فوجی عدالتوں سویلین ٹرائل کیس: کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟.جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل آج بھی مکمل نہ ہو سکے جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟.
(جاری ہے)
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کے حوالے سے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مجھ سے جو سوالات ہوئے میں نے تحریری معروضات کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھے ہیں. خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں، لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فئیر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں مکمل انصاف کے لیے آفیسر باقائدہ حلف لیتے ہیں دوران سماعت جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 پڑھیں، واحد آرٹیکل ہے جو عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے. خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ محرم علی اور لیاقت حسین کیس میں کہا گیا کہ کورٹ مارشل 175 میں نہیں آتا یہاں تک کہ جس فیصلے کیخلاف اپیل دائر ہوئی اس میں بھی کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں، آرٹیکل 142 کے تحت وفاقی حکومت کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت قانون بنانے کا اختیار ہے، وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں سے متعلق قانون بھی اسی اختیار کے تحت بنایا، یہ اختیار اور قانون تو 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تھا، تب آرٹیکل 175 اور 1973 کا آئین موجود نہیں تھا. جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر عدالت کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں، خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتیں، عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل میں غلطی اپیل میں دیکھی جاتی ہے، غلطی کی درستی کا فورم کونسا ہوگا؟ خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ جب ہائیکورٹ میں رٹ فائل کریں گے تو نشاندہی کریں گے. جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ گواہ کے قلمبند بیان کی کاپی فراہم نہیں کی جاتی، کیسے تعین ہوگا کہ گواہی درست ریکارڈ ہوئی ہے، ہو سکتا ہے غیر ارادی طور پر کوئی بات لکھنا رہ جائے خواجہ حارث نے کہا کہ تعصب کا نقطہ اوپر والی عدالت میں اٹھایا جا سکتا ہے، مفروضے پر بات تو نہیں ہو سکتی، ٹرائل میں تمام متعلقہ افسران حلف اٹھاتے ہیں، قلم بند بیان پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے. جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ غیر ارادی طور پر ٹرائل میں غلطی ہو سکتی ہے، عدالت کا سوال تعصب یا نیت یا اہلیت پر نہیں خواجہ حارث نے موقف اختیار کیاکہ رٹ میں کسی بھی غلطی کی نشاندہی ملزم کا وکیل کر سکتا ہے دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال کے سوالات کے جواب دینا ہیں، مجھے آدھا گھنٹہ یا 40 منٹ مزید درکار ہوں گے. جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے اگر مسئلہ میرے سوالات کا ہے تو میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں، جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ میں بھی اپنا سوال واپس لیتا ہوں جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کی کیا پوزیشن ہے وہ کہاں ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو 2 سے 3 دن کا وقت درکار ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا مذاق ہے بلاوجہ کیس کیوں لٹکا رہے ہیں؟ کیا اس کیس کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود کہا تھا کہ میں 10 منٹ لوں گا، صرف اپیل کا حق دینا ہے یا نہیں اس پر بات کرنی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پر ہی پیش ہونا ہے ورنہ وفاق کی وکالت خواجہ حارث کر رہے ہیں. جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل نے خود اپنا حق خواجہ حارث کو دے دیا تو ہم انہیں کیوں سنیں؟ بعد ازاں آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کل تک جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کردی جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کل کے بعد کیس کی سماعت 28 تاریخ تک ملتوی کریں گے 28 تاریخ تک بینچ دستیاب نہیں ہوگا، 28 تاریخ کو اٹارنی جنرل اپنے دلائل کا آغاز کریں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا جسٹس جمال مندو خیل نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتوں میں اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 175 کہ فوجی رہے ہیں سکتا ہے کے تحت کیس کی
پڑھیں:
امریکہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا
لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن) گزشتہ دنوں پاکستان کا سفارتی وفد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں امریکہ پہنچا تھا جہاں اقوام متحدہ میں مختلف ممالک کے نمائندوں، امریکی کانگریس ارکان اور دیگر حکومتی ارکان سے ملاقاتیں کیں۔
اب پاکستان کا سفارتی وفد امریکہ سے برطانیہ پہنچ گیا۔ لندن میں نجی ٹی وی جیو نیوز سے گفتگو میں پاکستانی سفارتی وفد کے رکن فیصل سبزواری کا کہنا تھاکہ ہم نے اپنا دورہ اقوام متحدہ سے شروع کیا اور پاکستان کا مقدمہ پیش کیا، ہم نے فوجی سبقت دکھائی پھر بھی ہم امن کی دعوت دینے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ عالمی طاقتیں بھارت کو یہ بتائیں کہ دو ایٹمی ممالک ایسے خطرناک ماحول میں آگے نہیں بڑھ سکتے، بھارت کوشش کررہا ہے کہ ایسی استثنیٰ ملے کہ بغیرثبوت کے جارحیت کرے، پہلگام واقعے پر بھی کہا کہ ثبوت پیش کریں لیکن بھارت نے حملہ کردیا۔
ان کا کہنا تھاکہ امریکی محکمہ خارجہ اور ارکان پارلیمنٹ کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کیا، امن پر مبنی ہمارے مؤقف کو بہت حد تک پذیرائی ملی ہے، خطے میں امن کا پیغام لے کر آئے ہیں یہ بھارت کی ناکامی اور پاکستان کی کامیابی ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں، کشمیر پر مذاکرات چاہتے ہیں، بھارتی وفد کے دورے کا جائزہ لے کر پتا چلتا ہے کہ ان کا مقصد صرف پاکستان پر الزام تراشی کرنا ہے۔
سفارتی وفد کے رکن خرم دستگیر خان کہناتھاکہ امریکیوں کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ نے سیز فائر کرادیا، مزید مداخلت کی ضرورت نہیں، ہمارا مشن ان کو یہ سمجھانا تھا کہ بھارت نہ غیر جانب دارانہ انکوائری اور نہ بات کرنا چاہتا ہے، اس لیے دنیا کی مداخلت کی ضرورت ہے۔
بشریٰ انجم بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد کو نیویارک اور واشنگٹن میں بہت پذیرائی ملی، سندھ طاس معاہدے اور کشمیر پر پاکستان نے اپنا مؤقف بہت عمدہ انداز میں پیش کیا۔
جنوبی وزیرستان میں بچوں کی گاڑی پر فائرنگ
مزید :