ایسٹر کے موقع پر روس یوکرین میں جنگی کارروائیاں نہیں کرے گا، روسی صدر کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
روس کے صدر ویلادیمیرپیوٹن نے ایسٹر کے موقع پر یوکرین میں یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، روس ہفتے کی شام 6 بجے سے اتوار کی شام تک یوکرین کے خلاف کوئی کارروائی نہی کرے گا۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن نے ایسٹر کے موقع پر یوکرین میں جنگ بندی کا اعلان کیا اور اپنی فورسز کو ہفتے کی شام 6 بجے سے اتوار کی شام تک کارروائیاں ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حماس کا شکریہ کیوں ادا کیا؟
ولادیمیر پیوٹن نے روسی آرمی چیف ویلیری گیراسیموف سے کریملن میں ملاقات کی اور انہیں ہدایت کی کہ انسانی بنیاد پر روس اپنے طور پر ایسٹر جنگ بندی کا اعلان کررہا ہے، اس دوران یوکرین میں موجود روسی افواج افواج اپنی جنگی سرگرمیاں نہ کریں۔
روسی صدر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یوکرین بھی اس مثال کی پیروی کرے گا لیکن اس دوران ہماری افواج دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی ممکنہ خلاف ورزی اور اشتعال انگیزی سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میری نہیں بائیڈن کی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا لڑائی ختم کرنے پر زور
روسی صدر نے اپنے آرمی چیف کو کہا کہ جنگ بندی کے دوران دشمن کی جانب سے کسی قسم کی جارحیت کی گئی یا کوئی ایسا اقدام کیا گیا تو اس کا جواب دینے کے لیے ہماری فوج کو مکمل طور پر تیار رہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ایسٹر جنگ بندی روس ولادیمیر پیوٹن یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایسٹر ولادیمیر پیوٹن یوکرین یوکرین میں پیوٹن نے کی شام
پڑھیں:
یوکرین کو کروز میزائل کی فراہمی سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملے گی: روس
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا ذاخارووا نے کہا ہے کہ یوکرین کو ٹاماہاک کروز میزائلوں کی فراہمی سے مسائل کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا ذاخارووا کا کہنا ہے کہ امریکی ادارے پینٹاگون کی جانب سے یوکرین کو ٹاماہاک کروز میزائلوں کی فراہمی کی منظوری مسائل کے حل میں مددگار نہیں ہوگی۔
قبل ازیں پینٹاگون کی جانب سے یوکرین کو ٹاماہاک کروز میزائلوں کی فراہمی کی حوالے سے منظوری کے باوجود یہ معاملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حتمی منظوری سے مشروط ہے۔