گندم پیکیج !کسان اور نجی خریدار کا اعتماد بحال نہیں ہو رہا
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
پنجاب میں ان دنوں گندم کی نئی فصل کی انتہائی کم قیمت فروخت نے کسانوں کو پریشان اور مشتعل کر رکھا ہے، اپوزیشن نے بھی قیدی 804 کو چھوڑ کر گندم کاشتکاروں کے حق میں آواز بلند کر کے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی جدوجہد شروع کی ہوئی ہے ،مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ہر جانب گندم کی بات ہو رہی ہے کیونکہ پنجاب کی دیہی معیشت کے لیے یہ معاملہ زندگی موت کی حیثیت رکھتا ہے ۔
وزیر اعلی کی معاون خصوصی برائے کموڈٹیز سلمٰی بٹ نے تو اپنے انٹرویو میں پنجاب کے کسانوں کی تعداد کو ڈھائی تین ہزار بتلا کر اپنی علمی قابلیت ظاہر کی ہے لیکن وفاقی و صوبائی سرکاری اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت پنجاب میں37 لاکھ زرعی خاندان ایسے ہیں جو ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم رقبے پر کاشت کر رہے ہیں ،یوں یہ پنجاب کے مجموعی زرعی خاندانوں کا تقریباً 85 فیصد بنتے ہیں اور ہر خاندان میں نفوس کی تعداد6 کے لگ بھگ ہو تو ان کی تعداد2 کروڑ22 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔
پنجاب کو پاکستان کی ’’فوڈ باسکٹ‘‘ اس لئے قرار دیاجاتا ہے کیونکہ یہ گندم کی مجموعی ملکی پیداوار کا76 فیصد اور چاول کا85 فیصد فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں’’گندم،آٹا، سستی روٹی‘‘ کو کئی دہائیوں سے بہت اہمیت حاصل رہی ہے ،ہمارے حکمران شاید عوام کو نادان سمجھنے کی خوش فہمی سے باہر آنے کو تیار نہیں اسی لئے پہلے سستا آٹا اور پھر سستی روٹی کے ذریعے عوام کو بجلی، پٹرولیم، گھی، دالوں، سبزیوں کی ہوشربا قیمتوں کو اوجھل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
زمینی حقائق نے ثابت کردیا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی سرکاری گندم کی خریدو فروخت اور فلورملز کے لیے سبسڈائزڈ گندم کوٹہ عوام کو فائدہ دینے کی بجائے سرکاری و نجی’’مافیاز‘‘ کے لیے کھربوں روپے کی کرپشن کا ذریعہ بنا رہا ہے، بھلا ہو ہمارے ریاستی ادارے اور آئی ایم ایف کا جنھوں نے دو سال قبل کرپشن کے اس میگا پراجیکٹ کا مستقل خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا ،نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی نے اس پر عملدرآمد کا آغاز کیا اور آج یہ پیش رفت ہو چکی ہے کہ وفاقی محکمہ پاسکو سمیت چاروں صوبائی محکمہ خوراک باضابطہ طور پر گندم کی سرکاری خریداری ترک کر چکے ہیں۔
گندم سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے لیکن عملی طور پر یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک صوبائی حکومتیں نجی آٹا ،روٹی کی قیمت کے تعین سے باز نہیں آتیں ،پنجاب میں اس وقت کسانوں کو گندم کی بہتر قیمت نہ ملنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ صوبائی حکومت آج بھی یہ ارادہ رکھتی ہے کہ شہری آبادی کے لیے سادہ روٹی کی قیمت14 روپے سے بڑھنے نہیں دی جائے گی ، گزشتہ دنوں متعدد اجلاسوں میں بھی بیوروکریسی کو یہی ’’روڈ میپ‘‘ دیا گیا ہے کہ کسانوں کو عمدہ قیمت دلانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے لیکن اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ گندم کی قیمت2800 تا3 ہزار روپے فی من کے درمیان رہے تاکہ روٹی کی قیمت14 روپے سے نہ بڑھے ،موجودہ حالات میں بھی اگر مقررہ فارمولا کے تحت تخمینہ بنایا جائے تو گندم کی قیمت3150 تا3200 روپے ہو تب بھی روٹی کی قیمت14 روپے رہ سکتی ہے اور اگر حکومت حقیقی معنوں میں گندم سیکٹر ڈی ریگولیٹ کر کے فری ٹریڈ ہونے دے تو کسان کو گندم کی قیمت3400 روپے فی من تک مل سکتی ہے جو کہ پنجاب کی دیہی معیشت کو پھر سے خوشحال اور مستحکم بنا دے گی اور روٹی کی قیمت میں بھی ایک یا ڈیڑھ روپے سے زیادہ کا اضافہ نہیں ہوگا۔
دوسری بڑی وجہ فلورملز اور نجی خریداروں کا یہ خوف ہے کہ اس وقت پنجاب کے پاس9 لاکھ ٹن، سندھ کے پاس 13 لاکھ40 ہزار ٹن جب کہ پاسکو کے پاس24 لاکھ ٹن کے لگ بھگ سرکاری گندم کے اسٹاکس موجود ہیں جو کہ انھوں نے آیندہ ریلیز سیزن میں ہر صورت فروخت کرنے ہیں کیونکہ لاکھوں ٹن گندم خراب ہونا شروع ہو چکی ہے۔ گزشتہ ریلیز سیزن میں پنجاب فوڈ نے 2800/2900 روپے قیمت پر نکاسی کی جب کہ وفاقی محکمہ پاسکو اور سندھ فوڈ نے ایک دانہ گندم بھی فروخت نہیں کی ۔
فلورمل مالکان اور نجی خریداروں کو ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر یہ خوف ہے کہ آیندہ چند مہینوں بعد اس50 لاکھ ٹن سرکاری گندم کی نکاسی کے لیے حکومتیں کیا قیمت فروخت مقرر کرتی ہیں ۔وفاق و پنجاب و سندھ حکومتیں نیک نیتی کے ساتھ یہ اعلان کردیں کہ ان کی سرکاری گندم کی قیمت فروخت آیندہ سیزن میں کیا ہوگی بالخصوص پنجاب حکومت14 روپے روٹی قیمت کی سیاسی ہٹ دھرمی ترک کردے تو گندم خریداروں کا اعتماد بحال ہوجائے جنھوں نے گزشتہ سال حکومت پنجاب کے فیصلوں کے نتیجے میں فی فلور مل 35 کروڑ تا85 کروڑ روپے تک بڑا خسارہ برداشت کیا ہے اور اب ان کی دوبارہ سے بڑا معاشی دھکا سہنے کی سکت نہیں ہے۔
پنجاب حکومت نے دو روز قبل گندم پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن کسان اور نجی گندم خریدار اس پیکیج پر اعتماد کرنے کو فی الوقت تیار دکھائی نہیں دے رہے، کسان تنظیموں نے اس پیکیج کو مسترد کردیا ہے ۔غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیکیج کی کچھ شقیں تو قابل عمل اور فائدہ مند ہو سکتی ہیں ، اگر اس پیکیج کا اعلان3 ہفتے قبل کر کے اس کی بھرپور تشہیر اور تشریح کی جاتی تو کسانوں کی بڑی تعداد اس میں شامل ہونے کو تیار ہوجاتی۔ گندم سپورٹ فنڈ کے تحت کسان کارڈ کے ذریعے15 ارب روپے کی فنانشل سپورٹ سے ہر گندم کاشتکار کو فائدہ نہیں پہنچے گا صرف ان کو ہی فائدہ ہوگا جو کسان کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
الیکٹرانک ویئر ہاؤسنگ ریسیٹ(EWR )کے تحت کسانوں اور نجی خریداروں کو 4 ماہ کے مارک اپ فری ٹائم کے تحت گندم اسٹور کرنے کی پیشکش کی گئی ہے اور اس کے لیے5 ارب روپے مختص گئے ہیں، کسان اپنی گندم کی مالیت کا70 فیصد بطور قرض حاصل کر سکیں گے۔ چھوٹے کسان کے لیے یہ سہولت حاصل کرنا اس لئے مشکل ہے کیونکہ باردانہ خرید کر اس کی بھرائی کر کے اسے اپنے خرچے پر ’’ای ڈبلیو آر‘‘ گودام پر لیجانا آسان نہیں ہوگا ،چار ماہ کی مفت سہولت کے بعد اسے فی من گندم پر25 تا30 روپے تک مارک اپ دینا ہوگا ، دوسری جانب پنجاب حکومت سستی روٹی کی خاطر گندم قیمت کو ایک خاص حد سے بڑھنے دینا نہیں چاہتی تو پھر اس کسان کو اس سہولت کا کیا فائدہ ملے گا۔
حکومت نے فلورملز اور آڑھتیوں کو گندم خریداری کے لیے100 ارب روپے کے بینک قرضوں کی اسکیم بھی لانچ کی ہے جس کے تحت50 فیصد قرضہ کامارک اپ حکومت ادا کرے گی اور50 فیصد کا خریدار خود ادا کرنے کا پابند ہوگا اول تو یہ کہ کسانوں اور مارکیٹ میں اس شق کے حوالے سے تاثر پیدا ہوا ہے کہ اس سے بڑے اسٹاکسٹ کو فائدہ ہوگا بالخصوص ان لوگوں کو جو گندم کی ٹریڈنگ کرتے ہیں اس سے کسان کو براہ راست زیادہ فائدہ ممکن نہیں دوسرا یہ کہ حکومت نے اس اسکیم کے لیے صرف بینک آف پنجاب کا انتخاب کیا ہے جو نجی شعبہ کے لیے بڑا مشکل ہے ،تمام تر تحفظات اور اعتراضات کے باوجود اس شق کو کامیاب بنانا ہے تو دیگر کمرشل بینکوں کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ کو چاہیے تھا کہ وہ گندم پیکیج کا اعلان خود کسی کھیت میں جا کر یا کم ازکم پریس کانفرنس میں کرتیں تاکہ مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوتا، اب بھی وقت ہے کہ مناسب اعلانات کے ذریعے کسانوں اور نجی خریداروں کی اعتماد سازی کی جائے۔
وزیر اعظم میاںشہبازشریف وفاق کی سطح پر گندم کے حوالے سے فکر مند بھی ہیں اور بہتری کے اقدامات کے لیے مشاورت بھی کر رہے ہیں، ان کی ہدایت پر ان کے مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ نے گزشتہ دو دنوں میں کسان رہنماؤں سے بالمشافہ ملاقات کر کے گھنٹوں تک مشاورت کی ہے جب کہ گزشتہ روز وزیر اعظم نے گندم کے معاملے پر کسانوں اور اراکین اسمبلی سے ملاقات کی ہے۔ افواج پاکستان بھی معاملے کا جائزہ لے رہی ہیں،میجر جنرل شاہد نذیر بھی کسانوں سے رابطے میں ہیں جب کہ وفاقی وزیر رانا تنویر اور وفاقی سیکریٹری وسیم اجمل بھی بہتری کے راستے تلاش کر رہے ہیں جن میں گندم مصنوعات کی ایکسپورٹ کی آپشن بھی شامل ہے۔ بہتری اسی وقت آئے گی جب کسان اور نجی خریدار کا اعتماد بحال ہوگا اور پنجاب حکومت کے گندم پیکیج کو افسانہ کی بجائے کسان دوست حقیقت سمجھا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور نجی خریداروں کا اعتماد بحال اور نجی خریدار روٹی کی قیمت گندم کی قیمت سرکاری گندم پنجاب حکومت گندم پیکیج کسانوں اور اس پیکیج پنجاب کے ہے کہ ا کے لیے کے تحت
پڑھیں:
حکومت کاشتکاروں کو گندم کی پوری قیمت دے، ہم عوام کے اتحادی: گورنر
لاہور (نیوز رپورٹر) حکومت کاشتکاروں کو گندم کی پوری قیمت دے۔پیپلز پارٹی ن لیگ کی اتحادی نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی اتحادی ہے۔ ملکی سلامتی میں علماء مشائخ کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سردار سلیم حیدر نے گورنر ہائوس لاہور میںعلماء مشائخ، اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں سے ملاقات کے دوران کیا۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ پنجاب کا گورنر ضرور ہوں لیکن پیپلز پارٹی کا جیالا پہلے ہوں۔ پارٹی کے جیالے اور کارکن سیالکوٹ پی پی 52 کے ضمنی انتخابات کی تیاری کریں۔گورنر پنجاب نے کہا کہ سیالکوٹ کے پی پی 52 میں پیپلز پارٹی ضمنی انتخابات میں اپنا لوہا منوائے گی۔ اْنہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری مفاہمت کی سیاست اور مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی ہو یا ن لیگ پیپلز پارٹی کسی کو بھی سپیس نہیں دے گی۔ گلی گلی محلے محلے جا کر پیپلز پارٹی کی کمپین کروں گا۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرے گی۔ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانا میرا مشن ہے۔