افغان طالبان نے امریکی فوج کے چھوڑے گئے 5 لاکھ ہتھیار دہشتگرد گروپوں کو فروخت کر دیے، برطانوی میڈیا کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی فوج کے چھوڑے گئے قریباً 5 لاکھ ہتھیاروں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا، جن میں سے بڑی تعداد دہشتگرد گروپوں کو بیچ دی گئی یا اسمگل کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یہ اسلحہ القاعدہ سے منسلک تنظیموں تک بھی پہنچ چکا ہے اور اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ افغانستان میں القاعدہ سے وابستہ گروپ امریکی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی اسلحہ بلوچستان میں استعمال ہورہا ہے، دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز
بی بی سی کا کہنا ہے کہ طالبان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کو اعتراف کیا ہے کہ امریکی فوجی ساز و سامان میں سے کم از کم نصف کا حساب دینا ممکن نہیں رہا۔ سلامتی کونسل کی کمیٹی کے ایک اہلکار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں قریباً 5 لاکھ کے قریب امریکی فوجی ساز و سامان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
رپورٹ کے مطابق طالبان نے 2021 میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد قریباً 10 لاکھ سے زائد ہتھیار اور فوجی ساز و سامان قبضے میں لے لیا تھا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ نے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لینے کا اعلان کر دیا
دوسری جانب طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمداللہ فطرت نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور دہشتگردوں کو فروخت کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت ہتھیاروں کے تحفظ اور ذخیرہ کرنے کے معاملے کو نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے اور تمام ہلکے اور بھاری ہتھیار مکمل محفوظ ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلحہ افغانستان القاعدہ امریکا برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی دہشتگردی طالبان کابل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان القاعدہ امریکا برطانوی نشریاتی ادارے دہشتگردی طالبان کابل افغانستان میں
پڑھیں:
معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ انہوں نے ایک مشترکہ پریس ٹاک کی۔ سفارتی دوروں میں اگر مشترکہ بیان جاری کیا جائے، اس سے مراد دونوں ملکوں کا اتفاق رائے ہونے سے لیا جاتا ہے۔ الگ الگ پریس نوٹ جاری کرنے سے مراد ہوتی ہے کہ اتفاق رائے نہیں ہوا۔ مشترکہ پریس کانفرنس اتفاق رائے کے مثبت اظہار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
پاکستانی وفد کے استقبال کے لیے امیر خان متقی خود ائیر پورٹ نہیں آئے تھے۔ ڈپٹی وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے اسحق ڈار سے طے شدہ ملاقات سے گریز کیا۔ رئیس الوزرا ملا حسن اخوند سے البتہ ان کی ملاقات ہو گئی۔
ڈار نے کابل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بہت اہم باتیں کی۔ ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے اعلان کیا۔ ازبکستان سے آنے والا ریلوے ٹریک خرلاچی (کرم ایجنسی) کے راستے پشاور سے مل جائے گا۔ افغانستان کو گوادر اور کراچی دونوں بندرگاہوں تک رسائی مل جائے گی۔
افغانستان کے لیے 1621 آئٹمز پر پاکستان 10 فیصد ڈیوٹی وصول کرتا تھا۔ اس لسٹ سے 867 آئٹم کو ڈیلیٹ کرنے کے ایک بڑے ریلیف کا بھی اعلان کیا گیا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ جو 2021 میں ختم ہو چکا ہے، اسے بھی اسی سال فائنل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ خیبر پختون خوا حکومت افغان آئٹم پر 2 فیصد سیس ڈیوٹی عائد کرتی تھی اس کو کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے۔ افغان تاجروں کو امپورٹ کے لیے زرضمانت جمع کرنا پڑتا تھا اس کا بھی خاتمہ کرکے بینک گارنٹی لینے کی افغان حکومت کی تجویز مان لی گئی ہے۔ این ایل سی کے علاوہ بھی 3 مزید کمپنیوں کو تجارتی سامان کی ترسیل میں شامل کرنے کی افغان تجویز بھی مان لی گئی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور چین کا سہ ملکی فارمیٹ بحال کرنے کا بھی اعلان ہوا۔ دونوں ملکوں کی قائم کردہ جوائنٹ کو آرڈینیشن کمیٹی کی تعریف کرتے ہوئے اسحق ڈار نے سیاسی امور کے لیے بھی فوری طور پر ایک رابطہ کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ افغان مہاجرین کی واپسی ان کے ساتھ زیادتیوں اور جائیداد کے معاملات کے حل کے لیے بھی ہیلپ لائن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس مشترکہ پریس ٹاک میں ہونے والے اعلانات کو دیکھا جائے تو زیادہ تر باتیں تجارتی اقتصادی حوالے سے کی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی نے تعلقات بحالی کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ایک ہی دن 16 اپریل کو پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفود کابل اور اسلام آباد پہنچے تھے۔ نورالدین عزیزی کی قیادت میں وفد پاکستان آیا تھا۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کابل پہنچے ہیں۔
17 ماہ کے طویل وقفے کے بعد پاک افغان جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس کابل میں ہو سکا تھا۔ امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جے سی سی اجلاس کے موقع پر کہا کہ اس فورم نے ہمیشہ مسائل حل کیے ہیں۔ اس بار سیکیورٹی ایشوز، تجارت، ڈیورنڈ لائن پر ٹینشن ( ٹی ٹی پی، لوگوں کی آمد و رفت اور افغان مہاجرین ) کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بنانے پر بات چیت ہو گی۔
جے سی سی میں افغان وفد کی قیادت ملا عبدالقیوم ذاکر نے کی تھی۔ ذاکر امریکا اور اتحادیوں کے خلاف لڑائی کے دوران افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ملا اختر منصور کے بعد طالبان کا نیا امیر بننے کا مضبوط امیدوار بھی سمجھا جا رہا تھا۔ عبدالقیوم ذاکر جے سی سی اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کے لیے ایک ہیوی ویٹ شخصیت ہیں۔ اس کا پتہ تب لگے گا جب آپ ان کا پروفائل دیکھیں گے، ان کا نام اور کام ایران بلوچستان امریکا اور شمالی افغانستان تک دکھائی دے گا۔
پاکستان افغانستان مہاجرین کی واپسی، ٹی ٹی پی اور دوسرے اختلافی امور کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان اختلافی امور کا حل ضروری ہے۔ معیشت وہ پوائنٹ ہے جہاں موجود امکانات دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب لائے ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کے ساتھ اپنے انداز میں نپٹنے کے لیے تیار ہے۔ پاک افغان باڈر پر اب ریموٹ کنٹرول چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔ افغان طالبان حکومت مہاجرین کی واپسی کو برداشت کرے گی۔ معیشت اب وہ ڈرائیونگ فورس ہے جو بہت متنازعہ معاملات کو بھی غیر متعلق کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔