Express News:
2025-07-25@02:53:51 GMT

احفاظ الرحمن ایوارڈ اور میرا عہد

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

مجھے جمعہ 11 اپریل کو احفاظ الرحمٰن لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 2025 سے نوازا گیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ احفاظ کے بیوی بچوں نے اس ایوارڈ کے ذریعے احفاظ کی یاد کو زندہ رکھا ہے۔ ایوارڈ کی تقریب کراچی کے آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی۔

جہاں احفاظ اور میرے دوستوں نے شرکت کی۔ میں خرابی صحت کے باعث خود تقریب میں شریک نہ ہو سکی، تاہم میرا پیغام میری بڑی بیٹی فینانہ نے سامعین تک پہنچایا اور میری جانب سے ایوارڈ وصول کیا۔اپنے آڈیو پیغام میں، میں نے احفاظ کی جرات، استقامت اور نظریاتی وابستگی کا ذکرکیا جو انھوں نے آمریت سنسرشپ اور ریاستی جبر کے خلاف دکھائی۔ میں اگر تقریب میں موجود ہوتی تو اپنے دوست اور ہم خیال رفیق کے بارے میں بہت کچھ کہتی کیونکہ یہ ایوارڈ صرف ایک فرد کو نہیں ایک نظریے کو خراج ہے۔

میری بیٹی نے میری جرات اور حق گوئی کا ذکر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے نظریات کی وجہ سے میں نے ایک مشکل زندگی کا انتخاب کیا جو میرے ساتھ میرے بچوں نے بھی گزاری، جو آسان نہیں تھا۔ میرے بچے مجھ پہ فخر محسوس کرتے ہیں اور میں اس بات پہ خوش ہوتی ہوں کہ انھوں نے میرے اصولوں کی وجہ سے جو کڑا وقت دیکھا وہ بڑے حوصلے اور خوشدلی کے ساتھ گزارا۔

 میں اور احفاظ مفلسی کے دنوں کے دوست تھے۔ احفاظ جیسے دوست بڑی مشکل سے نصیب ہوتے ہیں۔ احفاظ نے ہمیشہ سچ لکھا اور محروم طبقے کے لیے جم کر لکھا۔ وہ بے پناہ نڈر تھے اور جس رستے کا انھوں نے انتخاب کیا اس میں مہناز نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ احفاظ کبھی بھی نہ ڈرے اور نہ ہی رکے انھوں نے سچ لکھا جو کڑوا ہوتا ہے اور لوگوں سے ہضم نہیں ہوتا۔ ان کی دوستی پہ جتنا نازکیا جائے وہ کم ہے وہ ان ساتھیوں میں سے تھے جو حوصلہ دیتے ہیں اور سخت سے سخت وقت میں ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔

ہم دونوں نے ایک ایسے زمانے میں صحافت کا آغازکیا جب ہر لفظ تول کر لکھنا پڑتا تھا اور حق کی بات کرنا کفر کے مترادف تھا مگر احفاظ نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ قلم کی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ چاہے جنرل ضیاء الحق کا آمریت زدہ دور ہو یا بعد کے نیم جمہوری ادوار، وہ ہمیشہ اصولوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ میں نے ان کے ساتھ وہ دن بھی گزارے جب ان پر پابندیاں لگیں، جب ان کی نوکری چھینی گئی، جب انھیں عدالتوں کے چکر لگانے پڑے۔ میں نے ان کے عزم کو بھی دیکھا جو کبھی متزلزل نہ ہوا۔ وہ لکھتے تھے، بولتے تھے، احتجاج کرتے تھے۔ ان کی تحریر میں ایک جلا ہوتی تھی۔ جیسے جلتا ہوا انگارہ۔ ہم نے صحافت کو ایک مشن سمجھا۔ ہماری تحریریں سچ کا آئینہ تھیں۔

 مجھے یاد ہے جب انھوں نے صحافیوں کی تنظیموں میں کام کیا جب وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے متحرک رہنما بنے۔ جب انھوں نے میڈیا ورکرز کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ احفاظ کبھی پیچھے نہیں ہٹے وہ ایک بہت نڈر انسان اور صحافی تھے۔میری خواہش ہے کہ آنے والے صحافی احفاظ الرحمن کے نظریے کو سمجھیں، اسے اپنائیں اور سچ لکھیں، اگر ہم نے سچ بولنا اور لکھنا چھوڑ دیا تو پھر سچ کون لکھے گا۔

میں اس موقع پہ ان تمام صحافیوں کو بھی یاد کرنا چاہتی ہوں جو ہمارے ساتھ چلے کچھ ہم سے بچھڑگئے،کچھ ابھی تک لڑ رہے ہیں۔ ہمیں اس لڑائی کو جاری رکھنا ہوگا۔ آج اس کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ابھی بہت کام باقی ہے۔ احفاظ جیسے سچے اور نڈر صحافی ہوتے ہیں جو سماج میں توازن بنائے رکھتے ہیں۔ ان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ ہم سب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ جس ہمت اور بہادری سے احفاظ نے اپنے قلم سے سچ کی جنگ لڑی، وہ ان ہی کا کمال تھا۔

معروف اسکالر ڈاکٹر ریاض شیخ نے نیو لبرل ازم کے خلاف ایک گہرا فکری خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا آغاز احفاظ الرحمٰن کی نظم ’’ ہماری ہتھکڑی کھولو‘‘ سے کیا اور پھر آزادی کی فکری روایت کا تاریخی تناظر بیان کیا۔ انھوں نے جے ہی برماس روسو جان لاک اور والٹیر جیسے مفکرین کے حوالے سے بتایا کہ انسانی آزادی کے تصورات کو نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام کس طرح کچل رہا ہے۔

ڈاکٹر ریاض نے کہا کہ 1990 کے بعد جب سوویت یونین تحلیل ہوا اور عالمی سرمایہ داری نے ایک نئی جارحانہ شکل اختیارکی تو نیو لبرل ازم نے نہ صرف معیشت بلکہ شعورکو بھی قابو میں لینا شروع کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ کس طرح آج میڈیا اور تعلیمی ادارے حکومتی و کارپوریٹ مفادات کے نرغے میں ہیں۔

تقریب میں ادیب و محقق ڈاکٹر جعفر احمد نے معروف ترقی پسند ادیبہ شین فرخ کا مضمون پیش کیا جو انھوں نے احفاظ الرحمٰن کی یاد میں قلم بند کیا تھا۔ اس مضمون میں احفاظ کو ایک ایسے کردار کے طور پر یاد کیا گیا جو اپنی زندگی میں نظریاتی وابستگی صحافتی دیانت اور مزاحمت کا استعارہ بنا رہا۔

تقریب کے دوران صنوبر ناظر نے تین علامتی رقص پیش کیے جن میں احفاظ الرحمٰن کی نظم اور رابندر ناتھ ٹیگورکی مشہور نظم اکلا چلو شامل تھیں۔

کراچی یونیورسٹی ابلاغ عامہ ڈیپارٹمنٹ کی طالبات کو نقد انعامات دیے گئے اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ابلاغ عامہ ڈیپارٹمنٹ کے طلبا اور طلبات نے صحافت کا حلف بھی لیا۔

اختتام پر مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں آزادی اظہارکبھی بھی اتنے دباؤ اور خطرے سے دوچار نہیں رہی جتنی آج ہے۔ اس وقت نہ صرف لکھنے بولنے اور سوچنے کی آزادی محدود کی جا رہی ہے بلکہ شعوری فکر کو بھی زیر کرنے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ترقی پسند قوتوں کا فرض ہے کہ وہ مزاحمت کو جاری رکھیں بلکہ اس کو مزید مضبوط کریں۔

 میں اپنی آخری سانس تک سچ لکھتی رہوں گی اور جس رستے کا چناؤ میں نے برسوں پہلے کیا تھا، اس کو جاری رکھوں گی، یہ میرا خود سے عہد ہے جو میری آخری سانس تک جاری رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: احفاظ الرحم ن انھوں نے ا کو بھی

پڑھیں:

بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں

بلوچستان کے مسئلے کو عشروں سے جس انداز میں نظر انداز اور غلط طریقے سے نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔

ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس خلاء کو پْر کرنے کے لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اْس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہے… چاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے… بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ— سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔

آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ بلوچستان میں ایسے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی نوجوان بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت بن سکیں۔اب ہمیں ماضی سے نکل کر مستقبل پر توجہ دینی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان ایک پْرامن اور خوشحال خطہ بنے۔ اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دولت انسان ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی ہی بلوچستان اور پاکستان کی پائیدارترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دینا ہوگا تاکہ کوئی دوبارہ پہاڑوں کی طرف نہ دیکھے۔

بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انھی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔

سرداروں اور سرکاری اداروں کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضایع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100 ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔

بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔

غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جب کہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رْکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔

بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کے لیے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اور ''collateral damage'' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان کے امن کو تاراج کررہے ہیں۔

بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950 میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔

جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے 25 جولائی 2025 کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک ''بنو قابل'' پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انھیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔

جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اْمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کے لیے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

 ''اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے...

متعلقہ مضامین

  • گریٹر ڈائیلاگ ضرورت، جب بھی آئین سے تجاوز ہوا مسائل بڑھے: حافظ نعیم
  • بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
  • شاہ رُخ اور پریتی کیساتھ ڈانس پرفارمنس، ہمایوں سعید نے یادگار قصہ سُنا دیا
  • کراچی: سفاک شوہر نے بیوی کا گلہ کاٹ کر قتل کردیا
  • فلسطین کی صورتحال پرمسلم ممالک اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں(حافظ نعیم )
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • فضل الرحمن کے ایم ایم اے کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے رابطے، ساجد نقوی کی ملاقات
  • بانی نے کہا ملک میں جھوٹی گواہیوں پر سزائیں دی جا رہی ہیں۔، علیمہ خان
  • موقع نہیں ملے گا تو کھلاڑی صلاحیت کیسے منوائے گا، علی امین گنڈاپور
  • علیزے شاہ کا تہلکہ خیز انکشاف: "میرا گرنا ایک حادثہ نہیں تھا، مجھے جان بوجھ کر دھکا دیا گیا"