حیات انسانی ابتدائے آفرینش ہی سے اپنے دوام کے لیے فطری طور پر ایسے لازمے کی رہین منت رہی کہ جس کے بناء اسے دھرتی پر اپنا جیون معدوم سا محسوس ہونے لگا۔
اور یہ کوئی دم کی حاجت نہیں بلکہ شب و روز کا دستور ٹھرا۔
ایسے میں قدرت نے اس کی راہ نمائی فرمائی، اور یہ حاجت برآری اس کے اپنے زور بازو سے مشروط کردی۔ یوں خوراک اور پانی کی کھوجنا ہی اس کا مقصد حیات قرار پائی۔
اب آتی جاتی سانس کے ضامن خورونوش پر مبنی یہ دو اجزاء، روز اول سے ہی اسے متحرک رکھ کر اس کے وجود کو مدام بخشتے رہے۔
کاروان حیات کو رواں دواں رکھنے کی خاطر وہ اگر برساتی نالوں، ندیوں، دریاؤں اور پہاڑی جھرنوں سے اپنے تشنہ لبوں کو تر کرتا ہے، تو فوراً ہی دوسرے مرحلے پر اسے شکم کی پکار کو لبیک کہنا ہے، جس کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر جنگلی جانوروں سے پنجہ آزمائی، جہاں چند ساعتوں میں شکار اور شکاری کی ترتیب الٹ جاتی، اور شکاری شکار کے لیے لقمۂ تر بن جانے کا اندیشہ۔
ہر نیا دن دشت بے اماں میں مقدر کے کھیل سے شروع ہوتا۔ اب مقدر کی لغت کی اپنی تفہیم ہی نرالی ہے۔ کبھی تو یہ سانجھی بن کر راہوں میں پھول بکھیر دیتا ہے، اور کبھی بیری بن کر ببول بو دیتا ہے۔
یوں کبھی پورا دن خالی ہاتھ گزر جاتا، تو شام کے سائے پھیلتے ہی بھوک کا آکٹوپس اس کے ناتواں جسم میں پنجے گاڑنے لگتا۔ اس گھاؤ کو سہتے یہ محروم رات تو ٹل جاتی، اور پھر نور کے تڑکے ایک نئی امنگ اور نئے حوصلے کے ساتھ جیت کی امید لئے میدان میں اترنا ہے، جہاں مات کی صورت اس کی اپنی زندگی داؤ پر لگی ہے۔ بڑی کٹھن ہے یہ زیست۔
غذا کا ایک لقمہ اور پانی کی دو بوندیں، کسی ایک مقام پر دستیاب ہوں۔ بس اِس مقام کے حصول کی تمنا نے اسے قریہ قریہ پھرنے پر مجبور کردیا۔
یوں فطرت نے کس قدر پریت سے اسے جہد مسلسل کا استعارہ بنا دیا۔
جیون اسی تذبذب میں گزرتا رہا کہ جب کسی مقام پر شکار کی صورت گوشت کی فراوانی ہے، تو دور دور تک پانی نایاب، اور پانی کی قربت ہے تو غذا ندارد۔
ایک عرصہ اس کٹھنائی سے نبردآزما رہ کر اس نے جانا کہ اب ذخیرہ آب کی قربت میں اسے شکم سیری کا گر اپنانا ہے۔ اس کلیے کو اپناکر قریب کی زرخیز زمین سے غذا کے قابل اجزاء کے حصول سیکھتے کئی اور صدیاں بیت گئیں۔
بالآخر اس نے ان دو ضروریات کو مربوط رکھنے میں کام یابی حاصل کرلی۔
یوں اس کی سرشت میں موجود سیلانی فطرت کا عنصر جب کچھ کم ہوا، تو دریاؤں کے قریب گروہ کی شکل میں سکونت اختیار کرنے سے رفتہ رفتہ ایک سماج تشکیل پانے لگا، اس طرح سماج کا اپنا ایک تمدن بھی وجود میں آرہا تھا۔
کھیتی و دیگر ضروریات کے لیے پانی کو اپنے مطلوبہ مقام تک لے آنے کی حکمت عملی کے باعث ان گروہوں کے قیام کا دورانیہ طویل ہونے پر آبادی وسعت اختیار کرنے لگی۔
اور یہ آغاز تھا کرۂ ارض کے کچھ گوشوں پر تہذیبیں اُستوار ہونے کا۔
ان تہذیبوں کے مکینوں کی پانی کو رفتہ رفتہ کو سوں دور تک منتقل کرنے کی کام یاب کاوش، انسانی سماج میں فرا ہمی آب کی ابتدائی شکل تھی۔
کئی صدیوں پر مشتمل فراہمی آب کے اس پورے تاریخی تناظر میں مشاہدہ کریں گے کہ کراچی کے باسی، شہر کے مضافات میں ہونے والی کاشت کاری اور اندرون شہر پینے کے پانی کی دستیابی کے کن ذرائع سے فیض یاب ہوتے رہے۔
پانی کی قربت سے جنم پانے والی مصر، میسو پوٹیما اور چین کی طرح سندھ کی تہذیب بھی دریائے سندھ کے کناروں پر وجود میں آئی۔ مگر اِس وادی سندھ کے شہر کراچی کے دامن میں ابتدا ہی سے دریائے سندھ کا آب شیریں نہیں بلکہ بحیرہ عرب کا آب شور موجود تھا، اور یہ شاید کراچی کی خوش قسمتی تھی کہ یہی آب شور اس کے لیے آب حیات بن گیا۔ سمندری بندرگاہ کی حیثیت نے کئی صدیوں سے میٹھے پانی کی کم یابی کے باوجود اس شہر کو مرکز نگاہ بنائے رکھا۔
برصغیر کے ایک وسیع حصے کو درآمدوبرآمد میں معاون بننے والی اس ساحلی پٹی میں ابتدا ہی سے پینے کے پانی کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا۔ اس کے باوجود کیماڑی سے ملیر کے آس پاس پھیلے ساحل پر ٹکڑیوں میں بسے لوگوں کو آباد رکھنا تجارتی نکتہ نظر سے ضروری بھی تھا۔
کراچی کے شہریوں نے پانی کی اس قلت کا قدرِ مشکل حل لیاری اور ملیر کی برساتی ندیوں کی صورت میں تلاش کر لیا تھا۔
ملیر اور لیاری ندی کے زرخیز کناروں پر بسے لوگوں نیندی کے قرب و جوار میں کنوئیں کھود کر وسیع پیمانے پر کھیتی کو فروغ دیا۔ سبزیوں کے کھیت اور پھلوں کے باغات نے کراچی کے باسیوں کو ان دو اجناس میں خود کفیل کردیا تھا۔
کراچی کی سرسبز زمین پر اُگنے والی ہمہ اقسام کی سبزی کے علاوہ موسم کے معروف پھل، امرود، پپیتا، چیکو، خربوزہ، تربوز سمیت ملیر کے رسیلے آموں کا ذائقہ چکھنے والے کراچی کے قدیم باسیوں میں شاید اب بھی کوئی بقید حیات ہو۔ ان خوش ذائقہ آموں کا شہرہ شہر سے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔
کھیتی اور پینے کے پانی کی اس طور دستیابی کے طفیل شہر کی سانسیں کسی نہ کسی طرح چلتی رہیں۔
مگر کیا کیجیے کہ تبدُل و تغیر کے قانون سے کسی کومفر ممکن نہیں اور فطرت کے اس قانون کے تحت اب کراچی اپنا چولا بدل رہا تھا۔
اس بدلاؤ کا آغاز کچھ اس طور ہوا، جب یہاں سے کچھ میل دور حب ندی کے دہانے پر معروف بندرگاہ ’کھڑک بندر‘ جہاں بارشوں کے سبب رفتہ رفتہ ندی سے سمندر میں ریت کی منتقلی کے سبب گہرائی میں ہوتی گئی کمی، اور بالآخر 1728ء میں جب تندوتیز بادوباراں کے کارن ریت بھر جانے کے سبب یہ بندرگاہ ناقابل استعمال ہوگئی تو دوسری بندرگاہ کی تلاش کے لیے درآمد و برآمد کے معروف تاجر سیٹھ بھوجومل نے بھیجے کارندوں کی جوہرشناس نگاہوں نے اس سال کیماڑی بندر کو تلاش کرلیا۔
بھو جو مل کے درآمدی و بر آمدی کاروبار کے کیماڑی منتقل ہونے کے کچھ عرصے بعد ٹھٹھہ کے قریب شاہ بندر اور لاہری بندر نامی دونوں بندرگاہوں کے تاجر بھی اپنے کا روبار یہاں لے آئے۔
یہ تمام تاجر اپنے خاندان اور عملے کے لاؤ لشکر سمیت اپنے پرانے ٹھکانوں کو چھوڑ کر کراچی آگئے، تو وہاں کے رہائشی بھی سکڑتے کاروبار سے پریشان ہوکر نئی جگہ قسمت آزمائی کے لیے اس شہر کا رخ کرنے لگے۔ یوں چند ہزار نفوس کی آبادی کا یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے وسیع ہونے لگا۔
اب یہ ماہی گیروں کی بستی سے تاجروں اور دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد کے شہر میں بدل رہا تھا۔ آبادی کھارادر اور میٹھادر کی قلعہ بند فصیل کے اندر بڑھ رہی تھی۔ اِن نئے آباد ہونے والوں کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ندی کے میٹھے پانی کے علاوہ ان کے علاقوں سے لگ بھگ ایک میل کے اندر پانی کے کچھ قدرتی چشمے موجود تھے، جن سے طویل عرصے تک یہ لوگ پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت پوری کرتے رہے۔
لیاری اور ملیر ندی کے آس پاس کنوئیں اور مندرجہ بالا قدرتی چشمے یہاں کے باسیوں کی پیاس بجھاتے رہے، مگر 1839ء میں کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے کچھ سالوں بعد شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں سے کھلنے والے روزگار کو حاصل کرنے کے لیے آس پاس کے لوگ اس شہر کی طرف بڑھنے لگے۔ تو ان کنوؤں اور چشموں کی استعداد ختم ہونے لگی۔
1729ء کے تقریباً سو سال بعد آبادی کا ان چشموں سییہ دوسرا ریلا ان ہی چشموں کے قریب بہنے لگا۔ رفتہ رفتہ ان چشموں سے نکلنے والے پانی کی مقدار ’ایک انار سو بیمار‘ کی سی ہونے لگی تو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے برسوں پیاس بجھانے والے قدرت کے اس انمول تحفے پر تعمیرات کرکے اسے بند ہی کردیا۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہونے والی ایسی سنگین غلطیاں اپنا خراج ضرور وصول کرتی ہیں، اور وہ بھی سود کے ساتھ۔
شاید ان لوگوں کو پانی کی حیثیت کا پتا نہیں، انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قدیم تہذیبوں کے لوگ پانی کا پرستش کی حد تک احترام کرتے اور پینے کے پانی کے بڑے منبع یعنی دریا کی پوجا کر تے تھے۔
موہن جو دڑو کے تقریباً ہر گھر سے ایک کنواں دریافت ہوا ہے، وہ پانی کے اس ذریعے کی اپنے گھر میں موجودگی کو نیک شگون قرار دیتے تھے۔
انگریزوں کی آمد کے بعد شہر کی آبادی میں تیزرفتار اضافے نے شہری انتظامیہ کو جس مسئلے سے دوچار کیا وہ پینے کے پانی کا تھا۔
1852 ء تک بائیس ہزار نفوس تک پہنچنے والی آبادی کو سات کنوئیں اور پانچ چشمے سیراب نہ کر سکے تو مزید پانچ کنوئیں اور کھدوائے گئے، مگر کنوؤں کی کھدائی مکمل ہوتے ہوتے کراچی کے اطراف کے مزید لوگ یہاں منتقل ہوجاتے۔ اور پانی ایک مسئلہ بن کر اپنی جگہ کھڑا رہ جاتا۔
کچھ مخیر پارسی حضرات نے بھی اپنے طور پر کئی کنوئیں کھدوا کر میونسپل کمیٹی کے حوالے کئے، مگر بات نہ بن سکی تو شہری انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر ڈملوٹی کے مقام پر دس گہرے کنوئیں کھدوائے، ان سے حاصل ہونے والے پانی سے شہری اب اطمینان سے اپنی روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے لگے۔ رسد اور طالب میں توازن پیدا ہوگیا۔
کنوؤں کے اس پانی کو بڑے پائپوں کے ذریعے شہر کے ذخائر آب تک پہنچایا جاتا اور پھر وہاں سے پائپوں ہی کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں تک یہ پانی فراہم کیا جاتا رہا۔
یہ ذخیرۂ آب شہر کے مختلف علاقوں میں تعمیر کیے گئے جن میں رام باغ، کسٹم ہاؤس اور کھوڑی گارڈن کے ذخیرہ آب (حوض) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ایک حوض کا علاقہ اب بھی اپنے پرانے نام رتن تلاء سے معروف ہے (مقامی زبان میں حوض کو تلاء کہا جاتا ہے)
مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران اس شہر کے فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہونے سے یہاں کی معیشت پر مثبت اثر پڑا، یوں روزگار کے مزید دروازے کھلنے پر آبادی بڑھی، تو پانی کی فراہمی اور خرچ کا توازن ڈولنے لگا، اور بالآخر 1940ء میں پانی کی بڑی مقدار میں سپلائی کے لیے ’’ہالایار‘‘ نامی اسکیم متعارف کرائی گئی۔ اس اسکیم کے تحت دریائے سندھ کے پانی کو کلری جھیل تک پہنچانے کے لیے ایک نہر نکالی جانا تھی، اور کلری جھیل سے ایک پختہ نالے کے ذریعے پانی کو گھارو تک لانا تھا، جہاں ایک فلٹر پلانٹ کے ذریعے پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے بعد کراچی تک پہنچانا تھا۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق اسکیمیں مکمل ہونے کے عرصے کے دوران بڑھتی آبادی ان تمام اسکیموں کو ناکامی سے دوچار کر دیتی۔
ہالایار اسکیم کی فعالیت کے ناکافی ہونے پر 1945ء میں ہالیجی اسکیم پر کام کا آغاز کیا گیا۔
1947ء میں آبادی کا دباؤ بڑھا تو 1954ء میں کے ڈی اے کے زیراہتمام ’گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم‘ شروع کی گئی۔
اور رسد و طلب کا یہ توازن آج 2025ء تک زلف یار کی طرح الجھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پینے کے پانی کراچی کے اور پانی کے ذریعے کے لیے ا پانی کے پانی کو پانی کی کے کچھ ندی کے اور یہ شہر کے
پڑھیں:
کرایہ
میں نے پانی دیا اور انھوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ پھیرا‘ ان کی آنکھوں میں پدرانہ شفقت تھی‘ وہ مجھے اس وقت پورے جنگل کے والد لگ رہے تھے‘ ایک ایسا والد جو شام کے وقت اپنے پورے کنبے کو دیکھتا ہے تو اس کی گردن فخر سے تن جاتی ہے۔
ان کے چہرے پر بھی تفاخر تھا‘ وہ تمکنت سے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے اور میں ہاتھ میں بالٹی اٹھا کر انھیں تک رہا تھا‘ جنگل بہار کی پہلی بارش سے مہک رہا تھا‘ میں نے بالٹی نیچے رکھی اور ایک لمبی سانس لی‘ وہ مجھے سانس لیتے دیکھ کر خوش ہو گئے‘ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ’’زبردست‘ شاباش‘ جب بھی خوش ہو‘ جب بھی اداس ہو‘ ایک لمبی‘ جی بھر کر سانس لو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘ یہ سانس اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے‘ میں آج تمہیں دعا کی قبولیت کی دو گھڑیاں بتاتا ہوں‘ آپ جی بھر کر لمبی سانس کھینچو‘ اتنی لمبی کہ مزید سانس کی گنجائش نہ رہے‘ اس کے بعد سانس کو ہولڈ کرو اور سانس خارج کرنے سے پہلے دعا کرو‘ یہ دعا ضرور قبول ہو گی‘ آپ نے اکثر سنا ہو گا‘ انسان کو مظلوم اور بلی کی بددعا سے بچنا چاہیے‘ یہ بات درست ہے کیوںکہ مظلوم انسان اور بلی ہمیشہ ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بددعا دیتے ہیں۔
یہ سانس کھینچتے ہیں اور بددعا دیتے ہیں‘ ہندو جوگی اکثر اپنے بالکوں سے کہتے ہیں‘ تم روتے ہوئے بچے اور بین کرتی عورت سے بچو‘ یہ ہمیشہ تیز تیز سانس کے درمیان بددعائیں دیتے ہیں اور یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور دوسرا جب بچہ پہلی چیخ مارتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کا لمحہ ہوتا ہے‘ ہم کیسے ہیں‘ ہم اچھے ہیں یا برے اس کا فیصلہ عموماً ہماری ماؤں کی وہ دعائیں کرتی ہیں جو اس وقت ان کے دل‘ ان کی زبان پر آتی ہیں‘ جب ہم دنیا میں آ کر پہلی چیخ مارتے ہیں‘ یہ ہماری زندگی کا حساس ترین وقت ہوتا ہے‘ ہماری ماں اس وقت ہمارے بارے میں جو سوچتی ہے‘ ہم زندگی میں وہ بن جاتے ہیں چناںچہ ماؤں کو زچگی کے دوران اپنے بچے کے بارے میں ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیے اور منہ سے اچھے الفاظ نکالنے چاہییں‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر الحمد للہ کہا اور آہستہ آواز میں بولے ’’میں جب بچہ تھا اور اپنے شیخ کی خدمت میں مصروف رہتا تھا تو میرے شیخ اکثر اوقات اپنے ان مریدوں کے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتے تھے۔
جہاں بچے کی امید ہوتی تھی‘ وہ عموماً زچگی کی راتوں میں ساری رات نوافل پڑھتے تھے‘ میں اکثر دیکھتا تھا‘ ہمیں جب زنان خانے سے نومولود کے چیخنے کی آواز آتی تھی تو میرے شیخ پر وجد طاری ہو جاتا تھا اور وہ زور زور سے فرماتے تھے‘ یا اللہ مجھے روحوں کا علم دے دے‘ یا اللہ مجھے روحوں کے علم سے نواز دے‘ وہ یہ دعا اس وقت تک کرتے رہتے تھے جب تک بچے کی چیخیں بند نہیں ہو جاتی تھیں‘ وہ اپنی مریدنیوں سے بھی فرماتے تھے‘ بیٹا تمہارے بچوں کا مقدر تمہاری زبان پر لکھا ہے‘ تم جب انھیں جنم دیتی ہو تو اس وقت تم ان کے لیے جو مانگتی ہو‘ اللہ وہ ان کے نصیب میں لکھ دیتا ہے‘ ‘ وہ سانس لینے کے لیے رکے اور پھر فرمایا ’’آپ نے اکثر بزرگوں سے سنا ہو گا۔
انسان اللہ تعالیٰ سے رو کر جو کچھ مانگتا ہے اللہ اسے دے دیتا ہے‘ یہ بات درست ہے‘ اللہ تعالیٰ واقعی روتے ہوئے انسان کی دعا سنتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی وجہ تلاش کی؟ نہیں تلاش کی‘ اس کی وجہ بہت سیدھی سادی ہے‘ ہم انسان روتے وقت تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ ان سانسوں کے درمیان ہمیں ’’ہوکا‘‘ لگ جاتا ہے اور اس ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بولے ہوئے لفظ دعا یا بددعا بن جاتے ہیں‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ میرا مشورہ ہے‘ دن میں کم از کم دس پندرہ مرتبہ پیٹ بھر کر سانس لیا کرو اور اس دوران توبہ اور شکر ادا کیا کرو‘ یہ دونوں افضل ترین عبادتیں بھی ہیں اور شان دار دعائیں بھی‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور آگے چل پڑے۔
ہماری اگلی منزل پانی کی چھوٹی سی نالی تھی‘ وہ نالی کے کنارے بیٹھے‘تھیلے سے کھرپہ نکالا اور نالی کو بڑا کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہم نالی کو پانی کے بہاؤ کے رخ کھلا کرتے رہے‘ نالی چیڑھ کے درختوں کے قریب پہنچ کر ختم ہو گئی‘ وہ وہاں رکے‘ کولہوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور دائیں بائیں دیکھنے لگے‘ چیڑھ کے بڑے درخت کے قریب سے پانی کی ایک چھوٹی سی خشک لکیر جھاڑیوں کی طرف جا رہی تھی‘ وہ اس لکیر پر چلنے لگے‘ لکیر جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر رک گئی‘ وہ نیچے بیٹھے‘ کھرپے سے جنگلی گھاس کو دائیں بائیں کیا اور قہقہہ لگا کر بولے ’’اوئے تم یہاں چھپے بیٹھے ہو‘‘ میں نے نیچے جھک کر دیکھا‘ وہاں ایک چھوٹا سا پودا تھا‘ وہ مسکرا کر بولے ’’جنگلوں میں چیڑھوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی‘ پانی کی یہ نالیاں ان ننھے اور کمزور پودوں کے لیے بنتی ہیں۔
میں نے نالی کو چیڑھوں پر ختم ہوتے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا‘ پانی کا یہ عمل صرف یہاں ختم نہیں ہو سکتا‘ کوئی اور بھی ہے جسے بہار کے اس موسم میں پانی کی ضرورت ہے اور ہم نے اس بے چارے کو تلاش کر لیا‘ آؤ ہم اب اس کے مقدر کے پانی کا بندوبست کرتے ہیں‘‘ وہ اس کے بعد اٹھے اور کھرپے سے پانی کی خشک لکیر گہری کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہمیں اس کام میں بیس منٹ لگ گئے‘ ہم اٹھے تو گھاس میں دبے اس پودے کے لیے پانی کی باقاعدہ نالی بن چکی تھی‘ ہم نے اپنے تھیلے اٹھائے اور واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ میں نے راستے میں ان سے پوچھا ’’ہم پچھلے پندرہ دنوں سے یہ مشقت کر رہے ہیں۔
ہم نے دو کنوئیں صاف کیے‘ ہم مٹی نکالنے کے لیے خود کنوئیں میں اترے‘ ہم نے مارگلہ کے کرشنگ یونٹس کے خلاف درخواست بھی دی‘ ہم نے تین ملزموں کی ضمانت بھی دی‘ ہم نے ایک گاؤں میں پانی کی پائپ لائن بچھائی‘ ہم نے ایک اسکول میں استاد کا بندوبست کیا‘ ہم نے پندرہ دنوں میں چار سو پودے لگائے‘ یہ کام اچھے ہیں‘ یہ چیریٹی ہیں اور چیریٹی ہمیشہ اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا روحانیت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ روح کا کھیل تو مختلف ہوتا ہے اوریہ چیریٹی ورک اس میں کسی جگہ ’’فٹ‘‘ نہیں ہوتا‘ وہ مسکرائے‘ رکے اور ایک چٹان پر بیٹھ گئے‘ ہمارے درمیان چند لمحے خاموشی رہی اور پھر وہ آہستہ آہستہ بولے ’’آپ فرض کرو‘ آپ کسی مکان میں کرایہ دار ہیں‘ آپ مکان کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں‘ آپ یہ بھی چاہتے ہیں‘ آپ ٹونٹی کھولیں تو پانی آ جائے‘ آپ چولہے کی ناب گھمائیں تو گیس آ جائے‘ آپ بٹن دبائیں تو بجلی آن ہو جائے اور آپ چٹکی گھمائیں تو پنکھا چلنے لگے اور آپ جب چاہیں آپ کو گرم پانی مل جائے اور جب خواہش کریں‘ آپ ٹھنڈا پانی لے لیں تو آپ کو کیا کرنا ہو گا؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے چند لمحے سوچا اور جواب دیا ’’مجھے ادائیگی کرنا پڑے گی‘‘ انھوں نے ہاں میں سر ہلایا اور بولے ’’بالکل درست‘ آپ کو پے کرنا پڑے گا‘ ہم دنیا کی تمام سہولتیں رینٹ پر لیتے ہیں‘ ہمیں بجلی‘ پانی اور گیس رینٹ پر ملتی ہیں‘ ہمارے پاس اگر گھر نہیں تو ہم یہ بھی رینٹ پر حاصل کرتے ہیں‘ ہمیں ان سب کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ ہم جس دن یہ رینٹ ادا نہیں کرتے ہیں‘ ہمیں اس مہینے‘ اس دن یہ سہولتیں نہیں ملتیں‘ ہمیں اس زمین پر صرف ان سہولتوں کا رینٹ ادا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ہم اپنی زندگی کا رینٹ بھی ادا کرتے ہیں‘ ہم اس زمین پر کرائے دار ہیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی رینٹ پر دی ہے‘ ہم اگر زندگی کی تمام نعمتوں کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کا کرایہ ادا کرنا ہو گا‘ سورج ہماری زمین کی سب سے بڑی نعمت ہے‘ یہ نہ ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی‘ آکسیجن دوسری بڑی نعمت ہے۔
پانی تیسری نعمت ہے‘ زمین پر بکھرا سبزہ‘ کروٹ کروٹ بدلتی زمین اور چرند پرند اور آبی مخلوقات چوتھی‘ پانچویں اور چھٹی نعمتیں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ہماری زندگی‘ یہ رب العزت کا سب سے بڑا تحفہ ہے‘ انسانی وجود 3800 نعمتوں کا مجموعہ ہے اور ان میں سے ہر نعمت اتنی ہی اہم ہے جتنی اہم ہماری بینائی‘ ہماری قوت سماعت اور ہماری چکھنے کی صلاحیت ہے‘ قدرت نے یہ تمام چیزیں‘ یہ ساری نعمتیں ہمیں کرائے پر دے رکھی ہیں‘ ہم اگر ان نعمتوں کا رینٹ ادا نہیں کریں گے تو کیا ہو گا؟ ہمیں ان نعمتوں کی سپلائی بند ہو جائے گی یا پھر ان کی راشننگ ہو جائے گی اور اگر یہ ہو جائے گا تو پھر ہمارا اطمینان قلب کم ہو جائے گا۔
وہ ذرا سا رک کر بولے ’’روحانیت اطمینان قلب کا نام ہے‘ یہ مضطرب دلوں میں بھڑکی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے اور یہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اپنا رینٹ وقت پر ادا کرتے ہیں‘ جو قدرت کی دی نعمتوں کا کرایہ بروقت دیتے ہیں‘‘ میں نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور عرض کیا ’’جناب یہ کرایہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے اور فرمایا ’’زبان پر شکر اور ہاتھ سے فلاح‘‘ وہ ہنسے اور بولے ’’ہم کوشش کریں‘ ہم دوسروں کی دھوپ کے راستے میں کھڑی رکاوٹیں ہٹائیں‘ ہم آکسیجن میں اضافہ کریں‘ پانی کے راستے بنائیں اور اپنے ہاتھوں سے درخت لگا کر زندگی کے سر پر پیار کریں‘ یہ زندگی کا ہمارے ذمے کرایہ ہے‘ ہم جوں جوں یہ کرایہ ادا کرتے جائیں گے‘ ہمارے اطمینان قلب میں اضافہ ہو تا جائے گا اور یہ اطمینان قلب ہمیں روحانیت کے دروازے تک لے آئے گا‘‘۔
وہ اٹھے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر ادا کیا اور فرمایا ’’چلو ہم اپنے ذمے کا رینٹ ادا کریں‘ زبان سے اللہ کا شکر ادا کریں اور ہاتھوں سے دوسروں کے راستے کی رکاوٹیں دورکریں‘‘ میں اٹھا اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔