اوساکا ایکسپو میں چینی پویلین: روایت اور مستقبل کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
بیجنگ :حالیہ دنوں جاپان کے شہر اوساکا میں منعقدہ 2025 عالمی ایکسپو میں چینی پویلین کے دلکش ڈیزائن نے دنیا کو اپنی جانب خوب متوجہ کر رکھا ہے۔ “چائنیز بیمبو سکرولز” سے متاثر یہ پویلین بانس، چینی حروف اور قدیم کتابوں جیسی ثقافتی علامات کو جدید معلوماتی دور کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ اس کا بتدریج کھلتا ہوا ڈیزائن چین کی ہزاروں سالہ تاریخ، ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے کامیاب تجربات، اور انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے سبز اور کم کاربن والے نظریات کو بیان کرتا ہے۔ اس عالمی ایکسپو میں چینی پویلین کی عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بانس اور اسٹیل کے انوکھے امتزاج سے تعمیر کیا گیا ہے۔ بانس جو چینی تہذیب کی نمائندہ علامت ہے، نہ صرف اعلیٰ ثقافتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ یہ ایک قابل تجدید، کم کاربن پر مبنی ماحول دوست تعمیراتی میٹریل بھی ہے۔ اسی لیے چینی پویلین کا مرکزی خیال “انسان اور فطرت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر – سبز ترقی کا حامل مستقبل کا معاشرہ” ہے، جو “انسان اور کائنات کی ہم آہنگی”، “صاف پانی اور سرسبز پہاڑ” اور “لازوال زندگی” کے تین ابواب کے ذریعے روایت اور جدت کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ “صاف پانی اور سرسبز پہاڑ” کے نمائشی حصے میں دنیا کو ” شفاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثہ ہیں”کے تصور کی چینی کہانی سنائی گئی ہے۔ یہاں شرکاء شیامین کی یون ڈانگ جھیل کی کہانی دیکھ سکتے ہیں جو کبھی آلودہ جھیل تھی اور اب ایک ماحول دوست رہائشی علاقہ بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ شرکاء چین کے صوبہ ہونان کے شیباڈونگ گاؤں میں غربت کے خاتمے اور دیہی احیاء کے عمل میں ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کی مربوط ترقی کے ذریعہ لائی گئی توانائی کو محسوس کرسکتے ہیں ، اور ماحولیاتی بحالی میں صحرائے تکلمکان میں حاصل کردہ قابل ذکر کامیابیوں کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔ یہ خوبصورت ماحولیاتی تصاویر چین کی ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے عزم اور شاندار کامیابیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ خاص طور پر قابل ذکر چینی پویلین کا “اسمارٹ سٹی” نمائشی حصہ ہے جو چینی روایتی ثقافت کے “انسان اور فطرت کی ہم آہنگی” کے فلسفے کی رہنمائی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ “آٹھ نیٹ ورکس” کے فیوچرسٹک شہری ترقی کے منصوبے پر مرکوز ہے جو “مستقبل کے معاشرے” کے موضوع سے منسلک ہے۔ ماڈلز، تھری ڈی ویڈیوز اور انٹرایکٹو ملٹی میڈیا جیسے نمائشی ذرائع کے استعمال سے یہ چین کی قدیم کہانی میں دنیا سے الگ تھلگ جنت نما خیالی دنیا”تھاؤ ہوا یوان کا جدید ورژن” تھیم لائٹ شو پیش کرتا ہے، جو ڈیجیٹل انقلاب، سبز تحریک اور انسانی ورثے کو یکجا کرتاہے ۔ اس میں چین کی صاف توانائی، مصنوعی ذہانت، اسمارٹ ٹرانسپورٹ، ماحولیاتی تحفظ اور کم اونچائی والی معیشت جیسے شعبوں میں جدید ٹیکنالوجی کی کامیابیوں اور اطلاق کو دکھایا گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ روایتی ثقافت جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کو اقدار پر مبنی رہنمائی فراہم کرتی ہے جبکہ جدید ٹیکنالوجی روایات کو نئے معنی بخشتی ہے۔ چینی پویلین اپنی منفرد تعمیراتی زبان کے ذریعے یہ پیغام دیتا ہے کہ چینی روایات کبھی بھی تاریخ کا حاشیہ نہیں رہیں، بلکہ نئے دور میں چینی قوم کی ترقی کی روحانی بنیاد اور عملی رہنما ہیں۔ اوساکا ایکسپو میں چینی پویلین کا یہ نظارہ درحقیقت ثقافتی اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ اعتماد کسی تکبر پر مبنی نہیں، بلکہ روایات کی عصری اہمیت کی گہری سمجھ پر قائم ہے جبکہ روایتی ثقافت کی اہمیت موجودہ پریشان کن دنیا کے لیے فرسودہ یا غیر ضروری نہیں بلکہ مزید بڑھ چکی ہے۔ عصر حاضر میں جب دنیا یکطرفہ اور پاپولزم کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے تو چینی تہذیب کا “عالمگیر ہم آہنگی” کا آئیڈیلزم عالمی حکمرانی کے لئے نیا راستہ فراہم کرتا ہے، جبکہ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں انسانی شناخت کے بحران کے دوران “ماضی سے رشتے” کا تاریخی شعور انسانیت کے لیے جذباتی تعلق فراہم کرتا ہے۔ چینی پویلین کی ہر نمائشی تفصیل اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ “روایتی ثقافت جدیدیت کو کیسے اپنا سکتی ہے”، یہ ثابت کرتا ہے کہ جب روایات حقیقی طور پر جدید زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں، جدت کی بنیاد اور قومی نشاۃ ثانیہ کی قوت بنتی ہیں،تو یہاں صرف زمانے کے منظر بدلتے ہیں، روایتی ثقافت کے اہم کردار اور اس کی جاندار ورثے کو آگے بڑھانے والا بنیادی جوہر تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک قدیم تہذیب کا حامل ملک اپنی ثقافتی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی جدید تعمیرات میں ایک حیرت انگیز انقلاب پیش کر سکتا ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایکسپو میں چینی پویلین انسان اور ہم ا ہنگی کرتا ہے چین کی
پڑھیں:
’صحت مند ماحول انسانی حق ہے‘،بین الاقوامی عدالت انصاف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں بدھ کو اپنی مشاورتی فیصلے میں کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔
عدالت کے صدر یوجی ایواساوا نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا، ’’گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی واضح طور پر وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، اور ان کے اثرات سرحدوں سے پار جا پہنچتے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صورت حال ’’ماحولیاتی تبدیلی سے لاحق شدید اور وجودی خطرے کی عکاسی کرتی ہے۔" ایواساوا کے مطابق ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی قومی ماحولیاتی حکمت عملیوں میں بلند ترین اہداف مقرر کریں۔
پیسیفک آئی لینڈز اسٹوڈنٹس فائٹنگ کلائمیٹ چینج کے ڈائریکٹر وشال پرساد، نے اس فیصلے کو بحر الکاہل کے عوام کے لیے ’’زندگی کی امید‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،’’آج دنیا کے سب سے چھوٹے ممالک نے تاریخ رقم کی۔ آئی سی جے کا فیصلہ ہمیں اس دنیا کے قریب لے آیا ہے جہاں حکومتیں اب اپنی قانونی ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑ سکتیں۔
‘‘اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی سابق سربراہ میری رابنسن نے اس فیصلے کو ’’انسانیت کے لیے ایک مؤثر قانونی ہتھیار‘‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا،'’’یہ بحرالکاہل اور دنیا کے نوجوانوں کی طرف سے عالمی برادری کے لیے ایک تحفہ ہے، ایک قانونی موڑ جو ہمیں زیادہ محفوظ اور منصفانہ مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
‘‘ بین الاقوامی عدالت انصاف کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہعدالت سے یہ رائے بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک وینوآتو نے مانگی تھی اور اس کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے ایک گروہ نے کام شروع کیا تھا جن کا تعلق بحر الکاہل میں جزائر پر مشتمل ممالک سے ہے۔
ان طلبہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔
پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔وانواتو کے وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی رالف ریگنوانو نے عدالت کے اس فیصلے کو ''ماحولیاتی اقدام کے لیے سنگ میل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ تاریخ میں پہلی بار ہے کہ آئی سی جے نے ماحولیاتی تبدیلی کو براہ راست انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
‘‘عدالت نے گزشتہ دسمبر میں تقریباً 100 ممالک اور 12 بین الاقوامی اداروں کے بیانات سنے۔ انٹیگوا اور باربودا کے وزیر اعظم گاسٹن براؤن نے عدالت کو بتایا کہ ''بے لگام اخراج‘‘ کے باعث ان کے جزیرے کی سرزمین سمندر کی نذر ہو رہی ہے۔
اس دوران، امریکہ جیسے بڑے اخراج کرنے والے ممالک نے مؤقف اختیار کیا کہ 2015ء کا پیرس معاہدہ پہلے ہی ریاستوں پر ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کی قانونی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔
تاہم، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس تاریخی معاہدے سے علیحدہ کر دیا تھا۔ماحولیاتی قانون کی ماہر جوئے چودھری نے کہا،’’پیرس معاہدہ اہم ہے، لیکن یہ واحد قانونی طریقہ نہیں۔ مختلف قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ مسئلہ وسیع ہے۔‘‘
’کھوکھلے وعدوں کے دور کا اختتام‘وانواتو نے عدالت سے یہ بھی وضاحت مانگی کہ اگر کوئی ملک اخراج کو روکنے کی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کے قانونی نتائج کیا ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین جیسے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک، جو تاریخی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر چکے ہیں، انہیں سب سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
چودھری نے کہا، ’’اب تک کے اخراج سے کافی نقصان ہو چکا ہے اور اس کی تلافی ضروری ہے۔‘‘
غریب ممالک، جو ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جھیل رہے ہیں، طویل عرصے سے امیر ممالک سے نقصانات کا ازالہ مانگتے رہے ہیں۔
عدالت نے انتباہ دیا کہ ’’عالمی درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی نقصان اور تباہی میں اضافہ کرے گا۔" اگر ریاستیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو متاثرہ ممالک قانونی چارہ جوئی کے ذریعے معاوضہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں ’’نقصان و تلافی فنڈ‘‘ قائم کیا گیا تھا، لیکن اب تک صرف 700 ملین ڈالر کے وعدے ہوئے ہیں، جبکہ ماہرین کے مطابق 2030 تک نقصانات سینکڑوں ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔
چودھری نے کہا،’’یہ معاملہ درحقیقت جواب دہی کا ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ خالی وعدوں کا دور ختم ہونا چاہیے۔‘‘
فیصلے کے ممکنہ اثراتآئی سی جے کا یہ مشاورتی فیصلہ ان تین فیصلوں میں سے ایک ہے جو حالیہ مہینوں میں ملکوں کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں جاری کیے گئے ہیں۔
اسی ماہ انٹر-امریکن کورٹ آف ہیومن رائٹس نے بھی ایک رائے دی کہ ممالک شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ماحول اور آب و ہوا کو محفوظ بنائیں۔
اگرچہ مشاورتی آراء ملکوں کے لیے قانونی طور پر لازمی نہیں ہوتیں، لیکن ان کی اخلاقی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دنیا بھر میں ماحولیاتی مقدمات کو تقویت دے سکتا ہے۔ اب تک 60 ممالک میں تقریباً 3,000 مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔
یہ آئی سی جی کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس پر 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے اور 97 زبانی کارروائی کا حصہ ہیں۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ماہر جوانا سیٹزر نے کہا ’’یہ فیصلہ ایک اہم موڑ ہے۔ عدالت نے جو قانونی تشریح پیش کی ہے، وہ عالمی، قومی عدالتوں اور وکلا کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بنے گی۔‘‘
چودھری نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ نومبر میں برازیل میں ہونے والی ماحولیاتی مذاکرات پر بھی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ اب کچھ معاملات پر قانونی وضاحت موجود ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک واضح قانونی خاکہ دے گا جس کی مدد سے متاثرہ ممالک اور عوام آلودگی پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکیں گے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین
لوسیا شولٹن نے ہیگ، میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔