Express News:
2025-06-09@16:27:35 GMT

زباں فہمی نمبر244 ؛کچھ جوشؔ کے بارے میں

اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT

ادب کسی بھی زبان کا ہو، اس کے تخلیق کرنے والے اہل قلم کی انفرادی واجتماعی نفسیات ہر فن پارے سے عیاں ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شاعر یا ادیب کوئی ایسا اختراعی کام کرجائے جس کا اُس کی جڑ (یعنی اپنی اصل) سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے تو بہت سی باتوں کی تفہیم آسان ہوجاتی ہے۔

جوشؔ ملیح آبادی کا شمار ہمارے ادب کی انتہائی متنازعہ فیہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ (یہ ترکیب فقط مُتنازع یا متنازعہ نہیں!)۔ اُن کے کلام (نظم و نثر) میں اُن کی نجی زندگی کے تقریباً تمام پہلو اس قدر نمایاں ہیں کہ اُن کی زندگی اور شخصیت دونوں ہی کھُلی کتاب کے مانند نظر آتی ہیں۔ جوشؔ کے کور مقلّدِین کے نزدیک اُن کا ہر قول ہی نہیں فعل بھی داد کا سزاوار ہے، مگر خود جوشؔ کی اپنی وضع کردہ کسوٹی پر اُن کے معاملات پرکھیں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو انسان سمجھنا، فرشتہ یا شیطان نہ سمجھنا اور کور تقلید پر مبنی شخصیت پرستی سے گریز کرنا ہی اُن کے اور مداحِین کے حق میں بہتر ہے۔

’’دنیا کی تمام باتوں میں دو باتیں خصوصیت کے ساتھ ، ایسی تھیں کہ لڑکپن ہی سے مجھ کو شدید نفرت تھی۔ ایک تو اِن میں تھی بادہ خواری اور دوسری تھی دروغ گفتاری.

....دروغ گفتاری سے اب تک نفرت ہے‘‘۔ (یادوں کی برات)۔ آپ نے دیکھا کہ جوش ؔ ملیح آبادی نے کس روانی سے اپنی مدح سرائی کی ہے کہ بندہ اَش اَش کراُٹّھے۔ (عش عش غلط رائج رہا، صحیح اَش اَش ہے)۔ اب ذرا یہ ملاحظہ فرمائیں کہ اُن کے نزدیک اسی پیمانے پر اُن کی شخصی عظمت کا کیا عالَم ہے:

’’میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے زندگی بھر،کبھی ایک بار بھی ’دروغ بافی‘ کا ارتکاب نہیں کیا‘‘۔ جوشؔ نے جھوٹ گھڑنے کے لیے ’دروغ بافی‘ کی اصطلاح گویا ایجاد کی ہے۔ یہاں رُک کر یہ بھی جان لیں کہ جوشؔ کے متعدد معاشقوں پر مبنی رنگین داستانِ حیات ’یادوں کی برات‘ کا خود اُن کی بیگم کے نزدیک کیا معیارِصحت تھا۔ جب بیگم جوشؔ سے استفسار ہوا تو محترمہ نے اسے جوشؔ کی ’لفّاظی‘ سے تعبیر کیا، گویا نِری گپ اور گھڑت کا شاہکار۔ سوال یہ ہے کہ جوشؔ کو اَپنی شخصیت کے سب سے نمایاں وصف (یا عیب) کو اُجاگر کرنے کے لیے سترہ اٹھارہ معاشقے گھڑنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ مجھے لگتا ہے کہ جوشؔ کی بیگم نے اپنی وفاشعاری کی انتہا کرتے ہوئے اُنھیں صاف صاف بچانے کے لیے صاف جھوٹ بولا ہوگا۔

اسی طرح جوشؔ کے اِکلوتے بیٹے سجّاد خروشؔ کے بارے میں بہت ہی مشہور بیان ہے کہ جونہی مغرب کی اذان ہوتی، وہ جوشؔ کے حکم (’’لانا بھئی میرا مُصلّیٰ!‘‘) کی تعمیل میں شراب کا فوری اہتمام کرتے تھے; جوشؔ کے انتقال کے فوراً بعد اُنھوں نے (ساری دنیا کو ششدر کرتے ہوئے) اخبارات کو اِنٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میرے والد تہجد گزار تھے۔ اللّہ ہی جانے کہ ’یادوں کی برات‘ میں اپنی زندگی کی تقریباً تمام کتھا بیان کرتے ہوئے نہ شرمانے والا جوشؔ جس نے کبھی کہا تھا کہ ’’شبیر حسین خاں سے بھی چھوٹا ہے خُدا‘‘ (معاذاللّہ) اور معاشقوں کی تفاصیل کے علاوہ بھی سبھی کچھ لکھنے پر کبھی شرمسار نہ ہوا، وہ آخری وقت میں یکدم، یکسر کیسے پلٹ گیا؟ ایک فیصد اِمکان ہے کہ جوشؔ نے توفیقِ الٰہی سے توبہ کرکے تجدیدِایمان کرلی ہو۔ ’جوش ؔ نواز‘ تو اُن کی اس تحریر کا دفاع بھی ضرور کریں گے:

’’میں نے اللہ میاں سے باتیں شروع کردیں۔ میں نے کہا’سُنتا ہوں کہ اے اللہ میاں! جب کوئی تمھاری طرف ایک قدم اُٹھاتا ہے تو تُم اُس کی جانب سَو قدم بڑھ آتے ہو، لیکن میرے ساتھ تمھارا معاملہ برعکس ہے۔ میں تمھاری طرف بڑھتا ہوں اور تم ٹس سے مس نہیں ہوتے ہو۔ تمھیں خوش کرنے کے لیے، میں نے اپنے باپ کو ناخوش کرلیا، جائیداد سے محروم ہوگیا اور تم مجھے یہ بتاتے ہی نہیں کہ مَیں راہِ راست پر ہُوں یا گُم راہ ہوگیا ہوں۔ اے اللّہ میاں! کچھ تو مُنھ سے بولو، سرسے کھیلو!‘‘۔ (یادوں کی برات)۔ یہاں جوشؔ نے کائنات کے خالق کو بالکل اپنا ہمسر اور اپنے ہی جیسا (معاذاللّہ) سمجھتے ہوئے خطاب کیا ہے جو شاید تصوف کی ادھوری معلومات والوں کے لیے لائق تحسین ہو۔

بات کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم، تربیت، آگہی اور شعور کا فقدان اس قدر زیادہ ہے کہ ہر شعبے کے مشاہیر اور زُعَماء کو لائقِِ تقلید (اور کچھ کے نزدیک گویا لائقِ پرستش) سمجھا جانے لگا ہے تو ایسے میں شاعر اور وہ بھی بڑا شاعر ، جو کچھ کرے ، سند اور لائق ِ تحسین وتقلید سمجھا جاتا ہے۔ خاکسار اپنی تقریروتحریر میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہے کہ بڑا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، بڑا اِنسان ہونا بڑی بات ہے اور ہر بڑاشاعر یا ادیب (یا صحافی) بڑا اِنسان نہیں ہوتا۔ بہرحال ہمارے معاشرے میں عمومی رَوش یہی ہے کہ دین دنیا کے ہر مسئلے میں ( باقاعدہ معلومات حاصل کیے بغیر)،’’فُلاں نے یوں کہا، فُلاں نے یوں کیا‘‘ ہی عمل کی بنیاد اور راہِ نجات سمجھی جاتی ہے۔ دینی زبان میں بات کروں تو آج کل ’قال اللّہ ‘ (اللہ نے فرمایا) یا ’قال رسول اللہ ﷺ (رسول ﷺ نے فرمایا) کی بجائے ’قال فُلاں‘ ہی ہر طرف چرچا ہے۔

بقول معروف ادیب و ماہرنفسیات ڈاکٹر سلیم اختر مرحوم ’’یادوں کی برات کا شاعر اگر ایک اَنا پرست رئیس زادے کی تصویر پیش کرتا ہے تو اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ جوشؔ نے شعوری کاوش سے یہ سب کچھ کیا ہے۔ اپنے خاندان کے جلال کی مثالیں جو پیش کی ہیں تو اِس لیے کہ خاندانی طنطنے کا اظہار ہوسکے۔ اپنے غیظ وغضب کے نمونے پیش کیے تو خود کو صاحبِ جلال ثابت کرنے کے لیے۔ ویسے ایک بات ہے کہ اگر جوشؔ جلالی نہ ہوتے تو ایسے پُرجوش اشعار اُن سے کیسے سرزد ہوسکتے تھے؟‘‘۔ (جوشؔ کا نفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر سلیم اختر)۔

 جوشؔ ملیح آبادی کو ابتدائے سخن میں ’شاعرِرومان‘ کہا گیا، پھر اُن کے کلام میں جوش، بغاوت، مزاحمت اور مخصوص گھن گھرج کے سبب، ’شاعرِ انقلاب‘ کا لقب دیا گیا اور جب اُنھوں نے بہ سُرعت تمام خطہ ہند میں بہت سے دیگر سخنوروں کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت حاصل کرلی تو اُن کے مداحوں نے اُنھیں ’شاعرِاعظم‘ بھی قرار دیا۔ خاکسار نے بعض قدیم ادبی جرائد میں جوشؔ کے نام سے پہلے ’شاعر ِ اعظم‘ کا لقب لکھا ہوا دیکھا ہے۔ خاکسار نے بہت سال پہلے اپنی ناقص معلومات کی بناء پر یہ کہا اور لکھا بھی تھا کہ جوش ؔ کو شاعر ِانقلاب کہنا صحیح نہیں، وہ شاعرِ بغاوت ہیں۔ انقلاب محض توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور اسی قسم کی تخریبی کارروائی اور اُس کی دعوت کا نام نہیں۔ احتجاجی طرزبیان، بغاوت کا اعلان، بغاوت پر اُکسانا ہی کافی نہیں۔ انقلاب نام ہے نظام کی مکمل ومثبت تبدیلی کا۔ محض اتفاق دیکھیے کہ ایک خاتون نے اسی موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جس کا ذکر ایک ادبی جریدے میں آیا اور یہ راقم اُس کا بے نامی (De-facto) مُدیر تھا۔

اس نکتے کی روشنی میں کلامِ جوشؔ کا جائزہ لیجئے تو یقیناً مجھ سے اتفاق کریں گے۔ جب یہاں تک آپہنچے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جوشؔ کے کلام میں انقلاب، بغاوت اور مزاحمت کے عناصر پر کچھ گفتگو کی جائے۔ ’جوش ؔ نواز‘ حلقے کا خیال ہے کہ اُن کا اس قسم کا کلام دعوتِ انقلاب ہے:

سنو اے بستگان زلف گیتی

ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے

کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر

غلامی کی حیات جاوداں سے

’’جوش کی نظمیں آثارِانقلاب، غلاموں سے خطاب، صدائے بیداری، بغاوت، مستقبل کے غلام، غلاموں سے خطاب، آدمی دے اے خدا، نوجوان سے خطاب، محرومِ تمغہ، روحِ استبداد کا فرمان، سرمایہ دار شہریار، وفاق، بارگاہِ قدرت میں ایک اشتراکی رند کا مشورہ، باغی انسان، وفادارانِ ازلی کا پیام، انسان کا ترانہ اور روشنیاں ایسی نظمیں تھیں جن سے ہندوستانی ذہنوں میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی گئی‘‘۔ (’’جوشؔ، بیسویں صدی کے بے باک مزاحمتی شاعر‘‘ اَز سید جعفر عسکری)

’جوش ؔنواز‘ یہ سمجھتے ہیں کہ جوش ؔ ملیح آبادی کی بلند آہنگ شاعری میں انقلاب کی راہ دکھانے والا تمام مواد موجود ہے۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے فرمایا کہ ’’جوشؔ کی آواز محض للکار نہیں، صرف جھنکار نہیں، محض برہمی نہیں۔ وہ ’گلشنِ ناآفریدہ ‘ کو لُوٹنے والی اُن تمام سماجی قوتوں کی نشان دہی کرتے ہیں جو اُس تاجرانہ بازار کے ذمے دار ہیں (یہ ’تاجرانہ بازار‘ کیا ہوتا ہے؟ : س ا ص)۔ اُن کا قلم سرمایہ داری، رشوت خوری، مہاجن، عصبیت کے ناگ، مولوی، مُلّا، خانقاہ، مسجد ، منبر یعنی سامراج کے تمام گُرگوں کو چھِیل ڈالتا ہے۔ سامراج دشمنی کی لے تیز کرکے عوامی شعور سے جُڑ کر اِنقلاب کا راستہ دِکھاتا ہے‘‘۔ (’شاعرِ انقلاب: نظریاتی وتنقیدی مطالعہ ‘)

ہمارے ایک بزرگ معاصر جناب محمد حمید شاہد نے گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے فرمایا کہ ’’جوش نے خود کو شاعر آخرالزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگر حیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہوجائے گا‘‘۔ یہاں وہ جوشؔ ہی کا قول نقل فرماتے ہیں :

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب وانقلاب وانقلاب

(مضمون ’’جوش صاحب؛ کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب‘‘ برائے ویب سائٹ دی وائر اُردو)

یہاں ہمارے ایک اور بزرگ معاصر جناب ظفر اقبال کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیں:’’جہاں تک انقلابی شاعری کا تعلق ہے تو فیضؔ اور حبیب جالبؔ، جوش‘ سے زیادہ نمایاں رہے کیونکہ فیض اور بالخصوص جالب نے جس عوامی سطح پر اُتر کر شاعری کی، جوش نے آساں گوئی کی بجائے فنی اور علمی انداز پر زیادہ زور دیا اور تفکر کی ایک بلند تر سطح برقرار رکھی اور عوام کی نسبت خواص یعنی پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ مقبول و محترم ٹھہرے۔‘‘

میرے مشفق بزرگ کرم فرما ڈاکٹر انور سدید مرحوم نے جوشؔ کے متعلق یوں اظہارِخیال فرمایا تھا:’’جوش ملیح آبادی کی ترقی پسندی ان کے لااُبالی مزاج کا حصہ ہے۔ وہ فرد کو موجودہ نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن اس بغاوت کی جہت متعین نہیں کرتے، چنانچہ قاری ان کے سیلِ رجز میں شامل ہونے ہی کو قومی خدمت تصور کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی نظموں میں جوش و جنوں کی کیفیت تو موجود ہے لیکن انقلاب کی آواز پھُسپھُسی ہے‘‘۔

ہمارے یہاں عموماً ’ترقی پسند ‘ سے مُراد لی جاتی ہے کسی ایسے شخص سے جو اِشتراکیت واِشتمالیت کا مُقلّد ہو، حالانکہ ’رجعت پسند‘ کا الزام سہنے والے بھی ترقی پسند ہی ہوتے ہیں، تنزل پسند نہیں (تنزلی کہنا غیرضروری ہے)۔ اس پر ایک لطیفے جیسا واقعہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ خاکسار جناب نقّاش کاظمی کے گھر، اُن کی دعوت پر ملنے گیا۔ محض اتفاق ہے کہ ابھی گفت وشُنِید کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ وہاں شِیبا حیدری آپہنچیں۔ یاد نہیں کہ تمہیدی کلمات کیا تھے، مگر کچھ اسی طرح بات چل نکلی کہ ترقی پسند سے کیا مُراد ہے اور یہ کیسے معلوم ہو کہ مَیں ترقی پسند ہوں کہ نہیں۔ کاظمی صاحب نے فرمایا کہ بھئی وہ تو کام بتاتا ہے۔

راقم نے کہا کہ میری رائے میں تو ہر اَدیب یا شاعر بنیادی طور پر ترقی پسند ہی ہوتا ہے، کیونکہ وہ فرسودہ رِوایات کے خلاف اظہارِخیال کرتا ہے۔ بس ابھی بندہ کچھ جواب دے ہی رہا تھا کہ شیبا نے Top gear میں آغاز کیا اور پھر جو بوچھاڑ کی تو مجھے مصلحتاً چند جملوں کے بعد سکوت اختیار کرنا پڑا اور اَدبی دنیا میں طویل مدت گزارنے والے نقاش کاظمی بُری طرح پسپا ہوگئے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر اور رُکوں یا راہِ فرار اختیار کروں، عافیت اسی میں جانی کہ انھیں ’ترقی پسندی‘ کا باب چند گھنٹوں میں ختم کرنے کو ’تن۔ہا‘ چھوڑ دوں......اور صاحبو! میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اصل میں ہمارے یہاں چند مخصوص کلیشے اور موضوعات یا عنوانات ہی نام نہاد ترقی پسندی سمجھے جاتے ہیں اور بس! 

’’وہ جو شاعر نے کہا تھا، جی چاہتا نہ ہو تو دُعا میں اثر کہاں، تو کچھ یہی حال ادیب اور اُس کے ادب کا بھی ہے۔ یوں کہنے کو تو ہمارا اَدیب خُدا کا مُنکر ہوتا ہے، حکومت کا باغی ہوتا ہے، معاشرتی ٹیبوز توڑتا ہے، سماجی اقدار پامال کردیتا ہے، اخلاقی معیاروں کی دھجیاں بکھیردیتا ہے، ظالم سماج کی دیواریں گِرادیتا ہے وغیر ہ وغیرہ۔ یہ تو ہُوا سب تحریر کی حد تک، لیکن عمل یہ ہے کہ وہ تو اخبار کے ادبی ایڈیشن کے انچارج کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا، تو پھر کیا ادب کی شناخت اور کیا ادیب کی شناخت۔ گر یَہ نہیں تو بابا، باقی کہانیاں ہیں‘‘۔ (اقتباس از ’پاکستانی ادیب کی ذمے داری‘: جوشؔ کا نفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین از ڈاکٹر سلیم اختر)۔

 اس مضمون کی تحریک خاکسار کو ’’جوشؔ کی مزاحمتی شاعری۔ ایک مطالعہ‘‘ جیسی منفرد کتاب سے ہوئی جو ہمارے ایک خُردمعاصر محقق ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب (لیکچرار، شعبہ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، صوابی۔ خیبرپختون خواہ) کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اُنھوں نے اَزراہِ عنایت مجھے ہدیہ کی اور خاکسار کو اپنا اُستاد قرار دیا۔ اس کتاب کے ابواب کچھ یوں ہیں:

مزاحمتی شاعری: تمہیدی مباحث، جوش کی نظم میں مزاحمتی عناصر، جوش کے مراثی میں مزاحمتی عناصر، جوش کی شاعری میں مزاحمتی عناصر (متفرق شعری اصناف کے تناظر میں)، جوش کی رباعی میں مزاحمتی عناصر، جوش کے گیت میں مزاحمتی عناصر اور جوش کے قطعات میں مزاحمتی عناصر۔ راقم کا خیال ہے کہ محقق موصوف نے ’’جوشؔ شناسی‘‘ کا ایک عمدہ باب رقم کیا ہے اور اِس کی کوئی جہت نہیں چھوڑی۔ اب یہ اہل نقدونظر کا کام ہے کہ اُن کی اس کتاب کا بہ نظرِغائر جائزہ لے کر تنقید کریں;خوب کو خام سے جُدا کریں اور وطنِ عزیز میں تحقیق کے میدان میں ہونے والی اس پیش رفت کا چرچا کریں، کیونکہ ہمارے یہاں شاعری بہت ہورہی ہے، نثر بھی لکھی جارہی ہے، تقریر کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے، مگر تحقیق خال خال ہی ہے۔

ڈاکٹر محمداسماعیل نے موضوع کی بنیاد پر اچھا کام کرتے ہوئے جوشؔ سے بہت پہلے کے شعرائے کرام کے کلام میں مزاحمتی عناصر تلاش کیے ہیں، گو اِس باب میں مزید تحقیق وتحریر کی جاسکتی ہے، بہرحال اُن کی یہ مساعی اس لیے بھی اہم ہے کہ جوشؔ کے کورمقلدین یہ خیال دل سے نکال دیں کہ جوش ؔ ہی اردو شاعری میں مزاحمت، بغاوت اور (بقول اُن مداحین کے) انقلاب کا اوّلین پرچار ک ہے یا حرفِ اوّل وآخر ہے۔ زیرِنظر کتاب کا ایک اقتباس حسبِ حال ہے:

’’مزاحمتی ادب (یعنی ہمارے خطے والے نام نہاد ترقی پسند اَدب: س اص) کے پیروکاروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ افریقہ اور وِیت نام کے اہلِ قلم نے بھی مزاحمتی ادب تخلیق کیا ہے (یعنی فقط روس اور چین ہی میں آپ کے ’کاملیت پسند‘ نہیں ہوئے: س ا ص)، دَراَصل مزاحمتی ادب کسی خاص گروہ، علاقہ یا قوم کی میراث نہیں;دنیا میں جہاں مظلوم انسان ہوں گے اور جہاں وہ اپنے حق اور آزادی کی جنگ لڑرہے ہوں گے، وہاں مزاحمتی ادب انھیں جوش، ولولہ اور جذبہ فراواں دے رہا ہوگا‘‘۔ پروفیسر محمد عثمان رمز: ’’مزاحمتی ادب۔ ایک تجزیہ ‘‘ (مشمولہ رسالہ سیارہ، شمارہ نمبر 64بابت فروری 1991ء)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں مزاحمتی عناصر یادوں کی برات مزاحمتی ادب ملیح ا بادی فرمایا کہ نے فرمایا کرتے ہوئے ہے کہ جوش کے نزدیک کے کلام ہوتا ہے ہے میرا نہیں کہ ہے کہ ا ہ نہیں جوش کی تھا کہ کیا ہے

پڑھیں:

فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام

عیدالاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالٰی کے حضور پیش کی تھی۔ اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوںکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔

اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ صرف ایک والد کی طرف سے اپنے بیٹے کی جان دینے کا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عظیم آزمائش تھی۔

حضرت اسماعیلؑ کا رضا مند ہونا، حضرت ابراہیم ؑ کا صبر، اور پھر اللہ تعالیٰ کا فدیہ بھیج دینا ۔ یہ سب ایمان، وفاداری اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہی واقعہ آج بھی قربانی کی صورت میں دہرایا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے ہاں دو عیدیں منائی جاتی ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی…لیکن ان میں سے عید الاضحی کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کیوںکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور اللہ سے وفاداری کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن فقط ظاہری مسرتوں اور چمک دمک کا مظہر نہیں، بلکہ یہ اندرونی پاکیزگی، خلوص نیت، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا کرنے کا نام ہے۔

عید کے موقع پر جب لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں، دل کی کدورتیں دور کرتے ہیں، اور خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو یہ محض رسمی عمل نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے اتحاد، اخوت، اور بھائی چارے کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ عید الفطر، رمضان کے بابرکت مہینے کے اختتام پر خوشی کا پیغام ہوتی ہے، جہاں روزے داروں کو اللہ کی طرف سے انعام و انعام ملتا ہے۔ جبکہ عید الاضحی، ایمان کے ایک عظیم امتحان کی یادگار ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کیا۔ یہ واقعہ صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ اللہ کی رضا کے آگے ہر چیز ہیچ ہے، حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی۔ عید الاضحی دراصل قربانی کے فلسفے کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں پیش کر کے، اپنی بندگی، عاجزی، اور فرمانبرداری کا عملی ثبوت دیتا ہے۔

عیدِ قربان پر معاشی سرگرمیاں

عید الاضحی کا معیشت پر بھی نمایاں اثر پڑتا ہے۔ لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت، قصائیوں، چارہ فروشوں، اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کے لیے یہ دن معاشی سرگرمی کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی علاقوں سے جانور شہروں میں آتے ہیں، بازار سجتے ہیں، اور ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ اگرچہ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔ قربانی کے جانوروں کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق عید الاضحیٰ 2023ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.1 ملین (61 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 531 ارب روپے تھی۔ اس برس قربان کیے گئے جانوروں گائے اور بیل 2.6 ملین، بکرے 3 ملین، بھیڑیں 350,000، بھینسیں: 150,000 اور اونٹ: 87,000 تھے۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق، ان قربانیوں سے حاصل ہونے والی کھالوں کی مالیت تقریباً 7 ارب روپے تھی، تاہم شدید گرمی اور مناسب دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے کھالوں کا تقریباً 35 فیصد حصہ ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ یوں ہی پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ 2024ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.8 ملین (68 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 500 ارب روپے سے زائد تھی۔ قربان کیے گئے جانوروں میں 28 لاکھ گائے، 33 لاکھ بکرے، 1.65 لاکھ بھینسیں، 99 ہزار اونٹ اور 3.85لاکھ بھیڑیں شامل تھیں۔

عید الاضحیٰ 2025ء کے دوران پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی تعداد اور مالیت کے حوالے سے سرکاری یا مستند اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں تاہم، گزشتہ سالوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال بھی تقریباً 6.5 سے 7.0 ملین (65 سے 70 لاکھ) جانور قربان کیے جا سکتے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 500 سے 550 ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔

قربانی کی اصل روح

قربانی اسلام کا ایک عظیم شعائر ہے، جو صرف ایک رسم یا ظاہری عمل نہیں بلکہ انسان کے باطن کی پاکیزگی اور خلوص نیت کا امتحان ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اْسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (سور? الحج: 37)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا، عاجزی اور اخلاص کا اظہار ہے۔ قربانی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان صرف جانور ہی نہیں، بلکہ اپنے نفس کی قربانی دیتا ہے۔

اس میں وہ اپنی خواہشات، ضد، انا، حسد، خود غرضی، اور دنیاوی لالچ کو راہِ خدا میں چھوڑنے کا عہد کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت صرف بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری نہ تھی، بلکہ مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے کا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ آج بھی قربانی کی اصل روح ہے۔ اگر ہم اس عبادت کو صرف گوشت حاصل کرنے، یا رسم نبھانے کی حد تک محدود رکھیں گے تو ہم اس کے اصل مقصد سے محروم ہو جائیں گے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم دنیا میں اپنے مفادات اور نفس پر قابو پاتے ہوئے، خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔

عبادت یا دکھاوا؟

بدقسمتی سے آج کل قربانی جیسے عظیم اور پاکیزہ عمل کو ایک معاشرتی ’’ایونٹ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جہاں عبادت کی جگہ نمائش، اخلاص کی جگہ فخر، اور عاجزی کی جگہ برتری کا اظہار نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جانوروں کی ویڈیوز، ان کی قیمتوں کا دکھاوا اور غیر ضروری تشہیر نے اس مقدس فریضے کو سطحی اور مصنوعی بنا دیا ہے۔ جہاں پہلے قربانی خالص نیت سے کی جاتی تھی، وہیں اب کئی لوگ اسے محض دوسروں کو مرعوب کرنے اور اپنی حیثیت جتانے کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ قربانی کے جانور کی قیمت، جسامت یا نسل کبھی بھی عبادت کا معیار نہیں تھے۔

اصل عبادت تو نیت، تقویٰ اور عاجزی میں پنہاں ہے۔ جانور کو محبت سے پالنا، اس کی خدمت کرنا اور نرمی سے سنتِ ابراہیمیؑ کے مطابق ذبح کرنا، یہ سب وہ اقدار ہیں جو ہمیں قربانی کے ذریعے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر جب ہم اس عمل کو سوشل میڈیا پر ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ گویا روحِ قربانی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ عبادت کو دکھاوے سے پاک رکھنا ایمان کا تقاضا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔ لہذا اگر نیت خالص نہ ہو تو عمل خواہ کتنا بھی عظیم ہو، اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کو اس کے اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ انجام دیں۔

قربانی اور اسلامی مساوات

اسلام نے ہمیشہ معاشرتی مساوات کی تعلیم دی ہے اور عید الاضحی اس کا عملی مظہر ہے۔ قربانی کا گوشت صرف گھر والوں تک محدود نہ رہے بلکہ رشتہ داروں، ہمسایوں اور مستحق افراد تک پہنچے، کیوں کہ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔ اگر ہر صاحب حیثیت فرد سچے دل سے قربانی کرے اور گوشت کو صحیح طور پر تقسیم کرے، تو معاشرے میں بھوک اور محرومی کی شدت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

اجتماعی قربانی اور جدید رجحانات

آج کے تیز رفتار اور مصروف طرزِ زندگی میں جب وقت، جگہ، اور وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قربانی ایک قابلِ عمل، بامقصد اور بابرکت حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ، جنہیں نہ جگہ میسر ہے، نہ جانور کی دیکھ بھال کا وقت اور نہ ذبح و تقسیم کا تجربہ، وہ اجتماعی قربانی کے ذریعے نہ صرف اپنی عبادت ادا کر لیتے ہیں بلکہ بہتر نظم و نسق کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

مساجد، مدارس، سماجی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اجتماعی قربانی کے عمل کو نہایت منظم انداز میں سرانجام دیتے ہیں، جس سے جانوروں کی دیکھ بھال، اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح اور گوشت کی ترسیل، سب کچھ احسن انداز میں انجام پاتا ہے۔ اسی طرح یہ قربانی نہ صرف ایک فرد کی عبادت رہتی ہے بلکہ ایک اجتماعی فلاحی عمل میں ڈھل جاتی ہے، جہاں سینکڑوں مستحقین کے گھروں میں خوشیاں پہنچتی ہیں۔ مزید یہ کہ کورونا کے بعد کے دور میں، صحت اور صفائی کے خدشات کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی کو مزید پذیرائی ملی ہے۔ اس سے نہ صرف ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ جانوروں کے فضلے، خون اور باقیات کے بہتر طریقے سے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

آن لائن قربانی نے بھی انفرادی سطح پر ایک نئی سہولت مہیا کی ہے۔ اب لوگ موبائل ایپس، ویب سائٹس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے قربانی کا جانور منتخب کر سکتے ہیں، ادائیگی کر سکتے ہیں، اور ذبح کے بعد گوشت کی ترسیل بھی حاصل کر سکتے ہیں، تاہم اس سہولت کے ساتھ ایک اہم ذمہ داری بھی جڑی ہے کیوں کہ قربانی محض ’’ٹرانزیکشن‘‘ نہیں بلکہ عبادت ہے۔ اس لیے نیت کا اخلاص، اعتماد والے ادارے کا انتخاب اور شفافیت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔

کچھ افراد آن لائن قربانی کے ذریعے اپنی عبادت کو باآسانی مکمل تو کر لیتے ہیں، لیکن اس عمل سے دوری کی وجہ سے اس عبادت کی روحانی گہرائی کو پوری طرح محسوس نہیں کر پاتے۔ اس لیے، جہاں یہ سہولت کارآمد ہے، وہیں روحانی تعلق اور شعور کو قائم رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اجتماعی قربانی کا رجحان اگر خلوص، نظم اور مقصدیت کے ساتھ قائم رہے تو یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک ایسی سماجی عبادت بھی بن سکتی ہے جو انفرادی نفع سے بڑھ کر اجتماعی فلاح کا سبب بنتی ہے۔

خاندانی بندھن

عید الاضحی صرف عبادت اور قربانی کا موقع نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہوار ہے جو خاندان کے افراد کو قلبی طور پر قریب لاتا ہے۔ گھر کے تمام افراد، چاہے وہ بچے، جوان ہوں یا بزرگ، سب مل کر عید کی تیاریوں میں حصہ لیتے ہیں۔

جانور کی دیکھ بھال، چارہ ڈالنا، پانی دینا اور اس سے مانوس ہونا، یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو خاندان میں محبت، تعاون اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ خواتین کھانے کی تیاری میں مشغول ہوتی ہیں، مرد حضرات انتظامات سنبھالتے ہیں، اور بچے جوش و خروش سے گھومتے پھرتے ہیں۔ اس سب کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں وہ قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے جو عام دنوں میں شاید نہ ہو۔ یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، اور رشتہ داروں سے جڑا رہنا ہی معاشرتی سکون کا اصل ذریعہ ہے۔

خواتین کا کردار: قربانی، پکوان اور سخاوت

عید الاضحی کے موقع پر خواتین کا کردار قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کے اندرونی امور کو سنبھالتی ہیں بلکہ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم، سلیقے سے رکھنا اور پکوان کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تنظیمی صلاحیتیں اور وقت پر ہر کام کی انجام دہی قربانی کی مجموعی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ کئی خواتین اس موقع کو سخاوت اور ہمدردی کے اظہار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ضرورت مندوں کے گھروں تک گوشت پہنچاتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے روایتی کھانے نہ صرف ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ محبت سے بھرپور بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کی اصل رونق انہی کے دم سے ہے۔

جانوروں سے محبت دراصل بچوں کی تربیت

قربانی سے پہلے جانور سے تعلق قائم کرنا، اس سے شفقت سے پیش آنا اور اس کی دیکھ بھال میں دلچسپی لینا ایک ایسا تربیتی عمل ہے جو بچوں کی شخصی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب بچہ کسی جاندار کے ساتھ پیار کا رشتہ بناتا ہے اور پھر اس کے فراق پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ اس کے اندر ہمدردی، برداشت، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ عمل بچوں کو محض مذہبی معلومات نہیں دیتا بلکہ ان کے جذبات اور اخلاقیات کو نکھارتا ہے۔ یہ سبق وہ کتابوں سے نہیں بلکہ عملی تجربے سے سیکھتے ہیں کہ اصل قربانی یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو رضائے الٰہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

صفائی اور شہری ذمہ داریاں

عید الاضحی کے بعد شہروں اور محلوں میں صفائی کا جو منظر پیش آتا ہے وہ ہماری اجتماعی غفلت کی تصویر ہوتا ہے۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے صفائی کی مہم چلاتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم بطور ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔ گوشت کے فضلات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا، خون کو پانی سے دھونا، اور آس پاس کے ماحول کو صاف رکھنا صرف حکومت کا نہیں، ہر فرد کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کیوں کہ ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، اور قربانی جیسے مقدس موقع پر اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو یہ عبادت کی روح کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنے گھروں بلکہ گلی محلوں کو بھی پاکیزہ بنائیں تاکہ عید واقعی ایک خوشگوار تجربہ بن سکے۔

عید کا حقیقی حسن

عید کی خوشیوں کا اصل حسن تب نمایاں ہوتا ہے جب یہ صرف امیروں یا صاحبِ استطاعت لوگوں تک محدود نہ رہے، بلکہ غربا، یتامیٰ اور نادار افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں۔ اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا خاندان ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی بچہ عید پر نیا لباس نہیں پہن سکا، تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔

عید کے موقع پر احساس، درد مندی اور سخاوت وہ اقدار ہیں جو ہمیں ایک باوقار معاشرہ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسیوں، ملازمین، اور کمزور طبقات کو نظر انداز کر کے صرف اپنے خاندان کی خوشیوں میں مگن رہیں گے، تو یہ خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عید کو خدمتِ خلق، انفاق اور باہمی محبت کا ذریعہ بنائیں۔

خطبہِ عید

نمازِ عید کے بعد کا خطبہ محض رسمی خطاب نہیں بلکہ ایک بیداری اور اصلاح کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہزاروں افراد یکجا ہو کر دل و دماغ کے ساتھ بات سننے کو تیار ہوتے ہیں، اور اگر اس موقع پر دین کے ساتھ سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے تو ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر خطیب قربانی کی روح، معاشرتی اتحاد، صفائی کی اہمیت، اور معاشرتی ذمہ داریوں پر سیر حاصل گفتگو کرے، تو سننے والوں کے رویے اور سوچ میں فرق آ سکتا ہے۔ یہ موقع قوم کو متحد، باشعور، اور باعمل بنانے کا موقع ہے، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

عید الاضحیٰ کا بین الاقوامی رنگ

دنیا بھر میں عید الاضحیٰ مختلف ثقافتی رنگوں، زبانوں اور مقامی روایات کے ساتھ منائی جاتی ہے، لیکن اس کی اصل روح’’قربانی برائے رضائے الٰہی‘‘ ہر جگہ یکساں ہے۔ افریقہ میں قبیلے کے لوگ اجتماعی طور پر جانور ذبح کرتے ہیں، بنگلہ دیش میں پورا محلہ ایک ساتھ مل کر حصہ ڈالتا ہے، اور یورپ و امریکہ میں مسلمان تارکین وطن اپنی کمیونٹیز میں عبادت کے ساتھ اپنی شناخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان مختلف اندازوں کے باوجود جو چیز سب کو جوڑتی ہے وہ قربانی کی اصل نیت، وحدتِ امت، اور اخوت کا پیغام ہے۔ یہ عالمی منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم چاہے کسی بھی ملک میں ہوں، ہماری عبادت ایک ہے، اور ہمارا خالق بھی ایک۔

مہنگائی

گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی نے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے قربانی جیسے فریضے کو ایک کٹھن آزمائش بنا دیا ہے۔ جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، جس سے وہ ذہنی دباؤ اور سماجی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے استطاعت کو بنیاد بنایا ہے، اور جو شخص واقعی قربانی کا متحمل نہیں، وہ شرعی طور پر معذور ہے، محروم نہیں۔ دین ہمیں دکھاوے سے روکتا ہے اور نیت کے اخلاص کو سب سے بلند رکھتا ہے۔ اس مشکل معاشی ماحول میں وہ افراد جو صاحبِ حیثیت ہیں، ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسرے بھائیوں کو قربانی میں شامل کریں یا ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

قربانی کا گوشت

قربانی کے فوراً بعد اکثر گھروں میں گوشت کی بھرمار ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس گوشت کا درست انداز میں استعمال نہ ہو تو یہ نعمت ضیاع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوشت کو ذخیرہ کرنے کے لیے صفائی، درجہ حرارت اور مناسب پیکنگ کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فریزر میں بلاوجہ گوشت بھرنا اور مہینوں تک اسے ضائع کر دینا، اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم گوشت کی تقسیم میں توازن رکھیں، عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور مستحقین کو بھی شامل کریں، اور اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف نعمت کا شکر ادا ہو گا بلکہ دوسروں کا حق بھی ادا کیا جا سکے گا۔

نوجوان نسل کے لیے پیغام

عید کا دن نوجوانوں کے لیے محض تعطیل یا تفریح کا موقع نہیں، بلکہ تربیت اور کردار سازی کا ایک نادر موقع ہے۔ جب نوجوان قربانی کی تیاری، جانور کی دیکھ بھال، اور اس کے ساتھ محبت میں شریک ہوتے ہیں، تو ان کے اندر احساس، ذمہ داری، اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ انہیں یہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ قربانی صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی جہاد ہے، جس کا مقصد اپنے اندر کی خود پسندی، غفلت، اور دنیا پرستی کو ختم کرنا ہے۔ اگر نوجوان اس عبادت کے گہرے مفہوم کو سمجھ لیں، تو وہ اپنی زندگی کو خدمت، خلوص، اور قربانی کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں، جو مستقبل میں انہیں ایک بہتر انسان، شہری اور مسلمان بننے میں مدد دے گا۔  

متعلقہ مضامین

  • وقت ایک نہیں بلکہ تین سمتوں کا حامل ہے، نئی تحقیق
  • بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور بارے اپنی ہی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا
  • پاکستان کشمیر بارے مودی کے گمراہ کن بیانات مسترد کرتا ہے، دفتر خارجہ