پیٹرول سے بچت نہ ہوتو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بنیں گی؟ شاہد خاقان عباسی
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
پیٹرول سے بچت نہ ہوتو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بنیں گی؟ شاہد خاقان عباسی WhatsAppFacebookTwitter 0 17 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر شاہد خاقان عباسی نے حکومتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پیٹرول سے بچت نہ ہو تو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بنیں گی؟۔
وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور کنوینر عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی نے ملک کو درپیش دو اہم مسائل کسانوں کے بحران اور پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف نہ دینے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا کسان بدترین مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور پورے ملک میں کسان سراپائے احتجاج ہے، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ کسان گندم اگاتا ہے تو ملک کو آٹا ملتا ہے، اگر کسان ہی پریشان ہو گا تو سب متاثر ہوں گے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ 2023 میں بھی کسان مسائل کا شکار رہا اور 2024 میں حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 4000 روپے فی من گندم نہیں خریدے گی۔ اس کی وجہ سے کسانوں کو گزشتہ سال مختلف قیمتوں پر گندم فروخت کرنا پڑی ۔ کسی نے 2200 روپے فی من تو کسی نے 2400 روپے میں گندم بیچی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب جب کہ یوریا اور بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، کسان مجبور ہے کہ وہ گندم 2100 روپے فی من کے حساب سے بیچے۔ جب کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا، لیکن آج کسان اپنا اثاثہ لگا کر بھی منافع نہیں کما رہا۔
شاہد خاقان عباسی نے خبردار کیا کہ اگر حالات یہی رہے تو آئندہ برس ملک کو گندم درآمد کرنی پڑے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ملک کی منڈی کسان کے لیے سازگار نہیں، تو کم از کم اسے اپنی گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ آج کسان کو 3 ہزار روپے فی من لاگت آ رہی ہے اور اسے اپنی پیداوار 2100 روپے میں بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ چند ووٹوں کے لیے کسان کو قربان مت کریں۔ جب کسان کی آمدنی نہیں بڑھے گی تو معیشت کی دیگر چیزیں جیسے ٹریکٹر، موٹرسائیکل کی خریداری بھی متاثر ہوگی۔
شاہد خاقان عباسی نے پنجاب حکومت کی انسینٹیو اسکیم پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس سے صرف چند لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں، اکثریتی کسان اب بھی محروم ہیں۔ انہوں نے گندم کی ایسی قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جس سے عوام اور کسان دونوں کو فائدہ ہو۔
پریس کانفرنس کے دوسرے حصے میں شاہد خاقان عباسی نے پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف نہ دیے جانے پر بھی سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں کئی مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئیں، مگر حکومت نے اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا۔ پرانے بلوں میں 10 روپے تک ریلیف کی گنجائش تھی، مگر پھر بھی عوام کو کچھ نہ ملا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب عالمی قیمتیں بڑھیں گی تو عوام پر بوجھ ضرور ڈالا جائے گا، مگر جب کمی آتی ہے تو کوئی ریلیف کیوں نہیں ملتا؟ پیٹرول کے منافع سے بلوچستان میں سڑکیں بنانے کی بات کی جا رہی ہے، اگر پیٹرول سے بچت نہ ہو تو کیا بلوچستان میں سڑکیں نہیں بن سکتیں؟
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملک حکومت کے مثبت فیصلوں سے ترقی کرتا ہے، مگر موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا ایک اور موقع ضائع کر دیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی نے تو کیا بلوچستان سڑکیں نہیں روپے فی من نے کہا کہ انہوں نے عوام کو
پڑھیں:
اقبالؒ اور بلوچستان
میں ابھی ابھی کوئٹہ سے لوٹا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ میرے اس سفر کا حاصل کیا ہے؟ زیادہ سوچنا نہیں پڑا جیسے ہی سوال ذہن میں آیا، ایک نورانی صورت آنکھوں میں سما گئی۔ بوٹا سا قد، نورانی چہرہ اور لبوں سے جھڑتے ہوئے پھول، فرمایا:
’یہ امت متصادم نہیں متشامل ہے‘
یہ جملہ محض ایک جملہ نہیں، ایک لائحہ عمل ہے، صرف لائحہ عمل نہیں، مسلم امہ کے مسائل کی تشخیص اور ان کے حل کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ کیسے؟ اس سوال کے جواب سے قبل ضروری کہ اس جملے کی شان نزول بیان کر دی جائے۔ کچھ عرصہ ہوتا ہے، اقبال اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف رفیقی نے مجھے خبردار کیا کہ کوئٹہ کے لیے تیار رہنا۔ ہماری رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اتھارٹی کے متحرک و سرگرم ڈائریکٹر سہیل بن عزیز مجھے پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اقبال اکادمی نے علامہ محمد اقبال ؒکی سال گرہ کی مناسبت سے کوئٹہ میں بین الاقوامی کانفرنس کا فیصلہ کیا ہے جس میں رحمۃ للعالمین یوتھ کلب کوئٹہ تعاون کر رہا ہے۔
اتھارٹی کے ممبر کی حیثیت سے مجھے بھی اس میں شرکت کرنی ہے۔ یہ یوتھ کلب کوئٹہ کے معروف اور نیک نام تعلیمی ادارے تعمیر نو پبلک کالج میں قائم کیا گیا ہے جس کے کوآرڈینیٹر حافظ طاہر جیسی متحرک اور مخلص شخصیت ہیں۔ حافظ طاہر کا تعارف آسان نہیں۔ وہ جذبہ ٔٔعمل سے سرشار ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا دل ایک مقصد اور نظریے کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر وہ اشک بہائے بغیر نہیں کر سکتے جب کہ امت کی زبوں حالی کا ماجرا بھی انھیں دل کے آنسوؤں سے رلاتا ہے۔
حافظ طاہر نے تعمیر نو ٹرسٹ کے چیئرمین بریگیڈیئر عبد الجلیل
ریٹائرڈ، پرنسپل پروفیسر عابد مقصود اور ٹرسٹ کے دیگر ذمے داران کے تعاون سے یہ کانفرنس اس شان سے منعقد کرائی کہ ملک بھر سے آنے والے اہل دانش اش اش کر اٹھے۔ کالج کے اساتذہ اور دیگر ذمے داران نے کانفرنس کی ذمے داریاں نہایت محنت سے انجام دینے کے ساتھ ایسی مہمان نوازی کی جس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ ہمارے ہوٹل کے ذمے دار پروفیسر افضل تھے اور نوجوان لیکچرر زرک خان ان کے معاون۔ ان لوگوں کے احساس ذمے داری، اخلاص اور محبت نے، سچی بات ہے، ہمیشہ کے لیے ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔ اس محبت کا جواب دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں لہٰذا ان دوستوں کے لیے بہت سی دعائیں۔
یہ کانفرنس اقبالؒ کے تعلق سے تھی، اس لیے اقبالؒ کا ذکر تو ہونا ہی تھا۔ اقبالؒ کا ذکر ہو اور اسلام اور مسلمانوں کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بھی ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے دکھ بھی زیر بحث آئے۔
یوں یہ کانفرنس صرف اقبالؒ کانفرنس نہ رہی، امت مسلمہ کے دکھوں اور مسائل کی ترجمان بن گئی۔ کانفرنس میں ملک بھر سے اہم ماہرین اقبالیات شریک تھے جن میں اسلام آباد سے ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، چیئرپرسن اکادمی ادبیات ڈاکٹر نجیبہ عارف، لاہور سے پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہد، سرگودھا سے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم، بریگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق، عبید اللہ کیہر، ڈاکٹر بابر نسیم آسی، ساؤتھ پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر اور ایمز ایجو کیشن فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر الماس صابر شریک ہوئے۔ خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم خان سمیت برطانیہ سے ممتاز پاکستانی تعمیراتی کنسلٹنٹ ڈاکٹر سمیع اللہ ملک، ممتاز ادیب اور کویت میں پاکستانی برادری کے راہ نما رانا اعجاز کی شرکت نے کانفرنس کی اہمیت دو چند کر دی۔
ان کے علاوہ کئی برادر ملکوں سے بھی ماہرین اقبالیات شریک ہوئے جن میں بنگلا دیش انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے سربراہ ڈاکٹر عبد العزیز، مالدیپ کی نیشنل لینگویج اتھارٹی کے سربراہ ڈاکٹر اشرف عبد الرحیم، ایران سے ڈاکٹر علی کاوسی نژاد اورجامعہ الازہر مصر سے عثمان عبد الناصر شریک ہوئے۔
تمام پاکستانی اور غیر ملکی مندوبین نے اقبال کی فکر کے مختلف گوشوں خاص طور پر خودی، بیداری اور تحرک کے علاوہ مسلم امہ کے اتحاد کے ضمن میں گفتگو کی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے مغرب کی بے حسی اور مفادات کے تابع انداز فکر کی غضب ناکیوں پر اپنے پرمغز مقالے میں روشنی ڈالی۔ کچھ مقررین نے غزہ کے حالیہ المیے کے پس منظر میں عالمی بیداری کا ذکر کیا اور بتایا کہ اسی قسم کے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اقبالؒ نے جہاد پر زور دیا ہے۔ خبیب فاؤنڈیشن کے سربراہ ندیم احمد خان نے اپنے خصوصی لیکچر میں فکر اقبالؒ کے مختلف گوشوں کا بڑی جامعیت سے احاطہ کیا۔ ان کا ایک اعزاز کلام اقبال کی تحت اللفظ ادائی بھی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے اقبالؒ کی کئی نظمیں پڑھ کر سماں باندھ دیا۔
سوال جواب کے وقفے میں دو طلبہ نے بلوچستان کی صورت حال کے پس منظر میں ان سے سوالات کیے۔ ندیم احمدخان کا کہنا تھا کہ فکر اقبال ایک پیکیج ہے جس پر عمل کی صورت میں علاقائی سوالات پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور اجتماعی فلاح کا تصور ابھرتا ہے جس سے بلوچستان کے مسائل کے حل کی ضمانت بھی ملتی ہے۔
اس سیشن کی صدارت تعمیر نو ٹرسٹ کے سیکریٹری نسیم لہڑی اور ان سطور کے لکھنے والے نے مشترکہ طور پر کی۔ ان سوالوں کے جواب میں، میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کی صورت حال پر پورا پاکستان پریشان ہے۔ یہاں سے جب دکھی کر دینے والی خبریں آتی ہیں تو پنجاب سمیت پورا ملک غم میں ڈوب جاتا ہے۔ احتجاج اور ہڑتالیں ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ میں آواز بلند کی جاتی ہے۔ بلوچستان کو اللہ نے بہت قیمتی خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے، پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ اللہ نے یہ خزانے بلوچستان کو عطا کیے ہیں تو ان پر حق بھی بلوچستان کا ہے۔ اس دولت سے بلوچستان کی قسمت بدلنی چاہیے اور نوجوانوں کو تعلیم، روزگار ترقی کے بہترین مواقع ملنے چاہئیں۔ میں نے عرض کیا کہ بلوچستان کے اس حق کو پورا ملک تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اس مقصد کے لیے بلوچستان کے عوام کے ساتھ جدوجہد کے لیے بھی تیار ہے۔
میں نے یہ بھی گزارش کی کہ حقوق کے حصول کا طریقہ خون ریزی نہیں بلکہ جمہوری اور عوامی جدوجہد ہے۔ خون ریزی خاص طور پر مسافروں کے قتل سے دوری پیدا ہوتی ہے اور مسائل کے سلسلے میں بلوچستان کو ملک بھر سے جو حمایت حاصل ہے، اسی میں کمی ہوتی ہے۔ حاضرین نے یہ باتیں خوش گوار تعجب کے ساتھ سنیں اور دل کھول کر داد دی۔ سیشن ختم ہو جانے کے بعد نوجوانوں کے بہت سی ٹولیوں نے گھیر کر میرے مؤقف کی داد دی اور مجھ سے بہت سے سوالات کیے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بلوچستان اور ملک کے مختلف حصوں کے عوام کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں۔ بین الاقوامی اقبال کانفرنس کے ذریعے فکر اقبالؒ کے فروغ کے علاوہ بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوں کے رابطے کے مبارک سلسلے کا بھی آغاز ہوا جس پر اقبال اکیڈمی کے ڈاکٹر عبد الرف رفیقی اور تعمیر نو ٹرسٹ کے ذمے داران خاص طور پر حافظ طاہر تعریف اور داد کے مستحق ہیں۔
توقع ہے کہ رابطوں کا یہ سلسلہ اب برقرار رہے گا۔دیگر اداروں کو بھی اس سلسلے میں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے جیسے اکادمی ادبیات پاکستان نے نوجوان ادیبوں کی تربیت کے لیے دو ہفتوں کی ایک ورک شاپ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ہر صوبے سے چار نوجوانوں کو منتخب کیا جائے گا۔ اس قسم کے پروگرام بھی فاصلوں میں کمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ دیگر ادبی اور ثقافتی اداروں کو بھی اکادمی ادبیات کی پیروی کرنی چاہیے۔
بلوچستان سے رابطے بڑھانے کے سلسلے میں رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اتھارٹی کا صوبائی دفتر تعمیر نو ٹرسٹ میں قائم کیا گیا ہے جس کے دفتر کا افتتاح ابھی ہونا ہے ۔ کانفرنس کی اختتامی تقریب میں اتھارٹی کے ڈائریکٹر سہیل بن عزیز نے چیئرمین خورشید احمد ندیم کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ اتھارٹی اسی ادارے میں اگلے برس اپریل میں ایک بین الاقوامی سیرت کانفرنس کا انعقاد بھی کرنے جا رہی ہے۔ یہ کانفرنس سیرت کا مبارک پیغام پہنچانے کے علاوہ رابطوں کے فروغ کا ذریعہ بھی بنے گی۔
کانفرنس کا حاصل علامہ زید گل خٹک کی گفتگو تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کے یہاں جدوجہد کے تصور میں کچھ مسائل ہیں۔ ہمارے بہت سے طبقات غیر مسلموں کو دشمن تصور کر کے ان کے خلاف ذہنی اعتبار سے حالت جنگ میں چلے گئے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا میں کشیدگی اور آویزش مسلسل بڑھ رہی ہے لہٰذا امن اور سلامتی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسلامی تصور اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلامی تصور یہ ہے کہ پوری دنیا اولاد آدم ہے اور ہم یعنی مسلمان بھی اس سے الگ نہیں یعنی متصادم نہیں بلکہ اس میں شامل ہیں۔
عقیدے کے اختلاف کا مطلب تصادم نہیں۔ ایسے معاملات سلجھانے کا طریقہ محبت، حسن اخلاق اور حسن سلوک ہے۔ مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا طریقہ بھی یہی ہے اور نسل آدم کی بقا کا بھی۔ حافظ طاہر نے کانفرنس کی ابتدا میں کہا تھا کہ امت مسلمہ کا جسد خاکی خاک پر بے جان پڑا ہے، اسے سپرد خاک کرنا ہے یا اسے توانائی بخش کر اسے کار آمد بنانا ہے؟ علامہ زید گل خٹک نے اپنے دھیمے اور محبت بھرے انداز میں اس سوال کا جواب ایک مختصر جملے میں دے دیا اور بتایا کہ فکر اقبال ؒبھی یہی کہتی ہے۔
ہم سنا کرتے تھے کہ بزرگ عطا کرنے والے ہوتے ہیں، وہ شفقت فرماتے ہیں اور کشش لوگوں کو ان کے قریب کر دیتی ہے۔ غیر معروف علامہ زید کو میں نے ایسا ہی پایا۔ کوئٹہ ایئرپورٹ کے لاؤنج میں جس کسی کی نظر بھی ان پر پڑی وہ ان کی طرف کھنچا چلا آیا اور دعا کا درخواست گزار ہوا۔ علامہ نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علامہ زید گل خٹک کی دریافت میرے دورہ کوئٹہ کا حاصل ہے۔