Express News:
2025-11-03@16:48:52 GMT

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ سوم)

اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT

مغرب کے ہر دور میں بدلتے دوہرے معیار کی ایک واضح مثال کے طور پر گز شتہ بار تفصیلاً بتایا گیا کہ جولائی انیس سو اڑتیس میں فرانس کے قصبے ایویان میں امریکا اور برطانیہ سمیت بتیس ممالک کی نو روزہ کانفرنس یورپی یہودیوں کو پناہ دینے کے کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے بجائے اس معاملے سے فٹ بال کی طرح کھیلتی رہی۔چنانچہ نازی جرمنی نے اس مسئلے کا حل بالاخر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

ایویان کانفرنس کے ایک ماہ بعد اگست انیس سو اڑتیس میں جرمنی نے غیر ملکی باشندوں کے اجازت نامے منسوخ کر کے نئے اجازت نامے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔جرمنی میں اس وقت بارہ ہزار پولش نژاد یہودی بھی آباد تھے۔ان سب کو نئے اجازت نامے جاری کرنے کے بجائے پولینڈ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پولش حکومت نے انھیں یوں واپس لینے سے انکار کر دیا کہ ایک قانون کے تحت پانچ برس سے زائد بیرونِ ملک رہنے والے پولش باشندوں کی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی۔بالاخر کئی دن کی رد و کد کے بعد پولش حکومت نے بارہ میں سے آٹھ ہزار یہودیوں کو اپنا شہری تسلیم کر لیا۔

ان میں سے ایک پولش نوجوان یہودی تارکِ وطن ہرشل گرنزپین جو خود پیرس میں مگر اس کا خاندان انیس سو گیارہ سے جرمنی میں رہ رہا تھا۔اسے بھی جبراً پولینڈ بھیجا گیا۔ہرشل نے طیش میں آ کر سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارتکار ارنسٹ وان راتھ کو قتل کر دیا۔

نازی جرمنی نے اس واقعہ کا سنجیدگی سے نوٹس لیا۔ارنسٹ کے قتل کے دو روز بعد جرمن شہروں اور قصبات سے پولیس ہٹا لی گئی اور ہٹلر یوتھ کے دستے پورے ملک میں پھیل گئے۔عام جرمن بھی ان کے ساتھ مل گئے۔نو اور دس نومبر کی درمیانی شب جرمن تاریخ میں ’’ کرسٹل ناخت‘‘ (شیشوں کی رات ) کے نام سے مشہور ہے۔

اس رات جرمنی اور آسٹریا میں ایک ہزار سے زائد یہودی عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ساڑھے سات ہزار دوکانوں اور اسٹورز کو پھونک دیا گیا۔تیس ہزار سے زائد یہودی حراست میں لے کر لیبر کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔اکیانوے یہودی مشتعل مجمع کے ہاتھوں قتل ہوئے۔یہودی قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

ان واقعات کی یورپی اور امریکی میڈیا میں خاصی کوریج ہوئی۔آخری جرمن بادشاہ قیصر ولیلہم دوم نے تبصرہ کیا کہ ’’ پہلی بار مجھے جرمن ہونے پر شرمندگی ہے‘‘۔ امریکا نے ان واقعات کی مذمت میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا مگر سفارتی تعلقات نہیں توڑے۔

کرسٹل ناخت کے نتیجے میں اگلے دس ماہ میں مزید ایک لاکھ پندرہ ہزار جرمن یہودی ملک چھوڑ گئے۔

کرسٹل ناخت سے پہلے یہودیوں کو سماجی اور اقتصادی طور پر الگ تھلگ کر کے جرمنی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا مگر اب نوبت جسمانی حملوں اور اجتماعی تشدد تک پہنچ چکی تھی۔فضا بتدریج نسل کشی کے لیے تیار ہو رہی تھی۔مگر یہودیوں کے ہمدرد کہلائے جانے والے ممالک اب بھی اپنے دروازے کھولنے کو تیار نہیں تھے۔

مارچ انیس سو انتالیس میں ہٹلر نے پورے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کر لیا۔یوں مزید ایک لاکھ اسی ہزار یہودی جرمن قبضے میں آ گئے۔برطانیہ نے کرسٹل ناخت کے بعد ترس کھا کر دس ہزار کمسن بچوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا مگر ان کے والدین کو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔جون انیس سو انتالیس تک آسٹریا ، چیکو سلوواکیہ اور جرمنی کے تین لاکھ نو ہزار یہودیوں نے ستائیس ہزار امریکی امیگریشن ویزا کوٹے کے لیے درخواست دی۔

اگر ستمبر انیس سو انتالیس کے ہالوکاسٹ انسائیکلو پیڈیا کے اعداد و شمار پر اعتبار کر لیا جائے تو ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد اگلے سات برس میں ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودی آبادی میں سے دو لاکھ بیاسی ہزار اور آسٹریا کے ایک لاکھ سترہ ہزار یہودی ملک چھوڑ چکے تھے۔مجموعی طور پر یہ تعداد تین لاکھ ننانوے ہزار بنتی ہے۔ان میں سے پچانوے ہزار امریکا ، ساٹھ ہزار فلسطین ، چالیس ہزار برطانیہ ، پچھتر ہزار وسطی و جنوبی امریکا اور اٹھارہ ہزار جاپان کے زیرِ قبضہ شنگھائی پہنچ گئے۔

جنگ شروع ہونے تک جرمنی میں صرف دو لاکھ دو ہزار اور آسٹریا میں ستاون ہزار یہودی باقی رہ گئے۔ان میں سے بیشتر عمر رسیدہ لوگ تھے۔ اکتوبر انیس سو اکتالیس میں جب یہودیوں کی نقل مکانی پر نازی جرمنی نے مکمل پابندی لگا دی تب تک جرمنی میں صرف ایک لاکھ تریسٹھ ہزار یہودی باقی تھے۔اس دوران جرمنی نے فرانس ، ہالینڈ، پولینڈ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، بلجئیم، ناروے، ڈنمارک پر قبضہ کر لیا تھا۔اگر ان سب ممالک کی یہودی آبادی کو یکجا کر کے فرض کر لیا جائے کہ اکتوبر انیس سو اکتالیس کے بعد سب کو گیس چیمبر میں بھیج دیا گیا تب بھی ساٹھ لاکھ کا عدد پورا نہیں ہوتا۔یہ عدد کیسے تاریخ کا حصہ بنا ؟ یہ سوال اٹھانا بھی سنگین یہود دشمنی کے برابر ہے ؟

بہت سے یورپی ممالک میں اس عدد کو چیلنج کرنے کی سزا جیل ہے۔

بہرحال ایک واقعہ اور سن لیجیے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ آج جو اسرائیل کے محسن بنے پھر رہے ہیں پچاسی برس پہلے انھوں نے کیا کیا۔

جنگ شروع ہونے سے لگ بھگ ساڑھے تین ماہ قبل تیرہ مئی انیس سو انتالیس کو ایک جرمن مسافر بردار جہاز سینٹ لوئی جرمن بندرگاہ ہیمبرگ سے کیوبا کی بندرگاہ ہوانا کے لیے روانہ ہوتا ہے۔اس میں نو سو سینتیس جرمن یہودی ہیں۔ انھوں نے کیوبا کا ویزہ اور لینڈنگ سرٹیفکیٹ ڈیڑھ سو ڈالر فی کس رشوت دے کر خریدا ہے۔ان میں سے اکثر نے امریکی ویزے کے لیے بھی اپلائی کر رکھا ہے تاکہ فیصلہ ہونے تک کیوبا میں رہ کر انتظار کر لیا جائے۔کیوبا میں پہلے ہی سے ڈھائی ہزار یہودی تارکینِ وطن موجود ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ ، اور امریکی یہودیوں کی کچھ تنظیموں کو خبر ہے کہ اس جہاز کی روانگی سے ایک ہفتے قبل کیوبا میں صدر فریدریکو برو کی حکومت نے امیگریشن قوانین بدل دیے ہیں۔نئے قوانین کے تحت پرانے لینڈنگ سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ نئے سرٹفیکیٹ صرف کیوبا کی وزارتِ خارجہ جاری کر سکتی ہے اور اس کی فیس پانچ سو ڈالر فی مسافر ہے۔ خدشہ ہے کہ منسوخ سرٹفیکیٹس کی بنیاد پر سینٹ لوئی کے مسافروں کو کیوبا قبول نہ کرے۔مگر جہاز راں کمپنی کی جانب سے سینٹ لوئی میں سوار مسافروں کو کوئی خبر نہیں دی گئی۔

جب ستائیس مئی کو سینٹ لوئی ہوانا کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوتا ہے تو صرف اٹھائیس مسافروں کو اترنے کی اجازت ملتی ہے۔ان میں وہ بائیس یہودی بھی ہیں جن کے پاس امریکی ویزہ بھی ہے ۔باقی نو سو آٹھ مسافروں کو اترنے کی اجازت نہیں ہے۔یہ خبر امریکی اور یورپی اخبارات میں شہہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتی ہے۔دو جون کو جہاز کو مسافروں سمیت کیوبا کی حدود سے نکل جانے کا حکم ملتا ہے۔

سینٹ لوئی کا رخ میامی کی طرف ہے۔کچھ مسافر وائٹ ہاؤس تار بھیجتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ایک مسافر کو جوابی تار آتا ہے کہ وہ ضوابط کے مطابق اپنی درخواست پر فیصلے کا انتظار کرے۔درخواستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان پر ترتیب وار غور کیا جا رہا ہے۔جرمنی اور آسٹریا کے لیے سالانہ امریکی کوٹا ستائیس ہزار تین سو ستر مقرر ہے۔

سیٹ لوئی کے علاوہ ایک سو چار مسافروں سے بھرے فرنچ جہاز فلنادرے اور بہتر مسافروں سے بھرے برطانوی جہاز اورڈونا کو بھی واپس کر دیا جاتا ہے۔اورڈونا کے مسافروں کو بہرحال امریکی انتظام کے علاقے پاناما میں اترنے کی عارضی اجازت مل جاتی ہے۔

سینٹ لوئی اپنے مسافروں سمیت یورپ پہنچتا ہے۔ان میں سے دو سو اٹھاسی مسافروں کو برطانیہ ، ایک سو اکیاسی کو ہالینڈ ، دو سو چودہ کو بلجئیم اور دو سو چوبیس کو فرانس عارضی ویزہ جاری کر دیتے ہیں۔جو مسافر برطانیہ میں اتر جاتے ہیں وہ زندہ بچ جاتے ہیں۔جب کہ ہالینڈ ، بلجیم اور فرانس میں اترنے والے پانچ سو بتیس مسافر ان ممالک پر مئی انیس سو چالیس میں جرمن قبضے کے بعد کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیے جاتے ہیں۔      (جاری ہے) 

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور ا سٹریا ہزار یہودی مسافروں کو کرسٹل ناخت سینٹ لوئی ہے ان میں ایک لاکھ دیا گیا کر لیا کر دیا

پڑھیں:

فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-7

 

جاوید انور

حالات حاضرہ اور عالمی و علاقائی جیو پولیٹکس میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بنایا ہوا نام نہاد امن معاہدہ دراصل فلسطین کے مکمل خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت کا معاہدہ ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اور حماس کو نہتا کرنا اس کی پہلی سیڑھی ہے۔ جس میں اب تک ایک حاصل ہو چکا ہے۔ قطر، مصر، اور ترکی نے حماس کے قائدین کو یرغمال بنا کر جس معاہدے پر دستخط کروائے ہیں، اس میں بھی حماس نے غیر مسلح ہونے کی شرط قبول نہیں کی ہے۔ حماس کے پاس وہ اسرائیلی قیدی جو اسرائیلی بمباری میں عمارتوں کے ملبہ میں دبے ہوئے ہیں، انہیں ہزاروں ٹن ملبے میں ان کی دبی لاشیں نکالنا ناممکن ہے۔ اسرائیل یہ بات پہلے سے سمجھتا ہے۔ وہ حماس کو اس کے ضروری آلات و مشینری بھی مہیا نہیں کر رہا ہے۔ اور انہیں مردہ قیدیوں کی رہائی نہ ہونے پر دوبارہ فلسطین پر حملہ، اور نسل کشی کو جاری رکھنے کا بہانہ بنا رہا ہے۔ اور اب اسے امریکا کو دوبارہ حملے کے لیے منانا رہ گیا ہے۔ اگر یہ کام ہو گیا تو بہت جلد اسرائیلی حملے شروع ہو جائیں گے۔

تاہم اب اسرائیل بالکل ننگا ہو کر دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس نے جتنے بھی مظالم اور نسل کشی کو چھپانے کے لیے ساری دنیا میں چادریں تانی تھیں، ان کی مضبوط لابی، سیاست، صحافت، دولت، اور پروپیگنڈے کی تمام مشینری فیل ہو رہی ہے۔ آج اسرائیل کی سب سے زیادہ مخالفت مسلم دنیا میں نہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور یورپ میں ہو رہی ہے۔ آزاد انسانوں کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہو رہا ہے۔ صہیونی اسرائیل حمایتی اخبار نیو یارک ٹائمز میں بغاوت ہو چکی ہے۔ اس کے تین سو صحافیوں نے اخبار میں لکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور یہ بڑی تعداد ہے۔ ان لوگوں نے کہا ہے کہ جب تک اخبار یہ اداریہ نہ لکھے کہ امریکا اسرائیل کی فوجی امداد بند کرے، وہ اخبار میں واپس نہیں آئیں گے۔ یہ اس صدی کی صحافتی دنیا کی سب سے بڑی خبر ہے۔ 174 سال پرانا یہ اخبار جو واقعات کی پوری تاریخ ریکارڈ کرنے کا اکلوتا دعویٰ دار ہے اور ’’نیوز پیپر آف ریکارڈ‘‘ کہلاتا ہے، اور جس نے اسرائیل کی حمایت کی پالیسی کو باضابطہ ادارہ جاتی پالیسی (Institutionalized) بنایا ہوا تھا۔ اسی اخبار نے عراق میں ’’انبوہ تباہی کے ہتھیار‘‘ کی جھوٹی خبروں کو پھیلا کر امریکی رائے عامہ کو ’’ایجاد‘‘ کیا تھا۔ اور عراق پر بمباری کرائی۔ صدام حکومت کا خاتمہ کرایا۔ اب یہ اخبار خود پھانسی پر چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ یہودی اسرائیلی لابی اس کی حمایت کرے گی۔ لیکن اس کا وقار اب خاک میں مل چکا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا جو فلسطین دھوکا دہی کا پلان ہے اسے پاکستان، سعودی عرب، اردن، امارات، قطر، ترکی، اور مصر کے منافق حکمرانوں کی طرف سے قبول کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب فلسطین کی واحد سیاسی اور فوجی قوت حماس کو کچلنے کے لیے متحد ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل اخوان کو کچلنے کے لیے یہ لوگ بشمول اسرائیل مصری آمر کی مدد کر چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کے قتل عام پر انہیں بلینز آف ڈالرز ملے تھے۔ اب یہ لوگ اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس کا خاتمہ چاہتے ہیں جو اس وقت فلسطین کی واحد زندہ سیاسی اور فوجی طاقت ہے۔

اخوان اور حماس انہیں اس لیے دشمن نظر آتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اسلامی نظامِ سیاست اور حکومت کے مدعی ہیں جس سے مسلم دنیا کے سارے ملوک، فوجی آمر، اور جمہوری بادشاہ، اور فوجی بیساکھی پر چلنے والی جعلی جمہوریتیں خوف کھاتی ہیں۔ اور خود کچھ نہیں کر سکتے تو انہیں اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں مروانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل کی قبولیت کی مہم ہے اور امریکا کو بلینز آف ڈالر کے تحائف دیے گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں سارے بے شرم الشیخ جمع ہوئے۔ شہباز شریف نے ٹرمپ کو سیلوٹ کیا اور بے غیرتی کے تمام حدود کو عبور

کیا۔ مسٹر شریف نے برصغیر اور فلسطین میں ’’ملینز آف پیپلز‘‘ کی ’’جان بچانے‘‘ پر ایک بار پھر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزدگی کا اعلان کیا۔ شراب خانے کے ساقی کا اور ہوٹل کے کسی بیرے کا کردار بھی اس سے کہیں اچھا ہوتا ہے۔ نوبل ایوارڈ دینے والی تنظیم کو چاہیے کہ وہ اپنے ایوارڈ میں ’’بے غیرتی‘‘ کا ایوارڈ کا اضافہ کرے اور مسٹر ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ مسٹر شریف کو اس ایوارڈ کے لیے نامزد کرے۔ بہر کیف بے شرمی، بے غیرتی، ذلت و رسوائی، قدم بوسی، چاپلوسی، خوشامد و مسکہ بازی کا ایک عالمی مقابلہ ہوا اس میں پاکستان کا وزیر اعظم جیت گیا۔ اور ویسے بھی نوبل امن انعام ان لوگوں کو ملتا ہے جو اسرائیل کی حمایت میں، اسے فائدہ پہنچانے میں بے غیرتی کی تمام حدود عبور کر جاتے ہیں۔ شرم الشیخ جہاں مصر نے مسلم دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پہلا معاہدہ کیا تھا، اس کا ایک ظالم اور بے غیرت فوجی حاکم السیسی بہت تعجب سے مسکراتے ہوئے اس ’’شریف‘‘ انسان کو دیکھ رہا تھا کہ ایک پاکستانی کس طرح بے غیرتی اور بے شرمی میں اس کو مات دے گیا۔

مسلم ممالک کے علما سے گزارش ہے کہ آنکھیں بند کر اپنی حکومتوں کے بیانیوں پر اپنے فتوے جاری نہ کریں۔ سب سے پہلے فلسطین کے اصل مسئلے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے امریکا اور اسرائیل میں جو سازش چل رہی ہے، اسے سمجھیں۔ اپنی نگاہوں کے سامنے ہمیشہ ’’القدس‘‘ کو رکھیں۔ اس کے لیے اسرائیل فلسطینی امور کے وہ امریکی ماہرین جو فلسطین کے حمایتی ہیں اور اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کے سخت مخالف ہیں، انہیں سنیں۔ انگریزی سے اپنی زبان میں ترجمہ حاصل کرنا اب آسان ہے۔ خبر اور معلومات لینے کے لیے اپنے قومی اخبارات اور میڈیا پر انحصار کم کریں اور اوپر اٹھ کر دنیا بھر کے متبادل میڈیا کو بھی کھنگالیں۔ فلسطین کے ایشو پر مسلم دنیا سے کہیں بہتر انڈیا کے کچھ صحافی اپنے یوٹیوب چینل پر بہت اچھی کوریج دے رہے ہیں۔ جیسے The Credible History کے اشوک کمار پانڈے، The Red Mike کے سوربھ شاہی، اور KAY Rated YouTube پر بغیر شناخت کے آنے والے ایک نوجوان۔ اور بھی کئی ہیں لیکن یہ بہترین اور قابل اعتماد معلومات کے ساتھ آتے ہیں۔ ان تینوں کی زبان اردو ہے۔

صرف پچھلے دو سال میں ہی دہشت گرد ریاست ِ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی مہم میں لاکھوں لوگوں کا قتل کر چکا ہے۔ جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ لاکھوں لوگ معذور ہوئے، لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ عمارتیں بموں سے مسمار کر دی گئیں، اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیل وہ واحد دہشت گرد ریاست ہے جس نے خوراک کو بھی آلہ ِ جنگ کے طور پر استعمال کیا، اور ہزاروں لوگوں کو بھوکا مار دیا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے پلان میں فلسطینی ریاست کا کوئی وعدہ نہیں ہے اس 20 نکاتی منصوبہ میں نکات 1، 5، 11 اور 20 میں واضح طور پر حماس مجاہدین سے اسلحہ چھیننے کی بات ہے، حماس کو حکمرانی سے باہر کرنے کی بات ہے، اور صرف ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی اور ان کی جلاوطنی یعنی فلسطین سے نکلنے کی بات کی گئی ہے۔ حماس فلسطین اور غزہ کی منتخب اور نمائندہ اتھارٹی ہے۔ اس پلان میں اس کے کسی بھی رول کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور اب جو کچھ طے ہوا ہے اس سے بھی اسرائیل ببانگ ِ دہل مْکر منا رہا ہے۔

غزہ میں نسل کشی کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ امدادی سامان کے ٹرک کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ پاکستانی علما کو چاہیے کہ ایٹمی طاقت پاکستان کی افواج جس کی فضائیہ نے بھارت کے ساتھ جنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، مشورہ دیں، فتویٰ دیں اور اس پر جمے رہیں کہ وہ اسرائیل پر حملہ کر کے مظلوم فلسطین کو آزاد کرائے۔ ایران نے بغیر اپنی فضائیہ کے زمین سے فضا میں مار کرکے اسرائیل کو اس حد تک دہلا دیا تھا کہ اس حملے کی زد میں نیتن یاہو کا اپنا سیکرٹریٹ بھی آ گیا تھا۔ پاکستان کو تو بلا شبہ فضائی برتری حاصل ہے۔ مشورہ یہ دیا جائے کہ افغانستان اور انڈیا سے جنگ (فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لیے دشمنوں کی سازش) کی فضا کو ختم کرکے اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے فوکس کیا جائے۔

جاوید انور

متعلقہ مضامین

  • کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • میرپورخاص ،سرکاری زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ میں بندر بانٹ
  • پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
  • وزیراعلیٰ پنجاب سے جرمن رکن پارلیمنٹ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • وزیراعلیٰ مریم نواز شریف سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تُرک نَخباؤر کی ملاقات
  • وزیراعلیٰ مریم نواز سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن کی ملاقات، مختلف امور اور تجاویز پر تبادلہ خیال
  • کراچی؛ غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث ملزم گرفتار، 55 ہزار امریکی ڈالر برآمد