رفح میں امدادی کارکنوں پر اسرائیلی حملہ، سنسنی خیز حقائق کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
اسکائی نیوز کی طرف سے شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں رفح میں فلسطینی امدادی کارکنوں پر اسرائیلی فوج کے اس مہلک حملے سے متعلق چونکا دینے والے حقائق کا انکشاف ہوا ہے جس میں نہ صرف 15 امدادی کارکن جاں بحق ہوئے تھے بلکہ مغربی مبصرین کی نظر میں صیہونی رژیم کا سرکاری بیانیہ بھی شدید مشکوک ہو گیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ اسکائی نیوز کی تحقیقاتی ٹیم نے سیٹلائٹ تصاویر، ریکارڈ شدہ ویڈیوز، آڈیو شواہد، زندہ بچ جانے والوں کے انٹرویوز اور میڈیکل رپورٹس کے تجزیے کا استعمال کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ ان امدادی کارکنوں کو اسرائیلی فوجیوں نے براہ راست نشانہ بنایا تھا۔ اسی طرح غاصب صیہونی رژیم کے سرکاری بیانیے میں کیے جانے والے دعوے کے برعکس، اس جگہ پر کسی قسم کی فوجی سرگرمی یا فوری خطرے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔ یاد رہے 23 مارچ 2025ء کی صبح فلسطین کی ہلال احمر سوسائٹی، غزہ شہری دفاع کی تنظیم، اور اقوام متحدہ کے ایک ملازم سمیت امدادی کارکنوں کی ایک ٹیم رفح کے آس پاس اپنے تین لاپتہ ساتھیوں کی تلاش کے مشن پر روانہ ہوئی تھی۔ مقتول امدادی کارکنوں میں سے ایک ریفات رضوان تھا جس کی جانب سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں انہیں نشانہ بنائے جانے سے پہلے لمحہ بہ لمحہ ان کی نقل و حرکت دکھائی گئی ہے۔ یہ امدادی کارکن اپنے ریسکیو مشن کے دوران ایک ایسی ایمبولینس کے قریب پہنچے جو بظاہر حادثے کا شکار دکھائی دیتی تھی۔ جیسے ہی وہ رکے اس کے صرف تین سیکنڈ بعد صیہونی فوجیوں نے کسی وارننگ کے بغیر گولی چلا دی اور یہ فائرنگ پانچ منٹ سے زیادہ وقت تک جاری رہی۔
ریکارڈ شدہ ویڈیو میں ریفات اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اپنی ماں سے کہتی ہے: "ماں مجھے معاف کر دیں۔ یہ وہ راستہ تھا جس کا میں نے عوام کی مدد کرنے کے لیے انتخاب کیا تھا۔" اسکائی نیوز کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ حملے میں جن ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا گیا ان کی لائٹس جل رہی تھیں اور واقعہ کے وقت واضح طور پر انسانی امداد کی گاڑیوں کے طور پر پہچانی جا سکتی تھیں۔ جس علاقے میں امدادی کارکن موجود تھے اسے حملے کے تقریباً چار گھنٹے بعد تک تنازعہ کا علاقہ قرار نہیں دیا گیا تھا اور اس لیے وہاں سفری اجازت نامے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ واقعے کے آڈیو شواہد سے بھی یہ معلوم ہوتا کہ بعض صیہونی فوجیوں نے بہت قریب سے یعنی تقریباً 12 میٹر کے فاصلے سے فائرنگ کی۔ مزید برآں، ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ امدادی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا یا ان کے مشن کے دوران اسرائیلی افواج کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تھا۔ آخر میں حملے کے بعد ان کی لاشیں ایک گڑھے میں دفن کر دی گئیں اور ان کی امدادی گاڑیاں بھی ملبے اور مٹی کے نیچے چھپا دی گئیں۔
اس ہولناک واقعے میں زندہ بچ جانے والے واحد شخص مانثر عبد ہیں جنہیں صیہونی فوجیوں نے حملے کے بعد حراست میں لیا تھا۔ انہوں نے اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کا کسی قسم کے عسکری گروپوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں گرفتاری کے بعد تشدد اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے عینی شاہد کے طور پر یہ بھی بتایا کہ صیہونی فوجیوں نے امدادی سامان اور مقتول امدادی کارکنوں کی گاڑیوں کو جان بوجھ کر بلڈوزر سے کچل کر ملبے میں دفن کر دیا تھا۔ دوسری طرف صیہونی فوج نے اپنے بیانیے میں دعوی کیا تھا کہ اس کے فوجیوں نے خطرہ محسوس کرنے کے بعد ان افراد پر فائرنگ شروع کی تھی۔ لیکن جائے وقوعہ پر ملنے والے شواہد اس دعوے کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔ اسکائی نیوز نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیلی فوج نے ابھی تک اپنے اس دعوے کی تائید کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں کہ قتل ہونے والوں میں حماس کے کارکن بھی شامل ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے سابق پراسیکیوٹر جیفری نائس نے اس تحقیق پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "یہ سانحہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جنگی جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔" بلڈوزر سے لاشوں کو دفن کرنا، سرکاری بیانیے میں بار بار تبدیلیاں، اور دستیاب شواہد سب کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صیہونی رژیم نے اصل حقائق چھپانے کی کوشش کی ہے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی فوجیوں نے امدادی کارکنوں امدادی کارکن اسکائی نیوز کے بعد
پڑھیں:
گریٹا تھنبرگ کی امن مشن کشتی،غزہ جانے والی امداد کو روکنے کا حکم، اسرائیلی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ (Israel Katz) نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی امدادی کشتی میڈلین کو غزہ پہنچنے سے قبل روک دے، یہ کشتی اسرائیلی ناکہ بندی توڑ کر غزہ کے مظلوم شہریوں تک امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میڈلین کشتی اس وقت مصر کے ساحل کے قریب موجود ہے اور غزہ کی جانب بڑھ رہی ہے، کشتی میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، یورپی پارلیمان کی رکن ریما حسن اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے 12 افراد سوار ہیں، امدادی مشن کا آغاز 6 جون کو اطالوی جزیرے سسلی سے کیا گیا تھا۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہود مخالف گریٹا اور اس کے حماس نواز ساتھیوں کو میں صاف پیغام دیتا ہوں کہ واپس لوٹ جاؤ، تمہیں غزہ تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا،فوج اس کشتی کو زبردستی روک کر اسرائیل کے بندرگاہی شہر اسدود منتقل کرے گی، جہاں عملے کو گرفتار اور بعد ازاں ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
دوسری جانب گریٹا تھنبرگ نے کشتی پر سے پیغام دیا کہ وہ اسرائیلی ناکہ بندی، غزہ میں جاری جنگی جرائم اور انسانی بحران کے خلاف آواز بلند کرنے آئی ہیں، کشتی علامتی طور پر کچھ ضروری امدادی سامان جیسے چاول اور بچوں کا دودھ لے جا رہی ہے، تاکہ دنیا کو اس انسانی المیے کی شدت کا احساس دلایا جا سکے۔
فریڈم فلوٹیلا کی ترجمان کے مطابق کشتی اس وقت غزہ سے 160 ناٹیکل میل (تقریباً 296 کلومیٹر) دور ہے اور عملہ کسی بھی ممکنہ اسرائیلی حملے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے امدادی مشن کو روکا ہو۔ 2010 میں اسرائیلی کمانڈوز نے ترک بحری جہاز ماوی مرمرا پر حملہ کرکے 10 کارکنوں کو شہید کر دیا تھا جو غزہ کے لیے امداد لے جا رہا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 36 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 80 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اسرائیل پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات دنیا بھر میں بڑھتے جا رہے ہیں۔