ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ایک ہمہ جہت شخصیت
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
سائنس، فلسفہ، ادب اور فنونِ لطیفہ میں بیک وقت مہارت رکھنا صرف غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت، ذہنی ساخت ، رجحانات اور مزاج کی وہ ہم آہنگی ہے جو کسی فرد کو بیک وقت مختلف علوم و فنون پر عبور عطا کرتی ہے۔
اگر اس پر مختلف زبانوں کا ادراک بھی شامل ہو جائے تو وہ شخص نہ صرف ایک انفرادی شناخت قائم کرتا ہے بلکہ علمی افق پر اپنے ان مٹ نقوش بھی چھوڑتا ہے۔اس مد میں اگر یونان کی سرزمین سے آغاز کریں تو ارسطو کی شخصیت سامنے آتی ہے، جو فلسفہ، سائنس، ادب اور منطق میں یکتائے روزگار تھا۔
اسی سلسلے کی کڑیاں عمر خیام، بو علی سینا، ابن الہثیم، گوئٹے، ٹیگور، آئن سٹائن اور پاکستان کے عظیم نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جیسے نابغہ افراد تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جنھیں محض اپنے اپنے شعبے ہی سے رغبت نہ تھی بلکہ دیگر علوم و فنون سے بھی دلی لگاؤ تھا۔ ان کی علمی وسعت دراصل ان کے لامحدود تجسس، ذہنی جستجو اور ہمہ جہت دلچسپیوں کا مظہر ہے۔
اسی قبیل سے تعلق رکھنے والی ہمیں ایک ایسی عبقری ہستی نظر آتی ہیں جن کا سائنس اور آرٹس کے ساتھ نہ صرف باقاعدہ گہرا تعلق تھا بلکہ وہ ان میں یدِ طولی رکھتے تھے۔ یہ گم نام اور فراموش نابغہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بیک وقت کیمیا دان، مصور، دانش ور، نقاد، ادیب، شاعر اور مترجم تھے۔ اس کے علاوہ موسیقی کے تال و سر، رقص اور دیگر فنون سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ یوں آپ کی شخصیت سائنس اور آرٹس کے حسین امتزاج سے مزین نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اکتوبر 1897 کو بھارت ، لکھنو کے قریب قصبہ بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لکھنو معاشرتی اور تہذیبی روایات کا نمائندہ رہا ہے اور صدیقی صاحب خود بتاتے ہیں کہ انھوں نے لکھنوی تہذیب کو اپنے اندر اس قدر جذب کیا کہ ساری عمر ان پر اس کا سایہ رہا۔ لکھنو ایک ایسا نگارخانہ اور زرخیز قطعہ عرض ہے جو ایرانی و ہندوستانی تہذیب کا حسین امتزاج اور مرکز تھا اور یہاں پر فنون لطیفہ کو خوب فروغ ملا اور پذیرائی حاصل ہوئی۔
یہ سب اوصاف آپ کے خاندان میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔جس کے اثرات کے واضح نقوش صدیقی صاحب کی شخصیت میں نظر آتے ہیں۔آپ کے والد شیخ محمد زمان اعلی پایہ کے وکیل اور کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔ نیز آپ اردو اور فارسی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک بہترین خطاط کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا پورا خاندان شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتا تھا جبکہ آپ کے نانا کا رجحان علمِ کیمیا میں تھا۔ صدیقی صاحب کے بقول انھیں شعر و ادب کا ذوق والد کی طرف سے اور سائنس کا رجحان ننھیال کی طرف سے ملا ہے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں کی دو شادیاں ہوئیں ، پہلی شادی ماموں زاد ’’شاکرہ بیگم‘‘ سے ہوئی۔ جبکہ دوسری شادی جرمن نژاد ’’اوتھلیے رنل بیل جی اوشنے‘‘ سے ہوئی۔یہ آپ کی پسند کی شادی تھی۔آپ اپنی بیگم کو پیار سے ’’ٹلے‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
صدیقی صاحب نے کم عمری میں ہی گلستان و بوستان ، طلسم ہوش ربا اور عبدالحلیم شرر کے سبھی ناولوں سمیت شبلی کی المامون کا مطالعہ کر رکھا تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب آپ کے اندر شعر و ادب کا چراغ روشن ہوا اور آپ شعر بھی کہنے لگے۔آپ نے گنج ہائی سکول لکھنو سے 1914 میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔اس کے بعد آپ کا داخلہ علی گڑھ کالج میں ہوا یہاں آپ نے انٹر سائنس کے ساتھ پاس کیا۔آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے فلاسفی اور فارسی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
بعد ازاں 1920میں آپ انگلستان روانہ ہوگئے اور یونی ورسٹی کالج آف لندن میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۔ اس کورس کے مکمل ہونے کے بعد آپ اپنے بھائی خلیق الزماں (تحریکِ آزادی کے اہم قائدین میں شامل) کے کہنے پر جرمنی چلے گئے اور یہاں آپ کا یونی ورسٹی آف فرینکفرٹ کے شعبہ کیمسٹری میں داخلہ ہوا۔ یہاں آپ باقاعدہ کیمسٹری کے ساتھ منسلک رہے اور الکلائیڈ کے موضوع پر اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ الکلائڈز قدرتی طور پر پائے جانے والے مرکبات کا ایک ایسا گروپ ہے جو پودوں اور کچھ فنجائی میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کیفین، نیکوٹین ، مورفین اور کوکین وغیرہ۔ ان کے جانداروں پر مختلف اثرات ہوتے ہیں۔یہ درد سے نجات ، پْر سکون نیند ، ملیریا اور دیگر امراض میں شفا بخش ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد آپ واپس بھارت چلے آئے اور یہاں بر عظیم کے مشہورِ زمانہ حکیم ،حکیم مسیح الملک اجمل خان کے کہنے پر دہلی میں یونانی طب اور آیورویدک پر تحقیق کے ادارے قائم کیے۔ اس سلسلے میں آپ کو حکیم اجمل خاں جیسے غیر معمولی حکیم کی خصوصی رہنمائی حاصل رہی۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ایک کہنہ مشق اور باریک بین کیمیا دان تھے آپ نے پودوں سے کئی الکلائڈ کشید کیے اور انھیں ادویات میں استعمال کیا اور اپنی ایجاد کردہ ادویات کا نام حکیم اجمل خان کے نام پر رکھا جیسے کہ اجملین ، جو ان کی ایجاد کردہ مقبول دوا ہے۔
جو ہائی بلڈ پریشر، ہسٹریا اور دیوانگی کے علاج میں بہت مقبول ہے۔یہ دوا یورپ میں بھی مذکورہ امراض کا تیر بہ ہدف علاج تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی طرح انھوں نے مزید پودوں سے ایسے الکلائیڈ حاصل کیے جو پیچس اور امراض قلب کے لیے دوا ثابت ہوئے۔ یوں ڈاکٹر سلیم الزماں نے دوا سازی میں انقلاب بپا کیا۔ یاد رہے کہ عام انتخابات میں ان مٹ سیاہی جو انتخابات کے دوران ووٹروں کی شہادت کی انگلی پر لگائی جاتی ہے تاکہ انتخابی دھوکہ دہی جیسے دوہرے ووٹنگ کو روکا جا سکے ، وہ ڈاکٹر سلیم الزماں نے پہلی مرتبہ لیبارٹری میں تیار کی اور یہی سیاہی پاک و ہند کے عام انتخابات میں استعمال ہوتی آرہی ہے۔
سائنس کے میدان میں آپ کی ایسی کئی خدمات اور کارنامے قابل تحسین ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق آپ نے تین سو تحقیقی مقالے اور قریباً پچاس ادویات کے فارمولے تیار کیے۔ آپ کی سائنسی شخصیات سے بہت اچھی رفاقت تھی اور انھوں نے آپ کی سائنسی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام اس حوالے سے ایک اہم نام ہیں جنھوں نے آپ کو رائل سوسائٹی آف لندن کا فیلو بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی سال آپ کو ’’سوویٹ اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی جانب سے گولڈ میڈل عطا ہوا۔ یورپ کے ممتاز تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے آپ نے کئی اہم اعزازات اپنے نام کیے۔آپ کا شمار ان سائنس دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے سماج سے سائنسی محرومیوں کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے سائنس اور سائنسی شعور کے فروغ کا چراغ روشن کیا۔
سائنس کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی آرٹس کے میدان میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کا خاندان علم و ادب اور تخلیقی فنون کا گہوارا تھا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں مصوری کے میدان میں کمال مہارت رکھتے تھے اور یہ فن انھیں ورثہ میں ملا تھا۔ آپ کے والد ایک عمدہ خطاط اور آپ کے بڑے بھائی سمیع الزماں صدیقی بھی اسی فن سے وابستہ تھے جو بذاتِ خود رابندر ناتھ ٹیگور کے شاگردوں میں سے تھے۔
اس طرح آپ نے اس روایت کو مستحکم رکھا اور مصوری کے ایوان میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ صدیقی صاحب تجربہ گاہ میں کیمیائی مادوں اور کیمیائی شیشیوں سے فرصت کے بعد مصوری کی مشق میں مصروف ہو جاتے۔ ان کی مصوری کی نمائش پاک و ہند سمیت بیرون ممالک میں بھی منعقد ہوئی۔پہلی دفعہ آپ کی پینٹنگ کی نمائش فرینکفرٹ (جرمنی) میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی پہلی کمائی مصوری سے حاصل کی۔
یہاں یہ بات قابلِ اعتنا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نہ صرف اعلی و ارفع مصور تھے بلکہ فنِ مصوری کے زبردست نقاد بھی تھے۔ مصوری اور مجمسہ سازی کی تاریخ ، ارتقا ، عروج و زوال اور مصر سے لے کر ہندوستان کے نام ور مصوروں پر آپ کی عمیق نظر تھی۔ جن سے ان کے تنقیدی شعور کا پتہ ملتا ہے۔
فن مصوری پر آپ کے مضامین تقریروں کی صورت ریڈیو کے سلسلوں میں ملتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کا ایک مضمون ریڈیو پر تقریر کی صورت ایک اہم ہندوستانی مصور ’’جامینی رائے‘‘ پر ملتا ہے جو فن مصوری میں شاندار تخلیقی نمونوں کے سبب مقبول تھا اور اس فن میں ٹیگور کا شاگرد رہا۔ بڑے بڑے مصوروں نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے فن مصوری کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اساتذہِ فن کا درجہ بھی دیا جن میں احمد پرویز، منصور راہی، صادقین اور امام علی وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر سلیم الزماں متنوع صلاحتیوں کی دولت سے مالا مال تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ادیب، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ شعر و ادب سے انھیں خاص شغف تھا۔ وہ خود بھی شعر کہتے تھے۔ مصوری کی طرح یہ فن بھی انھیں وراثت میں ملا۔ صدیقی صاحب کو اردو، انگریزی، فارسی، عربی اور جرمن زبان پر عبور حاصل تھا۔اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ انھوں نے جرمنی کے مشہور شاعر رلکے کی منتخب نظموں کا براہ ِ راست ترجمہ کیا اور اس کی شاعری کو اردو زبان میں منتقل کیا۔
ترجمے کے ساتھ ساتھ رلکے کی شاعری پر آپ کی تنقیدی بصیرت کا راز بھی کھلتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک عمدہ نقاد بھی تھے اور اس تنقیدی بحث کو ہم ریڈیو پر محفوظ ان کے ادبی مباحثوں اور تقریروں میں سن سکتے ہیں۔ صدیقی صاحب کا علمی و ادبی مطالعہ بہت وسیع تھا۔آپ نے فارسی اور اردو شعرا سمیت مغربی شاعروں کا مطالعہ بھی کر رکھا تھا۔ڈاکٹر سلیم الزماں ، غالب اور میر کے عشاق میں سے ایک تھے۔
فکرِ غالب پر پروفیسر ممتاز حسین کی میزبانی میں، مجنوں گورکھ پوری کے ساتھ ایک ادبی مباحثہ صدیقی صاحب کی غالب فہمی پر دال ہے۔ غالب کے سائنسی شعور کے حوالے سے آپ کئی اشعار کی سائنسی تعبیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھ سے ایک سائنس دان کی حیثیت سے غالب اور اقبال پر سائنسی نقطہ نظر سے کچھ کہنے کی فرمائش کرتے ہیں تو میں فکرِ غالب کو سائنسی تناظر میں بھی دیکھتا ہوں اور ساتھ وہ اشعار کی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح غزل اور دیگر اصناف سمیت قافیہ و ردیف اور استعارے پر ان کے ادبی مذاکرے سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ (راقم نے جن مضامین، تقاریر اور علمی و ادبی مباحثوں کا تذکرہ کیا وہ بحوالہ یوٹیوب پر ’’خورشید عبد اللہ :آواز خزانہ‘‘ چینل پر موجود ہیں)
مزید براں آپ کے حلقہ احباب میں ادبا و شعرا کی ایک اہم فہرست شامل تھی۔جن کے ساتھ آپ علمی و ادبی مذاکروں میں شامل ہوتے اور تبادلہ خیال کرتے۔ فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے ان کو خاص رغبت تھی۔فیض کی وفات کے بعد صدیقی صاحب نے فیض پر ایک مضمون ’’فیض کی یاد میں‘‘ بھی قلم بند کیا۔ جہاں تک موسیقی کی بات ہے ، تو ان کی ایک جہت موسیقار کی حیثیت سے بھی ہے۔اس سلسلے میں آپ اورینٹل اور یورپین کلاسیکل میوزک سے منسلک رہے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں ، ہمہ گیر شخصیت کے مالک اور مشرقی تہذیب کے نمائندہ فرزند تھے۔ علمی و ادبی مذاکروں میں ، ان کی مسحور کن گفتگو ، شائستہ و دل آویز لہجہ ، بر جستہ و برمحل اشعار کے حوالے، بذلہ سنجی اور دلچسپ لطیفوں سے ان کی نستعلیق شخصیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی پاک و ہند میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان چلے آئے اور یہاں آپ نے میں پاکستان کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ ادارہ قائم کیا۔ 1966 میں آپ جامعہ کراچی کے شعبہ کیمسٹری سے وابستہ ہوگئے اور یہاں اپنے قائم کردہ تحقیقی ادارے حسین ابراھیم جمال (Hej) سے آخری دم تک منسلک رہے اور علم و تحقیق میں طلبہ کی رہنمائی کرتے رہے۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو ملک اور بیرون ملک کئی اعزازات ملے۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔
مگر انھیں مقتدر اور سرکاری افسروں سے کچھ گلے شکوے رہے۔اس حوالے سے جناب عمران اختر اپنے تحقیقی مضمون ’’ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی ادبی خدمات‘‘ میں بتاتے ہیں کہ آپ کو ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ ارباب ِ اختیار نے ان کی صلاحیتوں سے ہمیشہ رو گردانی کی اور خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ کیا۔ سائنس اور آرٹس کے میدان کا یہ شہوار اور دلِ درد مند 14 اپریل 1994 کو ستانوے سال کی عمر میں انتقال کر گیا اور آپ کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ایک طرف ڈاکٹر عبدالسلام جیسا عالمی شہرت کا حامل سائنس دان ہے جسے اپنے ہی وطن میں تسلیم نہیں کیا گیا اور دوسرے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ہیں جن کی سائنس و فنون سے متعلقہ خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ ہمارے ہاں جینوئن شخصیات کو قعرِ گمنامی میں پھینک دیا جاتا ہے اس لیے آج نسل نو ان نابغہ روزگار شخصیات کی خدمات تو دور کی بات ہے۔
ان کے نام تک سے واقف نہیں۔ ہر سماج اور معاشرے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جن کے سبب وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک کی ترجیحات علمی و ادبی اور سائنسی نوعیت کی نہیں اور ایسے مثالی کردار آہستہ آہستہ محض تاریخ کی کتابوں تک محدود رہتے ہیں۔ ریاست اور تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حوالے سے کانفرنسز اور سیمینار کا انعقاد کرے تاکہ ان سے شناسائی ہونے کے ساتھ ساتھ نسل نو کے دل میں تحقیق اور جستجو کی امنگ پیدا ہو اور ہمارے سماج میں سائنسی شعور کا احیا و فروغ ممکن ہو سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی سائنس اور کے بعد ا پ کے میدان حوالے سے انھوں نے کی سائنس اور یہاں کی شخصیت ا رٹس کے یہاں ا پ ایک اہم میں بھی حاصل کی ہوتا ہے کے ساتھ ہیں جن اور یہ اور اس
پڑھیں:
خرابات فرنگ
تقریباً دو ہفتے پہلے ‘ علامہ عاصم صاحب کا فون آیا۔ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق صاحب نے گھر پر ایک ادبی محفل رکھی ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے۔ برادرم عاصم‘ بذات خود ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں تو خیر وہ ہیں ہی۔ مگر‘ ایک حد درجہ مخلص‘ مہذب اور مرنجان مرنج انسان بھی ہیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ طالب علم‘ ڈاکٹر وحید الزماں کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد‘ ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا۔ بتانے لگے کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ہیں۔ معلوم پڑا کہ میرے سے چار سال سینئر تھے۔
فدوی بھی اسی علمی درسگاہ سے فیض یاب ہوا ہے۔ بہر حال برف پگھلنی شروع ہو گئی۔ مختص دن اور شام کو ان کے گھر پہنچا۔ تو بیسمنٹ میں دوست جمع ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا۔ اندازہ نہیں تھا کہ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو ہیں‘مگر فارسی میں بھی پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
لاہور کی قدآور ادبی شخصیات موجود تھیں۔ اوریا مقبول جان جو میرے دیرینہ رفیق ہیں، اپنے مخصوص انداز میں چہک رہے تھے ۔ اوریا کے سیاسی خیالات اپنی جگہ۔ مگر‘ ادب پر اس کی کمال گرفت ہے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر میں ‘ محترم مجیب الرحمن شامی بھی آ گئے۔ ان کی باتوں کی شائستگی ‘ محفل کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ چار گھنٹے ہر زاویہ سے باتیں ہوتی رہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے صاحب قلم اور صاحبان علم کا ایک ایسا گلدستہ اکٹھا کیا ہوا تھا جن کی دل آویز خوشبو ‘ ہمیشہ اپنا احساس دلاتی رہے گی۔
ڈاکٹر صاحب‘ فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔میری پسندیدہ ترین شخصیت‘ علامہ اقبال کے کام پر گہری نظر ہے۔ ڈاکٹر وحیدالزماں جو فوج کے میڈیکل کے شعبہ سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر بھی ہیں۔ انھوں نے کمال محبت سے اپنی ایک کتاب کی دو جلدیں عنایت فرمائیں۔ یہ ان کی لندن کے قیام کے قصے تھے۔ نام تھا خرابات فرنگ۔ اس جمعہ اور ہفتہ کو قدرے فرصت تھی ۔
لہٰذا دونوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ بہت عمدہ کتابیں نکلیں۔ محترم الطاف حسن قریشی‘ اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں۔کتاب کا اسلوب بیانیہ ہونے کے باوجود اتنا دلکش اور مؤثر ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود ہائیڈپارک کارنر کی بینچ پر بیٹھا ہو یا برٹش میوزیم کی راہداریوں میں گم ہو چکا ہو‘‘۔ مادام تساؤ کا میوزیم‘‘ ہویاٹر افالگر اسکوائر ‘وکٹوریہ گارڈن ہو یا نیشنل گیلری ‘ ہر مقام کا ذکر اس انداز سے کیا گیا ہے کہ صرف جگہیں ہی نہیں بلکہ ان سے جڑے ثقافتی اور فکری پہلو بھی روشن ہو جاتے ہیں۔کتاب کا نام ’’خرابات فرہنگ‘‘ خود ایک استعارہ ہے۔ ’’خرابات‘‘ یعنی وہ جگہ جہاں روح شکست کھا جائے‘ جہاں دل کو قرار نہ آئے۔ اور ’’فرنگ‘‘ یعنی مغرب‘ جہاں تہذیب ہے‘ ترقی ہے‘ لیکن روحانیت گم ہے۔
شامی صاحب رقم طراز ہیں کہ طارق کا لاحقہ انھوںنے خود لگایا یا تخلص رکھ لیا‘ معنویت میںاضافہ ہو گیا۔ وحید الزماں طارق طب کے ڈاکٹر ہیں اور ادب کے بھی۔ میڈیکل میں کمال حاصل کیا‘ تو ادب کی طرف رجوع کر لیا۔ اقبال کے کلام سے ناتہ جوڑا تو اس کے شارح اور مفسر بن گئے۔ ایک عالم کو گرویدہ بنا لیا۔ اقبال کا فارسی کلام فارسی سے نابلد لوگوں کو سمجھا دیا۔
اب کچھ کتاب سے لیے ہوئے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔قطبین میں سے ایک قطب کا انتخاب: مغرب میں اہل ایمان کی تذبذب کی کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں لوگ اپنی پارسائی کا بھرم رکھ کر چھپ چھپا کر گناہ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتا ہے۔ انسان اپنی حرکات و سکنات سے اپنی شناخت کا تعین کرتا ہے۔ یا تو وہ صحیح مومن بن جاتا ہے یا پھر مغرب کی چکا چوند روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ کی تربیت صحیح ہوئی ہو تو انسان ان خرافات سے دور بھاگتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دقیانوسیت سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
بہ افرنگی بتان دل باختم من
ز تابِ دیریان بگدا ختم من
دیار فرنگ میںاپنے تقویٰ اور پرہیز گاری کو قائم رکھنا مشکل تو تھا لیکن ناممکن نہیں۔ ہمارا انگلستان میں حال کچھ یوں تھا کہ بقول علامہ اقبال:
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
انگریز معاشرے کے مسائل اور خوبیاں: انگریز معاشرے کے اپنے مسائل تھے اور خوبیاں بھی تھیں جو سامنے آ جاتی تھیں۔ انگریزقوم کے افراد کسی حد تک آگے بڑھتے اور پھر وہیں رک جاتے تھے۔ اور اسے مغربی تہذیب کا نام دیتے جس کی جھلکیاں ان کی مصوری‘ موسیقی اور ڈراموں میں دکھائی دیتی تھیں۔ وہی حال ان کے تجارتی اشتہارات کا تھاجن سے ان کی زیر زمین ریل گاڑیاں اور ڈبل ڈیکر بسیں تک مزین ہوا کرتی تھیں ایسی تصاویر اور آرٹ بچوں کے کچے ذہنوں پر اثر انداز ہوا کرتے تھے۔
پاکستان کے تارکین وطن کی برطانیہ میں پیدا ہو کر پرورش پانے والی نسل کو یہ سب کچھ نارمل دکھائی دیتا تھا اور وہ اس اخلاقی نظام پہ انگلیاں اٹھاتے تھے جس کی تلقین ان کے قدامت پسند بزرگ کیا کرتے تھے۔ پھر اگر انھیں پاکستان یا اسلامی معاشرے میں کچھ دیر کے لیے وقت گزرانا پڑتا تو انھیں وہاں پر اگر انھیں منافقت یا مصلحت اندیش خاموشی نظر آتی تو وہ ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے تھے جن کا جواب دینے سے ہمارے اکثر بڑے قاصر ہوتے تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور ہمارا عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم پردہ پوشی سے کام لیتے ہیں۔
انگلستان سے ٹوٹتا ہوا تعلق: ہم 2018 میں عمان ایئرکے ذریعے ابو ظہبی سے مسقط اور وہاں سے مانچسٹر پہنچے۔ یارکشائر‘ گلاسگواسکاٹ لینڈ‘ لندن‘ اسٹیو ینیج‘ کیمبریج اور پھر مانچسٹر ‘ ہر سو اداسی تھی۔ اس بار خالہ بلقیس ‘ بھائی جان امان اللہ اور آنٹی نجمہ واحد سے ہم آخری بار ملے تھے۔ عید پر گلاسگو گئے تو ابھی بشیر مان صاحب بھی زندہ تھے لیکن سخت بیمار تھے۔ انھیں ایک پھیپھڑے میں سرطان ہو چکا تھا اور ان سے ہم آخری بار 2016 میں ان کے اپارٹمنٹ میں ملے تھے۔
اب وہ سب لوگ اس دنیا میں نہیں رہے۔پروفیسر لانگسن تو 1989 میں ہی وہا ں سے نکل مکانی کر گئے تھے۔ وہ بھی سویٹزر لینڈ میں جا کر جنیوا جھیل کے کنارے مدفون ہیں۔ مسز ڈینس لانگسن سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ بنات ولا اور شرلی رچمنڈ کا کچھ علم نہیں۔ ماؤراٹمبوری وفات پا چکی ہیں۔ رولف اور جیکی فروری 1988 میں ہی وہاںسے ہل چلے گئے تھے۔ جیرالڈ کاربٹ اور اس کی بیگم وفات پا چکے تھے۔ ڈاکٹر شرلی رچمنڈ بھی نہیں رہیں۔ جو باقی ہیں ان سے بھی ملاقات مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
آخرمیں ڈاکٹر وحید الزماں نے جو کچھ‘ اس کتاب کے متعلق لکھا ہے۔ عرض کرتا ہوں۔کمبل پوش نے ’’عجائبات فرنگ‘‘ تصنیف کی تھی‘ وردی پوش نے ’’خرابات فرنگ‘‘ رقم کی ہے۔ بریگیڈیئر وحیدالزماں طارق صاحب کی یہ تصنیف لطیف سفر نامہ بھی ہے اور حضر نامہ بھی ۔ انھوںنے جوانی میں انگلستان کی شان دیکھی تھی‘ وقت پیری انھیں یہ خیال آیا کہ دیکھا ہے جو کچھ میں نے‘ اوروں کو بھی دکھلا دوں۔ سو کتاب کے نام کی مناسبت سے انھوںنے ہمیں خرابات کی سیر تو کرائی ہے لیکن نام کے برعکس بھی بہت سے دل کش مقامات دکھائے ہیں۔ اس تصنیف میں سیر مقامات بھی ہے اور احوال حیات بھی۔ یہاں انھوںنے ہماری ملاقات ایک ایسے پاک دل و پاک باز شخص سے کرائی ہے جس پر اقبال کا یہ مصرع صادق آتا ہے: بے داغ ہے مانند ِ سحر اس کی جوانی۔ یہ شخص وحیدالزماں طارق ہے جو خود تو رنگین مزاج نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب تحریر بہت رنگین ہے۔
بہر حال ‘ وحید صاحب نے انگلستان میں اپنی یادوں کو حد درجہ دلکش انداز میں محفوظ کیا ہے۔ یہ دونوں جلدیں ‘ واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔