اسلام ٹائمز: ہم تاریخ کے صفحات سے ان حقائق کو محو نہیں سکتے اور نہ ہی ان کے انشراح پر ہم کسی کو جیل میں ڈال سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ واقعات کو نوک زباں اور نوک قلم پر لاتے وقت کسی بھی مسلک کے رہنماؤں کی توہین نہ کی جائے لیکن اگر اس قسم کے اختلافات کی آڑ میں کسی خاص قوم اور ملت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
اس وقت ہمارا ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ صورت حال انتہائی سنگین ہے ۔ 71ء کی جنگ سے پہلے کی جو صورت حال تھی اس سے بھی زیادہ سنگین۔ اُس وقت تک قوم کا وہ ستیاناس نہیں ہوا تھا جو اب ہوچکا ہے۔ اس وقت قوم قدرے متحد تھی۔ لوگوں کی معاشی صورت حال بہتر تھی۔ عام ضروریات زندگی آسانی سے میسر تھیں۔ کھانے پینے کی اشیاء عموماً خالص تھیں۔ قوم میں اتنی جان تھی کہ اس نے محض ایک چینی مہنگے ہونے پر ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ذرائع نقل و حمل کم ہونے کے باوجود سیاسی لیڈروں کا عام عوام سے کچھ نہ کچھ رابطہ تھا۔ حکمران اس قدر کرپٹ نہیں تھے جس قدر آج ہیں۔ قوم اپنی مذہبی اور اخلاقی روایات سے کافی حد تک جڑی ہوئی تھی۔ لوگوں کے دلوں میں ملک کے مختلف سیاسی اور غیر سیاسی اداروں کا احترام موجود تھا۔ لوگ صحت مند تھے۔ ہمارے جوانوں کے قد اونچے تھے۔
ایک تجزیے کے مطابق اس دور کے نوجوانوں کے مقابلے میں آج کے نوجوانوں کے قد اوسطاً چھے انچ کم ہیں۔ سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے اس دور کے کئی تلخ حقائق درون پردہ تھے۔ اس طرح کی حقیقتوں کے کچھ مظاہر محض ایک ”حمودالرحمٰن کمیشن“ کی رپورٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ فرقہ واریت کا جن ابھی بوتل میں بند تھا۔ اس بلا سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی بل کی ضرورت نہیں تھی۔ گویا اس وقت ایسا بہت کچھ تھا جو اب نہیں ہے۔ سب کا ذکر کرنا اس کالم میں ناممکن ہے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ ملک دولخت ہوگیا۔ آج کی ہماری حالت اس سے کہیں زیادہ پتلی ہے۔ آج ہمارے دامن میں ترقی، خوشحالی، اتحاد، اتفاق، قومی غیرت و حمیت اور قیادت نام کی کوئی شے بھی نہیں۔ ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس کی بنا پر ہم اپنے غیر کے مقابل کسی بھی میدان میں سینہ تان کر کھڑے ہو سکیں۔
ان حالات کو دیکھ کر ہمارے ازلی دشمن اور ہمارے احسانوں تلے دبے ہمارے منافق ”دوست“ آئے روز ہم پر اپنی طاقت کے جوہر آزماتے رہتے ہیں۔ ایسے عالم میں چاہیئے یہ تھا کہ ہنگامی طور پر کوئی ایسا منصوبہ تشکیل دیا جاتا جس کی وجہ سے بکھری ہوئی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاتا لیکن اس طرح کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کا سرے سے ناپید ہونا اس کا سبب بنا ہے کہ کچھ فرقہ پرست عناصر کو اپنے گل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ سوشل میڈیا کا میدان ان کی اس طرح کی ”غیر نصابی سرگرمیوں“ کے لیے حاضر ہے۔ اس میدان میں ہر کوئی ہر کسی پر تان تان کر نشانے لگا رہا ہے۔ مسلمانوں میں اختلاف کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ رسول اللہ (ص) کے بعد ہر فرقے کی اپنی اپنی مقتدر شخصیات ہیں۔ ان میں سے کچھ مشترکہ ہیں اور کچھ کے مابین خوفناک قسم کی جنگیں بھی لڑی گئیں۔ ان شخصیات کے نظریاتی پیروکار اپنے اپنے اختلافات کے ساتھ آج بھی دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔
ہم تاریخ کے صفحات سے ان حقائق کو محو نہیں سکتے اور نہ ہی ان کے انشراح پر ہم کسی کو جیل میں ڈال سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ واقعات کو نوک زباں اور نوک قلم پر لاتے وقت کسی بھی مسلک کے رہنماؤں کی توہین نہ کی جائے لیکن اگر اس قسم کے اختلافات کی آڑ میں کسی خاص قوم اور ملت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ملک پاکستان کے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان نہیں کی جاتی اور سب کو ترازو کے ایک ہی پلڑے میں تولا جاتا ہے تو یاد رہے کہ ایسے موقع پر جب کہ ہم اپنے مشترکہ دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے ہیں، خدا نخواستہ، خاکم بدھن وہ کچھ ہو سکتا ہے کہ پھر۔
’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کسی بھی
پڑھیں:
تین سال پہلے کے نرخ اب؟
جس دن وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں ’’باتصویر‘‘ کمی کا اعلان کیا اس سے اگلے دن ہم اخبارات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے کہ ’’لازم وملزوم‘‘ اس پر کیا بیان آئے گا؟
’’لازم وملزوم‘‘خیبر پختون خوا کے اخبارات کا وہ کام ہے جو معاون خصوصی برائے اطلاعات کو مستقل طورپر الاٹ کی جا چکی ہے یہ جگہ پہلے صفحے کے عین بیچوں بیچ دائیں طرف واقع ہے نہ ایک انچ ادھر نہ ایک انچ ادھر۔ سرکاری جگہ میں معاون خصوصی کے ’’عہدوں‘‘ ڈگریوں سے مزین گل افشانی ہوتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم ، صدر ، گورنر ،وزیراعلیٰ کے بیانات میں ناغہ ہوجائے لیکن ڈگریوں، عہدوں اور تصویر سے مزین اس شاعری میں ناغہ نہیں ہوسکتا ہے اوراس دن بھی ناغہ نہیں ہوا تھا لیکن جو بیان آیا تھا اس نے ہمیں حیران پریشان ، ناطقہ سربگریبان اورخامہ انگشت بدندان کردیا تھا کہ ’’بجلی اورپٹرولیم کے نرخوں میں جس نے یہ کمی کی تھی وہ جیل میں پڑا ہے ‘‘
ظاہرہے کہ یہ بہت بڑا انکشاف بلکہ کشاف الاکشاف تھا، بجلی اورپٹرولیم وغیرہ میں ’’جس ‘‘ نے کمی کی تھی وہ سال ڈیڑھ سال سے جیل میں ہے ، اس سے پہلے بھی اسلام آباد پر چڑھائیوں میں مصروف تھے یعنیکل ملا کر اگر وہ نرخوں میں ’’کمی‘‘ کرچکے تھے تو اسے تین سال کا عرصہ تو یقیناً گزرا ہے تو یہ کمی اب تک کہاں تھی ؟ اتنی دیر سے کیوں پہنچی ، ہمارا خیال ہے یہ ’’کمی ‘‘ کسی خرگوش کی پیٹھ پر سوار کی گئی تھی اگر کچھوے کی پیٹھ پر ہوتی تو پھر بھی سال چھ مہینے میں اسے پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن سلسلہ مواصلات یقیناً ’’خرگوش‘‘ تھا جو کہیں کسی درخت کے سائے میں یاکسی اے سی کمرے میں سو گیا ہوگا ۔
اس پر ہمیں وہ شخص یاد آیا جس کا ذکر ہم نے کہیں کیا بھی ہے ۔ وہ پڑوس کے گاؤں سے ہمارے پاس اپنی شاعری سنانے آتا تھا کیوں کہ اس کاکہنا تھا کہ صرف ہم ہی اس کی شاعری کو سمجھتے ہیں ، ایک بات اس نے یہ بتائی تھی کہ اس نے بینظیر بھٹو پر ایک نظم لکھی تھی جس کے عوض پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پانچ لاکھ روپے کی پیش کش کی تھی لیکن میں نے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری نظر میں بینظیر کی قیمت صرف پانچ لاکھ روپے کی ہے اورمیری نظر میں اس کی قیمت قارون کے سارے خزانوں سے بھی زیادہ ہے ۔دوسری بات یہ کہ جب ہم نے جان چھڑا نے کے لیے کہا کہ ہم ایک جنازے میں جارہے ہیں، دو نوجوان بھائی ایک روڈایکیسڈنٹ میں مرے ہیں اوریہ بات سچ تھی ۔ تو اس نے کہا اگر کوئی جیب میں ’’پریزیڈنٹ پن‘‘ رکھے تو اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا۔لیکن اس کا تیسرا نظریہ یا دعویٰ ہم نے آپ کو نہیں بتایا ہے ، اس کا دعویٰ تھا کہ رحمان بابا کادیوان اصل میں میرا دیوان ہے ۔میں نے جب رحمان بابا اوراس کے زمانے کی بات کی تو اس نے کہا کہ وہ اس جنم سے پہلے رحمان بابا کے زمانے میں بھی پیدا ہوا تھا بلکہ رحمان بابا میرا شاگرد ہوا کرتا اورمجھ پر جب بھی ’’آمد‘‘ طاری ہوجاتی تھی،رحمان بابا اسے لکھنے لگتا تھا ۔پھر ایک خاتون کے عشق میں جب اس کے بھائیوں نے مجھے مرتبہ شہادت پر پہنچایا تو میرا کلام رحمان بابا کے پاس رہ گیا ۔ لیکن اس نے خود یہ خیانت نہیں کی تھی بلکہ جب وہ فوت ہوگیا تھا اوراس کے سامان میں چند تصویر بتاں کے ساتھ یہ کلام بھی نکل آیا تو لوگوں میں اس کا یہ کلام مشہورہوگیا۔دراصل کچھ غلطی میری بھی تھی کہ میں اپنے کلام میں تخلص نہیں استعمال کرتا تھا کیوں کہ ہم دونوں کا نام رحمان تھا۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ بجلی وجلی کے نرخوں کاچکر بھی کچھ ایسا ہی ہے کام بلکہ کارنامہ اس کا تھاجو جیل میں ہے اوربیچارا دیسی گھی میں دیسی مرغ کھانے پر مجبور ہے ۔خیر اس کا بدلہ تو ہم لے کر رہیں گے اوران مینڈیٹ چوروں کو اس سے ڈبل عرصہ دیسی مر غ اوردیسی گھی کھلائیں گے جو انھوں نے ’’بانی‘‘ کو کھلائے ہیں ۔
اوراس بیان پر ہمیں پکا پکا یقین اس لیے ہے کہ ہمارے معاون خصوصی برائے اطلاعات کبھی جھوٹ نہیں بولتے اورجو بھی بولتے ہیں سچ بولتے ہیں اوریہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ صوبہ خیر پخیرکا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کے بیانات ’’سچ‘‘ کاسرچشمہ ہوتے ہیں ، خاص طورپر وہ جو کچھ پنجاب اوروفاق کی مینڈیٹ چورحکومتوں کے بارے میں بولتے ہیں ۔
ویسے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ ان کے بیانات پڑھ پڑھ کر اوراس میں حد سے زیادہ سچائی پاکر لوگ الٹیاں کرنے لگ گئے ہیں کیوں کہ ملاوٹ کے عادی معدے اتنی خالص سچائیاں ہضم نہیں کرپارہے ہیں
سچ بڑھے یاگھٹے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہیں نہیں