی کی ترقی پسندی ان کے لااُبالی مزاج کا حصہ ہے۔ وہ فرد کو موجودہ نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن اس بغاوت کی جہت متعین نہیں کرتے، چنانچہ قاری ان کے سیلِ رجز میں شامل ہونے ہی کو قومی خدمت تصور کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی نظموں میں جوش و جنوں کی کیفیت تو موجود ہے لیکن انقلاب کی آواز پھُسپھُسی ہے‘‘۔
ہمارے یہاں عموماً ’ترقی پسند ‘ سے مُراد لی جاتی ہے کسی ایسے شخص سے جو اِشتراکیت واِشتمالیت کا مُقلّد ہو، حالانکہ ’رجعت پسند‘ کا الزام سہنے والے بھی ترقی پسند ہی ہوتے ہیں، تنزل پسند نہیں (تنزلی کہنا غیرضروری ہے)۔ اس پر ایک لطیفے جیسا واقعہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ خاکسار جناب نقّاش کاظمی کے گھر، اُن کی دعوت پر ملنے گیا۔ محض اتفاق ہے کہ ابھی گفت وشُنِید کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ وہاں شِیبا حیدری آپہنچیں۔ یاد نہیں کہ تمہیدی کلمات کیا تھے، مگر کچھ اسی طرح بات چل نکلی کہ ترقی پسند سے کیا مُراد ہے اور یہ کیسے معلوم ہو کہ مَیں ترقی پسند ہوں کہ نہیں۔ کاظمی صاحب نے فرمایا کہ بھئی وہ تو کام بتاتا ہے۔
راقم نے کہا کہ میری رائے میں تو ہر اَدیب یا شاعر بنیادی طور پر ترقی پسند ہی ہوتا ہے، کیونکہ وہ فرسودہ رِوایات کے خلاف اظہارِخیال کرتا ہے۔ بس ابھی بندہ کچھ جواب دے ہی رہا تھا کہ شیبا نے Top gear میں آغاز کیا اور پھر جو بوچھاڑ کی تو مجھے مصلحتاً چند جملوں کے بعد سکوت اختیار کرنا پڑا اور اَدبی دنیا میں طویل مدت گزارنے والے نقاش کاظمی بُری طرح پسپا ہوگئے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر اور رُکوں یا راہِ فرار اختیار کروں، عافیت اسی میں جانی کہ انھیں ’ترقی پسندی‘ کا باب چند گھنٹوں میں ختم کرنے کو ’تن۔ہا‘ چھوڑ دوں......اور صاحبو! میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اصل میں ہمارے یہاں چند مخصوص کلیشے اور موضوعات یا عنوانات ہی نام نہاد ترقی پسندی سمجھے جاتے ہیں اور بس!
’’وہ جو شاعر نے کہا تھا، جی چاہتا نہ ہو تو دُعا میں اثر کہاں، تو کچھ یہی حال ادیب اور اُس کے ادب کا بھی ہے۔ یوں کہنے کو تو ہمارا اَدیب خُدا کا مُنکر ہوتا ہے، حکومت کا باغی ہوتا ہے، معاشرتی ٹیبوز توڑتا ہے، سماجی اقدار پامال کردیتا ہے، اخلاقی معیاروں کی دھجیاں بکھیردیتا ہے، ظالم سماج کی دیواریں گِرادیتا ہے وغیر ہ وغیرہ۔ یہ تو ہُوا سب تحریر کی حد تک، لیکن عمل یہ ہے کہ وہ تو اخبار کے ادبی ایڈیشن کے انچارج کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا، تو پھر کیا ادب کی شناخت اور کیا ادیب کی شناخت۔ گر یَہ نہیں تو بابا، باقی کہانیاں ہیں‘‘۔ (اقتباس از ’پاکستانی ادیب کی ذمے داری‘: جوشؔ کا نفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر سلیم اختر)۔
اس مضمون کی تحریک خاکسار کو ’’جوشؔ کی مزاحمتی شاعری۔ ایک مطالعہ‘‘ جیسی منفرد کتاب سے ہوئی جو ہمارے ایک خُردمعاصر محقق ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب (لیکچرار، شعبہ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، صوابی۔ خیبرپختون خواہ) کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اُنھوں نے اَزراہِ عنایت مجھے ہدیہ کی اور خاکسار کو اپنا اُستاد قرار دیا۔ اس کتاب کے ابواب کچھ یوں ہیں:
مزاحمتی شاعری: تمہیدی مباحث، جوش کی نظم میں مزاحمتی عناصر، جوش کے مراثی میں مزاحمتی عناصر، جوش کی شاعری میں مزاحمتی عناصر (متفرق شعری اصناف کے تناظر میں)، جوش کی رباعی میں مزاحمتی عناصر، جوش کے گیت میں مزاحمتی عناصر اور جوش کے قطعات میں مزاحمتی عناصر۔ راقم کا خیال ہے کہ محقق موصوف نے ’’جوشؔ شناسی‘‘ کا ایک عمدہ باب رقم کیا ہے اور اِس کی کوئی جہت نہیں چھوڑی۔ اب یہ اہل نقدونظر کا کام ہے کہ اُن کی اس کتاب کا بہ نظرِغائر جائزہ لے کر تنقید کریں;خوب کو خام سے جُدا کریں اور وطنِ عزیز میں تحقیق کے میدان میں ہونے والی اس پیش رفت کا چرچا کریں، کیونکہ ہمارے یہاں شاعری بہت ہورہی ہے، نثر بھی لکھی جارہی ہے، تقریر کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے، مگر تحقیق خال خال ہی ہے۔
ڈاکٹر محمداسماعیل نے موضوع کی بنیاد پر اچھا کام کرتے ہوئے جوشؔ سے بہت پہلے کے شعرائے کرام کے کلام میں مزاحمتی عناصر تلاش کیے ہیں، گو اِس باب میں مزید تحقیق وتحریر کی جاسکتی ہے، بہرحال اُن کی یہ مساعی اس لیے بھی اہم ہے کہ جوشؔ کے کورمقلدین یہ خیال دل سے نکال دیں کہ جوش ؔ ہی اردو شاعری میں مزاحمت، بغاوت اور (بقول اُن مداحین کے) انقلاب کا اوّلین پرچار ک ہے یا حرفِ اوّل وآخر ہے۔ زیرِنظر کتاب کا ایک اقتباس حسبِ حال ہے:
’’مزاحمتی ادب (یعنی ہمارے خطے والے نام نہاد ترقی پسند اَدب: س اص) کے پیروکاروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ افریقہ اور وِیت نام کے اہلِ قلم نے بھی مزاحمتی ادب تخلیق کیا ہے (یعنی فقط روس اور چین ہی میں آپ کے ’کاملیت پسند‘ نہیں ہوئے: س ا ص)، دَراَصل مزاحمتی ادب کسی خاص گروہ، علاقہ یا قوم کی میراث نہیں;دنیا میں جہاں مظلوم انسان ہوں گے اور جہاں وہ اپنے حق اور آزادی کی جنگ لڑرہے ہوں گے، وہاں مزاحمتی ادب انھیں جوش، ولولہ اور جذبہ فراواں دے رہا ہوگا‘‘۔ پروفیسر محمد عثمان رمز: ’’مزاحمتی ادب۔ ایک تجزیہ ‘‘ (مشمولہ رسالہ سیارہ، شمارہ نمبر 64بابت فروری 1991ء)
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں مزاحمتی عناصر یادوں کی برات مزاحمتی ادب ملیح ا بادی فرمایا کہ نے فرمایا کرتے ہوئے ہے کہ جوش کے نزدیک کے کلام ہوتا ہے ہے میرا نہیں کہ ہے کہ ا ہ نہیں جوش کی تھا کہ کیا ہے
پڑھیں:
بارشیں اور حکومتی ذمے داری
گلگت، سوات، بونیر، جڑواں شہروں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے تباہی، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں میں بہہ کر 6 بچوں، باپ، بیٹی سمیت 16 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ کئی زخمی ہوگئے، بابو سر ٹاپ پرکئی سیاح پانی میں بہہ چکے ہیں، جن کی تلاش کے لیے ریسکیوکارروائیاں تاحال جاری ہیں۔
سڑک 15 مقامات سے بلاک ہے اور 4 اہم رابطہ پل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ پاک فوج نے اسکردو میں ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے 40 سے 50 گاڑیوں میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند سڑکیں کھول دیں۔
مون سون سیزن پاکستان کے لیے ایک اور تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک طرف بے رحم بارشیں برسیں، وہیں دوسری طرف انسانی غفلت، حکومتی لاپرواہی اور ادارہ جاتی کمزوری نے اس آفت کو ناقابلِ تلافی سانحے میں بدل دیا۔ خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی، وہ صرف موسمی یا فطری آفت نہیں، بلکہ ایک منظم حکومتی و انتظامی ناکامی کی داستان ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مون سون سیزن اب ایک قدرتی معمول سے بڑھ کر ایک انسانی بحران کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ اس بار جولائی میں ہونے والی ہلاکتیں، جن کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سیکڑوں تک جا پہنچی، صرف بارش یا سیلاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ ناقص انفرا اسٹرکچر، سیاحتی علاقوں میں انتظامی غفلت اور قبل از وقت انتباہی نظام کی غیر فعالیت کی علامت ہے۔
سیاح، جن میں مرد ، خواتین اور بچے شامل تھے، اپنی چھٹیوں کو خوشگوار بنانے کی امید لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں، مگر کمزور پُل، ندی نالوں کے قریب غیر محفوظ کیمپنگ اور مسلسل بارشوں کے باوجود حکومتی خاموشی ان کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیتی ہے۔یہ المیہ فقط چند علاقوں تک محدود نہیں۔ اسلام آباد جیسے دارالحکومت میں بھی نکاسیِ آب کا ناقص نظام عوامی زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔
راولپنڈی کا نالہ لئی ایک بار پھر خبروں میں ہے جہاں بارش کے بعد پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے اور حکومتی ادارے فقط ’’ الرٹ جاری‘‘ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات، جنھیں ملکی معیشت کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے، بدترین انفرا اسٹرکچر، بغیر پلاننگ کی تعمیرات اور غیر تربیت یافتہ مقامی انتظامیہ کی وجہ سے انسانی جانوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔
اگر ہم ان حادثات کا غیر جذباتی، حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاحتی علاقوں میں مون سون کے دوران بغیر کسی نگرانی کے عوام کو جانے کی اجازت دینا دانشمندی ہے؟ جب متعلقہ اداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کئی دن پہلے موصول ہو جاتی ہے، توکیا یہ اداروں کی ذمے داری نہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں میں سیاحت پر وقتی پابندی عائد کریں؟ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمیشہ ردعمل پر مبنی ہوتی ہے، پیشگی حکمتِ عملی کا فقدان ہمیں ہر بار انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بارشوں کا نظام غیر متوازن ہو چکا ہے، اور فلیش فلڈز اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ برساتی جھیلوں اور تالاب کا رجحان بھی ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ یہ اگر ہوں تو ان سے زیر زمین سطح آب، جو ہمارے شہری علاقوں میں تیزی سے نیچے جارہی ہے، اسے بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
ہمیں اپنے موسمیاتی پیٹرن کا عمیق مطالعہ کر کے ضرورت کے مطابق منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں سیکڑوں جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے اور اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ بارش سے ہونے والے حادثات کو دیکھا جائے تو ان میں انتظامی سے زیادہ انسانی غفلت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے مون سون سے قبل احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر شہریوں کی جانب سے حکومتی ہدایات کو نظر اندازکیا جاتا ہے، اگر عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑنے کے بجائے اپنے تئیں بھی برسات کے موسم میں تھوڑی سی احتیاط کریں تو بارشوں سے ہونیوالے جانی نقصان کی شرح کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں حالیہ اموات صرف قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، ناقص شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ تھیں۔ ہم نے اپنے قدرتی نالوں پر تجاوزات قائم کیں، درخت کاٹ کر عمارتیں بنائیں، کھلی زمینوں کو سیمنٹ اور تارکول میں بدل دیا اور بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بند کردیا۔ جب پانی کا راستہ بند ہوتا ہے تو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور پھر اس کی راہ میں جو بھی آئے، وہ تباہی کی زد میں آ جاتا ہے۔اس المیے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے عوام کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں شعور دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
پارلیمان کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر باقاعدہ قانون سازی کرے، صوبائی اسمبلیاں اس کی توثیق کریں اور ہر سطح پر اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سانحات کے بعد بھی کوئی بڑی پالیسی تبدیلی یا سنجیدہ تجزیہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حادثات کے بعد چند روزہ اخباری بیانات، کچھ دکھاوے کی میٹنگز اور پھر حسبِ معمول خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ نہ ہی کوئی باقاعدہ انکوائری کی جاتی ہے، نہ ہی ذمے داران کا تعین ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، نئے موضوعات زیرِ بحث آجاتے ہیں اور پچھلے حادثات محض یاد داشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
شدید بارشیں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ سمجھی جا رہی ہیں، جو آنے والے وقت میں پاکستانیوں کی طرز زندگی کو بدل کر کے رکھ دے گی، اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک بڑی وجہ شمالی علاقوں، خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے کو قرار دیا جا رہا ہے، ایک وقت میں ان گلیشیئرزکی تعداد سات ہزار سے زیادہ بتائی جاتی تھی، لیکن ان کا غیر متوقع طور پر تیزی سے ختم ہونا پاکستان بھر میں بدلتے موسموں کا واضح ثبوت ہے۔ درختوں کی تیزی سے کٹائی اور ان کی جگہ نئے درخت نہ لگانے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے، ایک غیر یقینی مستقبل کی جھلک 2010 میں ہنزہ وادی میں عطا آباد جھیل کے قیام کے ساتھ دیکھی گئی۔سیاحت کو اگر محفوظ بنایا جانا ہے تو اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے تو مون سون سیزن کے دوران حساس علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جائے۔ اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے جس میں مقامی حکومت، پولیس، محکمہ موسمیات، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے باہم مربوط ہو کر فیصلے کریں۔ دوسرا، مقامی کمیونٹیز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ وہ خود بھی قدرتی آفات میں بروقت ردعمل دے سکیں، اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی حفاظت کر سکیں۔
تیسرا، سیاحوں کے لیے ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں سفر سے پہلے رجسٹریشن، راستوں کی معلومات اور خطرناک علاقوں سے اجتناب جیسی ہدایات لازمی ہوں۔ انفرا اسٹرکچرکی تعمیر میں پائیداری اور موسمی حالات کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ یہ بات اب بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ کمزور پل، ناقص سڑکیں اور غیر محفوظ ہوٹل یا کیمپنگ ایریاز حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر حکومت سیاحت کو معیشت کا انجن بنانا چاہتی ہے، تو اسے انفرا اسٹرکچر پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان میں شفافیت اور پائیداری کو یقینی بنایا جائے۔موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بھی ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کی تباہی اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات نے لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کی کمزوری میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو نہ صرف ایک جامع نیشنل کلائمیٹ ایڈاپٹیشن پالیسی کی ضرورت ہے بلکہ اس پالیسی کو ضلعی سطح تک نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی جان صرف ایک عدد نہیں، بلکہ ایک خاندان، ایک نسل اور ایک خواب کا نام ہوتی ہے۔
جب ایک سیاح کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے پیچھے رہ جانے والے افراد عمر بھر کے دکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر ایک جان بھی محفوظ کی جا سکتی ہو تو اس کے لیے اقدامات کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی اخلاقی ذمے داری ہے۔آخر میں، ہمیں بحیثیتِ قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم ہر سال مون سون میں سانحات کا سامنا کرنے کو اپنی تقدیر سمجھ چکے ہیں، یا ہم اس دائرے کو توڑ کر ایک ذمے دار، محفوظ اور منصوبہ بند معاشرہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا آغاز آج، ابھی اور یہیں سے ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات کو ہم نہیں روک سکتے، مگر اپنے رویوں، پالیسیوں اور ترجیحات کو ضرور بدل سکتے ہیں تاکہ قدرتی آفات سے جنم لینے والے مسائل پر جلد از جلد قابو پا سکیں۔